0
Monday 10 Jan 2022 14:36

سندھ وفاق کوآرڈینیشن کمیٹی کا چھٹا اجلاس، اہم فیصلے کر لئے گئے

سندھ وفاق کوآرڈینیشن کمیٹی کا چھٹا اجلاس، اہم فیصلے کر لئے گئے
اسلام ٹائمز۔ سندھ اور وفاقی حکومتوں کے مابین تشکیل دی گئی کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں رینجرز کے ملیر ہالٹ اور موسمیات ڈپو بی آر ٹی ریڈ لائن شروع کرنے کیلئے خالی کرنے سمیت دیگر فیصلے کیے گئے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سندھ اور وفاقی حکومتوں کے مابین تشکیل دی گئی کوآرڈینیشن کمیٹی کا چھٹا اجلاس وزیراعلیٰ ہاؤس کراچی میں منعقد ہوا، جس میں پی پی پی موڈ پر کمبائنڈ ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹس کا قیام، کے فور کے توسیعی کام کی صوبائی حکومت کو سپردگی، کے پی ٹی اور دیگر ایجنسیوں کی جانب سے ماڑی پور ایکسپریس وے اور آئی سی آئی انٹر چینج پروجیکٹ کیلئے این او سی کا اجرا، اور رینجرز کے ملیر ہالٹ اور موسمیات ڈپو بی آر ٹی ریڈ لائن شروع کرنے کیلئے خالی کرنے سمیت دیگر فیصلے کیے گئے۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وفاقی وزیر آئی ٹی سید امین الحق، کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل محمد سعید، چیف سیکریٹری ممتاز شاہ، صوبائی وزرا ناصر شاہ، سعید غنی، ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب، وفاقی سیکریٹری پی ڈی اینڈ ایس آئی عزیز عقیلی، چیئرمین پی اینڈ ڈی حسن نقوی، سیکریٹری ٹرانسپورٹ شارق احمد، سیکریٹری لوکل گورنمنٹ نجم شاہ، ایم ڈی واٹر بورڈ اسد اﷲ خان، ایم ڈی ایس ایس ڈبلیو ایم بی زبیر چنا، ایم سی افضل زیدی، پی ڈی پی کے ڈبلیو آئی ایس ایس پی صلاح الدین اور دیگر متعلقہ افسران نے شرکت کی۔

گجر اور اورنگی نالوں کی بحالی کے حوالے سے اجلاس کو بتایا گیا کہ موجودہ ڈیزائن پیرامیٹر، رائٹ آف وے (RoW) کو 30 فٹ سے 18.5 فٹ تک کم کیا جائے گا، این ای ڈی کی جانب سے کیے گئے سروے کے بعد انسداد تجاوزات آپریشن مکمل کیا گیا۔ گجر اور اورنگی نالوں کا فریش ڈورن سروے کیا گیا، تاکہ حالیہ بلڈنگ لائن قائم کی جائے۔ یہ بات سامنے آئی کہ 30 فٹ رائٹ آف وے (RoW) کو حاصل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم 30 فٹ تک کی گئی اورگجر اور اورنگی نالوں کے ساتھ 20 فٹ تک لمبائی درکار ہوگی۔ اجلاس کے شرکا نے اس معاملے پر تفصیلی غور کیا اور فیصلہ کیا کہ رائٹ آف وے کو 20 فٹ تک کیا جائے، جس میں 2 فٹ تک نالوں کے ساتھ دیوار تعمیر کی جائے گی اور 18 فٹ پر گاڑیوں کی آمد و رفت کیلئے 2 رویہ سڑک تعمیر کی جائے گی۔ آبادکاری کی معاونت اور دوبارہ آبادکاری کیلئے امداد کے چیکس کی تقسیم پہلی اور دوسری قسط کے بارے میں بریفنگ اور این ڈی ایم اے کے ساتھ اخراجات کی مفاہمت کے حوالے سے کمشنر کراچی نے کہا کہ این ڈی ایم اے نے 1.32 ارب روپے جاری کیے ہیں، جبکہ این ڈی ایم اے کا کہنا ہے کہ اس نے مزید رقم جاری کی ہے۔ کمشنر نے 518.713 ملین روپے کی اضافی مشینری استعمال ہونے پر اخراجات میں اضافے کے حوالے سے بھی اجلاس کو آگاہ کیا۔

کے ایم سی کے 25 نالوں کی بحالی کے حوالے سے محکمہ بلدیات نے پی سی ون کے حوالے سے اجلاس کو اپ ڈیٹ دیتے ہوئے بتایا کہ NED یونیورسٹی نے 41 کے ایم سی نالوں کی ایک جامع اسٹڈی کی تھی، اس میں سے صرف 25 نالے خستہ حالت میں پائے گئے، جن کی فوری بحالی کی ضرورت ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ یہ 2 ارب روپے کا منصوبہ ہے، جس کیلئے ایک ارب روپے پہلے ہی مختص کیے جا چکے ہیں، منصوبے کا پی سی ون تیار ہوچکا ہے اور اسے منظوری کیلئے محکمہ پی اینڈ ڈی کو بھیج دیا گیا ہے۔ وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان کے فور منصوبے سے متعلق اب تک ہونے والی پیش رفت اور اس کی توسیع اور کوآرڈینیشن پوائنٹس پر تفصیلی غور و خوض کیا گیا۔ منصوبے پر بحث کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ کے فور منصوبے کو سنگین مسائل کا سامنا ہے اور ان کے تدارک کیلئے یہ فیصلہ کیا گیا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان بہتر روابط کو فروغ دینے کیلئے کے فور کی توسیع اور دونوں کنوینس سسٹم کا آغاز کیا جائے۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ نظر ثانی شدہ پی سی ون ایکنک کے اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ جہاں تک 50 میگا واٹ پاور پلانٹ کی تنصیب کا تعلق ہے، تو وہ اس حوالے سے اپنی ٹیم کے ساتھ بات کریں گے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ تمام وفاقی حکومت کی ایجنسیوں کو ہدایت کی جائے کہ وہ کے فور منصوبے کی توسیع کیلئے این او سیز جاری کریں، تاکہ سندھ حکومت اس کا آغاز کرسکے۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کمشنر کراچی اور این ڈی ایم اے مل بیٹھ کر اخراجات پر مفاہمت کریں گے اور ادائیگی کا معاملہ ایک ہفتے میں حل کریں گے۔ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کے حوالے سے وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ نئے بلدیاتی قانون کے تحت کراچی کے میئر کو سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کا چیئرمین بنایا گیا ہے، تاکہ شہر کی صفائی ستھرائی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ایم ڈی ایس ایس ڈبلیو ایم ویسٹ مینجمنٹ بورڈ زبیر چنا نے اجلاس کو شہر سے کچرا اٹھانے کے اقدامات کے بارے میں بریفنگ دی۔ انہوں نے کہا کہ ضلع وسطی کے علاوہ کراچی کے تمام اضلاع کی صفائی کا کام معروف غیر ملکی فرموں کو آؤٹ سورس کر دیا گیا ہے۔ ضلع وسطی کی صفائی کا معاملہ زیر عمل ہے۔ اجلاس میں یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ کنٹونمنٹ بورڈز کی جانب سے کچرے کو ٹھکانے لگانے اور ایس ایس ڈبلیو ایم بی کے بقاجات کی ادائیگی کے مسئلے کو بھی حل کیا جائے گا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ صوبائی محکمہ صنعت 5 کمبائنڈ ایفلوئنٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ (سی ای ٹی پی) کے قیام کے منصوبے کی اسپانسرنگ ایجنسی ہے۔ اس منصوبے کی لاگت 11.799 ارب روپے ہے، جس میں 33 فیصد حصہ وفاقی حکومت کا اور 67 فیصد حصہ سندھ حکومت کا ہے۔ اس منصوبے کی ایکنک نے منظوری دی ہے، اس منصوبے کی انتظامی منظوری 12 مارچ 2018ء کو دی گئی۔ سی ای ٹی پی 2 اور سی ای ٹی پی 4 کے کمپونینٹس کی لاگت تخمینے سے بڑھ گئی ہے، جو نظر ثانی شدہ پی سی ون میں ہے۔ سی ای پی ٹی۔1، 2 اور 4 میں منصوبے کا پہلا مرحلہ شامل ہے، کیونکہ ان کے پاس ٹریٹمنٹ پلانٹس کیلئے زمین کا مسئلہ نہیں ہے اور پمپنگ اسٹیشن بغیر کسی تاخیر اور رکاوٹ کے لگائے جا سکتے ہیں۔ 18.143 ارب روپے کی نظر ثانی شدہ پی سی ون منظوری کے مراحل میں ہے۔ صوبائی محکمہ پی اینڈ ڈی میں ہونے والے اجلاس میں اس منصوبے کو پی پی پی موڈ کے تحت شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا، لہٰذا کوآڑڈینیشن کمیٹی نے پی پی پی موڈ پرپروجیکٹ شروع کرنے کیلئے ایک مناسب پریزنٹیشن تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ کراچی بی آر ٹی (کے بی آر ٹی) ریڈ لائن منصوبہ ایشیائی ترقیاتی بینک اور کو فائنینسر بشمول اے آئی آئی بی، اے ایف ڈی، اور جی سی ایف کے تحت عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ اے ڈی بی بورڈ نے ریڈ لائن بی آر ٹی منصوبے کیلئے جولائی 2019ء میں 235 ملین ڈالر کے قرضے کی منظوری دی۔ جس کے تحت منصوبے کا پی سی ون سی ڈی ڈبلیو پی کی جانب سے کلیئر کیاگیا اور ایکنک نے 78384.33 ملین روپے (493.51 ملین ڈالرز) کی منظوری دی۔ اسی طرح قرضے کی مفاہمتی یادداشت پر 18 جون 2020ء کو دستخط ہوئے اور یہ 6 اکتوبر 2020ء سے مؤثر ہوا۔ ٹرانس کراچی سیکشن 42 کمپنی، جو کہ 100 فیصد سندھ حکومت کی ملکیت ہے، ملیر ہالٹ اور موسمیات کے ڈپوؤں کو پاکستان رینجرز سے خالی کرانے کا معاملہ زیر غور آیا۔ اس پر کور کمانڈر کراچی نے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان رینجرز انھیں خالی کر دیں گے، جب صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ ریڈ لائن بی آر ٹی پراجیکٹ پر کام شروع کرے گا۔

سندھ حکومت نے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ سی اے اے کو ہدایت کرے کہ وہ نشاندہی کی گئی 52 ایکڑ زمین جو کہ سی اے اے کے قبضے میں ہے، اس میں سے 12 سے 14 ایکڑ زمین رینجرز کو فوری طور پر ری لوکیشن کرے تاکہ ڈپوؤں پر قبضے کے باعث جرمانوں وغیرہ سے بچا جا سکے۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے وزیراعلیٰ سندھ کو یقین دلایا کہ یہ معاملہ ان کے دفتر کے ذریعے حل کر دیا جائے گا۔ ماڑی پور ایکسپریس وے اور آئی سی آئی انٹرچینج پروجیکٹ پر اجلاس کو بتایا گیا کہ وہ کے پی ٹی، این ایچ اے، پاکستان ریلوے سے متعلقہ زمین کے حوالے سے فیصلہ کریں اور اجلاس میں بتایا گیا کہ پروپوزل کیلئے درخواست (آر ایف پی) جو 2021ء اور ماڑی پور ایکسپریس وے اور آئی سی آئی انٹر چینج پرواجیکٹ کے لیے ٹیکنیکل بڈز ستمبر 2021ء میں کھولی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ اب پروجیکٹ کے مختلف لوکیشن سائٹ پر آزاد رسائی کے حوالے سے متعدد مسائل ہیں مثلاً ایلیویٹڈ یو ٹرن، لیاری برج پر انٹر چینج، میرین اکیڈمی فلائی اوور، سالٹ فیلڈ ایریا، کاکا پیر روڈ وائیڈننگ اور آئی سی آئی فلائی اوور ریمپ، ICI انٹر چینج کے نزدیک سڑک کی توسیع، اور آئی سی آئی فلائی اوور کنکشن کے حوالے سے کراچی پورٹ ٹرسٹ، پاکستان ریلویز اور نیشنل ہائی وے اتھارٹیز کی جانب سے منصوبے کے مذکورہ بالا مقامات پر حدود کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے۔ منصوبے کے ڈیزائن کے مطابق اب اس زمین کے کچھ حصے مذکورہ بالا محکموں کے زیر قبضہ ہیں، لہٰذا ان کی جانب سے این او سیز درکار ہیں۔ منصوبے کے کنکشن پاکستان نیوی کے باؤنڈری کے نزدیک ہیں اور ان کی ضروریات کے تحت کم از کم 1 تا 2 میٹر ہوری زینٹل کلیئرنس کو برقرار رکھنا ہے۔ کوآرڈی نیشن کمیٹی نے پاکستان نیوی، کے پی ٹی، پاکستان ریلوے اور این ایچ اے کو ہدایت کی کہ وہ این او سیز جاری کریں، تاکہ منصوبے کا آغاز ہو سکے۔
خبر کا کوڈ : 972847
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش