1
Wednesday 13 Jun 2018 16:48
ریاست بلوچستان کے وسائل کو چاہتی ہے، لیکن خود بلوچوں کو نہیں

اگر بلوچ انسرجنسی کا فائدہ ہوتا تو بڑھاپے میں بھی پہاڑوں پر چڑھ کر مسلح جدوجہد کرتا، سردار عطاء اللہ مینگل

نواز شریف کو ججز نے نہیں بلکہ فوجی جنرلوں نے باہر نکالا
اگر بلوچ انسرجنسی کا فائدہ ہوتا تو بڑھاپے میں بھی پہاڑوں پر چڑھ کر مسلح جدوجہد کرتا، سردار عطاء اللہ مینگل
سردار عطاء اللہ مینگل بلوچ قوم کے بزرگ سیاستدان اور بلوچستان کے سب سے پہلے وزیراعلٰی رہے ہیں۔ مینگل قبیلے کو بلوچ قوم میں اہم اسٹیک ہولڈر کی حیثیت حاصل ہے، جسکے وہ سردار ہیں۔ وہ 1929ء کو بلوچستان کے علاقے لسبیلا میں پیدا ہوئے۔ وہ 1954ء کو مینگل قبیلے کے سردار منتخب ہوئے۔ وہ یکم مئی 1972ء سے 12 مئی 1973ء تک بلوچستان میں وزارت اعلٰی کے منصب پر فائز رہے۔ بعدازاں ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی حکومت ختم کر دی۔ 1973ء کو حیدرآباد سازش کیس میں انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ 1975ء کو انکے صاحبزادے پہلے لاپتہ اور بعدازاں قتل کر دیئے گئے۔ 1977ء کو جنرل ضیاء الحق نے انہیں جیل سے بری کر دیا۔ سردار عطاء اللہ مینگل خود سیاست سے دور زندگی گزار رہے ہیں، جبکہ ان کے صاحبزادے سردار اختر مینگل بلوچستان نیشنل پارٹی کی سربراہی کرتے ہوئے سیاسی جدوجہد میں مصروف عمل ہیں۔ بلوچستان کی قوم پرست سیاست، اسٹیبلشمنٹ سے اختلافات اور بلوچ مسلح مزاحتمی تحریکوں کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان سے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ نے اپنا آخری انٹرویو غالباً دس سال قبل دیا تھا، میڈیا اور سیاسی منظر نامے سے کنارہ کشی کی کیا وجہ ہے۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
میری عمر 89 سال کی ہوچکی ہے اور اس عمر میں کوئی کام کرنے کی طاقت نہیں رہتی۔ اس کے علاوہ جب حکمران اندھے، بہرے اور گونگے ہوں تو چیخنے اور چلانے کی کیا ضرورت۔

اسلام ٹائمز: ماضی میں‌ بلوچ قوم کے پاس میر غوث بخش بزنجو، نواب خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی اور آپکی طرح پختہ سیاسی رہنماء موجود تھے۔ کیا آپ اس بات سے اتفاق کرینگے کہ آج بلوچ سیاست میں لیڈرشپ کے حوالے سے خلاء پایا جاتا ہے۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
وقت اور حالات انسان سازی میں کردار ادا کرتے ہیں اور یہی صورتحال سیاستدانوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ لیڈر پیدا نہیں ہوتے بلکہ وقت اور حالات اسے لیڈر بناتا ہے۔ اگر آپ کو ایک عام آدمی اور لیڈر کو پرکھنا ہو تو اس کے اردگرد کے حالات دیکھیئے۔ اس کے علاوہ یہ دیکھیں کہ وہ لیڈر ان حالات سے کس طرح نبرد آزما ہیں۔ یہ ناانصافی ہوگی کہ ایک لیڈر کو سارا کریڈٹ دیا جائے اور دوسرے کو کچھ بھی نہیں۔

اسلام ٹائمز: عام تاثر یہ پایا جاتا ہے کہ قبائلی نظام کیوجہ سے بلوچستان پسماندگی کا شکار ہے۔ کیا آپ اس سے اتفاق کرینگے۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
قبائلیت کی اساس دشمنی پر ہوتی ہے۔ قبائلی نظام بلوچوں کو تقسیم اور متحد ہوکر کام کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمارے بلوچ قوم پرست جو بلوچوں کے حقوق کی جدوجہد کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ اپنے قبیلے سے باہر نہیں آتے۔ لہذا ایک عام بلوچ سے کوئی کیا گلہ کرسکتا ہے، جبکہ ان کے لیڈر اس تقسیم اور غرور میں رہ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا قبائلی نظام موجودہ دور کے مطابق نہیں۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
سرداری نظام اپنی زندگی گزار چکا ہے۔ اس نظام کی معیاد اب ختم ہوچکی ہے اور جدید دنیا میں اس کا کوئی کردار نہیں۔ دنیا اس سرداری نظام سے بہت پہلے اگلے نکل چکی ہے۔

اسلام ٹائمز: لیکن پھر بھی بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں سرداری نظام آج بھی کیوں موجود ہے۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
جب تک ایک متبادل نظام بلوچستان میں نہیں لایا جاتا، تب تک سرداری نظام اسی طرح چلتا رہے گا، لیکن بلوچستان میں ایک نئے نظام کو متعارف کرانے کی اشد ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: مینگل قبیلہ بلوچ قوم کا ایک بڑا حصہ ہے۔ اس قوم کے سردار ہونیکی حیثیت سے آپ کیوں اس سرداری نظام کو ختم کرنیکا اعلان نہیں کرتے۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
چاہے میں اس کے خاتمے کا اعلان کروں یا نہ کروں، یہ سرداری نظام آج نہیں تو کل خود ختم ہو جائے گا۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کی آزادی کیلئے مسلح جدوجہد کرنیوالے بلوچ گروہوں سے متعلق کیا کہیں گے۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
سیاسی، معاشی، معاشرتی اور دیگر بنیادی انسانی حقوق کی عدم فراہمی بلوچ مسلح جدوجہد کی وجہ بنی ہے۔ پاکستانی ریاست بلوچوں کو ان کے حقوق نہیں دیتی۔ یہاں تک کہ ذوالفقار علی بھٹو، جسے لوگ جمہوریت پسند سیاستدان کہتے ہیں، میرے مطابق وہ بھی سویلین ڈکٹیٹر تھے، جنہوں نے بلوچستان کی منتخب حکومت کو گرایا۔

اسلام ٹائمز: ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچ قبائل خصوصاً مری اور مینگل قبیلے کیخلاف آپریشن کیوں شروع کیا۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
بلوچ کی سب سے بڑی خامی یہی ہے کہ وہ ہمیشہ تنہاء لڑا ہے یا اپنے ہی کسی دوسرے بلوچ قبیلے سے لڑا ہے۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ بلوچ اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف نبردآزما ہوں۔ بلوچوں میں تاریخ کی سب سے بڑی جنگ رند اور لاشاری قبائل کے درمیان ہوئی۔ جب نیپ کی صوبائی حکومت کو بلوچستان میں گرایا گیا اور فوجی آپریشن شروع ہوا، تو مینگل اور مری قبائل نے بھٹو کے خلاف مسلح جدوجہد شروع کی۔ اس دوران بگٹی قبیلے نے اس میں کوئی حصہ نہیں لیا، جیسا کہ یہ جنگ دو قبائل کے درمیان ہوئی ہو۔ مزاحمت کا دوسرا دور 2004ء میں شروع ہوا اور نواب بگٹی کے قتل کے بعد اس میں تیزی آئی، اب کی بار مینگل قبیلے نے اس میں حصہ نہیں لیا۔ 1948ء سے اس مسلح جدوجہد کو دیکھا جائے، تو یہ ریاست کے خلاف قومی جنگ سے زیادہ قبائلی جنگ لگتی ہے۔ آج کے دور میں بلوچ قبائل میں قدرے اتفاق آیا ہے، لیکن آج بھی تقسیم موجود ہیں۔

اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ گذشتہ بلوچ انسرجنسیوں کے دوران آزاد بلوچستان کا نعرہ نہیں لگایا گیا، لیکن موجودہ پانچویں انسرجنسی نے آزاد بلوچستان کا نعرہ بلند کیا ہے۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
زخم جتنا گہرا ہوتا چلا جائے گا، شور بھی اتنی زیادہ ہوتا چلا جائے گا۔ بلوچ قوم کو پاکستان کے ساتھ الحاق سے لیکر آج تک زخم دیئے جا رہے ہیں۔ اب یہ زخم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ آزادی کا نعرہ پچھلے ادوار میں بھی لگایا گیا، لیکن اس کی صدائیں سوئی سے لیکر مکران کے پہاڑوں تک نہیں پھیلی تھیں۔ ماضی میں بھی بعض گروہوں نے آزادی کا نعرہ لگایا، لیکن ان کی تعداد کم تھی۔

اسلام ٹائمز: کیا مسلح جدوجہد اس مسئلے کا حل ہے۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
اگر مجھے یہ یقین ہوتا کہ ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے سے اپنے حقوق لئے جاسکتے ہیں، تو میں آج بھی اس بڑھاپے میں پہاڑوں پر چڑھ کر مسلح جدوجہد کرتا، لیکن بلوچ ریاست کی جانب سے ڈھائے جانے والے مظالم کا جواب کس طرح دیں۔؟ کیا ریاست بلوچستان میں ووٹ کے تقدس کا احترام کرتی ہے۔؟ کیا ریاست بلوچوں کے عوامی نمائندوں کا احترام کرتی ہے۔؟ افسوس کہ ایسا نہیں ہے۔ ریاست ماضی کی غلطیوں سے کچھ نہیں سیکھی۔ شہریوں کے حقوق غضب کرکے انہیں بزور طاقت خاموش رکھنا چاہتی ہے، لیکن ایک مظلوم طبقے کی آواز کو کوئی دبا کر نہیں رکھ سکتا، چاہے ان کی تعداد کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔ میرے خیال میں یہ سوال ریاست اور حکمرانوں سے پوچھنا چاہیئے کہ وہ کیوں ہمیشہ بلوچوں کو پہاڑوں پر چڑنے پر مجبور کرتے ہیں۔ مجبوری کے بغیر کوئی بھی اپنے گھر کو چھوڑ کر پہاڑوں پر زندگی گزارنے پر راضی نہیں ہوتا۔ بلوچوں کو خشک پہاڑوں پر مسلح جدوجہد کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔ بلوچ قوم کبھی بھی پہاڑوں پر نہیں چھڑتی، اگر انہیں اپنے وسائل پر مالکانہ حقوق دیئے جاتے۔

اسلام ٹائمز: بلوچ مسلح جدوجہد کو انڈیا اور افغانستان سمیت دیگر ممالک کس حد تک سپورٹ کر رہے ہیں۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
ماضی میں افغانستان نے بلوچ مزاحمت کاروں کو پناہ دی، لیکن کابل براہ راست ان کی مدد نہیں کرسکتا، کیونکہ اس وقت کابل خود مختلف بین الاقوامی اور علاقائی طاقتوں کے شکنجے میں ہے۔ بھارت بھی براہ راست بلوچستان سے منسلک نہیں، لہذا وہ بھی بہت کم اس تحریک پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ بلوچستان اپنی اسٹریٹیجک اہمیت کی وجہ سے بین الاقوامی دنیا کی جانب سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ چین، انڈیا اور امریکہ اپنے مفادات کی خاطر یہاں پر نبرد آزما ہیں، جبکہ بلوچ قوم مفادات کی اس جنگ میں‌ پس رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا بلوچوں سے متعلق پاک فوج کے نظریئے میں‌ تبدیلی آئی ہے۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
بلوچوں سے متعلق اسٹیبلشمنٹ کی سوچ میں ایک فیصد تبدیلی بھی نہیں آئی۔ یہ صرف بلوچستان سے متعلق نہیں، بلکہ پورے پاکستان کے حوالے سے کہہ رہا ہو۔ اسٹیبلشمنٹ بلوچستان سمیت پورے پاکستان کو اپنے طریقے سے ڈیل کرنا چاہتی ہے۔ وہ تمام فیصلوں میں اپنی مرضی کا اجراء چاہتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ طاقت اور اختیارات کو بلوچوں، سندھیوں، مہاجروں اور پشتونوں کیساتھ تقسیم کرنا نہیں چاہتی۔

اسلام ٹائمز: جب آپ بلوچستان کے وزیراعلٰی تھے اور بعدازاں آپکے صاحبزادے سردار اختر مینگل بلوچستان کے وزیراعلٰی رہے، تب آپ دونوں نے اسٹیبلشمنٹ کیساتھ کیسے تعلقات رکھیں۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
1970ء اور 1990ء میں ہمارا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ براہ راست کوئی لینا دینا نہیں تھا، بلکہ ان ادوار میں ہم سول اسٹیبلشمنٹ کیساتھ برسر پیکار تھے۔ موجودہ دور میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ مرکزی کردار ادا کر رہی ہے۔ یہاں تک کہ مختلف اقسام کی مفاہمتیں ہو رہی ہیں اور سیاستدانوں کا انتخاب کرکے انہیں آگے لایا جا رہا ہے۔ پنجابی اسٹیبشلمنٹ کبھی بھی ڈرائیونگ سیٹ اس انداز میں براجمان نہیں ہوئی۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف کی نااہلی سے متعلق آپکی کیا رائے ہے۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
یہ ہر کسی کو معلوم ہے کہ نواز شریف کو ججز نے نہیں بلکہ فوجی جنرلوں نے باہر نکالا۔ پاکستان کی تاریخ میں ملٹری اسٹیبشلمنٹ نے کبھی بھی پنجابی حکمران پر اتنی سختی نہیں کی۔ میرے خیال میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کیساتھ آج یا کل کسی نہ کسی مفاہمت پر پہنچ جائے گی۔ اگر ذوالفقار علی بھٹو کے برعکس ملٹری اسٹیبلشمنٹ نواز شریف کیلئے کوئی نرم گوشہ رکھتی ہے، تو مجھے اس میں کوئی حیرانگی نہیں ہوگی۔

اسلام ٹائمز: پاک چین اقتصادی راہداری بلوچستان کیلئے کس حد تک مفید ثابت ہوگی۔؟
سردار عطاء اللہ مینگل:
مجھے سی پیک میں بلوچوں کیلئے کچھ بھی نظر نہیں آرہا۔ مجھے نہیں لگتا کہ اسٹیبلشمنٹ سی پیک کے پھل کو بلوچ کیساتھ تقسیم کرے گی۔ ریاست بلوچستان کے وسائل کو چاہتی ہے، لیکن خود بلوچوں کو نہیں۔ چین کو بلوچستان یا بلوچوں سے کوئی دلچسپی نہیں، بلکہ وہ اسے اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 731488
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش