0
Thursday 7 Mar 2024 12:25

سیاسی اختلاف، شائستگی کے ساتھ

سیاسی اختلاف، شائستگی کے ساتھ
تحریر: سید منیر حسین گیلانی
 
 خداوند قدوس کا لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ انتخابات سے پہلے کی فضا اور اس کے اثرات جو معاشرے میں منعکس ہوئے، ان کی وجہ سے جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا تھا، وہ شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ اس سے پہلے میڈیا کے دانشور یہ راگ الاپتے اور غیر یقینی پیدا کرتے ہوئے نظر آئے کہ الیکشن نہیں ہوں گے۔ الیکشن کمیشن انتخابات نہیں کروا سکے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان جناب ڈاکٹر عارف علوی اور چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کے درمیان جو کھینچا تانی جاری تھی، اس کی بازگشت سپریم کورٹ تک بھی سنائی دی جاتی رہی۔ لیکن خداوند تعالیٰ کا شکر ہے کہ سارے قیافے اور خدشات رفو چکر ہوئے۔ انتخابات طے شدہ تاریخ 8 فروری 2024ء کو ہوگئے، جو مجموعی طور پر پُرامن رہے۔ وہ قوتیں جو انتخابات کو التوا میں رکھنا چاہتی تھیں، انہیں عبرتناک مایوسی ہوئی۔

پھر معاملات یہیں تک محدود نہیں رہے، الیکشن کے بعد مزاجاً نفرت آمیز چند سیاسی نابالغوں نے انتخابات کے نتائج کو ہدف تنقید بنایا اور انہیں تسلیم نہ کرنے کا اعلان کرتے ہوئے احتجاجی تحریک کا عندیہ بھی دیا۔ اس وقت ہم سمجھتے تھے کہ ممکنہ احتجاجی تحریک کی وجہ سے اقتدار کی منتقلی کا عمل تاخیری حربوں کا شکار ہوسکتا ہے، لیکن منفی قوتیں ان ممکنہ حربوں میں بھی کامیاب نہ ہوسکیں، کیونکہ اڈیالہ جیل سے ہونے والے احکامات کوئی دانشمندی پر مبنی نظر نہیں آئے۔ آٹھ فروری کو ہونیوالے انتخابات کے نتائج کو پاکستان کے عوام نے تو تسلیم کر لیا، مگر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کا حوالہ دے کر ایوان زیریں کو نامکمل قرار دیتے ہوئے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے سے انکار کر دیا اور اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ سنی اتحاد کونسل کو نشستیں دی جائیں۔

ان کے اس اقدام سے خدشہ تھا کہ حکومت سازی کے مراحل میں تاخیر ہوگی۔ مگر پاکستان کے معاشی، سماجی، سیاسی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے کندھے سے کندھا ملائے مل کر اقدامات کرنے کا فیصلہ کرنیوالی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے حکومت سازی کے عمل کو آگے بڑھایا۔ اسپیکر راجہ پرویز اشرف کی طرف سے اجلاس بلائے جانے کا اعلان ہوا ہی تھا کہ آئین کے مطابق انتخابات کے 21 دنوں کے اندر قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی صدر مملکت نے خود اسی تاریخ کو اجلاس طلب کرلیا، جس سے تاخیری حربے ایک بار پھر ناکام ہوگئے۔ اب جبکہ طے شدہ فارمولے کے مطابق اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر اور وزیراعظم کا انتخاب ہوچکا ہے۔ نئے صدر مملکت کیلئے اتحادی حکومت کے آصف علی زرداری اور سنی اتحاد کونسل کے محمود خان اچکزئی کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ سینیٹ کے انتخابات کے شیڈول کا بھی اعلان الیکشن کمشن کی طرف سے کر دیا گیا ہے۔

چاروں صوبائی اسمبلیاں اور قومی اسمبلی تشکیل پا چکی ہیں۔ تمام سیاسی جماعتوں کو انتخابی عمل پر اپنے اپنے تحفظات ہیں، مگر وہ پارلیمنٹ کا حصہ ہیں۔ لیکن پاکستان کے عوام اس بات پر شرمندہ ہیں کہ وطن عزیز کے سب سے بڑے ادارے میں سیاسی جماعتوں کے ورکرز کو مہمانوں کی گیلری میں بلوا کر اپنی اپنی جماعت کے حق میں نعرے بازی کی آڑ میں اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف کارکنوں نے ہوٹنگ، بدتمیزی، جوتے پھینکنے، غلیظ زبان استعمال کرکے نامناسب طرز عمل کا اظہار کیا گیا۔ ایک صوبائی اسمبلی کو تو بدتمیزی اور غیر دانشمندانہ رویئے کا نشان بنا دیا گیا۔ شرمناک حیرت تو اس بات پر بھی ہوئی کہ سیاسی جماعتیں اپنے ہمدرد اور پرجوش کارکنان کو اسمبلی میں لائے، مگر انہیں بتا نہیں سکے کہ عوامی نمائندگی کا نشان یہ ادارے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نمائندہ ایوان ہیں۔ ان کا تقدس متقاضی ہے کہ ہم ایک مہذب قوم ہونے کا ثبوت دیں۔

ہلڑ بازی اور بدتمیزی کا سانحہ تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ خاص طور پر خیبر پختونخواہ اسمبلی میں جو رویہ اختیار کیا گیا، وہ کامیاب اراکین اسمبلی کو بھی سوچنے کی دعوت دیتا ہے کہ ایک طرف تو ہم اپنی تقریروں سے پہلے خدائے ذوالجلال کو رحمن و رحیم کہتے ہوئے ”اھدنا صراط المستقیم“ کی بات کرتے ہیں مگر "صراط مستقیم" کو بھول جاتے ہیں۔ پاکستان کے چاروں صوبائی اور قومی ایوانوں میں گذشتہ چند سالوں میں قوم کو بدتمیزی، پرتشدد اور غلیظ زبان استعمال کرکے مخالفین کی عزت کو تار تار کرنے کا جو رویہ اختیار کیا گیا، میں سمجھتا ہوں کہ نوجوان نسل جو لیڈرشپ کے اس بہکاوے میں آچکی ہے، ان کو سوچنا چاہیئے کہ اخلاقی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے بھی احتجاج کیا جا سکتا ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے ”میثاق مفاہمت“ کا اعلان خوش آئند ہے، کیونکہ ایک مہذب قوم ہونے کا ثبوت دینے کیلئے ”میثاق جمہوریت“ سے پہلے ایوان میں اپنی اپنی کامیابیوں کا جشن منانے کیلئے مہذب طریقہ استعمال کیا جائے اور غیر مہذب لوگوں کو، جو مسلم تہذیب و تمدن سے ناشناس ہیں، انہیں اسمبلی میں آنے نہ دیا جائے یا انہیں اس ایوان کی حدود و قیود، تہذیب اسلامی اور شرف انسانی کے اعلیٰ اوصاف سمجھا کر لایا جائے۔ آپ اپنی پسندیدہ پارٹی اور کامیاب ارکان کیلئے کسی خاص حد کے اندر رہتے ہوئے انہیں ویلکم بھی کرتے ہیں۔ ضرور کریں، لیکن اپنے مخالفین کے خلاف گالی گلوچ اور جوتے، لوٹے پھینکنے سے اجتناب کریں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو سمجھ لیجئے کہ ہم معاشی بحران کیساتھ ساتھ اخلاقی بحران کا بھی شکار ہوچکے ہیں۔ جو بدقسمتی سے ہمارے لئے اعزاز کی نہیں، پریشانی کی بات ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 1120901
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش