0
Thursday 18 Apr 2024 09:51

غزہ میں جنگ بندی کیلئے پس پردہ کوششیں

غزہ میں جنگ بندی کیلئے پس پردہ کوششیں
تحریر: سید اسد عباس

اسرائیلی تنصیبات پر ایران کے کامیاب میزائل اور ڈرون حملے، جو 14 اپریل کو "وعد صادق" کے نام سے انجام پائے، ان کے چند روز کے بعد قطر میں ایک اہم ملاقات ہوئی۔ ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے کل یعنی 17 اپریل کو قطر کا دورہ کیا۔ انھوں نے اس دورہ میں اپنے قطری ہم منصب سے ملاقات کے علاوہ، قطر کے امیر اور حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ سے بھی ملاقات کی۔ ترک وزیر خارجہ کے مطابق ان کے دورہ قطر کا مقصد حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی کی کوششوں کو تیز کرنا ہے۔ ترک وزیر خارجہ ہاکان فیدان نے اپنے بیان میں کہا کہ اسماعیل ہنیہ سے غزہ کے مسئلے کے متعدد پہلوؤں کے حوالے سے بات ہوئی، جس میں جنگ بندی، قیدیوں کا تبادلہ، امداد کی فراہمی، غزہ کی تعمیر نو وغیرہ شامل ہیں۔ ہاکان فیدان کے مطابق ہم نے اسماعیل ہنیہ کو مغرب کے حماس کی عسکری کارروائیوں کے حوالے سے تحفظات سے بھی آگاہ کیا ہے۔

ترک خبر رساں ایجنسی ٹی آر ٹی کے مطابق فیدان نے کہا کہ اسماعیل ہنیہ اس امر پر آمادہ ہیں کہ اگر صہیونی حکومت 1967ء کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کی یقین دہانی کرواتی ہے تو حماس بھی اپنا عسکری ونگ ختم کرکے اپنے آپ کو سیاسی سرگرمیوں تک محدود کر دے گی۔ فیدان نے بتایا کہ اسماعیل ہنیہ حالیہ ہفتے میں ہی ترکی کا دورہ کریں گے اور ترک صدر رجب طیب اردغان سے ملاقات کریں گے۔ پاکستان میں فلسطین فاؤنڈیشن کے سربراہ صابر ابو مریم نے اس خبر کے حوالے سے ٹویٹ کیا کہ دو ریاستی حل پر عمل درآمد سے متعلق کوئی بیان اسماعیل ہنیہ کی جانب سے جاری نہیں ہوا ہے بلکہ ممکن ہے کہ یہ ترک وزیر خارجہ کا بیان ہو، جسے اسماعیل ہنیہ کے بیان کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

ریوٹرز سائٹ کے مطابق ہاکان فیدان نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ میری اسماعیل ہنیہ سے متعدد بار دو ریاستی حل کے حوالے سے بات ہوئی ہے اور اسماعیل ہنیہ کا کہنا ہے کہ اگر صہیونی ریاست 1967ء کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں لاتی ہے تو حماس اپنا عسکری ونگ ختم کرنے کے لیے آمادہ ہے۔ ریوٹرز کے مطابق اسماعیل ہنیہ نے اپنے اسی موقف کو اس مرتبہ بھی دہرایا ہے۔ حماس نے ترک وزیر خارجہ سے ملاقات پر بیان دیتے ہوئے کہا کہ غزہ میں جنگ بندی، مذاکرات اور اس کی ضروریات کے حوالے سے ترکیہ کا اہم اور کلیدی کردار ہے اور حماس نے اپنا موقف ترک وزیر خارجہ کو پیش کر دیا ہے۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حماس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ دو ریاستی حل کو قبول نہیں کرتی ہے، تاہم 2 مئی 2017ء کو حماس نے ایک نیا چارٹر شائع کیا تھا، جس میں اس نے دو ریاستی حل کو نہ فقط قبول کیا تھا بلکہ 1967ء کی سرحدوں کے مطابق فلسطینی ریاست کے قیام کی بات کی تھی۔ یہ چارٹر خالد مشعل نے قطر میں ہی پیش کیا تھا۔ اس وقت مبصرین کا خیال تھا کہ حماس کا یہ اعلان محمود عباس اور حماس کے مابین موجود خلیج کو پر کرنا ہے۔ یقیناً قارئین کے علم میں ہوگا کہ مارچ 2024ء میں مصر اور قطر کی کوششوں سے اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی کی ایک تجویز حماس کو پیش کی گئی تھی۔

اس اسرائیلی پیشکش کے مطابق اگر حماس 40 اسرائیلی قیدیوں کو رہا کرتی ہے تو اس کے بدلے میں غزہ میں چھے ہفتوں کے لیے جنگ بندی کر دی جائے گی اور امدادی قافلوں کو بھی غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ 7 اپریل کو حماس نے اس اسرائیلی پیشکش کو مسترد کر دیا۔ حماس کا مطالبہ ہے کہ اسرائیل مستقل جنگ بندی کا اعلان کرے، تمام اسرائیلی افواج غزہ کو ترک کر دیں، غزہ کی تعمیر نو کے کام کا آغاز کیا جائے، اسی طرح امدادی قافلوں کو بلا تعطل غزہ میں آنے کی اجازت دی جائے۔ ترکیہ میں بلدیاتی انتخابات میں ناکامی کے بعد رجب طیب اردغان  کو ایک مرتبہ پھر اہل غزہ کی مدد کا خیال آیا ہے اور ترک وزیر خارجہ کا دورہ قطر اسی سلسلے کی کڑی ہے۔

دیکھنا ہوگا کہ اسماعیل ہانیہ کے دورہ ترکیہ کے نتیجے میں کیا تجاویز سامنے آتی ہیں، ترکیہ نیٹو کا رکن ہے اور اس کے مغربی قوتوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ ترکیہ کی جانب سے جنگ بندی کے لیے کوشش میرے خیال میں مغرب، اسرائیل اور مسلم دنیا کے مغرب دوست حکمرانوں کا مشترکہ پراجیکٹ ہے، جو ایران کی خطے میں برتری کے تاثر کو محو کرنے کے لیے عمل میں لایا جا رہا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ "وعد صادق" نے جہاں اسرائیل کی دفاعی ساکھ کو نقصان پہنچایا ہے، وہیں ایران خطے میں بالعموم اور مسلم معاشروں بالخصوص ایک برتر قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آیا ہے اور مغرب کے پاس اس برتری کو ختم کرنے کا سیاسی حل کسی اور مسلم ملک کے کھاتے میں کوئی سیاسی فتح ڈالنا ہے۔

میرے خیال میں ترک پیشرفت کو کامیاب بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے گا۔ اس سے نہ فقط طیب اردوغان ایک سیاسی مدبر اور مصلح کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گا بلکہ ایران کی سیاسی برتری کا تاثر بھی کم کرنے میں مدد ملے گی۔ تاہم یہ نتیجہ اسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے، جب حماس ترکیہ کے مجوزہ منصوبے کو قبول کرے۔ خداوند کریم سے دعا ہے کہ وہ اہل فلسطین کی مشکلات کو حل فرمائے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 1129495
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش