0
Thursday 11 Mar 2021 19:47
27 رجب عید سعید مبعث

نرم جنگ میں دشمن کے 2 اہداف ہیں؛ "نصائح کا سلسلہ توڑنا" اور "حقائق کو الٹا دکھانا"، رہبر انقلاب

جوانوں کو چاہئے کہ وہ ایسا نہ ہونے دیں
نرم جنگ میں دشمن کے 2 اہداف ہیں؛ "نصائح کا سلسلہ توڑنا" اور "حقائق کو الٹا دکھانا"، رہبر انقلاب
اسلام ٹائمز۔ رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے آج 27 رجب المرجب "عید سعید مبعث حضرت رسول خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم" کی مناسبت سے ٹیلیویژن پر قوم سے خطاب کیا ہے۔ رہبر انقلاب نے اپنے خطاب کے دوران الہی اقتدار اعلی، انسانی ہدایت و عدالت کے قیام اور حیات طیبہ کے انعقاد کو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کا مقصد قرار دیا اور ان اہداف کے حصول کے لئے سیاسی نظام کی تشکیل کی ضرورت و اہمیت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی انقلاب نے امام خمینیؒ کے جدت پر مبنی شجاعانہ اقدامات کے ذریعے حضرت نبیؐ مکرم کی بعثت کے رستے کو دوبارہ بحال کر دیا ہے اور یہی بات اسلامی انقلاب کے ساتھ عالمی شیطانوں کی مسلسل دشمنی کی وجہ بھی بنی ہے جس کو "بصیرت اور صراط مستقیم پر استقامت" نے ناکام بنا کر رکھ دیا ہے۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں امتِ مسلمہ کو اس عظیم عید پر مبارکباد پیش کی اور کہا کہ تمام انبیاء کی بعثت میں عظیم الہی اہداف موجود تھے جن میں سب سے اہم توحید اور اس کے بعد انسانوں کا تزکیہ اور ان کی تعلیم ہے جبکہ عدالت کے قیام اور حیات طیبہ کے انعقاد کا مطلب؛ عقلی و علمی ترقی، روحانی سکون، مادی سہولتوں کی فراہمی، انسانی حیاتیاتی ماحول کا تحفظ، فلاح و بہود، خوشحالی اور سب سے اہم انسانوں کا روحانی کمال تک پہنچنا ہے۔ رہبر انقلاب نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ بعثت کے اہداف کو صرف گفتگو کے ذریعے سے ہی حاصل نہیں کیا جا سکتا، کہا کہ انبیاء علیہم السلام کو اس انتہائی اہم مقصد کے حصول کے لئے "اجتماعی مناسبتیں" قائم کرنا تھیں جبکہ درحقیقت یہ امر طاقت اور سیاسی نظام کا محتاج ہے۔ انہوں نے متعدد قرآنی آیات سے استناد کرتے ہوئے "کتابِ خدا اور احکام الہی سے ماخوذ حکومت کے قیام" کو انبیاء علیہم السلام کی جانب سے تشکیل پانے والے سیاسی نظام کا مقصد قرار دیا اور کہا کہ نظام حکومت کا قیام؛ قیادت، تدبیر اور سپہ سالاری کا محتاج ہے جبکہ یہ سب کی سب انتہائی سنگین ذمہ داریاں حضرت رسول خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے کاندھوں پر تھی۔

رہبر انقلاب نے کہا کہ توحیدی نکتۂ نظر سے "دین" انسانی زندگی کے تمام انفرادی، اجتماعی و سیاسی پہلوؤں کے لئے جامع پروگرام کا حامل ہے اور یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کے بقول؛ عالمی شیاطین، مفسدین، مستکبرین اور استعماری و لٹیری قوتیں پوری انسانی تاریخ میں عدالت پر مبنی ہر الہی نظامِ حکومت کے خلاف برسرپیکار رہی ہیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ عالمی ظالم طاقتوں کی کھلی دشمنی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی اسلامی نظامِ حکومت، جسے استکباری محاذ کے پراپیگنڈے میں "سیاسی اسلام" کہا جاتا ہے، ہر قسم کی یورش، حملوں اور سازشوں کا نشانہ ہے کیونکہ یہ نظام، الہی اقتدار اعلی کے قیام کے لئے حکومت تشکیل دینے اور ایران کی عظیم قوم کو دینی و اسلامی شناخت بخشنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ دین کی جامع قرآنی تعریف کو صرف عباداتی و انفرادی اعمال پر ہی منحصر نہیں جاننا چاہئے کہا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت نے ابتدائی اسلامی معاشرے میں تشویق، تحرک اور کوشش پر مبنی عظیم لہریں پیدا کیں اور امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کے بقول حضرت ختمی مرتبتؐ کے پاس معاشرے کے افراد کے ہر درد و بیماری کی دواء موجود تھی جبکہ اس رَستے میں جب بھی ضرورت پیش آئی، انہوں نے اسلامی حدود اور سزاؤں کو بھی مکمل طور پر رائج کیا۔

رہبر معظم نے اپنے خطاب میں اسلامی انقلاب کو موجودہ دور میں بعثت کے پیغام کو بحال کرنے والا قرار دیا اور کہا کہ امام خمینیؒ نے اپنی جدت، شجاعت، اعلی سوچ اور فداکاری کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بعثت کے متصل رستے کو واضح کر کے نہ صرف دین مبین اسلام کے جامع ہونے کو ثابت کر دیا بلکہ اس کے سیاسی و اجتماعی پہلوؤں کو بھی دنیا پر آشکار کر دیا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے اس بات پر تاکید کرتے ہوئے کہ اسلامی انقلاب، بعثت نبویؐ کی پیروی میں ہمیشہ ظلم، استبداد و استکبار کے مقابلے میں اور مظلومین کے ہمراہ رہا ہے، کہا کہ وہی صورتحال اور حوادث جو انبیاء علیہم السلام کے دور میں وقوع پذیر ہوئے تھے، اسلامی نظام کی تشکیل سے رونما ہو گئے اور عالمی شیاطین و استکباری طاقتیں ایرانی قوم کے مقابلے میں صف آراء ہو گئیں۔ انہوں نے استکباری طاقتوں کی جانب سے حقائق کو الٹا کر پیش کئے جانے اور جھوٹ کے رواج دیئے جانے کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ وہ اپنے جھوٹے پراپیگنڈے میں دعوی کیا کرتے تھے کہ (ایران کے) اسلامی جمہوری نظامِ حکومت کا پوری دنیا کے ساتھ جھگڑا اور جنگ ہے درحالیکہ اسلامی نظامِ حکومت، قرآنی تاکید کی بنیاد پر صرف اور صرف انہی طاقتوں سے مقابلہ کرتا ہے جو ایرانی قوم کے ساتھ دشمنی کرتی ہیں جبکہ وہ کسی بھی نسل یا دین کی حامل باقی تمام اقوام و ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھتا ہے۔

ایرانی سپریم لیڈر نے اسلامی نظام حکومت کے ساتھ استکباری طاقتوں کی مسلسل دشمنی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے تاکید کی ہے کہ سرگرم دشمن سے مقابلے کے لئے دو عناصر "بصیرت" اور "صبر و استقامت" کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ بصیرت کا مطلب یہ ہے کہ انسان صحیح رستہ اختیار کرنے میں غلطی کا مرتکب نہ ہو اور صبر و استقامت یعنی سختی کے ساتھ صراط مستقیم پر کاربند رہنا درحالیکہ اگر یہ دو عناصر موجود رہیں تو دشمن کبھی اپنے اہداف تک نہیں پہنچ پاتا۔ آیت اللہ خامنہ ای نے معاشرے میں "پند و نصائح کے سلسلے" کو ان دونوں عناصر کے تحفظ کا اصلی عامل قرار دیا اور کہا کہ اگر "صبر و حق کی جانب نصیحت" کا سلسلہ لوگوں کے درمیان برقرار رہے تو معاشرے میں کبھی نا امیدی، تنہائی اور ارادے کی کمزوری کا احساس وجود میں نہیں آتا ہے اور نہ ہی "عملی اقدام اٹھانے کی جرأت" معاشرے سے ختم ہوتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ نرم جنگ میں دشمن کے اصلی اہداف میں سے ایک "پند و نصائح کے سلسلے کو توڑ ڈالنا" ہے، کہا کہ پند و نصائح کے سلسلے کا ٹوٹ جانا انتہائی خطرناک امر ہے جبکہ نرم جنگ کے ذمہ دار سپاہی ہونے کے ناطے جوانوں کو چاہئے کہ وہ ایسا حادثہ وقوع پذیر نہ ہونے دیں۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کہا کہ اس نرم جنگ میں جوانوں کو چاہئے کہ وہ سائبر اسپیس سے استفادہ کرتے ہوئے معاشرے میں امید پیدا کریں اور دوسروں کو بصیرت و قیام کی نصیحت کریں۔

آیت اللہ خامنہ ای نے "حقائق کے برعکس ظاہر کئے جانے" کو نرم جنگ میں دشمن کی ایک اور چال قرار دیا اور نمونے کے طور پر کھلم کھلے جھوٹ پر مبنی بیانات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یمن کے مظلوم عوام گذشتہ 6 سال سے امریکہ کے گرین سگنل پر سعودی عرب کی سنگدل و ظالم حکومت کی جانب سے ہونے والی بمباری اور سخت ترین اقتصادی، غذائی اور دواؤں کے محاصرے میں گھرے ہوئے ہیں درحالیکہ عالمی برادری اور خصوصا انسانی حقوق کے دعویدار مغربی ممالک کی جانب سے کوئی ایک صدائے احتجاج بھی بلند نہیں ہوئی اور اب جب یمن کے باصلاحیت عوام دفاعی سازوسامان تیار کر کے یا لے کر دشمن کے حملوں کا جواب دیتے ہیں تو حتی اقوام متحدہ کی جانب سے بھی ان کے خلاف تنقیدی اور الزام تراشی پر مبنی بیانات سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کا یہ اقدام امریکی اقدامات سے بھی بڑھ کر گھناؤنا ہے۔ انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کا سب سے بڑا جوہری زرادخانہ رکھتے ہوئے اور ایٹم بم کے ذریعے 2 لاکھ 20 ہزار نہتے و بیگناہ عوام کا قتل عام کر کے بھی "وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی مخالفت" کا دعوی کرنا، ایسی سعودی (شاہی) رژیم کی کھلی حمایت کرنا جو اپنے سیاسی مخالفین کو آرے کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ "انسانی حقوق کی حمایت" کا دعوی بھی کرنا، داعش جیسے دہشتگرد گروہوں کو تشکیل دینا اور ان کی کھل کر حمایت کرنا پھر انہیں مال و دولت اور جدید میڈیا کے وسائل فراہم کر کے شامی تیل کے بیچنے کے لئے مکمل زمینہ بھی فراہم کرنا اور ساتھ ہی ساتھ "دہشتگردی کے ساتھ مقابلے" کا دعوی بھی کرنا حقائق کو برعکس پیش کرنے پر مبنی امریکی چالوں کے چند ایک نمونے ہیں۔

آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنے خطاب کے آخر میں خطے میں ایرانی موجودگی کے حوالے سے امریکی بغض و کینے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران خطے کے جس علاقے میں بھی داخل ہوا ہے، چاہے وہ شام ہو یا عراق، اس علاقے کی مقامی حکومت کے دفاع کے لئے اور خود اسی کی درخواست و مرضی پر "مشاورتی" حیثیت سے وہاں موجود ہے درحالیکہ امریکی ظالمانہ انداز میں عراق و شام میں داخل ہوئے ہیں جہاں انہوں نے (غیر قانونی طور پر) فوجی اڈے بھی قائم کر لئے ہیں۔ رہبر انقلاب نے تاکید کرتے ہوئے کہا کہ البتہ امریکہ کو حتمی طور پر عراق سے نکلنا ہے کیونکہ یہ معاملہ عراقیوں کے مطالبے اور عراقی قانون کا ایک اہم حصہ ہے جبکہ شام سے بھی اُسے جلد از جلد نکل جانا چاہئے۔
خبر کا کوڈ : 920936
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش