0
Saturday 12 Oct 2013 00:21

سرزمین پارا چنار کے عظیم سپوت شہید شکیل حسین کی کہانی!

سرزمین پارا چنار کے عظیم سپوت شہید شکیل حسین کی کہانی!
رپورٹ: ایس اے زیدی

راہ خدا میں جان دینا وہ عظیم سعادت ہے جو قسمت والوں کے نصیب میں آتی ہے، تاہم سرزمین پارا چنار ایسے ہزاروں شہداء کو اپنی کوکھ میں سموئے ہوئے ہے، عاشقان اہلبیت (ع) کی اس سرزمین پر ایک عظیم ماں نے شکیل حسین جیسے عاشق اہلبیت (ع) بیٹے کو جنم دیا۔ جس نے راہ امام (ع) میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے کار حسینی (ع) سرانجام دیدیا۔ شہید شکیل حسین پارا چنار کے گاوں شلوزان کے ایک متوسط مگر مذہبی اقدار سے مالا مال گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ والد کا نام اکبر حسین تھا۔ جو محکمہ صحت میں ملازم تھے۔ شہید قبیلہ باقر خیل سے تھا۔ واضح رہے کہ اس قبیلہ کے محمد باقر خان نے اپنے تخت و تاج، لاو لشکر اور دولت کو ٹھوکر مار کر مذہب اہلبیت (ع) کی پیروی قبول کی تھی۔ جس کا عملی ثبوت شہید شکیل حسین اور اس خانوادے سے تعلق رکھنے والے دیگر شہداء کی قربانیاں ہیں۔ شہید شکیل حسین نے 31 جنوری 1979ء کو اکبر حسین کے گھر میں آنکھیں کھولیں۔ بوقت پیدائش کسی کی وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ نومولود 17 نومبر 2010ء کو لہو طاہر سے غسل شہادت کرے گا۔ 

شہید کے خانوادے کے مطابق شہید شکیل حسین 1996ء نے میٹرک کا امتحان اے گریڈ میں ہائی سکول شلوزان سے پاس کیا۔ 1999ء میں ایف اے کا امتحان امتیازی پوزیشن کے ساتھ پاس کیا۔ جس کے بعد 2001ء میں بی اے کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ 2003ء میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بی ایڈ کی ڈگری حاصل کر لی۔ اسی دوران محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوگیا۔ شہید نے 2010ء میں پولٹیکل سائنس Previous کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ لیکن 17 نومبر 2010ء کو عارضی دنیا کے امتحانات پاس کرنے کے بعد شہادت کا وہ عظیم امتحان جو شہید کی آرزو تھی، 32 سال کی عمر میں پاس کرگیا اور راہ شہدائے پارا چنار کو جلا اور بقاء دوام سے ہم کنار کیا۔ شہید کے خانوادے کے مطابق اعدائے اہلبیت (ع) پارا چنار میں شکست فاش کھانے کے بعد جب شلوزان تنگی سے فرار ہوئے تو بعد میں اپنی یزیدی روش کو جاری رکھتے ہوئے شلوزان اور ملحقہ دیگر دیہاتوں پر میزائلیوں اور بلندہ بالا کوہ سفید کی چوٹیوں سے فائرنگ کرتے رہے۔ تو شہید ان حملوں کیخلاف قائم کئے گئے حفاظتی دستے کا ایک رکن جری تھا۔
 
شہید کے عزیزوں کے مطابق دشمنوں سے پہاڑ کی چوٹی ’’منڈے سر‘‘ کے مقام پر آمنا سامنا ہوا۔ شہید کی بہادری اور جرأت خصوصاً تمام دستے کی بروقت کارروائی سے دشمن کے قدم اکھڑ گئے۔ اور ان میں سے زیادہ تر حملہ آور اپنے کیفر کردار کو پہنچ گئے۔ اسی دوران شہید کو گولیاں لگ گئیں۔ لیکن ہتھیار ہاتھ میں تھامے ہوئے وہ اپنے دستے کی ہمت بڑھاتا رہا۔ جب خالق حقیقی سے جا ملنے کا موقع آیا تو اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ ’’مجھے پانی نہ پلائیں کیونکہ میں پیاسا ملاقات امام (ع) کیلئے جا رہا ہوں‘‘۔ اس کے علاوہ شہید نے گھر میں پہلے سے تحریر شدہ وصیت نامہ اور جائے مدفن جو گلستان شہداء کے نام سے موسوم ہے کے بارے میں بتایا اور آخری لمحات میں اہلبیت اطہار (ع) اور آیات قرآنی کا ورد کرتے ہوئے اپنے وعدے کے مطابق خالق حقیقی سے جا ملا۔ قریبی عزیزوں کے مطابق شہید شکیل حسین اخلاق، کردار، عقیدہ اور ایمان میں واقعی شکیل تھا۔ گھر میں شکیل، دوستوں میں شکیل، مراتب علم میں شکیل، فہم و فراست میں شکیل، نظم و ضبط میں اور دوران ملازمت فرض میں شکیل تھا۔

 شلوزان سے تعلق رکھنے والے شہید شکیل حسین کے استاد اور قریبی عزیز گل اکبر جعفری کا کہنا ہے کہ شہید کی مکمل زندگی میری آنکھوں کے سامنے ہے، وہ انگلش لینگویج میں تمام مراحل کو کمال علمیت سے طے کرنے کے بعد انگریزی زبان کا اتنا ماہر تھا کہ جو کچھ میں اردو میں لکھتا یا کہتا جملہ سنتے ہی موصوف اس کمال سے اس کا ترجمہ انگریزی میں کرتا کہ عقل دنگ رہ جاتی تھی۔ اگرچہ جوان تھا لیکن وقت شہادت تک شہید کے منہ سے کوئی نازیبا لفظ میں نے نہیں سنا تھا۔ اور مدرسہ چلانے میں بعض مشکل مرحلوں پر شہید نے جن مفید مشوروں سے مستفید فرمایا ہے وہ آج تک میرے لئے سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دوسری جانب شہید کے والدین اپنے عظیم فرزند کی شہادت کو طرہ امتیاز خیال کرتے ہیں۔ شہید کے پانچ برادران اور تین بہنیں ہیں۔ شہید کا بھائی کربلائی خلیل حسین اپنے عظیم بھائی کو خاندانی یا قومی ضیاع تسلیم نہیں کرتا بلکہ اسے امام زمانہ (عج) کی آمد باسعادت کا وسیلہ گردانتا ہے اور رکاب امام (ع) میں شہید ہونے کی استدعا کرتا ہے۔
 
شہید کا گھرانہ جیسا کہ ایک مذہبی گھرانہ ہے، اس لئے ان سب کا یہ کہنا ہے کہ ’’شہادت افتخار ما۔ شہادت سعادت ما‘‘۔ شہید بذات خود عبادت، حقوق العباد اور حقوق اللہ کا گرویدہ تھا۔ جو شہید کے وصیت نامہ سے بخوبی عیاں ہے۔ اپنی شہادت سے قبل اپنی مدفن کی نشاندہی، گھر والوں کو صبر و تلقین اور پہلے ہی سے احوال شہادت کا درج کرنا خاندان کو گھر کے اندر، ہمسایوں کیساتھ، غریبوں کیساتھ، دین اور مذہب کے ساتھ لگاو، اولاد کی پرورش الغرض تمام گوشہ ہائے زندگی کی اتنی صراحت سے تحریر کرنا بادی النظر میں اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ شہید اپنی ظاہری زندگی میں بھی کتنا عظیم تھا۔ شہید نے رہائشی مکان میں اپنے لئے ایک الگ کمرہ بنوایا تھا، جس میں نادر خصوصاً دینی کتب کا وافر ذخیرہ ابھی تک موجود ہے۔ ملت کے مقدر کا ستارا اگرچہ ظاہری طور پر 17 نومبر 2010ء کو غروب ہو گیا لیکن باطن میں یقیناً ہمیشہ کیلئے تابندہ و درخشاں رہے گا۔
خبر کا کوڈ : 310026
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش