0
Saturday 20 Apr 2024 12:56

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
تحریر: سید نثار علی ترمذی

کسی شخصیت کے افکار کا موضوعاتی مطالعہ دلچسپی کا باعث ہوتا ہے۔ اس سے قبل متعدد شخصیات کا موضوعاتی مطالعہ کرچکا ہوں، جن کا ماحصل شائع ہوچکا ہے۔ علامہ اقبال ایسی شخصیت ہیں کہ جن کو کسی طور نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ علامہ اقبال بلاشبہ عالم اسلام کی ان شخصیات میں سے ہیں، جن کے اثرات و احترام تمام مکاتب فکر کے درمیان موجود ہے۔ علامہ اقبال کا منظوم کلام دو زبانوں فارسی اور اردو پر مشتمل ہے، ساٹھ فیصد فارسی اور چالیس فیصد اردو زبان میں ہے، جبکہ نثری مواد اس کے علاوہ ہے۔ زیر نظر مضمون صرف منظوم اردو کلام کے چند گوشوں پر مشتمل ہے۔

علامہ اقبال نے اس امت کے تمام مسائل و مشکلات کی نشاندہی کی اور پھر اس کا حل بھی بتایا۔ انہوں نے اپنی الٰہی بصیرت سے سمجھ لیا تھا کہ اس امت کا سب سے بڑا مسئلہ ا س کا گروہوں اور فرقوں میں بٹ جانا ہے۔ یہ امت اس وقت تک عروج حاصل نہیں کرسکتی، جب تک کہ وہ متحد نہ ہو جائے۔ انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے امت کو متوجہ کیا۔ اس وقت جبکہ امت فرقہ واریت کی دلدل میں پھنس چکی ہے، اس سے نکلنے کا ایک ذریعہ علامہ اقبال کے افکار سے رہنمائی کا حصول ہے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ علامہ اقبال کے افکار کی وسیع پیمانے پر ترویج کی جائے۔ جو بھی وحدت امت کے لیے اقدام کرے گا اور فرقہ واریت کی جلتی ہوئی آگ بجھانے کی کوشش کرے گا، اس کا مقام اللہ کی بارگاہ میں بہت بلند ہوگا۔

رہبر معظم سید علی خامنہ ای اپنی کتاب اڑھائی سو سالہ انسان کے مقدمے میں لکھتے ہیں: ’’جیسا کہ آج کل بعض اسلامی اداروں میں بعض قلم فروش علماء نما افراد حکومتی کارندوں کے اشاروں پر مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کے لیے کتابیں لکھ رہے ہیں یا اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے چہرے کو بگاڑ کر پیش کرتے ہیں۔ اب اگر ان ممالک میں کوئی آزاد منش صاحب علم پیدا ہوجائے اور اتحاد بین المسلمین کے موضوع پر کوئی کتاب لکھے تو یہ ایک سیاسی عمل تصور ہوگا، کیونکہ حقیقت میں یہ حکومتی پالیسیوں کے خلاف کام ہے۔ آئمہ معصومین ؑ کا ایک اہم کام یعنی اسلام کے احکام کو صحیح اور درست انداز میں لوگوں کے سامنے پیش کیا جائے۔"

ان تمہیدی الفاظ کے بعد آئیے علامہ اقبال کے اشعار سے رجوع کرتے ہیں: علامہ اقبال امت محمدی کو باور کراتے ہیں کہ اس کے اجزائے ترکیبی دوسری قوموں اور ملتوں سے مختلف ہیں۔ جو فقط رنگ، نسل اور زبان کی وجہ سے ہیں، جب ملت اسلامیہ کے مشترکات تو الٰہی اور روحانی ہیں، جو ان مادی اشتراک سے کہیں بالاتر ہیں۔ اگر دیگر ملتیں ان مادی اشتراک کی وجہ سے متحد ہیں جبکہ ملت اسلامیہ حضور نبی اکرم ؐ جیسی ہستی کے مشترک ہونے کے باجود انتشار و افترق میں مبتلا ہو، باعث حیرت ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے، ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری!
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیت کہاں؟
اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملت بھی گئی
   (بانگ درا)

علامہ اقبال مسلمانوں سے مخاطب ہوکر انہیں سمجھاتے رہے کہ امت کی مثال تو ایک جسم کی سی ہے۔ جس طرح جسم کے ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بے چین رہتا ہے۔ یہ کیسی امت بن چکی ہے کہ امت پر دنیا میں جگہ جگہ سے زخمی ہو رہی ہے اور امت بے حس ہوکر تماشہ دیکھ رہی ہے۔ اس کا مطلب کہ امت کے درمیان رابطہ کمزور ہوگیا ہے۔
قوم گویا جسم ہے افراد ہیں اعضائے قوم
منزل صنعت کے رہ پیما ہیں دست و پائے قوم
محفل نظم حکومت چہرہ زیبائے قوم
شاعر رنگیں نوا ہے دیدہ بینائے قوم
مبتلائے درد کوئی عضو ہو، روتی ہے آنکھ
کس قدر ہمدرد سارے جسم کی ہوتی ہے آنکھ 
 (بانگ درا)

اگر آج کے حالات کا جائزہ لیں تو امت کی بے پروائی کو ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔ علامہ نے امت کے لبرل مفکرین کی اس فکر کو رد کرتے ہیں کہ مذہب کی وجہ سے امت زوال پذیر ہو رہی ہے۔ اس لیے مذہب کو انفرادی فعل قرار دے دیا جائے۔
قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذب باہم جو نہیں، محفل انجم بھی نہیں 
(بانگ درا)
دیں ہاتھ سے دیکر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ
 (ارمغان حجاز)
علامہ اقبال امت کو متوجہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بکھرے ہوئے رہنے سے قوت کمزور ہو جاتی ہے۔ مل کر رہنے میں ہی طاقت ہے۔ امت کا ہر فرد اہم ہے مگر یہاں اب الٹی گنگا بہ رہی ہے کہ لوگوں کو کافر اور مشرک قرار دے کر امت کے جسم سے کاٹا جا رہا ہے۔ اب ہر گروہ اپنے آپ کو امت قرار دے رہا ہے، جبکہ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
  (ارمغان حجاز)
فرد قائم ربط ملت سے ہے، تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں
(بانگ درا)

آپ نے مسلمانوں کو یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ امت کا ٹکڑیوں میں بٹ جانا گروہ در گروہ ہو جانا، اس میں سب کا نقصان ہے اور اس کا متحد ہونا سب کے فائدے میں ہے۔
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
(بانگ درا)
میرے خیال میں اگر یہی اشعار کافی ہیں کہ اس امت محمدی کو متوجہ کرنے کیلئے۔ علامہ اقبال نے اپنے ان اشعار کو جواب شکوہ میں شامل کرکے اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیش کرکے اس کی اہمیت کو دو چند کردیا۔ آج ہماری پہچان مسلمان کے بجائے فرقہ وارانہ پہچان بن گئی ہے۔ وہ مسلمانوں کو اپنی اختراع کردہ پہچان ختم کرکے امت میں گم ہو جانے کا درس دیتے ہیں:
یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہاں گیری، محبت کی فراوانی
بتان رنگ و خوں کو توڑ کر ملت میں گم ہوجا
نہ تورانی رہے باقی، نہ ایرانی نہ افغانی
(بانگ درا)

علامہ اقبال امت کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ جن میں ایک ہوس رانی ہے۔ یعنی اس میں دین کی محبت نہیں ہے بلکہ انفرادی شہرت اور شناخت ہے۔ علامہ کہتے ہیں کہ
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوع انسان کو
اخوت کا بیاں ہوجا، محبت کی زباں ہوجا
یہ ہندی، وہ خُراسانی، یہ افغانی، وہ تُورانی
تُو اے شرمندۂ ساحل! اُچھل کر بے کراں ہو جا
  (بانگ درا)
امت کے بکھر جانے کا ایک سبب مغرب کی ریشہ دوانیاں قرار دیتے ہیں۔
حکمت مغرب سے ملت کی یہ کیفیت ہوئی
ٹکڑے ٹکڑے جس طرح سونے کو کر دیتا ہے گاز 
(بانگ درا)
علامہ اقبال مسلمانوں کے اتحاد کی علامت خلافت عثمانیہ کے ختم ہونے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دشمن اس کی اہمیت کو سمجھتا تھا جبکہ مسلمان کتنے سادہ ہیں کہ اسے خود ہی ختم کر دیا ہے۔
چاک کر دی ترک ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری دیکھ
(بانگ درا)

علامہ اقبال مذہب کی تفریق کو باعث نزاع نہیں سمجھتے۔ وہ کہتے ہیں کہ مذہب تو محبت کا درس دیتا ہے۔ یہ کیسا مذہب ہے، جو ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہے۔
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
  (بانگ درا)
اس طرح انہوں نے مسلمانوں کا احساس دلاتے ہوئے کہا
چین و عرب ہمارا، ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

علامہ اقبال امت کے حوالے سے کیا خواہش رکھتے تھے کہ
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کا شغر
(بانگ درا)
طہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا
شاید کرہ ارض کی تقدیر بدل جائے
(ضرب کلیم)

علامہ اقبال فطرت سے درس اتحاد لینے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
اک عمر میں نہ سمجھے اس کو زمین والے
جو بات پا گئے ہم تھوڑی سی زندگی میں
ہیں جذب باہمی سے قائم نظام سارے
پوشیدہ ہے یہ نکتہ تاروں کی زندگی میں
(بانگ درا)
علامہ اقبال پرامید تھے کہ یہ صورتحال بدلے گی اور پوری دنیا نغمہ توحید سے گونج اٹھے گی، یعنی سب لوگ پرچم توحید کے نیچے جمع ہوں گے۔
آسماں ہوگا سحَر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظُلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
اس قدر ہوگی ترنّم آفریں بادِ بہار
نگہتِ خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آجائے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہو جائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے

آخر میں علامہ اقبال کی ایک نصیحت پیش ہے۔
ملت کے ساتھ رابطہ استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
(بانگ درا)

علامہ اقبال کے کلام میں وحدت امت کا جو پیغام ہے، اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ جو اشعار پیش کئے، ان میں بیشتر اشعار لوگوں کے زبان زد عام ہیں۔ اس کے باوجود امت تفرقہ میں مبتلا ہے۔ علامہ اقبال کے پاکستان میں تفرقہ، نفرت، گروہ بندی اور فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ بات بے حد افسوسناک ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے کسی بھی دور میں مشرق کے اس بلند ستارے کے الہامی کلام سے نوجوان نسل کو متعارف کروانے کے لیے اقدامات نہیں اٹھائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بطور پاکستانی ایک قوم اور ملت نہیں بن سکے اور روز بروز فرقہ بندی بڑھ رہی ہے اور معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے۔ علامہ اقبال (رح) کے دعائیہ اشعار اس مضمون کے مکمل ہونے پر درج کیے جاتے ہیں۔
جوانوں کو مری آہ سحر دے
پھر ان شاہیں بچوں کو بال و پر دے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرا نور بصیرت عام کر دے
(بال جبریل)
خبر کا کوڈ : 1129959
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش