0
Saturday 20 Apr 2024 13:39

نیویارک میں جلتا امریکی جھنڈا

نیویارک میں جلتا امریکی جھنڈا
تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

دنیا میں جتنا بھی پروپیگنڈا کر لیا جائے، جتنا بھی جھوٹ بول لیا جائے، یہاں تک کہ حکومتوں اور ریاستوں کو بھی خرید لیا جائے، تب بھی مظلومیت کی ایک طاقت ہوتی ہے۔ اس طاقت کے ساتھ ٹکرا کر یہ تمام پروپیگنڈے پاش پاش ہو جاتے ہیں۔ غزہ میں انسانیت کا قتل عام جاری ہے، جوان، بچے، خواتین حتیٰ جانور تک پہلے بمباری اور آج قحط کی وجہ سے جان دے رہے ہیں۔ آپ امریکی اور مغربی میڈیا کو مانیٹر کریں، ان کی خبریں ہی کچھ یوں شروع ہوتی ہیں کہ سات اکتوبر کا حملہ جس میں بارہ سو سے زائد نہتے عام  اسرائیلی شہری ہلاک ہوگئے تھے، اس کی جوابی کارروائی میں القسام کے دہشتگردوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یوں مظلوم کو ظالم اور ظالم کو مظلوم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ایک عام سننے والا جو صرف امریکی اور یورپی میڈیا پر پھیلتا اسرائیلی بیانیہ سنتا ہے، اس کی نظر میں جو کچھ غزہ میں ہو رہا ہے، وہ ٹھیک ہو رہا ہے بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہونا چاہیئے، تاکہ دہشتگردوں کو سزا ملے۔

اب ذرا اس منظر کو دیکھیں، نیویارک میں امریکی صدر الیکشن کمپین کے لیے پیسہ اکٹھا کرنے جمع ہوئے ہیں۔ اس کی اطلاع امن پسند جنگ مخالف امریکی عوام کو ہو جاتی ہے۔ ادھر نیویارک میں فنڈ ریزنگ کمپین شروع ہوتی ہے اور بات کروڑوں ڈالر سے اربوں ڈالر تک پہنچ جاتی ہے۔ امریکی صدر جیوبائیڈن فخریہ کہتے ہیں کہ آج تین امریکی صدور میری فنڈ ریزنگ کمپین میں موجود ہیں۔ جب یہ عمل جاری تھا تو اسی اجلاس کے ہال کے باہر امریکی عوام کی بڑی تعداد "روک دو، روک دو، جنگ کو روک دو" کے نعرے لگا رہی تھی۔ امریکی عوام اپنی آواز کے نہ سنے جانے پر مشتعل تھی اور ایک نعرہ لگنا شروع ہوا "Down with Down with US ،US۔" اس کے ساتھ ہی امریکی سرزمین پر امریکی پرچم کو بھی آگ لگا دی۔

کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ امریکہ کی سرزمین پر ہزاروں لوگوں نے یہ نعرہ لگایا ہو اور ان کی موجودگی میں امریکی سرزمین پر ہی امریکی پرچم یوں نذر آتش ہوا ہو۔ امریکی پالیسیوں کی شکار بہت سی اقوام یہ نعرے لگاتی ہیں، مگر خود امریکہ میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ اسی نیویارک میں حزب اللہ کا پرچم لہرایا گیا اور لہرانے والے وائٹ امریکن تھے۔ جب امریکی صدر یہ اعلان کر رہے تھے کہ ہم نے چھبیس ارب ڈالر جمع کر لیے تو باہر امریکی عوام کے غضب میں جلے امریکی جھنڈے کا دھواں اٹھ رہا تھا۔ امریکی اور یورپی میڈیا اس پر حیران تھا کہ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔؟ امریکی انتظامیہ اور تجزیہ نگار بھی حیرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ اس میں حیرانگی والی کوئی بات نہیں ہے، اصل بات بڑی واضح ہے کہ یہ مظلومیت کی طاقت ہے، غزہ میں بہنے والا انسانیت کا خون ہے جو رنگ لا رہا ہے۔

امریکی صدر جیو بائیڈن کی اپنی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی میں ہونے والے سروے بتا رہے ہیں کہ چالیس فیصد ڈیموکریٹس یہ سمجھتے ہیں کہ غزہ میں نسل کشی ہو رہی ہے۔ ایسا پہلی بار ہو رہا ہے کہ امریکی اور یورپی میڈیا پوری طرح سے ناکام ہوا ہے۔ پوری دنیا کے انسان دوستوں کی بار بار کی میڈیا کمپینز اور جنگ دشمن مظاہروں نے بری طرح امریکی اور یورپی پالیسی کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جب امریکی اور یورپی عوام کو یہ چورن بیچا جاتا تھا کہ سب سے زیادہ انسانیت ہم میں ہے اور ہم ہی دنیا میں امن کے لیے کام کرتے ہیں۔ جب عوام نے عملی طور پر سوشل میڈیا پر دیکھا کہ کیسے ہسپتالوں اور ایمبولینسز کو نشانہ بنایا  جا رہا ہے؟ اور دوائیاں، خوراک یہاں تک کہ پانی بھی روک دیا گیا ہے تو انہیں اندازہ ہوا کہ ہم سے جھوٹ بولا گیا ہے۔

دوسری طرف ایران کے اسرائیل پر حملے سے اہل غزہ کو کچھ سکھ کا سانس نصیب ہوا ہے۔ فلسطینی چھ مہینوں کے بعد بے خوف ہو کر سمندر کنارے نکلے ہیں۔ کافی مدت بعد اہل غزہ سکھ کی نیند سوئے کہ ان پر حملے کا خطرہ نہیں ہے بلکہ اسرائیل کو اپنی پڑی ہوئی تھی۔ ویسے اس حملے نے مسلمانوں کو بھی باہم جوڑا ہے۔ سنی مسلمانوں نے رہبر معظم اور سید حسن نصراللہ کی تصاویر اٹھا کر نعرے لگائے کہ تیرہ میرا رشتہ کیا لا إله إلا الله۔ جی ہاں یہ ہیں اصل تعصب سے پاک سنی مسلمان جنہیں ایرانی حملوں پر خوشی ہے۔ شاہ محمود قصوری نے معترضین کو جواب دیتے ہوئے کہا، یہ کیسا ناکام حملہ ہے کہ ایران کو جس ہوائی اڈے پر حملہ کرنا تھا اس ہوائی اڈے پر لگنے والے میزائل نہ روکے جاسکے اور اس اڈے کو نقصان پہنچا اور ہم کیسے مان لے کہ اسرائیل سچ بول رہا ہے۔

نقصان ہوا ہے، اسرائیل تھوڑی بتائے گا کہ اس کو نقصان ہوا ہے۔ ایران کا جو ہدف تھا، وہ اس نے پورا کر دیا، وہ تو کامیاب ہوگیا۔ امریکی اور یورپی میڈیا ایران پر حملے کا خالی ڈھنڈورا پیٹ کر اسرائیل کو بچانا چاہتا ہے اور امریکی وزیر خارجہ یہ کہہ کر خود کو بچانا چاہتے ہیں کہ ہم ایران پر کسی حملے میں ملوث نہیں ہیں۔ وہ حملہ جو ہوا ہی نہیں، اس میں کون ملوث ہوسکتا ہے۔؟ منافقین کی شرلی کو حملہ کہنا ہی حملے کی توہین ہے۔ کسی نے صحیح لکھا تھا کہ اصفہان ائیرپورٹ والے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں تو حملے کا پتہ نہیں چلا، مگر واشنگٹن میں پتہ چل گیا کہ حملہ ہوگیا ہے۔ دنیا کے تمام آزادی پسند اہل فلسطین اور اہل غزہ کے ساتھ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کو نظر آرہا ہے کہ یہ نسل کشی ہو رہی ہے۔ کوئی نارمل انسان کہیں پر کسی کی بھی نسل کشی کا حامی نہیں ہوسکتا۔
خبر کا کوڈ : 1129954
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش