0
Sunday 22 Jul 2012 10:34

برما اور مسلمان دنیا

برما اور مسلمان دنیا
تحریر: سید رضا نقوی 
 
دنیا میں یوں تو بہت سے ممالک ہیں جہاں کے مسلم باشندوں کو مصائب و آلام کے طویل صبر آزما حالات کا سامنا ہے۔ ان میں برما بھی ایک ایسا ہی ملک ہے۔ اس ملک میں اکثریت بدھ مذہب کے پیروکاروں کی ہے، جو عام طور پر اپنے آپ کو امن و شانتی کا علمبردار گردانتے ہیں۔ لیکن ان کا وہ رویہ جو انہوں نے گزشتہ کئی دہائیوں سے وہاں کے مسلم باشندوں کے ساتھ روا رکھا ہے، وہ نہایت شرمناک ہے اور اس سے ان کی اسلام و مسلم دشمنی کا پورا جذبہ نمایاں ہو جاتا ہے۔

حالیہ دنوں میں رونما ہونے والے سانحات میں اطلاعات کے مطابق صرف دس دنوں میں ہزاروں مسلمانوں کو تہہ تیغ کر دیا گیا۔ سینکڑوں بستیاں اجاڑ دی گئیں اور سینکڑوں ہی گاؤں خاکستر کر دئیے گئے ہیں، لاکھوں افراد کو ترک وطن پر مجبور کر دیا گیا ہے۔ مسلم اکثریتی علاقے اراکان میں کرفیو نافذ کرکے مساجد کو سیل اور مسلم علاقوں کو فوج نے محصور کر رکھا ہے۔ اطلاعات یہ بھی کہتی ہیں کہ یہ فسادات بدھ مذہب کے پیروکاروں نے اس وقت شروع کئے جب دو بدھ خواتین کے مسلمان ہونے کی خبر آئی، اس کے بعد وہاں جو خوفناک حالات پیدا ہوئے وہ انتہائی تکلیف دہ ہیں۔ ایک ایک گاؤں سے سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو زبردستی اٹھا کر غائب کر دیا گیا ہے، جہاں بعض کی کچھ وقت بعد لاشیں ملتی ہیں۔

برما کے مسلمانوں پر جو قیامت برپا ہے اس دُکھ، مصیبت کی گھڑی میں ترقی پسند اور نام نہاد امن پسند غیر مسلم طاقتوں کی اپنے ایجنڈے کی تکمیل پر خاموشی تو سمجھ میں آتی ہے، لیکن پوری دُنیا میں اسلامی ریاستوں کے سربراہوں سے لیکر مذہبی اور سیاسی راہنما تک اس انسانیت سوز واقع پرخاموش اور شرم ناک رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں۔ برما میں ہزاروں عورتوں، بوڑھوں، بچوں کے قتل ِ عام سے دیہات کے دیہات لاشوں اور خون سے بھرے ہیں، ندی نالوں، سڑکوں، جنگلوں میں برما کے مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ 

اس درندگی میں مسلمانوں کے شہر، بستیاں اور دیہات جلا کر خاکستر اور صفحہ ہستی سے مٹا دئیے گئے ہیں۔ اس ظلم اور بربریت کے خلاف مناسب طریقے سے احتجاج تو دور کی بات ہے، مناسب الفاظ میں ان مظالم کی مذمت تک نہیں کی جا رہی۔ خاص طور پر بے مقصد چیخنے چلانے اور بریکنگ نیوز کے لئے ہر وقت مضطرب، بے چین آزاد میڈیا نے برما کے مسلمانوں کے ساتھ دل دہلا دینے والے مظام پر دانستہ، مصلحتاً خاموشی اور بے حسی کی انتہا کر دی ہے۔

آج تمام غیر اقوام آپس کے اختلافات بھلا کر اسلام کے خلاف متحد ہوگئی ہیں۔ یہود ونصاریٰ اور تمام غیرمسلم بھوکے بھیڑیوں کی طرح مسلمانوں پر جھپٹ رہے ہیں۔ غیر مسلم طاقتیں ایک طرف تمام مسلم ممالک کے وسائل کو بے دردی سے لوٹ رہی ہیں تو دوسری جانب انہی وسائل ذریعے اُمت مسلمہ کے چھوٹے اور معصوم بچوں، جوانوں، بوڑھوں اور عورتوں کا قتل ِ عام کرنے سمیت اُمت مسلمہ کے درمیان مزید اختلافات اور پھوٹ ڈالنے کی حکمت عملی پر کامیابی سے عمل پیرا ہیں۔ ہم ہیں کہ خود فریبی میں مبتلا ہو کر دُنیا وآخرت سے بے فکر، جھوٹ، مکروفریب اور دھوکہ دہی میں لگے ہیں۔ آج دُنیا کی محبت اور چاہ نے ہمیں ایسے مواقع پر اپنے اسلاف کا کردار، شاندار ماضی اور آخرت سب کچھ بھلا دیا ہے۔

فلسطین کا مسئلہ ہو یا عراق کا، افغانستان ہو یا سوڈان، ہر جگہ مسلمان کی حیات کا دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے، ہر جگہ مسلمان پر ظلم ہو رہا ہے، لیکن ہمارے مسلمان ممالک کے حکمران چین کی پانسری بجا رہے ہیں، انہیں یہ بہتا ہوا خون کیوں نظر نہیں آتا؟ احکامات الٰہی سے غفلت، لالچ اور حب ِ دنیا کی اسی روش نے ہمیں کمزور اور بے بس کر دیا ہے کہ غیرمسلم اسلام کی مخالفت میں سخت اور دلیر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم بجائے ایک امت کے، ذاتی اغراض کا شکار ہو کر مختلف فرقوں میں بٹ گئے اور پورے عالم میں صرف مسلم ممالک ہی انتشار، بدامنی، خانہ جنگی اور غیر مسلموں کے عتاب کا شکار ہیں۔ آج اُمت مسلمہ نے اپنے رب کی بجائے نیٹو، امریکہ اور ڈالر پر بھروسہ کرلیا، اپنے رب کو بھلا دیا اور رب نے ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔اور یقین جانو خدا کے نزدیک قوم کو اس کے حال پر چھوڑ دینا بہت بڑی سزا ہے۔

کیسے نظرانداز کرسکتے ہیں ہم اس ظلم کو؟ کیا ہمیں ہزاروں فریاد کرتی لاشیں دکھائی نہیں دیتیں؟ کیا ہمیں مظلوموں کی صدا کہ ہماری مدد کو آئو سنائی نہیں دیتی؟ کہاں گئی ہماری غیرت و حمیت؟ ہمارے مسلمان بھائی فریاد کر رہے ہیں اور ہم ان کی طرف متوجہ نہیں؟ کیا قصور ہے ان کا؟ کیوں ان مظلوم مسلمانوں کو امریکہ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے؟ کیوں مسلم حکمران صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے؟ تمہیں اپنے مسلمان بھائی تو کافر دکھائی دیتے ہیں لیکن وہ دکھائی نہیں دیتے جو سر سے لیکر پائوں تک مسلمانوں کے خون میں نہائے ہوئے ہیں۔ افسوس ہے تم پر افسوس!

قصور کیا ہے برما میں بسنے والے مسلمانوں کا؟ برمی مسلمانوں کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ امت محمدیہ کا ایک حصہ ہیں، اگر وہ عیسائی یا یہودی ہوتے یا کم از کم گوری رنگت کے حامل ہی ہوتے تو پوری دنیا کا میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا، نیٹو کی افواج امن عالم کا نعرہ بلند کرتی ہوئی پہنچ جاتیں، امریکی قیادت کے دورے ہی ختم نہ ہوتے، یورپی یونین فوراً بیشتر پابندیاں عائد کر دیتی، اقوام متحدہ حقوق انسانی کی پامالی پر قراردادیں منظور کرتا ہوا اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتا، عرب شیوخ اتنی بڑی بڑی رقوم کے چیک پیش کرتے کہ آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں۔ لیکن افسوس کہ وہ بے چارے مسلمان تھے۔

رہبر معظم سید علی خا منہ ای نے فرمایا:
’’انسانی حقوق اور اخلاق کے بارے میں مغربی ممالک کے جھوٹے دعوے کا آشکار نمونہ، میانمار میں ہزاروں مسلمانوں کے قتل عام کے مقابلے میں ان کی خاموشی ہے ۔۔۔۔۔ مغربی تمدن نے ماضی میں بھی جہاں کہیں پاؤں رکھا ہے، وہاں انھوں نے تباہی وبربادی اور انسانوں کا استحصال ہی کیا ہے ۔۔۔۔۔ عزت و عظمت، معنوی و مادی پیشرفت و ترقی، اچھا و نیک اخلاق، دشمنوں پر غلبہ، قرآنی معارف و تعلیمات پر عمل کرنے کے ذریعہ ہی حاصل ہوگا۔‘‘

ہر کوئی مست ہے ذوقِ تن ِ آسانی ہے
تم مسلمان ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے نہ دولت ِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت ِ روحانی ہے؟
وہ زمانے میں معزز تھے مسلمان ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک ِ قرآن ہو کر
خبر کا کوڈ : 181026
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

منتخب
ہماری پیشکش