0
Sunday 22 Jul 2012 14:03

عالمی برادری برما کے مسلمانوں کا قتل عام رکوانے میں کردار ادا کرے، محمد حسین محنتی

عالمی برادری برما کے مسلمانوں کا قتل عام رکوانے میں کردار ادا کرے، محمد حسین محنتی
اسلام ٹائمز۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر محمد حسین محنتی نے برما کے مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف مختلف ممالک کے سفارتکاروں اور آرگنائزیشن آف دی اسلامک کانفرنس ( او آئی سی ) کو علیحدہ علیحدہ خطوط تحریر کئے ہیں، جس میں برما کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سفارتکاروں اور او آئی سی سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ برما کے مسلمانوں کے قتل عام کے خلاف بھرپور آواز بلند کریں۔ خط کے مندرجات میں لکھا گیا ہے کہ برما کے صوبے اراکان میں ساڑھے تین سو سال تک اسلامی ریاست تھی، یہاں 1430ء سے 1784ء تک مسلمانوں نے حکومت کی، عرب سمیت ہندوستان، ترکی، ایران، چین سے مسلمانوں کی بڑی تعداد تجارت کی غرض سے یہاں پہنچی، مسلمانوں نے اس علاقے میں اپنے کاروبار کو وسعت دینا شروع کی، پھر اسی علاقے میں شادیاں کرلیں اور یہیں ان کی کئی نسلیں جوان ہوئیں، ان مسلمانوں نے برما میں باقاعدہ اپنی شناخت کے لئے اتحاد قائم کیا۔

انہوں نے کہا کہ برما 1948ء میں آزاد ہوا، برما میں بننے والی پہلی حکومت کے پہلے وزیراعظم ’’ یونو ‘‘ نے اول روز سے ہی مسلمانوں کو ہندوستانی شہری کے طور پر دیکھنا شروع کردیا، اراکان میں بسنے والے ہزاروں مسلمان اپنی شناخت کے لئے ٹھوکریں کھاتے رہے اور مسلمانوں پر مظالم بڑھتے چلے گئے۔ 1958ء میں ’’ بدھ مت ‘‘ ریاست برما کا سرکاری مذہب قرار دیدیا گیا۔ اس فیصلے نے جہاں مسلمانوں کو اپنی سرزمین سے کاٹ کر رکھ دیا وہیں عیسائی بھی متاثر ہوئے۔ اس دن سے روہنگیاس میں بسنے والے ہزاروں مسلمان اپنی شناخت کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں، برما کی حکومت نے 1974ء میں روہنگیاس کے مسلمانوں کو برما کی شناخت دینے سے انکار کردیا، 1978ء میں برما کی فوج نے مسلمانوں کو اپنے حقوق مانگنے کی پاداش میں سخت ترین مظالم کا نشانہ بنایا، جس کے بعد مسلمانوں کی اکثریت برما سے بنگلہ دیش ہجرت پر مجبور ہوگئی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ برما کے مسلم اکثریتی علاقے روہنگیاس میں حالیہ ہونے والے فسادات میں انتہائی روح فرسا واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اب تک 20 ہزار سے زائد مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کردیا گیا ہے جب کہ 90 ہزار سے زائد افراد ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں، بڑے پیمانے پر مسلمانوں کے مکانات، مساجد اور مدارس کو نذرآتش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ برما میں مسلمانوں کا یہ قتل عام کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں، 1942ء میں بدھسٹ انتہا پسندوں نے 20 ہزار مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کردیا تھا۔ 1962ء میں جب برما کی فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا تھا تب سے مسلسل مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ جاری ہے۔ خط میں مطالبہ کیا گیا کہ برما کے مسلمانوں کی نسل کشی کے خلاف عالمی برادری اور او آئی سی بھرپور آواز بلند کرے اور اس ظلم کو رکوانے میں اپنا کردار ادا کرے۔
خبر کا کوڈ : 181108
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش