1
0
Saturday 23 Mar 2024 00:33
خطرات سے کھیلنا

شہید ڈاکٹر نقوی کے "تنظیمی مکتب" کی چھٹی خصوصیت

شہید ڈاکٹر نقوی کے "تنظیمی مکتب" کی چھٹی خصوصیت
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

خطرہ عربی کا لفظ ہے، جس کے متعدد مترادفات منجملہ ڈر، خوف، اندیشہ، ضرر، آفت، دشواری اور بیم وغیرہ ہیں۔ خطرہ کی جمع خطرات ہیں اور اسی سے خطرناک، مخاطرہ اور خطر جیسے لفظ اور اصطلاحات بنائی جاتی ہیں۔ ماہرین لسانیات نے اگر اس لفظ کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے تو ماہرینِ نفسیات نے بھی اس لفظ کے انفرادی اور اجتماعی تاثر پر سیرِ حاصل بحث کی ہے۔ خطرہ کی کیفیت کب طاری ہوتی ہے۔؟ انسان کب خطرات سے دوچار ہوتا ہے۔؟ خطرات اور خطرے کے انسان کی نفسیات پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔؟ انسان کسی چیز سے کیوں اور کس طرح خطرہ محسوس کرتا ہے۔؟ خطرہ یا خوف نفسیاتی مسئلہ ہے یا جسمانی کیفیت کا نام ہے۔؟ کیا ایک خطرہ سب کے لیے خطرہ ہوتا ہے یا کیا ہر انسان میں خطرے اور خوف کا مقابلہ کرنے کی ایک جیسی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔؟ خطرات میں کود پڑنے یا خطرات سے کھیلنے والے افراد کن ذہنی، روحانی اور فطری خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں۔؟

ڈر، خوف یا خطرے کے بارے میں ایسے بہت سے سوالات ہیں اور ان پر بہت کچھ لکھا، بولا اور بیان کیا گیا ہے، لیکن آج تک کوئی اس متفقہ نتیجے پر نہیں پہنچا کہ خطرے کو کسی پیمانے یا آلے کے ذریعے ناپا یا تولا جا سکتا ہے یا ایسی کونسی کسوٹی ہے، جس پر خطرے، ڈر، خوف اور اندیشہ کو جانچا اور پرکھا جا سکتا ہے۔؟ دینی متون میں خطرہ کسی مصیبت اور ابتلاء میں گرفتار ہونے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ خطرے کے کئی درجات بیان کیے جاتے ہیں۔ بعض خطرات میں مال کے جانے کا خوف ہوتا ہے، بعض میں عزت و آبرو جانے کا خوف ہوتا ہے اور بعض میں جان تک کے چلے جانے کا امکانی خطرہ ہوتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ وہی شخص خطرات میں کود پڑتا ہے، جس کو اپنے نظریئے اور مقصد سے اس قدر عشق و محبت ہوتی ہے کہ وہ اس کے لیے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف بعض ایسے لوگ بھی خطرات میں کود پڑتے ہیں، جن کے پاس ضائع کرنے کے لیے کچھ نہیں ہوتا۔ خطرات میں کودنے یا ان سے کھیلنے والے نظریاتی افراد چونکہ دنیا کو ہیچ اور فنا جبکہ  آخرت کو دائمی بقا سمجھتے ہیں، لہذا وہ خطرے کو خطرہ نہیں بلکہ کمال تک پہنچنے کا زینہ سمجھتے ہیں۔ دوسری جانب خطرات سے بچنے والے افراد کو بعض اوقات بزدل، ڈرپوک اور مصلحت پسند بھی کہا جاتا ہے، لیکن اس امر پر اتفاق ہے کہ صحیح افکار و نظریات کے لیے خطرات میں کود جانا ایثار و قربانی کے مترادف ہے۔

ماہرین سماجیات کا کہنا ہے کہ کسی بڑے ہدف کے حصول کے لیے کچھ قربان کرنا پڑتا ہے اور یہی قربانی دینا خطرات سے کھیلنے کے مترادف ہوتا ہے۔ عشق و عقل کی بحث میں عشق خطرات سے دوچار ہونے کی شہہ دیتا ہے جبکہ عقل خطرے سے بچنے کی تلقین کرتی ہے۔ عشق بےخوف و خطر مصلحتوں کو نظرانداز کرکے تیزی سے منزلِ مقصود کی طرف بڑھتا ہے، جبکہ عقل احتیاط کا تقاضا کرتے ہوئے پھونک پھونک کر قدم بڑھاتی ہے۔
بےخطر کود پڑا آتشِ نمرود مین عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی


شہید ڈاکٹر نقوی کے "تنظیمی مکتب" میں خطرات سے کھیلنا ایک اہم خصوصیت ہے۔ نظریاتی اور مکتبی تنظیموں کو ہمیشہ دشمن اور مخالف کے مختلف طرح کے حملوں کا سامنا رہتا ہے۔ نظریاتی تنظیمین اگر مصلحت کے دبیز پردوں میں چھپی رہیں اور خطرات کو مول نہ لیں تو بعض اوقات ارتقاء تو اپنی جگہ بقاء کے بھی لالے پڑ جائیں۔ خطرات سے کھیلنے سے مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ جذبات کی رو میں بہہ کر اندھا دھند اقدامات انجام دیئے جائیں۔ جہاں عقل و منطق کے ساتھ منصوبہ بندی ضروری ہے، وہاں اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تمام قوتوں کو بروئے کار لانا بھی ضروری ہے۔ امام خمینی علیہ الرحمۃ سے ایک قول نقل کیا جاتا ہے۔ آپ فرماتے تھے: "ہم عاقلانہ منصوبہ بندی کرتے ہیں اور عاشقانہ عمل کرتے ہیں۔"

خوف کی فضا سے نکلنا اور خطرات سے کھیلنا مومن کی علامات میں سے ہے۔ صدرِ اسلام سے لے کر آج تک مسلمانوں کو دشمن سے ڈرانے کو کوشش کی گئی ہے، لیکن قرآن نے ہمیشہ مومن کی صفات بیان کرتے ہوئے کہا ہے: "ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون" یعنی "ان پر نہ خوف کی کیفیت طاری ہوتی ہے اور نہ حزن کی۔" وہ خطرات سے چھپنے کی بجائے خطرات سے ٹکرانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ انسان خطرات سے کیوں ڈرتا ہے اور اس پر خوف و حزن کی صورتحال کیوں طاری ہوتی ہے، اس کے بارے میں قرآن و حدیث میں متعدد آیات و روایات ملتی ہیں۔ قرآن پاک کی مختلف آیات میں اشارہ ہوتا ہے کہ: "إِنَّ الَّذينَ قالوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ استَقاموا تَتَنَزَّلُ عَلَيهِمُ المَلائِكَةُ أَلّا تَخافوا وَلا تَحزَنوا وَأَبشِروا بِالجَنَّةِ الَّتي كُنتُم توعَدونَ"، "یقیناً جن لوگوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ  ہمارا پروردگار اﷲ ہے، پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے، تو اُن پر نہ کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔"

سوره مبارکه آل عمران کی  آیه نمبر 170 میں ارشاد ہوتا ہے: "فَرِحينَ بِما آتاهُمُ اللَّهُ مِن فَضلِهِ وَيَستَبشِرونَ بِالَّذينَ لَم يَلحَقوا بِهِم مِن خَلفِهِم أَلّا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ"، "اللہ تعالٰی نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے، اس سے بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں، ان لوگوں کی بابت جو اب تک ان سے نہیں ملے، ان کے پیچھے ہیں، اس پر کہ انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہونگے۔" ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے: "إِنَّما ذٰلِكُمُ الشَّيطانُ يُخَوِّفُ أَولِياءَهُ فَلا تَخافوهُم وَخافونِ إِن كُنتُم مُؤمِنينَ۔" (سوره مبارکه آل عمران آیه ۱۷۵) "درحقیقت یہ تو شیطان ہے، جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے، لہٰذا اگر تم مومن ہو تو ان سے خوف نہ کھاؤ اور بس میرا خوف رکھو۔" سوره مبارکه يونس  کی آیه نمبر 62 میں ارشاد خداوندی ہے: "أَلا إِنَّ أَولِياءَ اللَّهِ لا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ"، "آگاہ ہو جاؤ کہ اولیاء خدا پر نہ خوف طاری ہوتا ہے اور نہ وہ محزون اور رنجیدہ ہوتے ہیں۔" (سوره مبارکه البقرة آیه ۱۱۲) "بَلىٰ مَن أَسلَمَ وَجهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحسِنٌ فَلَهُ أَجرُهُ عِندَ رَبِّهِ وَلا خَوفٌ عَلَيهِم وَلا هُم يَحزَنونَ"، "جو شخص اپنا رخ خدا کی طرف کر دے گا اور نیک عمل کرے گا، اس کے لئے پروردگار کے یہاں اجر ہے اور اس کے لئے نہ کوئی خوف ہے، نہ حزن۔"

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام اپنے فرزند امام حسن کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں: "وَجاهِدْ فِى اللّهِ حَقَّ جِهادِهِ وَلاتَأْخُذْكَ فِى‌اللّهِ لَوْمَةُ لائِم وَخُضِ الْغَمَراتِ اِلىَ الْحَقِّ حَیْثُ كانَ، وَ تَفَقَّهْ فِى الدِّینِ، وَ عَوِّدْ نَفْسَكَ التَّصَبُّرَ عَلَى الْمَكْرُوهِ، فَنِعْمَ الْخُلْقُ الصَّبْ"، " (اے میرے بیٹے) راہِ خدا میں جس طرح اس کا حق ہے، جہاد کرو اور کسی ملامت کرنے والے کی تہمت سے متاثر نہ ہو اور حق کے حصول کے لیے ہر حالت میں دکھوں اور تکالیف میں داخل ہو جاؤ۔ دین کو اچھی طرح سیکھو اور مصیبت کے وقت صبر کرنے کی عادت ڈالو اور صبر ایک کتنا نیک عمل ہے۔" آپ (ع) فرماتے ہیں: "ذَا هِبْتَ أَمْراً فَقَعْ فِیهِ، فَإِنَّ شِدَّةَ تَوَقِّیهِ أَعْظَمُ مِمَّا تَخَافُ مِنْهُ"، "جس وقت کسی چیز سے ڈرو تو اپنے آپ کو اس پر ڈال دو(اس خوف پر غالب آجاو) کیونکہ بعض اوقات کسی شے سے ڈرنا اس اصل سے زیادہ سخت تر ہوتا ہے۔"

رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کے بقول خطرات سے بے خوف ہو کر میدان عمل میں کود پڑنا ہی کربلا کا سب سے بڑا درس ہے۔ رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ جب ایرانی نوجوانوں نے انقلاب کے بعد امریکی سفارت خانے پر قبضہ کیا تو حکومت کے اوپر مختلف اطراف سے بہت دباؤ تھا۔امام خمینی اس وقت قم تھے، اس مسئلے کے لئے میں شہید بہشتی اور بنی صدر امام خمینی کی خدمت میں پہنچے، جب ساری تفصیلات بتائیں تو انہوں نے مجھے مخاطب کرکے کہا کیا تم امریکہ سے ڈر گئے ہو، میں نے کہا نہیں تو آپ نے کہا ابھی امریکیوں کو رہا نہ کرو۔

خطرات سے کھیلنا، بےخوف ہو کر آگے بڑھنا، ہدف اور مقصد کے لیے جان کی بازی لگا دینا، شید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے "تنظیمی مکتب" کی نمایاں خصوصیت ہے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنے جد امیرالمومنین علیہ السلام کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے کہ "خطرے اور خوف پر ٹوٹ پڑو" کئی تنظیمی اور اجتماعی فیصلے کیے۔ آج ان کی شہادت کے برسوں بعد بھی ان کے حامی اور مخالف سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر شہید ڈاکٹر مصلحتوں کو پس پشت ڈال کر خطرات سے نہ کھیلتے اور خوف کے بت کو توڑ کر مختلف امور انجام نہ دیتے تو آج ملتِ تشیع کا وقار اور عزت و احترام اس سطح پر نہ ہوتا۔ اگر شہید ڈاکٹر امامیہ نوجوانوں کی تنظیم کو اس خطرے کی وجہ سے تاسیس نہ کرتے کہ لوگ انہیں کمیونسٹ اور اشتراکی نظریئے کا حامل قرار نہ دیں تو آج اس شجرہِ طیبہ کی برکات سے کیسے استفادہ ہوتا۔

اگر شہید پولیس، انتظامیہ اور مقامی شیعہ لیڈرز کے خوف سے مجالس اور عزاداری کے جلوسوں میں نماز باجماعت جیسی سنتِ حسنہ کا آغاز نہ کرتے تو آج تشیع کے پاس عزاداری اور نماز کے حوالے سے مخالفین کے طعنوں کا کوئی عملی جواب نہ ہوتا اور مصائب سیدالشہداء علیہ السلام کے ساتھ مقصدِ  سید الشہداء کی ترویج نہ ہوتی۔ شہید ڈاکٹر اس خطرے کے پیش نظر کہ عام لوگ کالج اور یونیورسٹیز کے ڈاکٹرز اور انجینئرز کو مولوی زدہ، پسماندہ اور دینی مدرسوں کے طالبعلم نہ کہیں، نوجوان نسل کو علماء کرام کے قریب نہ لے جاتے تو آج نوجوان نسل جہاں دین سے بے بہرہ ہوتی، وہاں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے بعض فارغ التحصیل جوان دینی مدارس کا رخ نہ کرتے اور معاشرے میں دینی تبلیغ کا موجودہ سلسلہ نہ ہوتا۔

اگر شہید ڈاکٹر پاکستان کی آمریت کی مخالفت مول لے کر، اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر، امام خمینی علیہ الرحمۃ کے اسلامی انقلاب کا بھرپور ساتھ نہ دیتے تو ایران کے اسلامی انقلاب کو پاکستان سمیت دوسرے اسلامی ممالک میں یوں پذیرائی حاصل نہ ہوتی۔ شہید ڈاکٹر ضیاء کی آمریت کے مقابلے میں اگر شہید عارف حسینی (رح) کو ریفرنڈم کے بائیکاٹ کا مشورہ نہ دیتے تو جمہوری قوتوں پر سے خوف کے بادل نہ چھٹتے۔

شہید ڈاکٹر خط
رات سے ٹکراتے ہوئے پاکستان میں یومِ مردہ باد امریکہ اور یوم القدس کا عالمی دن نہ مناتے تو آج پاکستان کی گلی گلی میں قدس کی حمایت اور "ڈاکٹر کا نعرہ یاد ہے، امریکہ مردہ باد ہے" کے سامراج خلاف نعرے بلند نہ ہوتے۔ شہید ڈاکٹر اگر خطرات میں کود کر ایران عراق جنگ میں ایرانی محاذوں کی فرنٹ لائن پر نہ پہنچتے تو آج پاکستان کی تشیع شرمندہ ہوتی کہ حق و باطل کی اس جنگ میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا۔ شہید ڈاکٹر اگر اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر حج کے دوران برائت از مشرکین کا قرآنی حکم بجا نہ لاتے تو دنیا بھر میں یہ بات ہر خاص و عام تک پہنچ جاتی کہ ایرانیوں کے بغیر حج میں امریکہ، روس اور برطانیہ جیسے شیطانوں کے خلاف آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں۔

اگر شہید ڈاکٹر نقوی خطرات میں کود کر امریکہ کے نائب صدر بش سینیئر کا مردہ باد امریکہ کے نعروں سے استقبال نہ کرتے تو امام خمینی کے خلاف پاکستانی حکام کا گٹھ جوڑ خطرناک صورتحال اختیار کرسکتا تھا۔ شہید ڈاکٹر اگر خطرات سے روبرو ہونے سے ڈر جاتے اور ایران کے سابق شاہ کے خلاف "ہم ظالم شاہ کا استقبال نہیں کرتے" جیسا پوسٹر شائع کرکے پاکستان کے کونے کونے تک نہ پہنچاتے تو ظالم شاہ پاکستان کا کامیاب دورہ کرکے اپنے اقتدار کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دینے میں کامیاب ہو جاتا۔ شہید ڈاکٹر نقوی نے اپنی اجتماعی زندگی کے قدم قدم پر اپنے آپ کو خطرات مسے دوچار کیا، لیکن اصولوں پر سودے بازی نہ کی۔ شہید ڈاکٹر نقوی نے ڈر اور خوف کی فضا میں  خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خطروں کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔

شید ڈاکٹر کے تنظیمی مکتب میں "خطرات سے کھیلنا" ایک اساسی عنصر جسے شہید نے کربلا اور سیدالشہداء علیہ السلام سے سیکھا تھا۔ آپ اسی لیے  تو "ہے ہماری درسگاہ، کربلا کربلا" کے نعرے کو پورے جوش اور ولولے سے لگاتے تھے۔ شہید ڈاکٹر نقوی کا تنظیمی مکتب آج ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ
خودی تیری مسلماں کیوں نہیں ہے
ترے دریا میں طوفاں کیوں نہیں ہے
عبث ہے شیوۂ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے

بدریا غلط و با موجش در آویز
حیات جاوداں اندر ستیز است
"سمندر میں غلطاں ہوجا اور اس کی لہروں سے الجھ جا، کیونکہ اسی کشمکش میں زندگی ہے۔"
مرا صاحبدلے ایں نکتہ آموخت
ز منزل جادۂ پیچیدہ خوشتر
"مجھے ایک صاحب دل نے یہ نکتہ بتایا کہ منزل سے بڑھ کر خوش آئند شے پرپیچ راستہ ہے، جس پر مسافر گامزن ہوتا ہے۔"

من آں پروانہ را پروانہ دانم
کہ جانش سخت کوش و شعلہ نوش است
"جلنا تو سبھی کو آتا ہے، لیکن پروانہ وہ ہے، جو اتنا سخت جان ہو کہ اپنے کو شعلے کے سپرد کر دینے کے بجائے شعلے کو نگل جائے۔"
اگر خواہی حیات اندر خطرزی
"شہید کا تنظیمی مکتب اسی کشمکش حیات کو راز حیات سمجھتا ہے، جو خطرات حیات میں پوشیدہ ہے۔"
اگر جانے ہوس داری طلب کن
تب و تابے کہ پایابے مدار
"اور اگر تجھے واقعی جان کی تلاش ہے تو اس تب و تاب اور تڑپ کو طلب کر جو کہیں ختم نہ ہو۔"

برہنہ سر ہے تو عزمِ بلند پیدا کر
یہاں فقط سرِ شاہین کے واسطے ہے کلاہ

شہید ڈاکٹر نقوی گویا علامہ اقبال کے الفاظ میں ایک مسلماں نوجوان کو شاہیں سے تعبیر کرتے ہوئے اس کو اس کا اصل مقام و مرتبہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ وہ زمین کی پستیوں سے باہر نکلے، ملک و ملت کی ترقی میں ہر وقت کوشاں رہے، اپنے حقوق و فرائض کو سمجھے اور انھیں پورا کرے۔ ہمت و طاقت سے کام لے، اپنے مقاصد کو سمجھے اور انھیں پورا کرے۔ کسی بھی خطرے اور مشکل کے آگے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائے اور مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ  کرے، اپنے آپ کو پستیوں سے نکالے اور خطرات سے کھیلتے ہوئے کمال اور بلندیوں کی طرف پرواز کرے۔
خبر کا کوڈ : 1124323
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
مصنف نے جہاں زندگی کے اغراض و مقاصد کو بالواسطہ سمجھانے کی کوشش کی ہے، وہاں ڈاکٹر محمد علی نقوی کو نئی نسل کے لئے ایک مثالی نمونہ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایک اچھی کاوش ہے، یہ سلسلہ اگر جاری رہے اور اسے معاشرے کے ہر حلقہ تک پہنچایا جائے تو دین و شہداء کی قابل تقلید خدمت ہے۔
ہماری پیشکش