0
Thursday 27 Feb 2014 15:33

انقرہ تہران تعلقات میں بہتری اور شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر پر اس کے اثرات

انقرہ تہران تعلقات میں بہتری اور شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر پر اس کے اثرات
تحریر: غسان سعود

اسلام ٹائمز – لبنانی اخبار "النشرہ" کے معروف کالم نگار جناب غسان سعود اپنے کالم "کیا انقرہ – تہران روابط میں بہتری شام کی جانب تکفیریوں کا راستہ بند کر سکے گی؟" میں لکھتے ہیں:

سعودی عرب کی جانب سے حال ہی میں دہشت گردی کا مقابلہ کرنے اور اپنے شہریوں کو نام نہاد "جہاد شام" میں شرکت کی خاطر شام جانے سے روکنے پر مبنی نئے فیصلے کے اثرات بہت جلد ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ جہاد کے شوق میں شام کی جانب حرکت ایک ایسا عمل تھا جو شام میں جاری بحران کے آغاز سے اب تک خاص طور پر گذشتہ دو سالوں کے دوران بہت ہی زیادہ وسعت اختیار کر گیا تھا۔ اس دوران دنیا کے مختلف ممالک خاص طور پر خلیج فارس کے گرد عرب ریاستوں سے ہزاروں کی تعداد میں تکفیری دہشت گرد شام کی جانب روانہ ہوئے اور شام میں موجود تکفیری دہشت گرد گروہوں کی تشکیل میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کیا۔ یہ تکفیری دہشت گرد گروہ شام میں برسراقتدار صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانے کیلئے گذشتہ تین سالوں سے مسلح بغاوت کا آغاز کر چکے ہیں لیکن اب تک مطلوبہ اہداف حاصل کرنے میں بری طرح ناکامی کا شکار ہوئے ہیں۔

لیکن حال ہی میں سعودی حکومت کی جانب سے اپنے ملک سے تکفیری دہشت گرد عناصر کی شام روانگی کو روکنے پر مبنی فیصلہ ظاہر کرتا ہے کہ سعودی عرب شام میں اپنے مطلوبہ سیاسی اہداف کے حصول میں ناکامی کا شکار ہوا ہے جبکہ دوسری طرف شام حکومت دہشت گردی سے مقابلہ کرنے اور باہر سے تکفیری دہشت گرد عناصر کو اپنے ملک میں داخل ہونے سے روکنے میں انتہائی اہم کامیابیوں سے ہمکنار ہوئی ہے۔ لیکن سعودی عرب کے اس فیصلے سے زیادہ اہم بات جو اکثر سیاسی ماہرین اور محققین کی نظر میں امریکہ کی تائید اور نظارت کے تحت سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کی راہ کو ہموار کرتی نظر آتی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران اور ترکی کے درمیان فاصلوں کا کم ہونا ہے۔

شام کے بحران پر کڑی نظر رکھنے والے اکثر سیاسی ماہرین کا خیال ہے کہ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کی جانب سے بے دریغ حمایت اور مدد کے علاوہ شام میں تکفیری مسلح دہشت گرد گروہوں کا تیزی سے نشوونما پانے اور ابھر کر سامنے آنے میں دو بڑے عوامل کارفرما تھے۔ ان میں سے پہلا عامل شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانے میں خلیج فارس کی تقریبا تمام عرب ریاستوں کا ایکا کر لینا اور شام کو "سرزمین جہاد" قرار دیتے ہوئے وہاں پر سرگرم تکفیری مسلح دہشت گرد گروہوں کی مالی اور فوجی امداد کو اپنا وظیفہ سمجھتے ہوئے اس کی ذمہ داری قبول کرنا تھا۔ لیکن اس امر کا دوسرا بڑا عامل جو زیادہ اہم نظر آتا ہے وہ شام میں تکفیری دہشت گرد عناصر کی منتقلی اور ان کو درکار فوجی سازوسامان کی فراہمی اور دوسری لجسٹک سپورٹ کیلئے ایک پرامن راستہ مہیا کرنا تھا۔ ترکی نے نہ صرف ان دہشت گرد عناصر کو محفوظ راستہ فراہم کیا بلکہ اپنے تمامی ملکی وسائل اور صلاحیتیں بھی ان کو پیش کر دیں اور اس طرح ترکی کی حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی دنیا بھر کے تکفیریوں کیلئے شام جانے کی ایک بڑی گزرگاہ اور ان کے تمام تر فوجی سازوسامان اور مالی وسائل کیلئے ایک حقیقی اور محفوظ پناہ گاہ میں تبدیل ہو گئی۔ دوسری طرف ترکی ان تکفیری دہشت گرد عناصر کے درمیان ارتباطات اور اطلاع رسانی کا ایک بڑا مرکز بھی بن گیا۔ اگر ترکی شام میں برسراقتدار سیاسی نظام کے خاتمے اور صدر بشار اسد کی سرنگونی کی کوششوں میں تکفیری دہشت گرد عناصر کا ساتھ نہ دیتا تو ان کے پاس شام میں گھسنے کے صرف دو ہی راستے باقی رہ جاتے تھے، ایک عراق اور دوسرا لبنان کے سرحدی علاقوں سے۔ جبکہ دوسری طرف سعودی عرب کو بھی اپنے تکفیری دہشت گرد شام میں داخل کرنے کیلئے محفوظ راستہ نہ مل پاتا۔

ترکی کی جانب سے انجام پانے والے یہ اقدامات ایران کے ساتھ اس کے تعلقات پر بری طرح اثرانداز ہوئے۔ گذشتہ دو سالوں کے دوران تہران – انقرہ تعلقات پر پڑنے والے ترکی کے ان فیصلوں کے شدید منفی اثرات آسانی سے قابل مشاہدہ ہیں۔ لیکن اسی دوران بعض ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے ترک حکومت کی آنکھیں کھول کر رکھ دیں۔ مثال کے طور پر عرب دنیا میں ترکی کو شام سے متعلق مخصوص پالیسی اختیار کرنے پر کوئی خاص پذیرائی حاصل نہیں ہوئی جبکہ دوسری طرف اس کی یہ پالیسی ایران کے ساتھ اس کے تجارتی تعلقات پر بری طرح اثرانداز ہوئی اور ترکی کو اس کے نتیجے میں بھاری نقصانات برداشت کرنے پڑے۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ مغربی دنیا نے ترکی میں اٹھنے والی عوامی بغاوت کی بھی حمایت کر دی جس کے نتیجے میں وزیراعظم رجب طیب اردگان کو اپنی حکومت کی بنیادیں ہلتی ہوتی دکھائی دینے لگی۔ یہ تمام حقائق ترکی کے ایران کی جانب واپس لوٹنے کا باعث بنے اور ترکی کے وزیراعظم جناب رجب طیب اردگان نے اپنے دورہ تہران کے ذریعے دنیا والوں کو یہ بتا دیا کہ شام اور خطے سے متعلق ترکی کی سابقہ پالیسیاں بحال کر دی گئی ہیں۔ اس دورے میں انقرہ اور تہران کے درمیان ۳۰ ارب ڈالر کے تجارتی معاہدے طے پائے۔

سفارتی ذرائع سے حاصل ہونے والی معلومات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ترکی اور ایران کے درمیان انجام پانے والے مذاکرات میں شام اور اس میں جاری بحران کا مسئلہ بھی زیر بحث آیا ہے۔ شام کے شمال میں ترکی کی سرحد سے قریب علاقوں میں تکفیری دہشت گرد گروہوں کی ایکدوسرے کے ساتھ مسلح جھڑپوں میں شدید اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جس کی وجہ سے ترکی کے عوام کی جانب سے وزیراعظم رجب طیب اردگان کی حکومت کے خلاف تنقید میں شدت آ گئی ہے اور حتی ترکی کی اعتدال پسند مذہبی جماعتوں نے بھی حکومت پر تنقید کرنا شروع کر دی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ترکی کے عوام اور سیاسی جماعتیں واضح طور پر دیکھ رہے تھے کہ اگر وزیراعظم رجب طیب اردگان شام سے متعلق اپنی نئی پالیسی پر گامزن رہتے ہیں تو اس کے نتیجے میں ترکی بھی غیرارادی طور پر شام کے بحران میں کھنچتا چلا جائے گا اور سب سے زیادہ اہم یہ کہ تکفیری دہشت گرد گروہوں کا خطرہ اسے بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔

لہذا سیاسی ماہرین کی نظر میں ترکی کی جانب سے اس نئی پالیسی کو اپنائے جانے کے بہت مثبت نتائج ظاہر ہوں گے جن میں سے ایک اہم نتیجہ ترکی بارڈر بند ہو جانے کے باعث تکفیری دہشت گرد عناصر کے شام میں داخلے کا ایک اہم روٹ بند ہو جانے کی صورت میں ظاہر ہو گا۔ تکفیری دہشت گرد گروہوں کی مشکلات کو صحیح طور پر تصور کرنے کیلئے عراقی حکومت کی جانب سے انجام پانے والے اقدامات پر بھی نظر ڈالنا ضروری ہے۔ عراق نے بھی شام کے ساتھ اپنا بارڈر بند کرتے ہوئے سعودی عرب اور شام کی سرحدوں کے درمیان واقع صوبہ الانبار میں وسیع پیمانے پر تکفیری گروہوں کے خلاف فوجی آپریشن شروع کر رکھا ہے۔ عراق کا صوبہ الانبار ایک عرصے سے تکفیری دہشت گرد عناصر خاص طور پر سعودی حمایت یافتہ داعش گروپ سے وابستہ دہشت گردوں کیلئے سعودی عرب سے شام جانے کیلئے ایک محفوظ راستے کے طور پر استعمال ہو رہا تھا۔

ترکی اور ایران کے درمیان انجام پانے والے مذاکرات کے مثبت اثرات کا ایک اور نمونہ کچھ ہی دن قبل شائع ہونے والی خبر کی صورت میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ علاقائی اور بین الاقوامی خبررساں اداروں نے اعلان کیا ہے کہ ترکی نے شام کے حکومت مخالف گروہوں کے سربراہان اور سیاستدانوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جلد از جلد ترکی کی سرزمین کو ترک کر دیں۔ شام کے حکومت مخالف سیاسی اتحاد کے قریبی ذرائع کے بقول ترکی کے اس مطالبے کی بڑی وجوہات میں تہران اور انقرہ میں بڑھتی ہوئی قربتیں، ترکی کے اندر جنم لینے والے اعتراضات، وزیراعظم رجب طیب اردگان کی حکومت کو درپیش اقتصادی مشکلات اور تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی جانب سے ترکی کی سرحد سے ملحقہ علاقوں میں مسلسل دہشت گردانہ کاروائیاں شامل ہیں۔ دوسری طرف شام کے حکومت مخالف سیاسی اتحاد سے وابستہ بعض دوسرے ذرائع کا دعوی ہے کہ ترکی کی جانب سے اس مطالبے کی اصل وجہ شام کے حکومت مخالف اتحاد کی جانب سے اخوان المسلمین سے دوری اور سعودی عرب سے دوستی ہے۔ ترکی اخوان المسلمین کو اپنا اتحادی تصور کرتا ہے جبکہ سعودی عرب کو خطے میں اپنا رقیب قرار دیتا ہے۔ لہذا شام کے حکومت مخالف سیاسی اتحاد کی جانب سے سعودی عرب کے ساتھ پینگیں بڑھانا ترکی کی ناراضگی کا سبب بنا ہے۔

یہ باخبر ذرائع کہتے ہیں:
"اس وقت شام کا حکومت مخالف سیاسی اتحاد مصری حکومت کے ساتھ گفتگو کرنے پر مجبور ہو گیا ہے تاکہ اس طرح انہیں قاہرہ میں اپنا مرکزی دفتر بنانے پر راضی کر سکے لیکن اس ضمن میں انہیں ایک بڑی مشکل درپیش ہے وہ یہ کہ چونکہ مصر میں اس وقت حکومت اور اخوان المسلمین کے درمیان شدید چپقلش پائی جاتی ہے لہذا مصری حکومت شام کے حکومت مخالف سیاسی اتحاد کو زیادہ اہمیت نہیں دے رہی"۔

دوسری طرف سعودی حکام نے شام کے حکومت مخالف سیاسی رہنماوں پر کڑی نگرانی لگا رکھی ہے اور انہیں قطر سے قریب ہونے نہیں دیتے۔ البتہ دوحہ خود بھی شام کے حکومت مخالف سیاسی اتحاد کو زیادہ اہمیت نہیں دیتا کیونکہ اس اتحاد کا سربراہ یعنی احمد الجربا پوری طرح سعودی عرب سے وابستہ ہے اور یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں۔ اسی طرح باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ شام مخالف سیاسی اتحاد کا ایک وفد تیونس بھی گیا ہے اور وہاں پر النھضہ تنظیم کے رہنماوں سے ملاقات کی ہے۔ اس وفد نے اپنی ملاقات میں النھضہ کے رہنماوں سے درخواست کی ہے کہ وہ تیونس میں انہیں مرکزی دفتر قائم کرنے کی اجازت دے دیں۔ لیکن تیونس کے اندرونی حالات اس بات کی اجازت نہیں دیتے۔ خاص طور پر اس وقت جب شام کی خانہ جنگی میں تقریبا ۲۴۰۰ تیونسی باشندے بھی تکفیری دہشت گروہوں کے حق میں لڑتے ہوئے مارے جا چکے ہیں۔ یہ امر تیونس میں النھضہ تنظیم کی پوزیشن بھی کمزور ہونے کا باعث بنا ہے۔ شام کے حکومت مخالف سیاسی گروہوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف ترکی اور قطر کے درمیان اختلافات اور اسی طرح ترکی اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات کا شدت اختیار کرنا اور دوسری طرف ترکی اور ایران کے درمیان تعلقات میں بہتری ان کیلئے بہت نقصان دہ ثابت ہوئی ہے اور انہیں اپنا مستقبل خطرے میں پڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 355521
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش