راولپنڈی:
اسلام ٹائمز۔ اسلامی تحریک پاکستان کے سربراہ علامہ سید ساجد علی نقوی نے امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کے یوم ضربت کی مناسبت سے ایک تعزیتی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حضرت علی ابن ابی طالب نے بیک وقت تطہیر نفس اور تطہیر نظام کی طرح ڈالی اور اسے عملی طور پر ثابت کر دکھایا۔ آپ نے تطہیر نفس کے لیے تقویٰ، شب بیداری، عبادت، حسن سلوک، عاجزی، انکساری اور تواضع جیسی صفات اختیار کیں جبکہ تطہیر نظام و معاشرہ کے لیے عدل، انصاف، اعتدال، توازن، حقوق کا حصول اور اسلامی نظام حیات کے نفاذ کے لیے بھرپور عملی اقدامات اٹھائے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے اندر ذاتی اور اجتماعی رہنمائی کے لیے تمام خصوصیات اور شرائط موجود تھیں جس سے ایک عام انسان سے لے کر دنیا پر حکمرانی کرنے کے خواہش مند شخص کے لیے مکمل استفادے کا سامان موجود ہے اور آپ کی سیرت، کردار اور عمل اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
علامہ ساجد نقوی نے کہا ہے کہ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب کی سیرت اقدس ہی ایک راستہ ہے جس پر عمل کرکے ہم پورے عالم اسلام کے تمام مسائل حل کر سکتے ہیں۔ کردار امیرالمومنین کے مطابق اپنے نفس کی تطہیر اور تزکیہ کر کے، نظام کی خرابیوں کو درست کرکے اور اپنے آپ کو منظم و متحد کر کے ہم ظلم، ناانصافی، بے عدلی، تجاوز، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور دیگر مسائل و مشکلات کا مقابلہ کر سکتے ہیں کیونکہ امیرالمومنین حضرت علی ابن ابی طالب کے نظام حکمرانی اور نظام احتساب سے استفادہ کرکے امت مسلمہ کے موجودہ حالات اور خراب صورت حال کو درست کیا جا سکتا ہے۔ امیر المومنین نے جہاں عالم کفر کی طرف سے اسلام پر یلغار کا دفاع کیا اور اسلام کو محفوظ اور مستحکم رکھا اسی طرح علی ابن ابی طالب نے مسلمانوں کے اندر داخلی سطح پر موجود برائیوں، بے اعتدالیوں، بے راہ رویوں، فساد اور منفی رویوں کے خاتمے کے لیے بھی بھرپور جہاد کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے مسائل کا حل بھی شفاف، منصفانہ، عادلانہ اور غیرمتنازعہ نظام حکومت میں مضمر ہے جس میں امیر المومنین کے مثالی دور کے اصولوں سے استفادہ کرتے ہوئے ظلم کا نام ونشان مٹایا جائے، ناانصافی اور تجاوز کا خاتمہ کیا جائے۔ تمام شہریوں کو ان کے بنیادی، انسانی، مذہبی اور شہری و آئینی حقوق دستیاب ہوں۔ طبقاتی تقسیم اور تفریق کی بجائے مساوات کا نظام رائج ہو۔ اتحاد و وحدت اور اخوت و رواداری کا عملی مظاہرہ ہو۔ دہشت گردی، انتہا پسندی، فرقہ پرستی، جنونیت اور فرقہ وارانہ منافرت کا وجود ہی باقی نہ ہو۔ امن، خوشحالی کا دور دورہ ہو۔ معاشی نظام قابل تقلید ہو اور معاشرتی سطح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے اتنی بلند ہو جائے کہ دنیا کے دوسرے معاشرے اس کی پیروی کرنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھیں۔