0
Wednesday 15 Sep 2021 12:25

بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد

بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد
تحریر: اعجاز علی

تحریک عدم اعتماد کے متن کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف چار نکات کی بنیاد پر قرارداد کی درخواست دی گئی ہے۔ جس میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ گذشتہ 3 سال میں جام کمال خان کی خراب حکمرانی کے باعث صوبے میں مایوسی، بدامنی، بے روزگاری اور اداروں کی کارکردگی شدید متاثر ہوئی ہے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ آئین کی شق 37 اور 38 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے حکومت نے غیر منصفانہ، عدم مساوات اور متعصبانہ ترقیاتی بجٹ پیش کیا، جس سے دانستہ طور پر علاقوں میں پسماندگی، محرومی اور بدامنی میں انتہاء درجے تک اضافہ ہوا۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ بلوچستان میں قتل، اغواء، ڈکیتی، چوری اور دہشتگردی کے باعث عوام ہر روز سراپا احتجاج ہیں اور آخری نکتہ یہ لکھا گیا ہے کہ بلوچستان کے حقوق کے حوالے سے وزیراعلیٰ جام کمال خان نے وفاقی حکومت کے ساتھ آئینی اور بنیادی انسانی حقوق کے مسائل پر انتہائی غیر سنجیدگی کا ثبوت دیا، جس سے بلوچستان میں بجلی، گیس اور پانی کے بحران کے علاوہ شدید معاشی بحران پیدا ہوا۔

بلوچستان اسمبلی کے ارکان کی تعداد 65 ہے، جسے مدنظر رکھا جائے تو تحریک عدم اعتماد لانے کے لئے 13 ارکان کی ضرورت پڑتی ہے اور اس کی کامیابی کے لئے 33 ارکان کا اس قرارداد کے حق میں ہونا ضروری ہے۔ متن سے یہ تو واضح ہے کہ 16 اپوزیشن اراکین اس تحریک کا حصہ ہیں، باقی حامی ارکان کے حوالے سے اپوزیشن ممبر اور بی این پی رہنماء ثناء اللہ بلوچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم نے تحریک کی درخواست جمع کروانے سے پہلے گراونڈ ورک مکمل کر لیا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کے ناراض ارکان سے بات چیت کر لی ہو اور ان کی یقین دہانی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی امید بنی ہو، کیونکہ سیاست میں مخالف جماعتیں جہاں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتی ہیں، وہی ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر کھانا بھی کھاتی ہیں۔

اِس وقت بلوچستان کی صوبائی حکومت میں تین جماعتیں قابل ذکر ہیں۔ پہلی بلوچستان عوامی پارٹی، دوسری پاکستان تحریک انصاف اور تیسری عوامی نیشنل پارٹی ان کے علاوہ ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچستان نینشل پارٹی (عوامی) اور جمہوری وطن پارٹی بھی حکومت کا حصہ ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)، جمیعت علمائے اسلام اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اپوزیشن کا حصہ ہیں۔ حکومت کے 42 ارکان ہیں جبکہ اپوزیشن میں 23 ارکان اسمبلی موجود ہیں۔ مطلب یہ کہ ابھی بھی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لئے اپوزیشن کو 10 حکومتی ارکان کی ضرورت ہے۔ اصولاً تو تحریک عدم اعتماد کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ نکات اور منطق کی بنیاد پر ہونا چاہیئے، مگر حقیقت سے چشم پوشی بھی ممکن نہیں ہے، اسی لئے یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ تحریک عدم اعتماد اس صورت میں کامیاب ہوگی، جب اپوزیشن کی جانب سے حکومتی اتحادیوں کو ساتھ لینے کے لئے نئی حکومت میں بہتر پوزیشن اور عہدے دینے کے وعدے کئے جائیں۔

بلوچستان میں سیاسی گہما گہمی کا بازار بجٹ سیشن کے بعد سے گرم ہونا شروع ہوا۔ اپوزیش جماعتوں کو بجٹ کے حوالے سے اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔ اپوزیشن نے بجٹ کو پیش ہونے سے روکنے کے لئے اسمبلی کے دروازے بند کر دیئے، حکومت نے طاقت کے زور پر دروازے توڑ کر بجٹ پیش کی۔ بعد میں اپوزیش پر ایف آئی آر ہوئی، اپوزیشن نے بجلی گھر تھانے پر اس کے خلاف دھرنا دیتے ہوئے احتجاج کیا اور پھر وزیراعلیٰ کے خلاف بھی ایف آئی آر درج ہوئی۔ اسی اثناء جب اپوزیشن سراپا احتجاج تھی، پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی رہنماء اور وزیر تعلیم سردار یار محمد رند نے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے بھی اس وقت بجٹ پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی کے ساتھ بیٹھ کر آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ کریں گے۔ البتہ حکومت نے ان کے استعفیٰ پر کوئی ردعمل نہیں دیا اور استعفیٰ قبول بھی نہیں ہوا۔ بعد ازاں وفاقی حکومت نے بلوچستان پر توجہ دی اور گذشتہ کئی مہینوں سے قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم خان سوری بھی بلوچستان میں موجود ہیں۔ بعض الزامات یہ بھی لگائے گئے ہیں کہ قاسم سوری ہی وفاق میں بلوچستان کے معاملات طے کر رہے ہیں۔ بہرحال انہی کی کوششوں کی وجہ سے پی ٹی آئی اور بی اے پی کے درمیان مذاکرات کامیاب ہوئے اور سردار یار محمد رند دوبارہ وزیر تعلیم کی حیثیت سے حکومت میں آئیں۔

اس کے علاوہ 2018ء میں جب بلوچستان حکومت بن رہی تھی، اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی کی جانب سے وزیراعلیٰ کے عہدے پر دو افراد کی نظریں ٹکی ہوئی تھیں۔ ان میں سے ایک موجودہ وزیراعلیٰ جام کمال خان اور دوسرے سابق وزیراعلیٰ اور موجودہ اسپیکر عبدالقدوس بزنجو تھے۔ حکومت وجود میں آنے کے بعد بھی ان دونوں کے درمیان وقتاً فوقتاً تنازعات میڈیا کی رونق بنتے رہے اور ان کے درمیان ناراضگیوں کی اکثر خبریں اور ویڈیو پیغامات بھی منظر عام پر آتے رہے۔ بلوچستان میں پچھلے دور حکومت میں سابق وزیراعلیٰ ثناء اللہ زہری کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے والے اور حکومت گرانے والے بھی میر عبدالقدوس بزنجو ہی تھے، جو بعد میں وزیراعلیٰ کے عہدے پر فائز ہوئے۔ خیر اس بار تو وہ شاید تحریک عدم اعتماد کا ساتھ نہ دیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اپوزیشن میر عبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلیٰ نہیں بنائے گی اور دیگر وزارتیں اور عہدے عبدالقدوس بزنجو قبول نہیں کریں گے، مگر اپوزیشن کے لئے دیگر حکومتی حمایتیوں کے دروازے کھلے ہیں۔

اس وقت جب پی ٹی آئی بلوچستان کے رہنماؤں نے بجٹ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا تھا، وہی اپوزیشن جماعتوں کے لئے تحریک عدم اعتماد لانے کا بہترین موقع تھا۔ اس وقت اس عمل سے حکومت گرتی نہ گرتی، اپوزیشن کو فائدہ ضرور ہوتا۔ کم از کم اس درخواست کے نتیجے میں صوبائی بجٹ میں تبدیلی ضرور دیکھنے کو ملتی، جو اس وقت اپوزیشن کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ اس کے علاوہ اسپیکر صوبائی اسمبلی نے بھی متعدد بار یہ اشارے دیئے ہیں کہ وہ حکومت اور وزیراعلیٰ بلوچستان سے خوش نہیں ہیں۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ انہیں بڑا عہدہ چاہیئے مگر قرارداد کو کامیاب بنانے کے لئے صوبائی اسپیکر کو حمایت میں لینا اور تحریک عدم اعتماد کے لئے راضی کرنا اپوزیشن جماعتوں کے لئے ایک چلینج ہے۔

آخری مرتبہ جب سینیٹ کے انتخابات ہوئے تھے تو بعض خبریں موصول ہوئی تھیں کہ بلوچستان اسمبلی میں ایک حکومتی حمایتی نے اپوزیشن کے امیدوار کو ووٹ دے کر کامیاب کروایا تھا۔ اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ یہ ہارس ٹریڈنگ تھی یا کوئی اور معاملہ، مگر اتنی بات واضح ہوگئی ہے کہ حکومت کا ساتھ دینے والے اتحادی جماعتوں کے ارکان کسی بھی وقت اپوزیشن کی جانب قدم بڑھا سکتے ہیں۔ تحریک عدم اعتماد اسمبلی فلور تک تو پہنچ گئی، مگر اس کی کامیابی کا فیصلہ پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی قیادت، ناراض حکومتی ارکان اور حکومت کی حمایت کرنے والی جماعتیں کریں گی۔
خبر کا کوڈ : 953948
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش