1
0
Friday 8 Mar 2024 21:30

غزہ کے بچے سوال کریں گے

غزہ کے بچے سوال کریں گے
تحریر: ڈاکٹر صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

انبیاء علیہم السلام کی سرزمین مقدس فلسطین کی غزہ پٹی گذشتہ ایک سو پچاس دنوں سے غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کی بدترین دہشت گردی اور وحشت گری کا شکار ہے۔ غزہ میں تیس ہزار سے زائد معصوم انسانوں کو اسرائیل کی دہشتگردی کے نتیجہ میں قتل کیا گیا ہے۔ ان قتل ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد معصوم بچوں اور خواتین کی ہے۔ ایک لاکھ سے زیادہ افراد زخمی ہیں، جو علاج معالجہ کی سہولیات سے بھی محروم ہیں۔ غزہ میں تمام اسپتالوں کو اسرائیل نے بمباری کرکے ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ کئی درجن ڈاکٹروں کو زخمیوں کی ابتدائی طبی امداد کی فراہمی کے دوران ہی بمباری میں قتل کیا گیا ہے۔ ایک سو سے زائد صحافیوں کو بھی اسرائیلی غاصب افواج نے نشانہ بنا کر قتل کیا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ غزہ میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ غاصب صیہونی حکومت اسرائیل معصوم فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کر رہی ہے۔ اسرائیل کے نسل کشی کے اقدامات کو امریکہ، برطانیہ اور مغربی حکومتوں کی مکمل پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ غزہ میں غاصب صیہونی حکومت نے گھروں کو تباہ و برباد کیا ہے۔ قتل و غارت کی ہے۔ اسپتالوں، اسکولوں، کالجز اور یونیورسٹیوں کو بھی بمباری کا نشانہ بنا کر تباہ و برباد کیا ہے۔ محفوظ پناہ گاہوں میں اپنی جان بچانے والے نہتے فلسطینیوں کے کیمپوں پر بھی گولہ بارود کی بارش کی جا رہی ہے۔ پندرہ لاکھ سے زیادہ فلسطینی رفح کراسنگ پر بے یار و مدد گار اور کھلے آسمان تلے غاصب صیہونی حکومت کی بمباری کا لقمہ بن رہے ہیں۔

معصوم بچوں کے لئے دودھ اور نرم غذاؤں کی ناپیدگی ہے۔ مائیں اپنے معصوم بچوں کو گود میں اٹھائے ایک بوند پانی اور دودھ کو ترس رہی ہیں، تاکہ اپنے مرتے ہوئے بچوں کو بچا پائیں، لیکن ناکامی ہے۔ غزہ میں بچے بھوک اور قحط کا شکار ہو کر مرنا شروع ہوچکے ہیں۔ ان تمام جرائم کی سرپرستی امریکی حکومت کر رہی ہے۔ حال ہی میں ایک فلسطین بچہ کی انتہائی درد ناک تصویر سوشل میڈیا پر آئی ہے کہ جس میں یزان نامی فلسطینی بچہ بھوک اور قحظ کا شکار ہوکر ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتا چلا جا رہاہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بھوک اور قحط سے یزان کی موت واقع ہوئی ہے۔ ایک اور سرکاری رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ ایک ہفتہ میں اٹھارہ معصوم فلسطینی بچے صرف اس لئے مرے ہیں، کیونکہ بھوک کی شدت سے نڈھال ہوچکے تھے۔

غزہ سے بھوک اور قحط کا شکار ہونے والے بچوں کی تصویریں منظر عام پر آنا شروع ہوچکی ہیں۔ ان تصاویر نے انسانیت کے دل دہلا کر رکھ دیئے ہیں۔ ایسی ہی تصاویر چند سال قبل یمن سے آرہی تھیں، جہاں مغربی اور عربی ممالک نے جنگ مسلط کی تھی۔ یمن میں بھی بچے بھوک اور قحط سے موت کا شکار ہوئے تھے۔ پیدا ہونے والے نومولود بھی قحط کی شدت سے ناقص پیدا ہو رہے تھے اور جو نونہال دنیا میں آچکے تھے، وہ بھوک کی شدت سے موت کی آغوش میں جاتے رہے تھے۔ دنیا آج پھر یمن جیسے مناظر غزہ میں دیکھ رہی ہے۔ مغربی دنیا کی حکومتوں نے واضح طور پر غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے۔

سوال یہ ہے کہ مسلمان اور عرب حکومتیں کہاں ہیں؟ مسلم دنیا کے حکمران جو خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق (رض) کے طرز حکومت کی مثالیں دیتے نہیں رکتے، آج بچوں کی نسل کش حکومت اسرائیل کی مدد کرکے کیا یہ ثابت کر رہے ہیں کہ وہ خلیفہ دوئم حضرت عمر (رض) کے طرز پر حکومت چلا رہے ہیں۔؟ حیرت کی بات ہے کہ آج مسلم دنیا کے ممالک میں حکمرانی کرنے والوں کو غزہ میں قتل عام دیکھنے کے بعد نیند کیسے آرہی ہے۔؟ آخر کس طرح خلافت اور اسلام کے نام لیوا پیروکاروں کے دستر خوان درجنوں انواع کی غذاؤں سے مزین ہیں؟ جبکہ غزہ میں پینے کو ایک بوند پانی بھی موجود نہیں ہے۔ بچے قحط سے مرنا شروع ہوچکے ہیں، لیکن مسلم دنیا کے حکمرانوں کی ٹھاٹ باٹ پہلے سے بھی زیادہ بڑھتی چلی جا رہی ہے۔

ترکی غاصب صہیونی حکومت اسرائیل کو کھانے پینے کی اشیاء اور تیل و گیس کی سپلائی کر رہا ہے، جبکہ غزہ کے بچے ایک ایک بوند پانی کو ترس رہے ہیں۔ سعودی عرب بھی اسرائیل کے لئے زمینی راستہ بنا کر یمن کی طرف سے متاثر کی گئی اسرائیلی معیشت کو سہارا دینے کی ناکام کوششوں میں مصروف عمل ہے، جبکہ غاصب صیہونی حکومت نے غزہ کے لئے جانے والی ہر قسم کی امداد کے لئے راستے بند کر رکھے ہیں۔ یہی حال متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین، اردن اور دیگر اسلامی و عربی حکومتوں کے حاکموں کا بھی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ غزہ میں آج قحط کا شکار ہوکر مرنے والے بچے یقیناً یہ سوال کریں گے کہ ان کو کس جرم میں قتل کیا گیا۔ غزہ میں بھوک سے مرنے والے معصوم بچے عرب دنیا کے ان حکمرانوں سے ضرور سوال کریں گے کہ جب ہم بھوک کی شدت سے مرے جا رہے تھے تو تمھارے دستر خوانوں پر درجنوں کھانے کس طرح مزین تھے۔؟ دس سالہ یزان جو غزہ کے ایک اسپتال میں دوران علاج بھوک اور قحط سے موت کی آغوش میں گیا ہے، یقیناً روز قیامت عرب حکمرانوں کا گریبان ضرور پکڑے گا۔ یزان کفارنہ کے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن جانے کے نتیجے میں شہادت کے بعد اس دل دہلا دینے والے منظر نے شدید غم و غصہ کی کیفیت پیدا کی ہے۔ یہ شہادت ایک بچے کی موت نہیں بلکہ غزہ کے لاکھوں بے بس شہریوں پر مسلط کی گئی خوفناک صہیونی جارحیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ جنگ نہتے فلسیطنیوں کو ہڑپ کر رہی ہے اور سینکڑوں بچے زندگی اور موت کی کشمکش میں خوراک کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ گذشتہ ایک ہفتے میں یزان کفارنہ جیسے 16 پھول جیسے بچوں کی شہادت صرف بھوک اور پیاس کے نتیجے میں ہوئی، مگر عرب دنیا کے حکمران مسلسل اندھے اور بہرے پن کا شکار، خاموش تماشائی، بے حسی اور منافقت کے مجرمانہ طرز عمل پر چل رہے ہیں۔ یہ بچے کل خدا کے سامنے پیش ہوں گے اور اپنے صیہونی و عربی قاتلوں سے حساب مانگیں گے اور سوال پوچھیں گے۔ ہمیں بھی اس وقت سے ڈرنا چاہیئے کہ کہیں ہمارا شمار بھی ان بے حس لوگوں میں نہ ہو، جن سے غزہ کے معصوم بچے سوال کریں کہ انہیں کس جرم میں قتل کیا گیا ہے۔ آج ہماری انسانی ذمہ داری ہے کہ ہم فلسطین کے ساتھ ہوں، فلسطینیوں کی مدد کریں اور جو ممکن اقدامات ہوں، انجام دیں۔
خبر کا کوڈ : 1121247
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
یقیناً غزہ کے مظلوم محکوم بے یارومددگار عرب فلسطینی کرسچن مسیحی و مسلم و مومن انسان کو مطلوبہ مدد فراہم کرنے کے وسائل اور اہلیت رکھنے والے حکمران اداروں و حکام کو فوری مدد کرنی چاہیئے۔ باعزت آزاد زندگی گژارنے کا حق و اخراجات زندگی جتنی آمدنی، باعزت ازاد زندگی کے لیے اسرائیل کو سزا دینا لازم ہے۔ دوسری افسوس ناک واقعیت و حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی بعض افراد کا اکنامک جینوسائیڈ کیا گیا ہے۔ ایسے لوگ غزہ کے مجرم نہیں ہیں، کیونکہ یہ تو خود ان جیسی مشکلات کا شکار ہیں۔ اس فرق کے ساتھ کہ غزہ میں گھر تباہ کیے گئے و قتل عام کیا گیا۔ یہاں انسان کو دیگر طریقوں سے گھر آباد کرنے کے لائق نہ چھوڑا گیا، تو ایسے لوگ مستثنی ہیں۔
ہماری پیشکش