0
Monday 21 Jul 2014 10:46

حقانی نیٹ ورک کا ایک مکروہ دھندہ

جنسی تسکین کیلئے نوعمر لڑکوں کی بھرتی
حقانی نیٹ ورک کا ایک مکروہ دھندہ
رپورٹ: ایس این حسینی

افغانستان اور پاکستان کافی عرصہ سے عسکریت پسندی کی لعنت سے متاثر ہیں، افغانستان میں روسی افواج کی مداخلت کے بعد سے یہ دونوں ممالک اس آگ میں جل بھن رہے ہیں، جس سے آج تک لاکھوں افراد متاثر ہوچکے ہیں، لاکھوں اپاہج اور لاکھوں زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ عسکریت پسند اور انکے کمانڈرز کا مقصد اگر نیک ہے تو انہیں چاہئے کہ وہ غیر شرعی امور سے اجتناب برتتے، بے گناہ عوام کا خون نہ کرتے۔ مگر انہیں اس کا کوئی خیال نہیں، ان کے نشانے سے نہ مساجد محفوظ رہی ہیں، نہ امام بارگاہیں، مزارات سالم رہے نہ مذھبی اجتماعات۔ 

کیا مجاہد ایسے ہوتے ہیں
شروع شروع میں ان دونوں مملک میں عسکریت پسندوں کو مجاہدین کے نام سے یاد کیا جاتا تھا اور انہیں عوام میں کسی حد تک احترام بھی حاصل تھا، لیکن رفتہ رفتہ عوام پر یہ آشکار ہونا شروع ہو گیا ہے کہ یہ نام نہاد جہادی، مجاہدین نہیں بلکہ انکی اکثریت ڈاکووں، لٹیروں اور زناکاروں پر مشتمل ہے۔ ان دونوں ممالک میں عسکریت پسندوں کی جانب سے نت نئے جرائم منظر عام پر آرہے ہیں، ان میں سے ایک جرم جسے حال ہی میں میڈیا نے اجاگر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ جہاد کے نام پر یہ عسکریت پسند نو عمر لڑکوں کو بھرتی کراکے، پہلے اپنی جنسی ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، بعد میں انہیں جنت کی چابی دیکر بے گناہ عوام کو مارنے کی غرض سے خودکش دھماکہ کرنے کے مشن پر بھیجتے ہیں۔ 

جنسی تسکین کے لئے نوعمر بچوں کی بھرتی
عسکریت پسندوں کی جانب سے اپنے مذموم مقاصد کے لیے بھرتی کیے جانے والے نو عمر لڑکوں کے ساتھ مبینہ جنسی زیادتی کا ارتکاب بہت عام ہوچکا ہے۔ چند ماہ پہلے بعض غیر ملکی اخبارات نے لڑکوں پر طالبان کے جنسی حملوں کے حوالے سے جو انکشافات کئے تھے، اسکے بعد پاکستانی اور افغان حکام کو دیگر عسکریت پسند گروپوں میں بھی اس طرح کی زیادتیوں کے واقعات کا پتہ چلا ہے۔ حقانی نیٹ ورک میں بھرتی ہونے والے ایک متاثرہ کم عمر لڑکے سمیع اللہ نے گذشتہ سال یو ٹیوب پر پوسٹ ہونے والے ایک وڈیو پیغام میں بتایا تھا کہ اسے لڑکیوں کا لباس پہنا کر چار راتوں تک جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔ اس نے کہا کہ محمد نامی میرے ایک دوست کا بھی یہی حشر کیا گیا۔ افغان قومی نظامت برائے سلامتی کی 2013ء کی اس وڈیو میں سمیع اللہ بتاتے ہیں کہ شمالی وزیرستان میں حقانی نیٹ ورک کے کمانڈروں نے اسکے ساتھ جنسی زیادتی کی ہے۔ 

افغان نظامت کی جانب سے سمیع اللہ والے واقعے کی جانچ پڑتال

بھرتی کے دوران سمیع اللہ کی عمر 16 سال تھی اور وہ افغانستان کے شہر خوست میں ایک ریستوران پر ملازمت کر رہا تھا کہ ہمایوں نامی ایک شخص نے اسے حقانی نیٹ ورک کے لئے بھرتی کرلیا۔ عسکریت پسندوں نے سمیع اللہ کو پاکستان کے قبائلی خطے میں تربیت دینے کے بعد صوبہ خوست کے گورنر کو قتل کرنے کے مشن پر روانہ کر دیا، مگر خودکش بم دھماکہ کرنے سے قبل ہی سکیورٹی اہلکاروں نے اسے پکڑ لیا۔ افغان قومی نظامت برائے سلامتی نے بتایا کہ تحقیقات کے دوران سمیع اللہ نے بعض ہتھکنڈوں کی تفصیلات بتائیں جو عسکریت پسند تربیت کے دوران استعمال کرتے تھے۔ نظامت نے گذشتہ سال دسمبر میں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک کے کمانڈر دہشتگردی کی کارروائیوں کی تربیت حاصل کرنے والے نو عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا ارتکاب کرتے ہیں۔ 
نظامت کے حکام نے حال ہی میں میڈیا کو یہ بھی بتایا تھا کہ وہ اس طرح کے الزامات کو سنجیدگی سے لیتے ہیں، خاص طور پر جب کوئی لڑکا مخصوص اطلاع فراہم کرتا ہے۔ مثال کے طور پر سمیع اللہ نے حقانی نیٹ ورک کے کمانڈروں موسٰی اور محمد کلیم کا نام لیا، جنہوں نے اسکے ساتھ جنسی زیادتی کی تھی۔ یہ دونوں کمانڈر آپس میں بھائی ہیں۔ 

جنسی زیادتی کے طویل المیعاد اثرات

سائیکالوجسٹ (ماہرین نفسیات) کا کہنا ہے کہ جنسی حملے ایک سماجی مسئلہ ہیں جسے حل کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ معاشرے پر انکے دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ایک تشویش ناک پہلو تو یہ ہے کہ اس سے بیماریاں پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے، مگر ماہرین نفسیات کے مطابق زیادہ پریشان کن امر ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والی ذہنی اذیت ہے جو خاندانوں اور معاشرتی ڈھانچے کو تباہ کرسکتی ہے۔ ایک ماہر نفسیات خالد مفتی نے کہا کہ جنسی زیادتی کی اذیت سے گزرنے والے بچے مردوں سے نفرت کرنے لگتے ہیں، جن میں ان کے اپنے خاندان کے مرد بھی شامل ہوسکتے ہیں۔ یہ اذیت بعد میں ان کی ازدواجی زندگی پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ جنسی زیادتی کا نتیجہ غصے کے مسائل کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے، جہاں متاثرین اپنے مسائل کو حل کرنے کا بہترین طریقہ تشدد کو سمجھنے لگتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بار بار پیش آنے والے واقعات ان خلاف ورزیوں کا محض معمولی سا حصہ ہیں۔ 

بچہ بازی کوئی نئی بات نہیں
سمیع اللہ کا معاملہ کوئی منفرد نہیں ہے۔ نیز جنسی زیادتی کے الزامات بھی کوئی نئی چیز نہیں ہیں۔ نظامت کے بیان کے مطابق افغانستان کے صوبہ ہرات میں گرفتار ہونے والے متوقع خودکش بمبار نعمت اللہ نے بھی حکام کو بتایا تھا کہ عسکریت پسندی کی تربیت کے دوران اسے اور اسکے بہت سے ساتھیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پشاور یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر سرفراز احمد نے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ 1990ء کے عشرے میں طالبان پر یہ الزام تھا کہ وہ لڑکوں کا جنسی استحصال کرتے ہیں۔ اس عمل کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ پاک افغان قبائلی پٹی میں جاری جنگ میں یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا یہ تصور کافی عام ہے اور اسے مقامی زبان میں ‘‘بچہ بازی’’ یا "لڑکوں سے محظوظ ہونا" کہا جاتا ہے۔ 

جنسی زیادتیوں کی مذمت

پشاور یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر اعجاز خان نے اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ یہ معاشرے میں جرائم کی سرایت کر جانے کا نتیجہ ہے کہ مذہبی شدت پسند مذہب کے نام پر کھیل رہے تھے اور اس طرح کے قبیح افعال میں بھی ملوث تھے۔ تاہم حال ہی میں معاشرے کے ایک بڑے حصے نے انصاف کی فراہمی کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔ خامہ پریس کے مطابق افغانستان کے آزاد انسانی حقوق کمیشن نے بھی تاکید کی ہے کہ نو عمر لڑکوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ان کی جنسی غلامی کو روکنے کے لئے فوری اقدامات اٹھائے جائیں۔ کرم ٹیچرز ایسوسی ایشن کے سابق صدر ماسٹر سید زاہد حسین کہنا تھا کہ یہی تو وجہ ہے کہ آج تک افغانستان اور پاکستان میں سرگرم یہ فسادی ٹولہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکا، کیونکہ انکا مشن صاف نہیں ہے، کوئی جہاد نہیں بلکہ یہ لوگ پہلے ہی دن، جب محاذ پر جاتے ہیں تو انہیں جنسی تسکین کے حوالے سے نیز مالی طور پر مطمئن کر دیا جاتا ہے، چنانچہ یہ لوگ محاذ پر اپنی جنسی تسکین کے حصول اور پیسہ بٹورنے کی نیت سے جاتے ہیں۔ انکی نیت پہلے دن سے ہی صاف نہیں ہوتی۔ 

مسئلے کا سدباب
پاکستان میں سرگرم سیاسی کارکنوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ بچوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کی سابق رکن پارلیمنٹ یاسمین ضیاء نے کہا کہ حقیقی معنوں میں یہ ایک خطرناک رجحان ہے۔ طالبان یا کوئی بھی جنگی سردار جو اس طرح کی انسانیت سوز سرگرمیوں میں ملوث ہو، اسے قرار واقعی سزا دینے کی ضرورت ہے، کیونکہ جنسی زیادتی ایک گناہ کبیرہ ہے اور اسکے مرتکب افراد کے لئے واضح سزائیں متعین ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم اپنے بچوں کا تحفظ نہیں کرسکتے تو یہ ہماری ناکامی ہے۔ مسئلے کے سدباب کے حوالے سے پاراچنار میں جب ماسٹر شوکت حسین سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں میڈیا اس کا زبردست علاج ہے، اس مسئلے کو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر پوری شدت سے اٹھانا چاہئے، تاکہ اسلام کے نام پر ان شرپسندوں کی اصلیت کا لوگوں کو درست اندازہ ہوسکے، عوام کو پتہ چلے کہ یہ جہادی ہیں یا اپنے مقاصد کے حصول کے لئے دنیا بھر سے چور، ڈاکو، لٹیرے، زناکار اور معاشرے کے سنگین مجرم جمع ہوچکے ہیں۔ 

اس جرم کیلئے اسلامی سزا کیا ہے؟
لڑکوں کے ساتھ بدفعلی کے اس مذموم دھندے کے متعلق اسلامی قوانین کے حوالے سے پاراچنار میں قائم مدرسہ آیۃ اللہ خامنہ ای کے استاد مولانا مرزا حسین سے جب پوچھا گیا تو انکا کہنا تھا کہ اسلام میں بعض گناہوں کے لئے حدود یعنی سزائیں مقرر ہیں۔ مثلاً چور کا ہاتھ کاٹنا، زناکار کو کوڑے مارنا یا سنگسار کرنا وغیرہ، لیکن ان تمام سزاؤں میں سب سے سنگین سزا لوطی (لواطہ کرنے اور کرانے والے) کے لئے مقرر ہے، یعنی نعوذ باللہ من ذالک، ہم جنس پرستوں کی سزا سب سے سخت ہے، انکے لئے کئی سزائیں تجویز کی گئی ہیں، جن میں ہاتھ پاؤں باندھ کر پہاڑ سے گرانا، تلوار سے سر جدا کرنا اور آگ میں زندہ ڈال کر جلانا شامل ہے۔
خبر کا کوڈ : 400629
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش