0
Sunday 23 Mar 2014 12:52

ناراض بلوچ بھائیوں سے مذاکرات آسان کام نہیں، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

ناراض بلوچ بھائیوں سے مذاکرات آسان کام نہیں، ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ

اسلام ٹائمز۔ وزیراعلٰی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کیساتھ مثبت مذاکرات کے اثرات بلوچستان میں بھی مرتب ہونگے۔ ناراض بلوچ بھائیوں سے مذاکرات آسان نہیں۔ لیکن ہم سب کے پاس جائینگے۔ جس کیلئے کوئی ڈیڈ لائن نہیں دے سکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کوئی انقلاب نہیں لا رہے۔ مخلوط حکومت ملکر مسائل پر قابو پانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال قدرے بہتر ہوئی ہے۔ کرائم ریٹ میں 33 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے پارلیمانی لیڈر نواب ثناءاللہ زہری، صوبائی وزیر اطلاعات عبدالرحیم زیارتوال سمیت دیگر صوبائی وزراء اور اعلٰی حکام بھی موجود تھے۔ انہوں نے کہا کہ بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کوئی سادہ مسئلہ نہیں۔ ہم مخلصانہ طریقے سے صوبے کے مسائل کو حل کرنے کیلئے کوششیں کر رہے ہیں۔ وفاقی حکومت کی جانب سے ہمیں اختیارات دیئے گئے ہیں۔ مسخ شدہ لاشوں اور لوگوں کو لاپتہ کرنے کے مسئلے کو کافی حد تک کنٹرول کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت نے طالبان کیساتھ مذاکرات کا جو سلسلہ شروع کیا ہے۔ ہم اس کی حمایت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ طالبان کیساتھ کامیاب مذاکرات کے مثبت اثرات بلوچستان میں بھی مرتب ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ کوئی بھی بندوق اٹھانے والا علیحدگی پسند نہیں اور نہ ہی ہم نے کوئی لکھیریں کھینچی۔ ہم سب کیساتھ ڈائیلاگ کرینگے اور سب کے پاس جائینگے۔ اس کیلئے کوئی ٹائم لائن نہیں دے سکتے۔ بلوچستان کی محرومیوں پر کچھ حلقوں کی ناراضگیاں ضرور ہے۔ لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ سب کے سب علیحدگی پسند ہے۔

ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ خان آف قلات اور دیگر ناراض بھائیوں سے مذاکرات ہو سکتے ہیں۔ اس کیلئے ہمارے پارلیمانی سیاسی جماعتوں کی مخلصانہ کوششیں شروع ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1985ء میں بھی ڈیموکریسی پر یقین نہیں رکھتا تھا اور بی ایس او کے پلیٹ فارم سے ہم جدوجہد کررہے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ہم نے پھر سے جمہوری راستہ اختیار کیا اور الیکشن پروسیس کے ذریعے اپنے عوام کے مسائل کے حل کیلئے جدوجہد شروع کی۔ ہم ناامید نہیں ہیں۔ بلوچستان کے عوام کے حقوق کیلئے جدوجہد کرتے رہینگے۔ انہوں نے کہا کہ خطے میں امن کیلئے ضروری ہے کہ دوست ہمسایہ ممالک کیساتھ تعلقات کو بہتر کیا جائے۔ اس کیلئے ہمیں خارجہ پالیسی کو ری وزٹ کرنے کی ضرور ت ہوگی۔ وزیراعلٰی نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنا موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ہمارے صوبے میں حالات کو بہتر کرنے کیلئے سیاسی اور انتظامی سطح پر اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ لیویز پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے ریفارمز لائی جا رہی ہے۔ کوئٹہ شہر میں 50 فیصد ایف سی کی چیک پوسٹیں ختم کردی گئی ہیں ماسوائے علمدار روڈ پر اس کے علاوہ پولیس کے 500 جوانوں کو پاک فوج کے تعاون سے بہترین تربیت دی گئی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کے واقعات پر کنٹرول کیا ہے۔ اغواء کے دو واقعات کیلئے بھی سکیورٹی فورسز کام کررہی ہے۔ جن میں ارباب عبدالظاہر کاسی اور دو غیر ملکیوں کا اغواء شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں توانائی کے بحران کو دور کرنے کیلئے دو ٹرانسمیشن لائنز اپریل تک مکمل کرلی جائینگی۔ جس کے بعد صوبے کی بجلی کی ضروریات پر کافی حد تک قابو پالیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ، چمن، پنجگور، ناگ ہائی ویز کی تعمیر پر کام تیزی سے جاری ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بلوچ علاقوں میں ترقیاتی کام نہ ہونے کے برابر تھی۔ موجودہ حکومت نے سب سے پہلے ان پر نظر انداز کئے جانیوالے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کا دوبارہ آغاز کیا۔ صوبے میں صحت کی سہولیات کو بہتر بنایا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم یہ دعویٰ نہیں کرتے کہ ہم کامیاب ہوگئے ہیں۔ کس حد تک کامیاب ہوئے اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے کہا کہ میڈیا کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچستان کے مسائل میں مثبت تبدیلیوں کو اجاگر کریں۔ امن و امان کا مسئلہ صرف بلوچستان میں نہیں بلکہ پورا ملک اس کی لپیٹ میں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال کو میڈیا بڑھا چڑھا کر پیش کرتا ہے۔

خبر کا کوڈ : 364886
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش