1
0
Saturday 26 Jul 2014 22:02
سعودی عرب اور مصری حکمران اسرائیلی جرائم میں برابر کے شریک ہیں

فلسطینی قتل عام پر عالمی برادری اور او آئی سی کی خاموشی مجرمانہ ہے، سید علی گیلانی

فلسطینی قتل عام پر عالمی برادری اور او آئی سی کی خاموشی مجرمانہ ہے، سید علی گیلانی
جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین سید علی شاہ گیلانی برصغیر کے منجھے ہوئے سیاست دان، شعلہ بیاں مقرر اور روح دین پر گہری نظر رکھنے والی شخصیت ہیں، 1953ء میں آپ جماعت اسلامی کے رکن بنے، آپ نے جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر میں مختلف مناصب جیسے امیر ضلع، ایڈیٹر اذان، قیم جماعت اور قائمقام امیر جماعت کی حیثیت سے اپنی خدمات سرانجام دیں، 7 جولائی 2004ء کو آپ تحریک حریت جموں و کشمیر کو منصئہ شہود پر لائے اور تب سے آپ تحریک حریت کے چیئرمین اور ساتھ ہی ساتھ جموں و کشمیر کل جماعتی حریت کانفرنس (گ) کے چیئرمین بھی ہیں، آپ مقبوضہ کشمیر کی حالیہ تحریک آزادی میں پیش پیش رہے ہیں اور اس سلسلے میں آپ اپنی زندگی کی ایک ربع صدی یا اس سے بھی زیادہ وقت پسِ دیوار زندان گزار چکے ہیں، مجاہدین آزادی میں سید علی گیلانی اس اعتبار سے ایک منفرد شخص ہیں کہ موصوف نے تحریک آزادی کی ہنگامہ خیز زندگی اور اذیت ناک جدوجہد میں بھی قلم و قرطاس سے رشتہ برقرار رکھا، آپ تیس سے زائد کتابوں کے مصنف بھی ہیں، جن میں روداد چمن، مقتل سے واپسی، اقبال روح دین کا شناسا اول، دوئم، ولر کنارے اور پیام آخریں وغیرہ قابل ذکر ہیں، 84 سالہ حیات میں آپ نے مجموعی طور 15 سال سے زائد بھارتی سامراج کے خلاف آواز بلند کرنے کی پاداش میں بھارت کی مختلف جیلوں میں گذارے، لیکن پھر بھی آپ اپنے بنیادی اور اصولی موقف پر چٹان کی طرح ڈٹے رہے، اسلام ٹائمز نے غزہ ہلاکتوں، مسئلہ فلسطین، اسرائیلی جارحیت اور مقبوضہ کشمیر کے حالات جاننے کے لئے بزرگ رہنماء سید علی شاہ گیلانی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: غزہ پر صیہونی بربریت اور اس پر عالم اسلام کے نام نہاد حکمرانوں اور تنظیموں کی خاموشی اور دوہرے معیار پر آپ کیا تبصرہ کرنا چاہیں گے۔؟
سید علی شاہ گیلانی: اسرائیل کے ہاتھوں ہو رہے فلسطینی عوام کے قتلِ عام پر عالمی برادری اور خاص کر مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی، اقوام متحدہ کی مجرمانہ خاموشی اور بے حسی افسوسناک ہے کہ وہ مسلمانوں کے تئیں دوہرے معیار اور دو عملی کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور ان کا خون بہانے کو انسانی حقوق کی پامالیوں میں شمار ہی نہیں کیا جاتا ہے، فلسطینی علاقوں پر بمباری کرکے معصوم بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کا قتل عام ریاستی دہشت گردی کی بدترین مثال ہے، نام نہاد مہذب اور جمہوری ممالک اسرائیل کی من مانی کارروائیوں پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ وہ درپردہ اس دہشت گردی کے لیے اسرائیل کی پیٹھ بھی تھپتھپا رہے ہیں، فلسطین میں مرنے والے معصوم بچے اور عورتیں چونکہ مسلمان ہیں، لہٰذا امریکہ، یورپی ممالک اور بھارت کو انسانی حقوق کی یاد نہیں ستاتی ہے، اس کے برعکس مسلم مزاحمتی گروپوں کے ذریعے سے کہیں کچھ غلط ہوجاتا ہے تو آسمان سر پر اٹھایا جاتا ہے اور دنیا کی سامراجی طاقتیں اس کو اسلامی دہشت گردی کا نام دیتی ہیں اور اس کی آڑ میں پوری مسلم کمیونٹی اور ان کے مذہب کو بدنام کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: دنیا کی بڑی طاقتیں اسرائیل کو مضبوط کرنے میں متحد نظر آرہی ہیں جبکہ مسلمان اب بھی آپسی جزئی اختلافات کے شکار ہو رہے ہیں، ایسے حالات میں ہمارا کیا فرض بنتا ہے۔؟

سید علی شاہ گیلانی: اگر ہم غزہ کے شہیدوں کی عملی مدد نہ بھی کرسکتے ہیں، البتہ ہم ان کا دکھ درد محسوس کرتے ہیں اور ان کے شیر خوار بچوں کی ہلاکتوں سے ہمارے دل بھی چھلنی ہو رہے ہیں، جیسا کی میں نے عرض کیا کہ عالمی برادری مسلمانوں کے تئیں دوہرے معیار اور دوعملی کا مظاہرہ کر رہی ہے اور وہ غزّہ میں نہتے شہریوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے کوئی موثر اقدام نہیں کر رہی ہیں، اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہے اور امریکی صدر بارک اوبامہ اور برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اُس کی کھل کر پشت پناہی کر رہے ہیں، نئی دہلی میں برسرِ اقتدار آنے والی بھارت کی نئی حکومت بھی درپردہ طور اسرائیل کی پیٹھ تھپتھپا رہی ہے اور وہ مسلمانوں کے قتل عام پر خوش ہے، یہ صورتحال دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے ایک تازیانۂ عبرت ہے کہ یہود، نصاریٰ اور ہنود ان کے مقابلے میں ایک ملّتِ واحدہ بن کر جمع ہیں اور خود وہ فرقوں، مسلکوں اور مختلف گروہوں میں تقسیم ہیں، کہیں شیعہ سُنی تصادم آرائیاں ہیں تو کہیں دیوبندی، بریلوی اور سلفی نام پر مسلمان تقسیم کئے گئے ہیں، اس صورتحال کے لیے جہاں اسلام دشمن قوتیں ذمہ دار ہیں، وہاں کچھ مسلم ممکتیں بھی مسلکی اور گروہی تنازعات کے اس جُرمِ عظیم کے ارتکاب میں ملوث ہیں، دینی سوج بوجھ سے عاری مولوی حضرات، مفتی اور مُلا ٹائپ لوگ بھی اس عفریت کو پھیلا رہے ہیں اور وہ کہیں شعوری اور کہیں غیر شعوری طور دشمن کے منصوبوں میں رنگ بھر رہے ہیں، لیکن ہم مطمئن ہیں کہ غزّہ کے لوگوں کا درد دنیا میں ہر جگہ محسوس کیا جا رہا ہے اور دنیا کے تمام مسلمان اس کے خلاف سراپا احتجاج بن کر کھڑے ہیں۔

اسلام ٹائمز: عرب ممالک کیوں عملاً کچھ کرتے نہیں دکھائی دے رہے ہیں بلکہ الٹا مظلومین غزہ اور حماس کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں، اس حوالے سے آپ کی تشویش کیا ہے۔؟

سید علی شاہ گیلانی: امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا کی اسرائیلی حملوں کی حمایت قابل مذمت ہے، سعودی عرب اور مصری حکومتوں کا رول بھی قابل افسوس و قابل مذمت ہے، جو اسرائیلی جارحیت کی بجائے حماس کیخلاف بیان بازیاں کرتی ہیں اور جن کی بے حسی کی وجہ سے شہ پاکر اسرائیل نہتے شہریوں پر مسلسل بم برسا رہا ہے، سعودی عرب اور مصری حکمران اسرائیلی جرائم میں برابر کے شریک ہیں اور وہ غزہ میں مظلوم فلسطینی بچوں کے قتل عام کی باضابطہ طور سے حمایت کر رہے ہیں، ہمارا سوال ہے کہ کیا فلسطین میں مارے جارہے بچوں میں سے کوئی ملالہ یوسف زئی نہیں ہے، جس کے مرنے سے اوبامہ اور ڈیوڈ کیمرون کے دل پسیج جاتے؟، صہیونی حکومت کے جنگی جرائم پر عالمی برادری کی معنی خیز خاموشی، دنیا کی تلخ حقیقت کی ایک ہولناک تصویر ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک کی نام نہاد مہذب حکومتیں پوری طرح سے ایکسپوز ہوگئی ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے خون کو حلال قرار دے دیا ہے اور وہ ان کو صفحۂ ہستی سے مٹانا چاہتی ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کا رول بھی مجرمانہ ہے، غزہ کی صورتحال پر ان کی خاموشی نے انسانی حقوق کے ان کے دعوں کو کھوکھلا ثابت کر دیا ہے کہ یہ تنظیمیں بھی دوعملی اور دوہرے معیار کی شکار ہیں اور ان کی نظروں میں مسلمانوں کے خون کی قیمت نہ ہونے کے برابر ہے اور یہ محض استکباری طاقتوں کے ناجائز مفادات کو پورا کرنے کے کام میں مصروف ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی بے حسی اور سعودی عرب اور مصری حکومتوں کے حماس کے خلاف اسٹینڈ قابل افسوس ہے، مسلم ممالک کے عیاش حکمرانوں کی فلسطینیوں پر ہو رہے مظالم پر خاموشی نے پوری امت مسلمہ کو دم بخود کردیا ہے اور دنیا کے ڈیڑھ ارب انسان محض ریت کا ایک ڈھیر محسوس ہو رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ کا حال ہی میں ایک بیان آیا تھا کہ مسلم ممالک اپنے یہاں اقوام متحدہ کی رکنیت فی الحال معطل رکھیں، اس کی وضاحت چاہیں گے۔؟
سید علی شاہ گیلانی: ہم نے غزہ میں اسرائیلی دہشت گردی کے خلاف مسلم ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ کی بے عملی کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے اس ادارے سے اپنے اپنے ملک کی رُکنیت کو فی الحال معطل رکھیں اور اسرائیل کے ساتھ اپنے تمام تر سفارتی رابطے ختم کریں اور اپنے اپنے ملکوں میں اسرائیلی مصنوعات کی درآمدگی پر پابندی لگائیں، اقوامِ متحدہ اگرچہ تسلیم کر رہا ہے کہ غزّہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شہید ہونے والوں میں 80 فیصد سویلین ہیں اور ان میں درجنوں شیر خوار بچے اور عورتیں شامل ہیں، البتہ اس قتل عام کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس کارروائی اس ادارے کی طرف سے ابھی تک عمل میں نہیں لائی جا رہی ہے، اسی لئے مسلم ممالک سے ہم نے اپیل کی ہے کہ وہ اس ادارے میں اپنے اپنے ملک کی رُکنیت کو فی الحال ملتوی کرکے اس ادارے کی بے عملی کے خلاف بھرپور احتجاج کریں، اقوام متحدہ کی طرح مسلم ممالک کی تنظیم او آئی سی اور عرب لیگ کا رول بھی منفی ہے اور اگر مسلم ممالک کی یہ بے حسی اور مصلحت پسندی جاری رہی تو اسرائیل نہ صرف دوسرے ہمسایہ مسلم ممالک پر بھی چڑھائی کرے گا، بلکہ اس کی ٹینکس اور بکتربند گاڑیاں خدانخواستہ مکہ اور مدینہ کے دروازوں پر بھی دستک دے سکتی ہیں، ہم نے حال ہی میں ایک قرارداد بھی پاس کی، جس میں ہم نے مسلم ممالک کو مشورہ دیا کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تمام تر سفارتی رابطے ختم کریں اور اپنے اپنے ملکوں میں اسرائیلی مصنوعات کی درآمدگی پر پابندی عائد کریں، قرارداد کے ذریعے تمام مسلمانوں سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ مسلکی اور گروہی اختلافات سے اوپر اٹھ کر ایک امت کی حیثیت سے کھڑا ہوجائیں اور عزت و وقار کے ساتھ زندہ رہنے کے لیے قوت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر کی جانب آنا چاہوں گا اور جاننا چاہیں گے کہ بھاجپا اور کانگریس جن کو آپ نے ایک ہی سکے کے دو رخ قرار دیا ہے، اس جملے کی کچھ وضاحت ہمارے لئے بیان فرمائیں گے۔؟

سید علی شاہ گیلانی: کانگریس اور بی جے پی کو ہم نے اس لئے ایک ہی سکے کے دو رخ کہا ہے، کیونکہ دونوں پارٹیوں کی پالیسی کشمیر کے متعلق یکساں ہے اور وہ پالیسی ہے کہ طاقت کی بنیاد پر یہاں کے لوگوں کی آواز کو دبایا جائے، آزادی کی آواز کو دبایا جائے اور بھارت میں جو بھی پارٹی اقتدار میں آجائے، ان کی پالیسی کشمیر کے متعلق تبدیل نہیں ہوگی اور بھارت میں جس پارٹی کی حکومت بنے وہ طاقت کے ذریعے کشمیر پر اپنی گرفت مضبوط کرنا چاہتی ہے اور اس پالیسی میں حکومت بدلنے سے یا پارٹی بدلنے سے کوئی بدلاؤ نہیں آئے گا۔

اسلام ٹائمز: کیا ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ مستقبل میں کشمیر کے متعلق بھارت کی پالیسی میں کوئی بدلاؤ یا تبدیلی آسکتی ہے۔؟

سید علی شاہ گیلانی: دیکھئے میں نہیں سمجھتا ہوں کہ بھارت کی کشمیر سے متعلق جارحانہ پالیسی میں کوئی تبدیلی آئے گی، کیونکہ بھارت کبھی بھی عدل کی بنیاد پر یا جو انہوں نے کشمیری عوام کے ساتھ وعدے کئے ہیں، ان کی بنیاد پر یا اقوام متحدہ کی 18 قراردادوں جن پر انہوں نے دستخط کئے ہیں اور تسلیم کیا ہے کہ ان قراردادوں کی بنیاد پر بھارت مسئلہ کشمیر کا حل چاہتا ہے، بھارت اس کے برعکس مسئلہ کشمیر کو طاقت کے بل بوتے پر سرد خانے میں رکھنا چاہتا ہے، بھارت کشمیر میں اپنی ساڑھے 7 لاکھ فوج اور ایک لاکھ پولیس کے ذریعے اپنے ناجائز قبضے کو دوام پہنچانا چاہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: بھاجپا جو مسلمان دشمنی میں مصروف و مشہور ہے، بھارت میں رہ رہے مسلمانوں کے ساتھ آئندہ بھاجپا کس طرح کا برتاؤ جاری رکھے گی۔؟

سید علی شاہ گیلانی: بھارت میں جس پارٹی کی حکومت بنے، چاہے وہ کانگریس ہو یا بی جے پی، ان کی پالسیاں بھارتی مسلمانوں کے متعلق یسکاں ہیں۔ اسی لئے میں نے کانگریس اور بھاجپا کو ایک ہی سکے کے دو رخ کہا ہے، اگر ہندوستان کی آزادی کے بعد کی تاریخ دیکھیں تو کانگریس نے 40 سال ہندوستان پر واضح اکثریت کے ساتھ حکومت کی اور بقول اسد مدنی جو کانگریس کے حمایتی و اتحادی بھی رہتے ہیں، ان 40 سالوں میں 40 ہزار مسلم کش واقعات رونما ہوئے ہیں، جس میں لاکھوں کی تعداد میں مسلمان شہید کر دیئے گئے، اس لحاظ سے چاہے کانگریس کی حکومت ہو یا بھاجپا کی، بھارتی مسلمانوں کے متعلق ان کا رویہ یکساں رہے گا، اس کی ایک تازہ مثال سچر کمیٹی ہے، جو خود کانگریس حکومت نے بنائی، اس کی رپورٹ آج تک دھول چاٹ رہی ہے، جسٹس سچر نے جو Recomendation دی تھیں کہ کس طرح ہندوستان، مسلمانوں کی حالت چاہے وہ تعلیمی، معاشی، انتظامی حالت ہو یا حکومتی اداروں میں مسلمانوں کی شرکت وغیرہ آج تک لاگو نہیں ہوئیں، اب ہندوستانی مسلمانوں (جو تقریباً بیس کروڑ کے آس پاس ہیں) کے لئے ضروری بن گیا ہے کہ وہ ماضی کے تلخ تجربات سے سبق حاصل کریں اور متحد ہوکر حکمران جماعتوں کی پالیسیوں کا جواب دیں اور اس طرح جواب دینا ہوگا کہ ہندوستان میں اکثریت اور اقلیت کا بھوت ہمیشہ کے لئے رخصت ہوجائے اور بھارتی ملک میں عادلانہ نظام قائم ہوجائے۔

اسلام ٹائمز: مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ دفعہ 370 کے خاتمہ کے متعلق بھاجپا کے موقف پر آپ کی تشویش کیا ہے۔؟

سید علی شاہ گیلانی: دفعہ 370 اس بات کی علامت ہے کہ جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے، یہ ایک عارضی دفعہ ہے، ہندوستان کے آئین میں تب تک جب تک نہ جموں و کشمیر کے عوام کو حق خودارادیت یا اقوام متحدہ کی 18 قراردادوں کے مطابق جموں و کشمیر کی عوام کو موقعہ دیا جائے کہ وہ اپنے مستقبل کا تعین کریں، ہندوستان کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کا رشتہ اسی 370 آرٹیکل کی بنیاد پر ہے، اس میں صرف تین چیزیں آتی ہیں، ایک کرنسی، دفاع اور دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات، یعنی جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ ان ہی تین چیزوں یا شرائط پر الحاق ہوا ہے، اس آرٹیکل میں کشمیر کو جتنی بھی مراعتیں دی گئی تھیں، آہستہ آہستہ ان کو واپس لیا گیا ہے، تاکہ اس خطے پر بھارت اپنے تسلط کو دوام پہنچا سکے، مثال کے طور پر جموں و کشمیر میں کوئی بھی Non State Subject کو بسایا نہیں جاسکتا، ریاستی گورنر صرف ریاست کا باشندہ ہوگا نہ کہ غیر ریاستی باشندہ، جس کو صدر ریاست کہا جاتا تھا، یہاں وزیراعلٰی کی جگہ وزیراعظم ہوا کرتا تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان سبھی مراعتوں اور خصوصیات کو ختم کیا گیا، غیر ریاستی باشندوں کو گورنر بنایا گیا، وزیراعظم کی جگہ یہاں وزیراعلٰی اور غیر ریاستی باشندوں کو یہاں بسایا گیا، تاکہ یہاں کی Demography تبدیل ہوجائے، ہندوستان کی سپریم کورٹ کا کوئی عمل دخل یہاں نہیں تھا، بھارتی الیکشن کمیشن کا اطلاق یہاں نہیں تھا اور دیگر معاملات جن کا بھارت کی دوسری ریاستوں میں اطلاق ہوا کرتا تھا، یہاں ان کو لاگو نہیں کیا جاسکتا تھا، لیکن یہاں کی کٹھ پتلی حکومتوں نے بھارت کے ہاں میں ہاں ملائی اور وہ سب چیزیں جو اس دفعہ 370 کی رو سے تھیں، وہ سب ہم سے چھین لی گئیں۔ کشمیر میں آج تقریباً 28 لاکھ کنال اراضی بھارتی فوج کے زیر قبضہ ہے، گلمرگ میں تین چوتھائی اراضی بھارتی فوج کے زیر قبضہ ہے، شوپیاں میں 5200 کنال جنگلی اراضی پر قابض فوج ایک کنٹونمنٹ بنا رہی ہے، جہاں تقریباً 4 لاکھ درخت کاٹے گئے، اسی طرح بجبہاڑہ تحصیل میں 8896 کنال اور دیگر مقامات پر جیسے توسہ میدان وغیرہ پر بھی بھارتی فوج کا قبضہ ہے، اب یہاں کی کوئی چیز محفوظ اور آزاد نہیں رہی۔

اسلام ٹائمز: ہم جانتے ہیں کہ بھارتی حکمران اور اس کے آلہ کار اپنے تسلط کو دوام پہنچانے کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں، اگر انہوں نے دفعہ 370 سے چھیڑ چھاڑ کی تو اس پر یہاں کی عوام کا ردعمل کیا ہوگا۔؟

سید علی شاہ گیلانی: جہاں تک جموں و کشمیر کی عوام کے ردعمل کا تعلق ہے تو ان کو چاہئے کہ وہ اپنے موقف پر قائم رہیں اور کسی بھی طرح بھارت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کریں، یہ ایک واحد راستہ ہے، ہمیں یہاں ہندوستان کے آئین کے تحت ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کرنا چاہئے، جس طرح سے اسمبلی انتخابات کا یہاں کی غیور عوام نے بائیکاٹ کیا، اسی طرح آنے والے ریاستی انتخابات کا بھی بائیکاٹ کرنا ہوگا، انفرادی اور اجتماعی طور بھارت اور بھارتی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کرنی چاہئے، یعنی ہر سطح پر عوامی مزاحمت ہونی چاہئے، یہی ہمارے پاس ایک ہتھیار ہے، جس کے ذریعے ہم اپنی بات اقوام عالم کے سامنے رکھ سکتے ہیں اور استقامت سے ہی بھارت کی تمام ناپاک سازشوں کا منہ توڑ جواب دے سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا امید کی جاسکتی ہے کہ آئندہ اسمبلی میں انتخابات کا بائیکاٹ ہوگا۔؟

سید علی گیلانی: انشاءاللہ ہمیں امید ہے کہ جس طرح پارلیمنٹری الیکشن کا بائیکاٹ ہوا، اسی طرح ریاستی اسمبلی انتخابات کا بھی بائیکاٹ ہوگا، کیونکہ ہندوستان کے آئین کے تحت ہونے والے کسی بھی الیکشن میں حصہ لے کر اور ووٹ ڈال کر ہم اپنے آپ پر مسلط بھارتی حکمرانوں کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں، اس لئے ہم بار بار یہاں کے لوگوں کو اس عمل کے منفی نتائج کے بارے میں آگاہ کرتے آرہے ہیں۔ آج تقریباً یہاں 600 مزار آباد ہیں، جن میں ہزاروں کی تعداد میں شہید مدفن ہیں، اب بھی نوجوان قربانیاں دے رہے ہیں، جیلوں میں لوگ سڑائے جا رہے ہیں، عزتیں اور عصمتیں لوٹی جا رہی ہیں، اتنی ساری قربانیوں کی ہمیں حفاظت کرنی ہے، تاکہ ہم اپنی منزل مقصود کو پہنچ سکیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ کو لگتا ہے کہ جموں و کشمیر کی عوام کو شعوری طور پر بیدار کرنے کی ضرورت ہے، تاکہ وہ کسی منفی پروپیگنڈا کے زیر اثر نہ آئے، دیکھنے میں آیا ہے کہ لوگ شعوری بیداری سے زیادہ جذباتی ہیں۔؟

سید علی شاہ گیلانی: دیکھئے ہمیں حقیقت پسند بن جانا چاہئے، ہم زیادہ دور نہیں جائیں گے، آپ کو پتہ ہوگا کہ کشمیر کے لوگ تقریباً 100 سال تک ڈوگرہ حکمرانوں کے غلام رہے ہیں، جب ہندوستان تقسیم ہوا اور ہماری آزادی کی راہ کھل گئی، لیکن بدقسمتی سے ہمارے لیڈروں نے اس وقت ہمیں پھر بھارت کی غلامی کی طرف دھکیل دیا، میں یہاں اس کی وجہ اس کا سبب اقبال (رہ) کے اشعار سے اخذ کرنا چاہوں گا کہ:
جو نا خوب تھا یہ تدریج وہی خوب ہوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
حقیقت ابدی ہے مقام شبیری
بدلتے رہتے ہیں انداز کوفی و شامی

یہ تاریخ ہے کہ لوگ بدلتے رہتے ہیں، اپنے ضمیر کی آواز پر کام نہیں کرتے، لیکن باشعور لوگ جن کا ضمیر جاگ چکا ہے، جو ہوشیار ہیں، ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ لوگوں کی رہنمائی کریں، ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہئے، یہ قوم صدیوں غلام رہی ہے، اس غلامی کا اثر تو ہوگا، ہمیں اس غلامی کے اثرات کو ختم کرنے کے لئے کام کرنا ہے، لوگوں کو تعلیم دینی ہے، ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ خود کو آزادی پسند کہلانے والے بعض لیڈران پس پردہ بھارتی پالیسیوں کے خاکوں میں رنگ بھر رہے ہیں۔؟

سید علی شاہ گیلانی: یہ تاریخ کا یک حصہ ہے، پیغمبروں کے ادوار میں بھی منافق رہے ہیں، آج کے دور میں بھی آپ کو ایسے عناصر ملیں گے، ایسا نہیں ہوتا کہ تمام کے تمام افراد خلوص کے مجسمے ہوں، ایسا تو نہیں ہوسکتا، لیکن جو باشعور طبقہ ہو اور قلب و ذہن سے یکسوں ہوں، ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ان منافقین کے دھوکوں سے عوام کو آگاہ کریں اور خود بھی بچے رہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ نے تقریباً اپنی ساری زندگی کشمیر کی آزادی اور کشمیری قوم کی خدمت میں گزاری ہے، آپ کن الفاظ میں کشمیر کی صورتحال اور یہاں کے نوجوانوں اور عوام کا رجحان تحریک آزادی کے تئیں بیان فرمائیں گے۔؟

سید علی شاہ گیلانی: الحمد اللہ نوجوانوں کا رجحان تحریک آزادی کے تئیں بڑھ رہا ہے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ جدوجہد، جدوجہد برائے اسلام نئی نسل تک سرایت کرچکی ہے اور وہ ہم سے زیادہ پختہ عزم ہیں کہ ہمیں ہرحال میں بھارت کے جبری قبضہ سے آزادی حاصل کرنی ہے، اس لئے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں، بھارتی اور ریاستی ایجنسیاں نوجوانوں کو جدوجہد آزادی سے منحرف کرنے کے لئے نئے نئے حربے آزما رہی ہیں، وہ نوجوانوں کو شراب و نشیلی ادویات وغیرہ کے عادی بنا رہے ہیں، لیکن اس کے باوجود بھی کشمیری عوام بالخصوص یہاں کے نوجوان شعوری طور پختہ ہوچکے ہیں اور دشمن کے ہر حربے کا منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 401287
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Germany
مصری اور سعودی کردار منافقانہ ہے
ہماری پیشکش