0
Friday 20 Sep 2013 23:10
سعودی عرب امریکہ کی کالونی بنا ہوا ہے

سعودی مفتیوں اور حکمرانوں نے ہمیں اپنی اوقات بتا دی ہے، مولانا بلال احمد کرمانی

سعودی مفتیوں اور حکمرانوں نے ہمیں اپنی اوقات بتا دی ہے، مولانا بلال احمد کرمانی
مولانا سید بلال احمد کرمانی کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے شہر سرینگر سے ہے، قمرواری سرینگر میں ایک اہم تعلیمی ادارہ ’’سلسبیل ایجوکیشنل انسٹچیوٹ‘‘ جس کا قیام 12 سال قبل عمل میں لایا گیا کے آپ  سرپرست ہیں، اسکے علاوہ انجمن مرکز الاسلامی کشمیر کے آپ مہتم بھی ہیں، مرکز الاسلامی ایک فلاحی انجمن ہے اس میں دارالعلوم کا بھی منفرد کانسپٹ ہے، سید بلال احمد کرمانی کا ماننا ہے کہ نئی نسل کو اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ دنیاوی علوم سے بھی آراستہ کرنا ہوگا تاکہ وہ ممبر و محراب تک محدود نہ رہیں بلکہ دنیا کے ہر شعبے میں اپنا مثالی کارنامہ انجام دے سکیں، مولانا بلال کرمانی جموں و کشمیر اسلامک مشن کے بانی بھی ہیں، مقبوضہ کشمیر کے اہم مرکز بٹہ مالو علاقہ کے بازار مسجد میں آپ امام جمعہ کے فرائض و خدمات بھی انجام دے رہے ہیں، اتحاد بین المسلمین و آپسی بھائی چارگی کے حوالے سے جموں و کشمیر میں آپ کا کردار لاثانی ہے، ایک اہم نسشت کے دوران ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے مولانا بلال احمد کرمانی سے عالم اسلام کی موجودہ خونین صورتحال کے بارے میں ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: کشمیر کی تاریخ میں اتحاد بین المسملین کے حوالے سے آپ کا رول اہم رہا ہے، اتحاد کے حوالے سے یہاں کی موجودہ صورتحال سے آگاہ فرمائیں۔؟
مولانا سید بلال احمد کرمانی: دراصل پچھلے بیس پچیس سال سے کشمیر میں جو حالات رونما ہوئے ہیں وہ حالات بہت سارے عوام کے زیر تاثیر رہے ہیں، اس دوران لوگ الگ الگ طریقوں سے مختلف کاموں میں مصروف رہے، اس سے پہلے کی تاریخ کا اگر ہم مطالعہ کریں تو کشمیر میں صوفیان کرام (صوفی حضرات) کے طریقے پر کام ہوتا رہا اور انکی ہدایات پر مسلمان دینی امور انجام دیتے تھے، صوفیائی کرام نے کبھی بھی انتشار کی طرف لوگوں کو مائل نہیں کیا بلکہ وہ ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کے داعی رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارا سیاسی مسئلہ سالہا سال سے لٹک رہا ہے اسلئے جو لوگ یہاں پر اسلام مخالف سمت میں کام کر رہے ہیں وہ بہت کم حد تک کامیاب ہوئے، انہوں نے یہاں پر نئے نئے فتنے ایجاد کئے، یہاں پر انتشار بین المسلمین ان ہی نئے عناصر کی دین ہے، لیکن کشمیر کی سرزمین پر انہیں اپنے ناپاک ارادوں میں مکمل کامیاب ہونا یا آسانی سے کام کرنا محال ہے، الحمدللہ یہاں اب بھی آپسی بھائی چارہ موجود ہے، جہاں کہیں بھی مسلمانوں کے درمیان کوئی رخنہ اندازی ہو رہی ہے وہ یا تو کوئی جاہل ہوگا یا پھر کوئی ان پڑھ ہوگا، باقی کسی بھی مکتب فکر کے ذمہ دار فرد کی طرف سے جان بوجھ کر یا شعوری طور پر یہاں پر لڑانے یا لڑنے کی کوشش نہیں ہو رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: عیسائی مشینری جموں و کشمیر میں فعال ہے اس کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا سید بلال احمد کرمانی: انیسویں صدی میں ہی یہاں پر عیسائی لوگ آئے ہیں اور انہوں نے یہاں پر اسلام مخالف سرگرمیاں انجام دینا شروع کی، لیکن اسی وقت میر واعظ مولانا رسول شاہ صاحب نے اس کی توڑ کی اور عیسائی اسکول کے مقابلے میں اسلامیہ اسکول کا وجود عمل میں لایا، لیکن آج کیا ہو رہا ہے ہم مخلتف مکاتب فکر الگ الگ طبقوں میں بٹ رہے ہیں، ہر ایک الگ الگ دعوے دار ہے کہ میں ہی عیسائیوں سے تحفظ دلانے والا ہوں لیکن ایسا نہیں ہے، سب مکاتب فکر اہل تشیع، اہل سنت اور دیگر مسلم مسالک اپنا اپنا کام کر رہے ہیں اور اسلام ہی کا کام کر رہے ہیں اور خالص اسلام کا کام عیسائیت کے خلاف ہی ہوتا ہے، ایک اور بات کہتا چلوں کہ جہاں تک عیسائیوں کا تعلق ہے آپ نے دیکھا ہوگا کہ سرینگر کے بسکو اسکول کے باہر ایک مرکزی بورڈ ہے اس پر لکھا ہوا ہے کہ ’’کرسچن مشینری اسکول‘‘ یعنی وہ کرسچینٹی کو بحثیت مشن لے کر چلتے ہیں، مگر بدقسمتی و المیہ یہ ہے ہم مسلمان اسلام کو بطور مشن نہیں مانتے، قرون اولیٰ کے بعد جب مسلمان زوال پذیر ہوئے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے اسلام کو مشن نہیں مانا ہے اس کو ہم ایک خاندانی و رسمی کام مانتے ہیں مٹ جائے تو کیا غم۔

اسلام ٹائمز: کیوں مسلمان علاقوں میں عیسائیت پنپتی نظر آ رہی ہے اور ہم مسئلہ ارتداد پر کنٹرول نہیں کر پا رہے ہیں۔؟
مولانا سید بلال احمد کرمانی: اصل میں قدیم دور کے تقاضے کچھ اور تھے، آج کے دور کے تقاضے کچھ اور ہیں، اس وقت میٹیریلزم و مادیت پرستی نہیں تھی آج میٹیریلزم ہم پر غالب آ چکا ہے، ہر ایک آدمی اپنی زندگی میں اتنی دوڑ بھاگ کرتا نظر آ رہا ہے اور یہ دنیاوی دوڑ بھاگ چوبیس گھنٹے برابر جاری رہتی ہےِ لیکن اس کے بعد آج کے انسان کی مادی ضروریات پوری نہیں ہو رہی ہیں اور یہ سب فرنگیوں کی دین ہے، فرنگیوں نے اس انسان کو اتنا الجھا کر رکھا دیا ہے کہ مسلمان چوبیس گھنٹے اتنا الجھا رہے کہ اسے دین و آخرت نظر نہ آئے، یہی وجہ ہے کہ مسجدیں نمازیوں سے خالی ہیں، اسلامی مراکز کی جانب لوگوں کا عدم توجہ، یہی وجہ کہ ہمارے مسلمانوں میں دینی حس ہے ہی نہیں، الحمدللہ کچھ لوگ باشعور و ذی حس ہیں جو فعال ہیں لیکن ان کے کام کا کوئی نتیجہ سامنے اسلئے نہیں آرہا ہے کیوں کہ وہ لوگ آپس میں اتحادی نہیں ہیں اگر وہ آپس میں متحد ہو جائیں تو مسلم دنیا میں کہیں بھی عیسائیت نہیں ٹکے گی۔

اسلام ٹائمز:  مسئلہ کشمیر کے حوالے سے آپ کی رائے، کیوں یہ مسئلہ سالہا سال سے التواء میں پڑا ہوا ہے، اور اس مسئلہ کا حل کوسوں دور تک نظر نہیں آ رہا ہے۔؟
مولانا سید بلال احمد کرمانی: مسئلہ کشمیر متنازعہ ہے یہ ایک حقیقت ہے اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہونا چاہیئے نہ ہے، یہاں کے وزیراعلیٰ سے لے کر اپوزیشن جماعت اور حریت لیڈران تک سب لوگ کہتے ہیں کہ مسئلہ کشمیر متنازعہ ہے لیکن مسئلہ کشمیر کا یہ تنازعہ حل کرنے کے لئے آج تک کسی کے پاس کوئی موثر طریقہ کار نہیں ہے، اتنی ساری شہادتیں، پامالیاں، قتل و غارت اور معصوم ہلاکتیں ہوئیں لیکن اس کے بعد بھی وہ نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے جو نتیجہ آنا چاہیئے تھا، ضرور مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر اُبھر کر سامنے آیا ہے لیکن وہ نتائج ہمارے پاس نہیں ہیں جن کو ہم حوصلہ افزا کہہ سکتے، اُس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے مقاوم سیاسی لیڈران جو سرگرم عمل ہیں ان میں آپسی اتحاد و اتفاق کا فقدان ہے، بلکہ بھارت کی اولین کوشش یہی رہی ہے کہ ان لیڈران کو ہی پہلے تقسیم کیا گیا، کسی کا بیرون ملک کا ویزا روک دیا گیا تو کسی کو ویزا دے دیا گیا، یہ ویزا دینا اور روکنا ہی ڈرامہ ہے، ان کو آپس میں مخالف کر دو تاکہ وہ ایک دوسرے کو کہیں کہ تو ایجنٹ ہے اور وہ ایجنٹ ہے دراصل ایجنٹ کوئی نہیں ہے، سب حریت پسند جماعتیں مسئلہ کشمیر کے بارے میں مخلص ہیں لیکن ان کو لڑایا جا رہا ہے او ان کو انتشار کا شکار کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: مصر و شام میں ہونے والی نسل کشی کے اسباب و محرکات کا بارے میں آپ کی کیا نظر ہے؟
مولانا سید بلال احمد کرمانی: مسلم نسل کشی کا جہاں تک تعلق ہے یہ صرف شام و مصر میں ہی نہیں ہے بلکہ پوری دنیا میں استعماری جارحیت و بربریت عام ہے، خصوصاً مسلمانوں کے ساتھ، دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی حالت بدل گئی اور مسلمان نظام حقیقی سے دور ہوتے گئے، دوسری جنگ عظیم کے بعد جو غالب تھے وہ مغلوب ہوئے، جو مغلوم تھے وہ غالب آ گئے، جو لوگ غالب آئے ہیں انہوں نے ویسا ہی نقشہ لیا ہے جیسا مسلمانوں کے پاس نقشہ تھا، انہوں نے مسلمانوں کی بعض خوبیاں اور چند اہم قوانین ہم سے اخذ کئے اور ہمارا نظام حکومت اپنے یہاں لاگو کیا، حضور اکرم (ص) کا فرمان ہے کہ عربی کوئی نہیں عجمی کوئی نہیں، آپ سب مسلمان ہیں، عربی عجمی کا فرق مٹایا گیا، دوری و ذات پات کو ختم کیا گیا، آپ (ص) نے انسان کو انسانیت کا مقام بتا دیا اور انسانوں کو اسلام کی عظمت بتا دی، اسلام کی عظمت و بنیاد میں نہ کوئی مرزا رہے گا، نہ سید رہے گا، نہ افغان رہے گا وہاں مسلمان مسلمان رہے گا، تو یہ مسلمانوں کی اخوت و برابری کے قوانین اور احکامات تھے جس کو ہم نے فراموش کیا، لیکن انگریز اس وقت بٹا ہوا تھا، ان کے پاس نیشنلٹی کی بنیادیں تھیں اب انہوں نے یہ نیشنلٹی ہمیں دے دی اور ہمارا نظام اخوت و برابری خود لے لیا۔

13ویں صدی ہجری میں جب محمد بن عبد الوہاب نجدی کو جب شہر بدر کیا گیا، ترقی والوں کو واپس کیا گیا، وجہ یہی تھی کہ  ہم عرب قوم ہے عرب قوم خود عرب کے حکمران بنیں گے اور کچھ ایسے خلافت عثمانیہ کو ختم کیا گیا، نیشنلٹی کی بنیادوں پر عرب کے الگ الگ ٹکڑے ہو گئے، میں بتانا یہ چاہتا ہوں کہ عرب لوگ اپنی زمین پر غلام بن گئے کوئی ایک خطے سے دوسرے خطے میں بغیر کسی پاسپورٹ کے مسلمان آ جا نہیں سکتا، لیکن یورپ نے کیا کارنامہ انجام دیا انہوں نے اس وقت خلافت عثمانیہ کے نقشے پر یورپی یونین بنائی، اس یونین کے تحت ایک ملک کا باشندہ تمام یورپی ممالک میں گھوم سکتا ہے گشت کرسکتا ہے، یہ ایک پس منظر بتا رہا ہوں کہ جب سے مسلمانوں کے درمیان دوریاں بڑھ گئیں تب سے مسلمانوں کو پٹنا ہی پٹنا ہے، جب بٹے ہیں تو پٹنا ہی ہے، اب بٹنے کے بعد مغرب نے تقسیم در تقسیم یہ کی ہے کہ ہماری فکر کو بھی تقسیم کر دیا ہے۔

وقت اب یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ مسلمان اپنے مخصوص دائروں سے باہر نکلنے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں، بلکہ اپنے دائرے کے باہر جس کسی کو بھی پائے گا اس پر حکم کفر صادر کرے گا اور اسے کافر سمجھتا ہے، تمام مسلمان مسالک نے اپنے الگ دائرے بنائے الگ محاذ بنائے الگ دوست بنائے اور الگ دشمن بنائے، اگرچہ ہمارا دوست و دشمن ایک ہونا چاہیئے، لیکن اللہ کا کرم ہے کہ کچھ لوگ دنیا میں اُٹھے ہیں جنہوں نے نہایت منفرد و قابل ستائش کام کیا، ان میں علامہ خمینی (رہ) بھی ہیں، ان کا ایک بڑا رول ہے انہوں نے مسلم دنیا کو یکجا کیا، متحد کیا اور دوست و دشمن کی پہچان کرائی، ان کا پیغام تمام عالم اسلام کے لئے تھا تمام مسلمانوں کے لئے تھا، لیکن اہل تشیع نے اس کو اپنانا اور اس پر عمل کرنا اپنا فرض سمجھ لیا لیکن سنی دنیا میں ایسا نہیں ہوا، سنی دنیا تقسیم ہوتی رہی، تاریخ دیکھ لیجئے، تاریخی حقائق ہیں اور موجودہ حالات بھی اظہر من الشمس ہیں کہ سنی دنیا میں وہابیت اور سلفیت نے استعمار و استکبار کے ہاتھ مضبوط کر دیئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اصل وجہ کیا ہے مسلمانوں کے مغلوب ہونے کی، اور مسلم حکمرانوں کی اس میں ذمہ داریاں کیا ہیں۔؟
مولانا سید بلال احمد کرمانی: قرآن کے مطابق یہودی اور نصاریٰ سے بھی ہم مشترکات پر جمع ہو سکتے ہیں، کیا ہم لوگ اہل تشیع، اہل سنت، حنبلی و حنفی، شافعی ایک نہیں ہو سکتے؟ کیا ہم مسلمان لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ پر ایک نہیں ہو سکتے؟ کیا قرآن پر ہم مجتمع نہیں ہو سکتے، ہمارا قبلہ بھی ایک ہے، کعبہ بھی ایک ہے، دوست و دشمن بھی ایک ہے، غرض کہ آپسی اتحاد و اتفاق اولین ضرورت ہے، ابھی مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی زبردست کوشش ہو رہی ہے، امریکہ و اسرائیل نے مسلمانوں پر پورا کنٹرول سنبھالا ہوا ہے، امریکہ بھی خود مختار نہیں ہے بلکہ امریکہ بالکل یہودیوں کے نقشے کو رنگین کر رہا ہے اور یہودی جانتے ہیں کہ ایک قوم ہے مسلمان میں جو دنیا کا نقشہ بدل سکتی ہے، ایک قوم اہل تشیع کی شکل میں زندہ ہے ان کا ایک قائد ہے ایک رہبر ہے یہی قوم دنیا کی تقدیر بدل سکتی ہے، اہل سنت کا قائد نہیں ہے لیکن اہل تشیع کا ایک قائد ہے، اس قائد نے ان کو مجتمع کیا ہے اس قائد نے ان کو شعور دیا ہے وہ اب شعوری طور پر اسلام کی بات کرتے ہیں،  یہی اسلام اور ایسے ہی مسلمان مغرب کے لئے خطرہ ہیں، اسی لئے وہ شام میں جا رہے ہیں، شام میں مسلمانوں کا قتل عام کروا رہے ہیں، وہ چاہتے ہیں کہ کوئی حکومت مضبوط نہ رہے مستحکم نہ رہے، یہی مصر میں بھی ہو رہا ہے۔

 مغرب جانتا ہے مغرب نے اچھی طرح سے ہماری تصویر اُتاری ہے اخوان المسلمین اور ملٹری رولرس اور ان کے ساتھ جو النور پارٹی (وہابی و سلفی) والے ہیں، مغرب جانتا ہے کہ اخوان المسلمین شعوری طور پر مسلمان ہیں، ان کا اسلام کے لئے بہت بڑا رول ہے، چاہے وہ شہید حسن البنا ہوں، چاہے شہید سید قطب ہوں، چاہے زینب الغزالی ہوں، ابھی صدر مرسی کو ہٹایا گیا، ابھی دیکھ لیجئے کتنے لوگ مر رہے ہیں، وجہ یہی ہے کہ اخوان المسلمین شعوری طور پر مسلمان ہیں، مغربی قوتیں جانتی ہیں کہ اگر یہ لوگ مصر میں حکومت میں رہے تو وہاں پر یورپ پنپ نہیں سکتا، باطل قوتیں وہاں پر پنپ نہیں سکتی، افغانستان، پاکستان، عراق و شام میں کیا ہو رہا ہے،  میں گلوبل مسلم دنیا کی بات کر رہا ہوں، مسلمانوں کو باطل قوتیں اس وقت ایک ہو کر مار رہے ہیں، اس وقت ضررورت اس بات کی ہے کہ مسلم دنیا کو ایک ہو کر رہنا چاہیئے، یہ وہ زمانہ نہیں ہے جب اسلام غالب تھا جب ہم غالب ہوں تب ہم آپس میں لڑائی بھی کریں گے تو کوئی بات نہیں لیکن ہم مغلوب ہیں ہمیں اس حال کا ذرا خیال رکھنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: بعض نام نہاد دہشتگرد مسلمانوں کا کانسپٹ ہے کہ خلافت راشدہ کو بزور بازو لاگو کیا جائے، اس سلسلے میں آپ کے زریں خیالات جاننا چاہیں گے۔؟
مولانا سید بلال احمد کرمانی: یہ بالکل اسلام کی تعلیمات کے منافی ہے اور دین کو تلوار سے لاگو کرنے کا اسلام قائل ہرگز نہیں ہے اگر اسلام زبردستی پھیلانے کے لئے ہوتا تو حضور اکرم (ص) نے 13 سال مکہ شریف میں گذارے تو ضرورت نہیں تھی مدینہ شریف جانے کی،  آپ نے پہلے مکہ شریف میں ایک اچھی خاصی اسلام کی بنیادیں کھڑیں کیں، ان اصولوں کو دوام بخشنے کے لئے آپ (ص) نے پرامن طور افراد سازی کی، آپ (ص) نے سیدنا حضرت عمر، سیدنا حضرت عثمان، سیدنا حضرت علی (ع) اور حضرت بلال حبشی کے ساتھ ساتھ دیگر صالح افراد کو نظام و بنیادی اصول کی تعلیمات دینے کے لئے مہیا کیا، آپ نے مکہ شریف میں انسانوں کو اسلام سے روشناس کرایا، اس کے بعد آپ (ص) نے ان اسلامیز کئے گئے انسانوں کو جمع کیا تب جاکر خود بہ خود مدینہ شریف میں اسلامی حکومت بن گئی، یہ سوچ کہ پہلے آپ طاقت اختیار کرو اور طاقت کے بل پر، تلوار و بندوق کے بل پر آپ جو چاہے کرو، یہ صحیح فکر و اسلامی روش نہیں ہے، پہلے آپ خود دل سے اور شعوری طور پر اسلام تسلیم کیجئے، جب آپ ایسا کریں گے تو لوگ خود بہ خود اسلام کی جانب مائل ہو جائیں گے، اسلام کو ہم اپنے کردار سے دنیا کے کونے کونے میں نافذ کر سکتے ہیں نہ کہ توپ و بندوق سے۔

اسلام ٹائمز: کیوں سعودی عرب کے نام نہاد حکمران مصر و شام میں ہونے والی خون ریزی پر نہ صرف خاموش بلکہ استعمار و استکبار کی کھل کر حمایت بھی کرتے ہیں اور مالی معاونت بھی۔؟
مولانا سید بلال احمد کرمانی: شاید آپ سعودی عرب کے حکمرانوں کو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اسلام کے خیرخواہ ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے، نہیں کوئی بادشاہ اسلام کا خیرخواہ نہیں ہو سکتا، اگر بادشاہ خیرخواہ ہوتا تو حضور اکرم (ص) نے بادشاہت کی تائید کی ہوتی، حضرت علی (ع) کی زرہ کا آپ نے واقعہ پڑھا ہوگا کہ جب آپ (ع) کی زرہ گم ہو گئی اور کوئی یہودی اس کا دعوے دار بن گیا، چیف جسٹس و قاضی نے آپ سے کہہ دیا آپ امیرالمومنین ہیں لیکن اپکی گواہی کمزور ہے، گواہی کی بنیاد پر امیرالمومنین کی زرہ کا فیصلہ ایک یہودی کے حق میں ہوا، وہ یہودی اس مقدمہ کے فیصلہ سے بہت متاثر ہوا اور تعجب کے ساتھ کہنے لگا ”امیرالمومنین خود مجھے اپنے قاضی کے پاس لے کر آئے اور ان کے قاضی نے بھی ان ہی کے خلاف فیصلہ سنا دیا‘‘ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد (ص) اللہ کے رسول ہیں، اے امیر المومنین! یہ زرہ آپ ہی کی ہے لہٰذا آپ اسے لے لیجئے، میں نے تورات و انجیل میں پڑھا ہے کہ امیر المومنین کیسے ہونگے، اہل بیت اطہار کیسے ہونگے،  نبی کے غلام کیسے ہونگے۔ آپ کن بادشاہوں کی بات کر رہے ہیں،  اور ان بادشاہان سے کیا توقع کی جا سکتی ہے، حرمین شریف ہمارے اہم اسلامی مراکز ہیں، ان مقدس جگہوں پر جو امام ہیں ان کے جمعہ کے خطبے امریکہ سے بن کر آتے ہیں۔

میں نے ایک ملاقات کے دوران قاری عبدالرحمن السديس سے پوچھا، عبدالرحمن السديس بہت اچھے قاری ہیں جو مکہ شریف میں رہتے ہیں، ان سے پوچھا کہ آپ کو انیس ماہ جیل میں کیوں رکھا گیا، عبدالرحمن السديس نے کہا کہ میں نے ایک دن جمعہ کے خطبے میں لوگوں سے کہا تھا کہ جب آپکی چھٹیاں ہو جایا کریں تو آپ اس کو عرب میں ہی گذارا کریں، اور عرب میں ہی اپنا پیسہ خرچ کریں، باہر نہ جائیں باہر جا کر آپ مغرب کو پیسہ دیتے ہیں اور وہاں پیسہ خرچ کرتے ہیں، اس بات پر انہیں انیس مہینے جیل کی ہوا کھانی پڑی، یہ ہے سعودی عرب کی حکومت، اصل میں سعودی عرب امریکہ کی پوری کالونی بنا ہوا ہے، مغرب نے سعودی حکمرانوں کو خرید لیا ہے اسلئے سعودی شاہ جو بھی کچھ کہتا ہے اپنے آقا امریکہ کی حکم کی پیروی میں کہتا ہے اور کرتا ہے۔ آخر یہ کون سا اسلام ہے کہ مصر میں ایک سلیکٹڈ و الیکٹڈ مسلم حکومت ہے اور اس کے صدر مرسی ہیں، اس کی حکومت آپ اچانک ختم کر رہے ہیں، اس کے مقابلے میں آپ ملٹری رورل کی حمایت کر رہے ہیں، افسوس کا مقام ہے، دراصل سعودی مفتیوں و حکمرانوں نے ہمیں اپنے اوقات بتا دی ہے کہ ان کی اصلیت کیا ہے لیکن مسلمانوں کو سعودی حکمرانوں کی یہ باتیں یاد رکھنی چاہیئے اور ان کے اصل چہروں کی پہچان کرنی چاہیئے، کل حالات ٹھیک ہو جائیں تو ہم ان حکمرانوں پر پھر سے اعتماد نہ کر بیٹھیں، ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ یہ حکمران باطل کے آلہ کار ہیں۔

اسلام ٹائمز: معلوم ہوتا ہے کہ نام نہاد مسلم حکمرانوں کو عالم اسلام میں بیداری کی لہر کے نتیجے میں اپنے تخت و تاج خطرے میں محسوس ہوتے ہیں، اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے۔؟ 
مولانا سید بلال احمد کرمانی: دیگر اسلامی ممالک میں جو انقلاب اس وقت آ رہا ہے کہ مسلمان شعوری طور پر بیدار ہو رہے ہیں، پہلے مسلمانوں کو فروعی مسائل پر لڑوایا جا رہا تھا لیکن اس وقت عالم اسلام خصوصاً مسلم یوتھ بیدار ہو رہے ہیں، مسلم یوتھ الحمدللہ ایک جگہ جمع ہو رہے ہیں اور مسلم یوتھ شعوری طور پر اسلام کے لئے قربان ہونے کے لئے تیار ہیں، یہ اسلام ناب پر قربان ہونے کے لئے آمادگی سعودی عرب اور سعودی عرب کے آقاوں کے لئے بھی خطرہ ہے، امریکہ سعودی عرب سے تو ہرگز نہیں امریکہ ان ہی نوجوانوں سے ڈر رہا ہے، کہ اگر یہ مسلم نوجوان نسل بیدار ہو گئی تو مغربی قوتوں کی خیر نہیں ہے، اسلئے بیداری کی لہر اور دین اسلام کی جانب نوجوانوں کی رغبت کی وجہ سے سعودی عرب حکمرانوں کو اپنے تخت اب لگ رہے ہیں کہ وہ پانی پر تیر رہے ہیں، انشاءاللہ عنقریب وہ تخت پانی میں ڈوب جائیں گے اور اہل حق وہاں پر اور پوری دنیا پر حکمرانی کریں گے، یہ بھی کہتا چلو کہ عالم اسلام میں واقعاً قیادت کا فقدان ہے اور صالح قیادت کی ضرورت ہے، اہل تشیع میں امام خمینی (رہ) سے پہلے قیادت کا فقدان تھا لیکن امام خمینی (رہ) کی شکل میں اہل تشیع کو عظیم قیادت میسر ہوئی اور آج آیۃ اللہ سید علی خامنہ ای کی شکل میں اہل تشیع کی رہنمائی ہو رہی ہے، قیادت شعور بیدار کرتی ہے اور شعور سے فکر صحیح بنتی ہے، ایرانی قوم نے یہ سب کچھ کر دکھایا، اس حالت میں دنیا کی کوئی بھی طاقت اہل تشیع سے نہیں ٹکرا سکتی، امریکہ کی ہمت نہیں کہ وہ ایران پر حملہ کرے یا اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے، یہ سب قیادت کا نتیجہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 301898
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش