0
Thursday 7 Mar 2024 21:49

غزہ پر جارحیت کے پانچ ماہ

غزہ پر جارحیت کے پانچ ماہ
تحریر: سید رضا عمادی
 
غزہ پٹی کے خلاف پانچ ماہ کی تاریخی جارحیت کے اندرونی، علاقائی اور عالمی سطح پر مختلف نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ غزہ کے خلاف صیہونی حکومت کی جنگ کا پانچواں مہینہ ختم ہوگیا ہے اور یہ جنگ منگل پانچ مارچ سے چھٹے مہینے میں داخل ہوگئی ہے۔ اب تک اس جنگ کے تین ملکی، علاقائی اور عالمی سطحوں پر نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ غزہ کے لیے داخلی طور پر، جنگ کا نتیجہ نسل کشی کی صورت میں نکلا ہے۔ فلسطینی وزارت صحت نے اعلان کیا ہے کہ اس عرصے کے دوران 30 ہزار 534 افراد شہید جبکہ زخمیوں کی تعداد 71 ہزار 920 تک پہنچ گئی ہے۔ غزہ کا انفراسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔ غزہ میں بھوک کا راج ہے۔ ان تمام انسانی نتائج کے باوجود صیہونی حکومت کے جرائم کے خلاف غزہ کے عوام کی مزاحمت میں کوئی کمی نہیں آئی۔

غزہ میں صیہونی جرائم کیوجہ سے 17 ہزار بچے بے گھر ہوگئے
فلسطین کی اسلامی جہاد موومنٹ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل "محمد الہندی" نے اس حوالے سے کہا ہے کہ "صیہونی حکومت مزاحمت کو تباہ کرنے میں ناکام رہی ہے اور غزہ سے اپنے قیدیوں کو واپس نہیں لاسکی ہے۔" پانچ ماہ گزرنے کے باوجود صیہونی حکومت غزہ کی جنگ میں اپنے اعلان کردہ اہداف حاصل نہیں کرسکی، یہ حکومت جنگ نہیں بلکہ قتل و غارت گری اور نسل کشی کی کارروائی شروع کرچکی ہے۔ مقبوضہ علاقوں کی اندرونی سیاست میں "بنیامین نیتن یاہو" کی کابینہ اور صیہونی حکومت کی جنگی کابینہ کے اندر انتشار، اختلاف اور تناؤ زبان زد خاص و عام ہوچکا ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں مظاہروں میں اضافہ ہوا ہے اور مظاہرین نے نیتن یاہو کی کابینہ کو تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس کے علاوہ صیہونی حکومت کے اقتصادی مسائل بالخصوص بے روزگاری میں بھی اضافہ کے ساتھ ساتھ مقبوضہ زمینوں سے الٹی نقل مکانی میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ صیہونی قیدیوں کی رہائی میں صیہونی حکومت کی ناکامی کو مدنظر رکھتے ہوئے الاقصیٰ طوفان کے بعد سے اس حکومت کی انٹیلی جنس ناکامی بھی ثابت ہوچکی ہے۔ علاقائی سطح پر غزہ کی جنگ نے عرب ممالک کی نظروں میں مسئلہ فلسطین کو پس پشت ڈالنا ثابت ہوا ہے۔ غزہ میں صیہونی حکومت کی نسل کشی کے باوجود عرب ممالک نے اس حکومت پر غزہ کے عوام کے خلاف جرائم کو روکنے کے لیے کسی قسم کا سنجیدہ دباؤ نہیں ڈالا ہے۔ اسلامی تعاون تنظیم نے اجلاسوں کے علاوہ کوئی اقدام نہیں کیا۔

دوسری جانب یمن نے(جو حال ہی میں اس ملک کے خلاف سعودی عرب کی غیر متناسب جنگ کے آٹھ سال سے گزرا ہے) مقبوضہ علاقوں کی طرف جانے والے بحری جہازوں پر حملے کیے اور ان جہازوں کو مقبوضہ فلسطین کی طرف بڑھنے سے روکا ہے۔ اس اقدام نے صیہونی حکومت کے لیے اقتصادی مشکلات میں اضافہ کیا اور ساتھ ہی اس نے امریکہ کے انسانی حقوق کے دعووں پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے، کیونکہ امریکہ نے صیہونی حکومت کی نسل کشی کی حمایت میں یمن پر حملے کیے ہیں۔ لبنان کی حزب اللہ نے بھی شمالی محاذ پر حملوں کے ذریعے صیہونی حکومت کی توجہ کا کچھ حصہ شمالی محاذ پر منتقل کرنے کی کوشش کی۔

تاہم عالمی سطح پر غزہ جنگ کے صیہونی نواز حکومتوں کے بڑے نقصانات ہوئے ہیں۔ امریکہ اور تین یورپی طاقتیں انگلینڈ، جرمنی اور فرانس سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے تھے، کیونکہ انہوں نے صیہونی حکومت کی نسل کشی کی سرکاری حمایت کی۔ امریکہ نے غزہ میں جنگ روکنے کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی تمام قراردادوں کو ویٹو کیا اور سرکاری طور پر دعویٰ کیا کہ صیہونی حکومت جو کچھ کر رہی ہے وہ جائز دفاع ہے۔

اس جنگ کا سب سے بڑا نقصان اقوام متحدہ کو بھی ہوا ہے، کیونکہ وہ اس جنگ کو روکنے میں بری طرح ناکام رہا۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا سب سے اہم کام عالمی امن قائم کرنا، برقرار رکھنا اور اسے پھیلانا ہے، لیکن ویٹو پاور کی وجہ سے اس کونسل کو غزہ میں جنگ روکنے کے حوالے سے کچھ حاصل نہیں ہوسکا۔ بہرحال جنگ اب چھٹے مہینے میں داخل ہوچکی ہے اور اس کے ختم ہونے کا کوئی واضح امکان نظر نہیں آرہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1121047
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش