0
Friday 27 Apr 2018 18:44

سیرت حضرت علی اکبرؑ اور آج کا مسلمان نوجوان

سیرت حضرت علی اکبرؑ اور آج کا مسلمان نوجوان
تحریر: محمد اشرف ملک
malikashraf110@gmail.com

ولادت
گیارہ شعبان کو مولا امام حسین ؑ کے گھر اس مولود باعظمت کی ولادت باسعادت ہوئی ہے، جو تلاوت کر رہا ہوتا تو لوگ یوں سمجھتے کہ سید الانبیاء (ص) تلاوت کر رہے ہیں، جو اگر بولتا تو جن لوگوں نے سید الانبیاء کی آواز کو سنا ہوا تھا، انہیں یوں لگتا کہ اللہ تعالٰی کا نبی حضرت محمد مصطفٰی (ص) بول رہا ہے۔ آج اس مولود کی ولادت کا دن ہے جو امام حسین ؑ کی آنکھوں کا نور ہے۔ اس مولود باوقار و باشرف کا نام معلوم ہے کیا ہے؟ یہ وہی ہے جسے خاندان اہلبیتؑ میں علی اکبرؑ کہتے ہیں۔ حضرت علی اکبرؑ کی ولادت گیارہ شعبان  33 ھجری یا 43 ھجری میں ہوتی ہے، دونوں حوالوں سے اقوال ہیں۔ اگر پہلی تاریخ ہو تو کربلا میں حضرت علی اکبرؑ کی عمر مبارک 28 سال اور اگر دوسری تاریخ صحیح ہو تو شہادت کے وقت آپؑ کی عمر مبارک 18 سال بنتی ہے۔ آپؑ کے والد حضرت امام حسینؑ ہیں اور والدہ لیلٰی بنت ابی مرہ ابن عروہ ابن مسعود ہیں۔

حضرت علی اکبرؑ کی خوبصورتی اور حسن
ویسے تو ہر بچہ بہت پیارا ہوتا ہے، جسے دوسرے بھی دیکھ کر اس سے محبت کرتے ہیں تو والدین کے دل کا تو یہ سکون ہوا کرتا ہے، جسے ہر ماں اور ہر باپ درک اور محسوس کرتا ہے۔ اگر یہی بچہ عام معمول سے ذرا ہٹ کر واقعاً بہت ہی خوبصورت ہو تو صرف ماں باپ ہی کے دل کا سکون نہیں بلکہ ہر دیکھنے والے کے دل کا سکوں ہوا کرتا ہے۔ اب آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں کہ علی اکبر ؑ کتنے حسین اور خوبصورت تھے کہ امام حسینؑ  فرماتے ہیں کہ ہمیں جب بھی رسول اکرم (ص) کی زیارت کا شوق ہوتا تو ہم علی اکبرؑ کی زیارت کرتے تھے۔ جن لوگوں نے پیغمبر اکرم (ص) کو نہیں دیکھا، وہ حضرت علی اکبر ؑ کو دیکھ کر گویا پیغمبر اکرم (ص) کی زیارت کر لیا کرتے تھے، اس لئے کہ حضرت علی اکبرؑ کی ظاہری شکل و صورت وہی تھی، جو حضرت محمد مصطفٰی (ص) کی تھی۔ امام حسین ؑ علی اکبر ؑ سے ویسے ہی محبت کرتے، جیسے پیغمبر اکرم (ص) امام حسین ؑسے کیا کرتے تھے۔

حضرت علی اکبرؑ کا اخلاق و کردار
کسی انسان کی انسانیت اور شخصیت کا معیار اس کا اخلاق اور کردار ہے۔ انسان کے پاس جتنی ہی دولت کیوں نہ ہو، جتنا ہی بلند منصب کیوں نہ ہو، جتنا ہی زیادہ حسین و خوبصورت کیوں نہ ہو، اگر وہ بد اخلاق ہے تو لوگوں کی نگاہ میں اس کا کوئی مقام نہیں ہوا کرتا۔ ممکن ہے لوگ ظاہری طور پر اس کی عزت کر رہے ہوں، لیکن دل سے کوئی بھی اس کی عزت نہیں کرتا۔ اس کے برعکس ممکن ہے کسی کے پاس دولت زیادہ نہ ہو، ظاہری شکل و شباہت بھی کوئی اچھی نہ ہو، لیکن اخلاق اچھا ہو تو ایسا انسان بہت جلد لوگوں کے دل میں اپنا مقام بنا لیتا ہے۔ حضرت علی اکبرؑ کو ظاہری حسن و کمال اللہ نے عطا کیا، لیکن اپنا اخلاق و کردار آپ نے اپنے اختیار سے خود بنایا۔ حضرت علی اکبر کا بات کرنے کا انداز، دوسروں سے ملنے کا طریقہ، چھوٹوں اور بڑوں سے ملنے جلنے کی روش وہی تھی، جو پیغمبر اکرم کی تھی۔ گویا اپنے تمام معاملات میں آپ نے جس شخصیت کو اپنے لئے آئینہ اور نمونہ قرار دیا، وہ وہی ہے کہ جس کے بارے میں قرآن مجید نے فرمایا کہ:"انک لعلی خلق عظیم" حضرت علی اکبر کی زندگی اور وہ بھی جوانی کی زندگی کا کمال یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کی زندگی کا عکس اور شبیہ ہے۔ حتٰی آپ کے سوچنے اور فکر کرنے کا انداز بھی وہی ہے کہ جو سیدالانبیا (ص) کے سوچنے کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امام حسین ؑ نے جب میدان کربلا میں حضرت علی اکبر کو بھیجنا چاہا تو اللہ کو مخاطب کرکے فرمایا:“اللهم اشهد علی هؤلاء القوم فقد برز الیهم غلام اشبه الناس برسولک محمد خلقا و خلقا و منطقا و کنا اذا اشتقنا الی رؤیة نبیک نظرنا الیه…”:"پروردگار تو گواہ رہنا کہ اس قوم کی طرف وہ نوجوان جا رہا ہے کہ شکل و صورت میں، اخلاق و کردار میں اور سوچ و فکر میں تمام لوگوں سے سب سے زیادہ تیرے رسول کے مشابہ اور آپ (ص) کی شبیہ ہے۔

حق کے راستہ پر ہونا
حق کے راہ کو پانا اور پھر اس پر قائم رہنا، یہ ہر کسی کا کام نہیں ہوا کرتا۔ بعض لوگ اپنی پوری زندگی میں باطل پر رہتے ہیں۔ حق کی طرف آنے کا کبھی انہوں نے سوچا ہی نہیں ہے، سوچنا  تو کیا حق کا مقابلہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ بعض لوگ حق کو پا تو لیتے ہیں لیکن اس حق پر ہمیشہ قائم نہیں رہتے اور باطل کے ساتھ سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے تاریخ بھری پڑی ہے، جو راستے میں حق کو چھوڑ دیتے ہیں، ان لوگوں کی وجہ سے جتنا اسلام کو نقصان پہنچا ہے، اتنا کسی اور وجہ سے نہیں پہنچا ہے۔ بہت سارے لوگ اچھے وعدے کرتے ہیں، لیکن وقت پر بے وفائی کرتے ہیں، زبان کے میٹھے ہوتے ہیں لیکن دل سے منافق کرتے ہیں۔ ظاہراً اسلام اور دین کا نام لیتے ہیں، لیکن  دراصل اپنی ہی پارٹی اور دنیا بنانے کے چکر میں ہوتے ہیں۔ ایسے افراد چاہے مدرسوں میں اور چاہے یونیورسٹیوں میں ہوں، چاہے مذہبی حوالے سے کسی عہدہ پر فائز ہوں، چاہے دنیاوی حوالے سے کسی بڑے منصب پر ہوں، اگر اسی روش سے چلتے رہیں تو ممکن ہے دنیا میں کچھ مقام بنا لیں، لیکن اللہ کے دربار میں اور معصومین کی بارگاہ میں ایسے لوگوں کی کوئی حیثیت نہیں ہوا کرتی، اس لئے کی وہاں مقام اسی کا بننا ہے کہ جو حق پر ہے۔

حضرت علی اکبرؑ جب کربلا کی طرف اپنے بابا اور امام وقت و امام زمان کی اطاعت میں جا رہے ہوتے ہیں اور امام حسین معمولی سی نیند کے بعد تین مرتبہ اس آیت کی تلاوت کرتے ہیں کہ :"انا لله و انا الیه راجعون" حضرت علی اکبر سبب پوچھتے ہیں تو امام فرماتے ہیں کہ جب تھوڑی سی نیند آئی ہے تو دیکھا ہے کہ ایک سوار کہ رہا ہے کہ:"القوم یسیرون و المنایا تسری الیهم" یہ قوم اس حالت میں حرکت میں ہے کہ موت ان کی طرف حرکت میں ہے۔ حضرت علی اکبر ؑ نے تھوڑا سا توقف کیا اور  کہا:"یا ابت لا اراک الله السوء و السنا علی الحقّ"بابا جان، اللہ آپ کو ہر مشکل سے محفوظ رکھے، کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ امام حسین  نے فرمایا:"بلی والّذی الیه مرجع العباد"ہاں ہم حق پر ہیں، قسم ہے اس ذات کی کہ جس کی طرف سب لوگوں کو پلٹنا ہے۔ اس وقت حضرت علی اکبر نے فرمایا:"یا ابه اذا لانبالی نموت محقّینبابا پھر ہمیں پرواہ نہیں ہے، اس لئے کہ ہم مریں گے اس حالت میں کہ ہم حق پر ہیں۔ امام نے یہ جملے اپنے جوان بیٹے کی زبانی سننے کے بعد یوں دعا فرمائی: خداوند تجھے بہترین جزا دے کہ جسے ایک بیٹا اپنے باپ سے وصول کرتا ہے۔

آج کا مسلمان نوجوان اور سیرت حضرت علی اکبرؑ
آج کے مسلمان نوجوان کے لئے سیرت حضرت علی اکبر کو سمجھنا بہت ضروری ہے، البتہ آج کئی نوجوان دشمن کی تمام سازشوں کے باوجود مسلمان ہیں، آل محمد کے پیروکار ہیں، متقی ہیں اور پرہیز گار ہیں۔ مساجد کے اندر، مدارس کے اندر، تعلیمی اداروں کے اندر ایک بہت بڑی تعداد مسلمان اور مومن نوجوانوں کی ہے۔ نوجوان ہی کسی قوم کا سرمایہ ہوا کرتے ہیں، قوموں کا مستقبل نوجوانوں کے مرہوں منت ہوا کرتا ہے۔ ان نوجوانوں ہی کے سبب آج اسلام کا نام بلند ہے، لیکن دشمن کی بہت بڑی کوشش آج کے نوجوان کے عقیدہ کو، اس کی سوچ اور فکر کو منحرف کرنے پر ہے۔ ثقافتی حوالے سے اسلامی ثقافت کی بجائے غربی ثقافت کو دن بدن اسلامی ممالک میں غلبہ دیا جا رہا ہے۔ اسلامی معاشروں سے اسلامی اقدار کو کمرنگ کیا  جا رہا ہے۔ اس حوالے سے ہم سب کو غربی ثقافتی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لئے ساکت نہیں بیٹھنا چاہئے، اس حوالے سے جو لوگ کام کر رہے ہیں، ان کا ساتھ دینا ہوگا۔ غفلت اور سستی سے نکلنا ہوگا، دن رات محنت کرنی ہوگی۔ کم از کم جس جس کام میں ہم ہیں، اسے ہمیں بہترین طریقہ سے انجام دینا ہوگا، نوجوانوں کا سہارا بننا ہوگا، ان کی راہنمائی کرنی ہوگی۔ اس حوالے سے ہم میں سے ہر ایک اس اس شخص کا شکریہ ادا کرے، جس نے اس  کی نوجوانی میں راہنمائی کی ہے، تاکہ وہ اور نوجوانوں کی راہنمائی ہمت اور حوصلہ کے ساتھ کرسکے۔ ہم میں سے جس جس نے بعض نوجوانوں کا ساتھ دیا ہے، ان کی علمی یا فکری مدد  کی ہے، ان کے ساتھ ایک مسلسل رابطہ رکھنا چاہئے۔

حضرت علی اکبر کی سیرت یہ ہے کہ جب اپنے امام وقت اور اپنے بابا کو پریشان دیکھتے ہیں تو ان کے سامنے آتے ہیں اور فرماتے ہیں، جب ہم حق پر ہیں تو پھر ہمیں موت کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ کیا ہمیں اپنے اساتذہ، اپنے والدین، دین مقدس کی بلندی اور عظمت کی خاطر دن رات کام کرنے والے علماء کا ساتھ دیکر دین کی بلندی کا سبب بننا ہے یا ان کے راستے میں ہمیشہ رکاوٹ بننا ہے۔ حضرت علی اکبر کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے ایک نوجوان اپنی زندگی کو با تقویٰ، بابصیرت، بامعرفت اور باعمل بنا کر ایسے گزارے کہ آج کے اہل علم اور بابصیرت علماء اس نوجوان کے بارے میں یہ کہ سکیں کہ میرے اللہ تو گواہ رہنا کہ معاشرہ کی اصلاح اور راہ حق کی ترویج کے لئے اس جوان کو بھیج رہا ہوں کہ جس کا کردار و عمل اور سوچ و فکر وہی ہے، جو تیرے نبی کی سنت ہے۔ آخر میں حضرت علی اکبر ؑ کی ولادت کی مناسبت سے سب مومنین کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالٰی سے حضرت علی اکبر ؑ کا واسطہ دیکر دعا مانگتا ہوں کہ خدایا ہمارے نوجوانوں کو سیرت حضرت علی اکبرؑ کو سمجھنے اور اس کے مظابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔آمین
خبر کا کوڈ : 720944
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش