0
Sunday 9 Mar 2014 09:56
بکے ہوئے قلم اور زبانیں اسلام کی سربلندی کی رکاوٹیں ہیں

جو قرآن و اہلبیت علیہم السلام کو چھوڑ کر بڑی طاقتوں (استکبار) کے سامنے جُھکا وہ ذلیل و خوار ہوگیا، مولانا علی محمد جان

جو قرآن و اہلبیت علیہم السلام کو چھوڑ کر بڑی طاقتوں (استکبار) کے سامنے جُھکا وہ ذلیل و خوار ہوگیا، مولانا علی محمد جان
مولانا علی محمد جان کا تعلق مقبوضہ کشمیر کے وسطی ضلع بڈگام سے ہے، ابتدایی تعلیم آبائی گاؤں خندہ میں حاصل کی، تقریباً 3 سال جامعة اھل بیت نئی دہلی میں دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایران چلے گئے، جہاں پر 18 سال تک دینی تعلیم حاصل کرتے رہے اور اب ایران میں درس خارج سے فیضیاب ہورہے تھے، کسب فیض استاد محترم حضرت آیت ناصر مکارم شیرازی اور حضرت آیت اللہ جعفر سبحانی سے کرتے رہے، آج کل اپنے آبائی گاؤں میں اہم تبلیغی خدمات انجام دے رہے ہیں اور روزانہ دینی مسائل، احادیث اور تعلیم قرآن سے مومنین کو مستفید کرتے ہیں، علماء کشمیر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے سلسلے میں آپ کا رول کلیدی رہا ہے، اسلام ٹائمز نے مولانا علی محمد جان سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: اس مادہ پرستی کے دور میں عالم اسلام کے لئے بہترین نمونہ اور مشغلِ راہ کیا ہوسکتا ہے۔؟

مولانا علی محمد جان: اس مادہ پرستی کے دور میں عالم اسلام کے لئے بہترین نمونہ قرآن اور پیامبر اور ان کے اھلبیت (ع) کی سیرت ہے قرآن نے بھی اس طرف اشارہ کیا ہے: ایمان والو! اللہ سے ڈرو تقوائے الہی اختیار کرو اور وہاں تک جانے کا وسیلہ اختیار کرو اور راہ خدا میں جہاد کرو کہ شاید کامیاب ہوجاؤ۔ کامیابی کا راستہ چار چیزوں سے مرکب ہے، ایمان، تقوی، وسیلہ اور جہاد، یہ چار عناصر ہو تو کامیاب ہونے کی امید ہے کیونکہ طاقت، قدرت اور عزت کا حاصل کرنا تقوی الہی اور قرآن مجید سے تمسک اور غیر خدا سے نہ ڈرنے کے سایہ میں حاصل ہوتی ہے، بقول اقبال: آج بھی ہو جو ابراھیم کا ایمان پیدا، آگ کرسکتی ہے انداز گلستان پیدا۔

اسلام ٹائمز: کیوں عالم اسلام دن بہ دن تنزلی و پستی کا شکار ہورہا ہے۔؟

مولانا علی محمد جان: قرآن کریم اپنی دلنشین اور خوبصورت آیات میں تین چیزوں کو انسان کی شدید ترین ضرورت شمار کرتا ہے، 1۔ اللہ پر ایمان، اس بات پر ایمان کہ دنیا کا ایک مالک ہے جس کا نام خدا ہے با الفاظ دیگر دنیا کی روحانی تفسیر، 2۔ رسول اکرم (ص) اور اس کی رسالت یعنی ایسی آزادی بخش اور زندہ و جاوید تعلیمات پر ایمان جو روحانی بنیادوں پر معاشرہ کے کمال کی تفسیر کریں اور ظاہری زندگی کو باطنی روحانی رنگ دیں، 3۔ خدا کی راہ میں جان و مال سے جہاد، (اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آ اور راہ خدا میں اپنے جان و مال سے جہاد کرو (سورہ صف ١١) مختلف مکاتب و مسالک اور ادیان و مذاھب کے درمیان صرف اسلام ہی ان تینوں ضروریات کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اسلام کے ظہور کو چودہ سو سال گذر جانے کے باوجود بھی دنیا اسی قدر اس کی محتاج ہے جتنی روز اول تھی، جس دن ان ضروریات کا احساس عام ہوجائے گا (اور وہ دن دور نہیں) اس دن انسان کے پاس اپنے آپ کو اسلام کی آغوش میں ڈال دینے کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا، اس تناظر میں دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ عالم اسلام اس وجہ سے تنزلی کا شکار ہورہا ہے کہ اس نے اپنے اس مذھب کو چھوڑ دیا ہے جو ہر حوالے سے بے نیاز ہے بقول علامہ اقبال: یہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے، ہزار سجدہ سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔ بقول شیخ محمد عبدہ: یورپ نے جس دن سے اپنے مذہب کو چھوڑا ہے ترقی کی ہے اور ہم نے جس دن سے اپنے مذھب کو ترک کیا ہے زوال میں مبتلا ہوئے ہیں۔ان دو مذھب کا فرق یہیں سے واضح ہو جاتا ہے، یورپ نے عالم اسلام سے تعلق پیدا ہونے کے بعد اپنا مذھب چھوڑا اور یہ امر اسلامی اقدار کی جانب رجحان کی صورت میں وقوع پذیر ہوا، لہذا آج بھی عالم اسلام اگر اپنی کھوئی ہوئی عزت اور وقار کو حاصل کرنا چاہیے تو اسے چاہیے قرآن کے سائے میں اپنی زندگی گزاریں۔

اسلام ٹائمز: الہی ہادی اور الہی دستور کے ہوتے ہوئے کیوں مسلمان بغیر ہدایت زندگی گزار رہے ہیں۔؟

مولانا علی محمد جان: ظاہر سی بات ہے کہ جب خداوند عالم نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے ایمان والو بس تمہارا ولی اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قایم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں۔ اور جو بھی اللہ، رسول اور صاحبان ایمان کو اپنا سرپرست بنائے گا تو اللہ کی ہی جماعت غالب آنے والی ہے (سورہ مائدہ ٥٥، ٥٦) ان دو آیت کریمہ میں الہی ہادی کی تصریح کی گئی ہے لیکن امت مسلمہ نے جو سب سے پہلا کام کیا کہ ان دونوں (الہی ھادی اور الہی دستور) کو چھوڑ دیا ہے پھر کیسے یہ امت ہدایت پاسکتی ہے یہ ایسی بات کہ ڈاکٹر دوائی لکھ کر دے اور ہم نے خرید کر گھر میں رکھی آج تک اگر کوئی دوائی گھر میں رکھنے سے ٹھیک ہوجاتا تو امت مسلمہ بھی گھروں میں قرآن رکھ کر ھدایت پا سکتی ہے غدیر خم جو روز امامت، روز کمال دین، روز اتمام نعمت اور کفار کی مایوسی کا دن ہے، بھول گئے اب ھدایت کیسے ملے گی اور جو قرآن و اھلبیت علیہم السلام کو چھوڑ کر بڑی طاقتوں (استکبار) کے سامنے جُھکا وہ ذلیل و خوار ہوگیا، بقول اقبال: کون ہے تارک آئین رسول مختار؟ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا میعار؟ کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعار اغیار؟ ہو گئی کس کی نگہ طرز سلف سے بیزار؟ قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں، کچھ بھی پیغام محمد کا تمہیں پاس نہیں، ہمارے پاس الہی دستور بھی اور الہی ھادی بھی ہے لیکن کہنے کی حد تک ہم ان سے تمسک کر رہے ہیں عملی طور پر ہم ان سے کوسوں دور ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلمانوں کے درمیان آپسی رسہ کشی، تناؤ و تضاد موجود ہے اس کے کیا وجوہات ہوسکتی ہیں۔؟

مولانا علی محمد جان: جب سے مسلمانوں نے الہی تعلیمات کے سایہ میں جینا چھوڑ دیا تب سے مسلمانوں کے درمیان آپسی رسہ کشی پیدا ہوگئی ہے تعلیمات الہی یہ تھی اور اللہ اور اس کے رسول (ص) کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو کہ کمزور پڑجاؤ اور تمہاری ہوا بگڑجائے (سورہ انفال ٤٦) تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم تم خطاکار و خطا بین، وہ خطا پوش و کریم، چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوج ثریا پہ مقیم پہلے ویسا کوئی پیدا تو کر یقلب سلیم تخت فغفور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی یوں ہی باتیں ہیں، کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟ خودکشی شیوہ تمہارا، و غیور و خوددار تم اخوت سے گریزاں، وہ اخوت پہ نثار تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار، تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بکنار۔

اسلام ٹائمز: اتحاد بین المسلمین کے لئے عالمی سطحہ پر ایران اور علماء ایارن کی کاوشوں کو جاننا چاہیں گے۔؟

مولانا علی محمد جان: میں سمجھتا ہوں انقلاب اسلامی سے پہلے بھی علماء اور مجتہدین کی طرف سے اتحاد و وحدت کی دعوت دیتے رہیں تاریخ کے اوراق ٹٹولنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر دور میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے مجتہدین نے مختلف مکاتب فکر کے درمیان اتحاد اور وحدت کی دعوت دی ہے لیکن انقلاب کے بعد ذرایع ابلاغ بھی نظام کا ایک حصہ ہے انقلاب سے پہلے میڈیا اس کوریج نہیں دیتا تھا اس وقت میڈیا اس کی فل کوریج دے رہا ہے، انقلاب اسلامی کے بانی حضرت امام خمینی (رہ) نے مسئلہ اتحاد و وحدت کو اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے قرار دیا ہے اس لئے بار بار انہوں نے فرمایا: جو بھی شیعہ و سنی کے درمیان تفرقہ ڈالے گا نہ وہ شیعہ نہ سنی، ایک اور مقام پر فرمایا: آپ لوگ ہاتھ کھولنے اور جوڑنے کی بات کر رہے ہیں دشمن دونوں ہاتھوں کو کاٹنا چاہتا ہے، کبھی اس طرح فرمایا: اگر ہم متحد ہوتے تو پھر کیسا ممکن تھا ھندو ہم سے پیارا کشمیر چھین لے اور اسرائیل ہم سے فلسطین چھینے اور ہم کچھ نہ کرسکے، اسطرح بانی انقلاب نے مختلف مناسبتوں سے مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی، کبھی ہفتہ وحدت کو پیش کرکے رحمت للعالمین کے سائے میں اکٹھا کرنے کی کوشش کی تو کبھی یوم القدس کو وحدت کا منشور بنا کر پیش کیا۔

اسی طرح بانی انقلاب کے وارث نے اتحاد و وحدت کو اپنا منشور قرار دیتے ہوئے فرمایا: اتحاد بین المسلمین کے لئے جو علم وقت کے ولی امر مسلمین نے اُٹھا کے رکھا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ولی امر مسلمین فرماتے ہیں مقدسات کی توہین اسلامی نظام کے نقطہ نگاہ سے ایک دوسرے کے مقدسات کی بے حرمتی ریڈ لائن کا درجہ رکھتی ہے، جو افراد نادانستہ طور پر، غفلت میں پڑ کر یا بعض اوقات اندھے اور نامعقول تعصب کی بنا پر، خواہ وہ شیعہ ہوں یا سنی، ایک دوسرے کے مقدسات کی بے حرمتی کرتے ہیں انہیں اس کا ادراک ہی نہیں ہے کہ وہ کر کیا رہے ہیں؟ دشمن کے بہترین حربے یہی افراد ہیں، شیعہ اور سنی دونوں ہی اپنے اپنے مذہبی پروگرام، اپنے اپنے طور طریقے اور اپنے اپنے دینی امور انجام دیتے ہیں اور انہیں دینا بھی چاہئے، ریڈ لائن یہ ہے کہ ان کے درمیان مقدسات کی بے حرمتی کی بنا پر خواہ بعض شیعہ افراد غفلت میں پڑ کر اس کے مرتکب ہوں یا سنی حضرات جیسے سلفی اور دیگر مسلکوں کی جانب سے دیکھنے میں آتا ہے کہ ایک دوسرے کی نفی کرنے پر تلے رہتے ہیں، اس طرح کا کوئی کام انجام دیں تو یہ در حقیقت وہی چیز ہوگی جو دشمن کی مرضی کے مطابق ہے، ایسے مواقع پر آنکھیں کھلی رکھنے کی ضرورت ہے، امت اسلامیہ میں تفرقے کے اندیشے دشمنان اسلام کا طمع و لالچ اس وقت عالم اسلام میں ہمیں در پیش سب سے بڑا خطرہ تفرقہ کا ہے، اگر ہم ایک دوسرے سے الگ الگ ہوں گے تو ہمیں دیکھ کر دشمن کے حوصلے بلند ہوں گے، عالم اسلام کی تمام حکومتوں اور مسلمان قوموں کو ہم اتحاد، وحدت اور قربت کی دعوت دیتے ہیں۔ اختلافات کو پس پشت ڈال دینا اور نظر انداز کرنا چاہئے، بعض اختلافات قابل حل ہیں، ہمیں چاہئے کہ مل بیٹھ کر انہیں حل کر لیں، بعض اختلافات ممکن ہے کہ کوتاہ مدت میں حل ہونے والے نہ ہوں، ان سے ہمیں چشم پوشی کرکے آگے بڑھ جانا چاہئے۔ یہ ٹھیک وہ چیز ہوگی جو امریکیوں اور صیہونیوں کو نقصان پہنچائے گی، اسی لئے ان سب نے اس کے لئے جان لگا دی ہے۔

اسلام ٹائمز: کس شدت سے آپ اتحاد و وحدت بین المسلمین کو محسوس کررہے ہیں اور کیا مثبت نتائج اتحاد سے سامنے آسکتے ہیں اور اس کی عدم موجودگی میں نقصانات۔؟

مولانا علی محمد جان: امت اسلامیہ پر مظالم اگر آج ملت فلسطین اس تلخ سرنوشت سے دوچار ہے، اگر آج ملت فلسطین کا پیکر خون میں غلطاں ہے اور اس قوم کا درد و غم تمام دردمند انسانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں اتر گیا ہے تو یہ مسلمانوں کے اختلافات کا نتیجہ ہے، اگر اتحاد ہوتا تو آج یہ حالت نہ ہوتی، اگر اسلامی مملکت عراق قابضوں کے بوٹوں تلے روندی جارہی ہے تو یہ مسلمانوں کے اختلافات کا نتیجہ ہے، اگر آج مشرق وسطی کے ممالک امریکا کی مغرورانہ اور بدمستانہ دہاڑ کی زد پر ہیں تو یہ مسلمانوں کے اختلاف کی ہی وجہ سے ہے، تزلزل اور اسلام و مسلمین سے خیانت جو بھی عالمی تسلط پسند طاقتوں سے مرعوب ہے وہ اس لئے ہے کہ اسے تنہائی اور پشتپناہی کے فقدان کا احساس ستا رہا ہے اگر کوئی حکومت اور قوم مرعوب ہے تو اس کی بھی وجہ یہی ہے، اگر اسلامی حکومتوں اور قوموں میں ایک دوسرے کے لئے اپنائیت کے جذبات پیدا ہوجائیں تو حکومتیں پائیں گی کہ قومیں ان کی پشتپناہی کے لئے کھڑی ہوئی ہیں۔ قومیں یہ دیکھیں کہ حکومتیں حقوق کی بحالی کے لئے کوشاں ہیں، قومیں دیکھیں کہ وہ آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ ان میں ہمدلی اور ہمفکری ہے تو اس کے نتیجے میں رعب و دہشت کی کوئی گنجائش نہیں رہے گی جو سامراج نے بعض قوموں اور سربراہان مملکت کے دلوں میں پیدا کر رکھی ہے، اتحاد کا سب سے پہلا ثمرہ یہ ہوتا ہے کہ انسان کے اندر طاقت و توانائی کا احساس ابھرتا ہے جبکہ انتشار کا سب سے پہلا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان اندر سے کھوکھلا ہوکر رہ جاتا ہے۔ "و تذھب ریحکم" انسان بلکہ پوری ایک قوم اپنی شادابی اور تازگی سے محروم ہوجاتی ہے۔

اصلی دشمن سے غفلت موجودہ دور عالم اسلام کے اتحاد کا دور ہے، اسی موجودہ کمزور اتحاد کو درہم برہم کر دینے کے لئے دشمن کتنی بڑی سرمایہ کاری کر رہا ہے، عراق اور دیگر اسلامی خطوں میں حالات انہی سازشوں کی زد پر ہیں، اسلامی جماعتوں، اسلامی فرقوں، اسلامی قومیتوں اور اسلامی قوموں کے درمیان مختلف بہانوں سے اختلافات پیدا کئے جا رہے ہیں۔ ایک ہے جو دوسرے کی جان کو آگیا ہے اور دوسرا پہلے کو تہہ تیغ کئے در رہا ہے، ایک کے دل میں دوسرے کا بغض بھرا ہوا ہے اور دوسرے کے دل میں پہلے کا کینہ ہے، نتیجہ اس کا یہ ہے کہ مسلمان عالم اسلام کے اصلی دشمنوں، دنیا کے اس خطے پر تسلط اور غلبہ کے منصوبہ سازوں کی جانب سے غافل ہیں، ہر فرقے اور مسلک کے محبان قرآن و اسلام اگر اپنی بات میں سچے ہیں اور واقعی انہیں ہمدردی ہے اور چاہتے ہیں کہ قرآن کی عظمت اور اس کا وقار برقرار رہے تو انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ بعض ممالک میں اختلافات پھیلانے کے لئے لٹائی جارہی یہ رقم یہ بکے ہوئے قلم اور زبانیں اسلام کی سربلندی کی رکاوٹیں ہیں اور یہ دشمن کی کارستانیاں ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیوں بعض نام نہاد اسلامی ممالک ہی مسلمانوں کے انتشار و منافرت میں پیش پیش رہتے ہیں۔؟

مولانا علی محمد جان: اغیار سے وابستہ عناصر بد قسمتی سے عالم اسلام میں ایسے عناصر پائے جاتے ہیں جو امریکہ اور سامراجی طاقتوں کی قربت حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کر گزرنے اور شیعہ سنی اختلافات کو ہوا دینے کے لئے تیار ہیں۔ میں اس وقت بعض ہمسایہ ممالک میں کچھ ایسے ہاتھوں کا مشاہدہ کر رہا ہوں جو بڑے منظم طریقے سے اور عمدی طور پر شیعہ سنی فساد برپا کرنے کے در پے ہیں، مسلکوں، قومیتوں کو ایک دوسرے سے دور کر رہے ہیں اور سیاسی حلقوں کو آپس میں دست بگریباں کر رہے ہیں تاکہ گدلے پانی سے اپنے مفادات کی مچھلیوں کا شکار کرسکیں اور اسلامی ممالک میں اپنے ناجائز اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے۔ قومیں، حکومتیں، تمام مسلمان، سیاسی حلقے، روشن خیال افراد اور سرکردہ شخصیات کو چاہئے کہ دشمن کی اس سازش کی جانب سے ہوشیار رہیں اور مختلف بہانوں سے اختلاف بھڑکانے کی دشمن کی کوششوں کو کامیاب نہ ہونے دیں۔

اسلام ٹائمز: کشمیر میں رہ رہے مسلمانوں کی آپسی اتحاد و اتفاق کی صورتحال کیا ہے۔؟
مولانا علی محمد جان: کشمیر میں مسلمانوں کے درمیان بھائی چارے کی فضا پائی جا رہی ہے اکثر پروگرام ایسے ہیں جن میں شیعہ اور سنی برادری کی شرکت ہوتی اور مختلف مناسبتوں کے موقع پر اپنے بھائی چارے، اتحاد اور وحدت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں شیعہ اور سنی اسلام کے دو بازو ہے عقلمند وہ ہے جو ان دونوں کی حفاظت کرے، کشمیر میں یہی کچھ ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔

اسلام ٹائمز: کہا جاتا ہے کہ کشمیر میں بھی بھارت کی بعض ایجنسیاں مسلمانوں کے آپسی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے در پے ہیں۔؟

مولانا علی محمد جان: ظاہر سی بات ہے دشمن کو کب یہ اچھا لگا ہے کہ امت مسلمہ ایک ساتھ اور ایک جسد کی مانند رہے مختلف فورموں کوشش کی جارہی کہ اپنے سیاسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے درمیان انتشارات اور نفرت کا بیج بو رہے ہیں بدقسمتی یہ بیج بھی مسلمانوں کے ہاتھوں سے کاشت ہو رہا ہے بعض مسلمان اپنے ناپاک اہداف کو حاصل کرنے کے لئے دشمن اسلامی کی مدد کرتے ہوئے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے درپے ہیں۔

اسلام ٹائمز: دشمن کی ناپاک سازشوں کے ہوتے ہوئے ہماری ذمہ داریاں کیا بنتی ہیں۔؟

مولانا علی محمد جان: یہاں پر بھی ولی امر مسلمین حضرت آیة اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای دام ظلہ العالی کے اس فرمان کو دہرانا چاہوں گا جس میں انہوں فرمایا تھا: علماء اسلام کی کوششوں سے وحدت اسلام کے لئے منشور کی تدوین وہ ضروری امر اور تاریخی تقاضا ہے کہ اگر آج اس فریضہ پر عمل نہ ہوا تو آنے والی نسلیں ہمیں ہرگز معاف نہیں کریں گے۔ وحدت اسلامی کو علمی حلقوں میں بحث و مباحثہ کا موضوع بنانے اور اس کے متعلق گفتگو مطرح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وحدت اسلامی کے بعض پہلو اجاگر کیے جائیں تاکہ اسلام اور امت مسلمہ کا درد رکھنے والے حضرات اپنی سوچ کے مطابق اظہار نظر کریں وحدت اسلامی کے عملی ہونے کے لئے ضروری ہے کہ یہ موضوع عالم اسلام میں ایک زندہ اور روز مرہ کے موضوعات میں تبدیل ہوجائے اور ہر جگہ وحدت اسلامی کی غرض سے کانفرنسوں کا انعقاد کیا جائے، ١۔ قرآن و سنت کی روشنی میں وحدت اسلامی کی ضرورت ٢۔ حضرت رسول اکرم (ص) اور اھل بیت علیھم السلام اور اصحاب رسول (ص) کی سیرت کی روشنی میں وحدت اسلامی ٣۔ علماء و مصلحین کی نظر میں وحدت کی اہمیت ٤۔ مسلمانوں کے درمیاں وحدت اسلامی کے بنیادی محور ٥۔ مذاھب اسلامی کے درمیان مشترکات ٦۔ مذاھب اسلامی کے اندر تفرقہ کے اسباب و عوامل۔

اسلام ٹائمز: ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کو آپ کس نگاہ سے دیکھ رہیں ہیں۔؟

مولانا علی محمد جان: ان مذاکرات کی حقیقت کچھ اس طرح سے ہے کہ یہ مذاکرات ناکامیوں کو چھپانے کا ایک حربہ ہے اب جبکہ امریکہ اور اس کے ہمنوا ساتھیوں کو ہر طرح سے اپنی ناکامی نظر آرہی ہے تو ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کا ایک راستہ بچا کی مذاکرات کا ڈھونگ رچایا جائے تاکہ کسی طریقے سے لٹی ہوئی آبروی کو پھر سے بحال کیا جائے، یہ دشمن یہ جان چکا ہے کہ علاقے کے حالات ایران کے اشاروں پر گھوم رہے ہیں یہاں جو ایران چاہے گا وہی کچھ ہوتا ہے، شام میں کئی سالوں سے امریکہ اور اس کے اتحادی اپنی زور آزمائی کر رہے تھے لیکن ناکامی کا مقدر بن کے نکلا، جوہری مذاکرات کا بہانہ بناتے ہوئے ایران پر ہر قسم کی پابندی کو آزماکر ایران کو کمزور کرنا چاہتا تھا لیکن ایران دن بدن مضبوط اور محکم ہوتا ہوا دنیا میں اپنا لوہا منوا کر امریکہ اور اس کے اتحادیوں پسپائی کرنے پر مجبور کیا کیا امریکہ کے لئے اس سے بڑھ کر بھی ذلت اور رسوائی ہو سکتی ہے ہاں اگر اب بھی امریکہ نہیں سمجھتا تو پھر امریکہ زوال کا شکار ہوجائے گا اس وقت امریکہ کو کوئی نہیں بچا سکتا ہے ان مذاکرات میں ایران کو پہلے دعوت دینا پھر واپس لینا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی بوکھلاہٹ کے سوا کچھ نہیں ہے، کیا کہا جائے مسلمانوں نے خدا اور اس کے رسول اور قرآن کو چھوڑ کر دشمن اسلام سے اپنے مسائل کا حل مانگ رہے ہیں خدا فرما رہا ہے اے رسول یہ یھودی آپ سے تب تک راضی نہیں ہوں گے جب تک آپ انکی پیروی نہیں کریں؟ کیا آج یھودی اور نصارا اسلام کے لئے مخلص ہوگئے؟ کیا اللہ اور اسکے رسول کو چھوڑ کر کسی سے اپنے مسائل کا حل بھیک مانگنا صحیح ہے؟ کیا آج رسول اللہ (ص) مسلمانوں کی یہ حالت کہ دشمن اسلام کے ساتھ گٹھ جوڑ دیکھ کر اپنی امت سے راضی ہوں گے؟

اسلام ٹائمز: آپ کی نظر میں مصر میں اخوان المسلمین کی حکومت کی سرنگونی کی کیا وجوہات ہیں، آیا خود اخوان المسلمین کی اپنی کمزوری کی وجہ سے حکومت ان کے ہاتھ سے نکل گئی ہے یا اس میں بیرونی قوتیں ملوث تھیں۔؟

مولانا علی محمد جان: دیکھیے انقلاب لانا آسان ہے پھر اس انقلاب کو صحیح خطوط پر چلانا بڑا کٹھن مرحلہ ہے جو چیز اس انقلاب کو باقی رکھ سکتی ہے وہ قیادت ہے اور قیادت بھی ایسی ہونی چاہیے جو اسلام ناب محمدی (ص) سے ابھری ہوئی ہو یعنی جو امت کا قائد بنے وہ اپنے آپکو اسلام میں پگھلا چکا ہو اسکی تربیت اسلام نے کی ہو یعنی اس کی فکر اور روح اسلام کا مجسمہ بن چکا ہو تب وہ امت کی رہبری کرسکتا ہے میری نظر میں مصر اخوان المسلمین کی قیادت کے اندر یہ شرائط موجود نہیں تھے دوسری طرف وہاں پر دشمن اسلام کی جڑیں بہت مضبوط ہے جو یہاں پر کسی بھی انقلاب کو پنپنے نہیں دیں گے، ولی امر مسلمین نے کامیابی کے ابتدائی دنوں میں یہ فرمایا تھا مصری عوام کو اپنے اصولوں کو لکھ کر رکھنا چاہئے تاکہ یہ لوگ بھول نہ جائے انقلاب کا مقصد کیا تھا حکومت کی سرنگونی کی دو وجہ تھی، 1۔ اپنی نا اہلی (اخوان کی کوشش یہ رہی کہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ ساتھ انقلابوں کو بھی راضی رکھا جائے) 2۔ بیرونی قوتیں اس میں ملوث تھیں انکی تو نیندیں حرام ہوگئی تھی مصر کا انقلاب دیکھ کر۔
خبر کا کوڈ : 350662
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش