0
Friday 31 Oct 2014 17:14

چینی مسلمانوں کیخلاف پابندیاں

چینی مسلمانوں کیخلاف پابندیاں
رپورٹ: ٹی ایچ بلوچ

یورپی ممالک کے بعد چینی حکومت نے بھی مسلم اکثریتی صوبے سنکیانگ کے اسکولوں میں بچوں پر ان کے گھروں میں مذہب پر عمل پیرا ہونے کی حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے ترجمان گلوبل ٹائم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان اور چین کی سرحد کے قریب واقع کاشغر کے دو ہزار سے زائد کنڈر گارٹن، پرائمری اور سیکنڈری اسکولوں کے پرنسپلز سے باقاعدہ عہد نامے پر دستخط کروائے گئے ہیں کہ وہ اسکولوں میں مذہبی رجحانات سے بچوں کو دور رکھیں گے۔ چونکہ عوامی جمہوریہ چین میں کیمونسٹ پارٹی ہی طاقت میں ہے تو محکمہ تعلیم میں بھی سرکاری طور پر کیمونسٹ پارٹی کے کنٹرول میں ہے۔ مذکورہ عہد نامے میں اس بات پر اصرار کیا گیا ہے کہ پارٹی ممبران، اساتذہ اور چھوٹے بچے نہ تو اسکول اور نہ ہی گھر پر مذہبی روایات و اقدار پر عمل پیرا ہوں گے۔ بے خدا چینی تہذیب کے علمبردار کیمونسٹ پارٹی کے عمائدین فقط اس پر اکتفا کرنے کو تیار نہیں بلکہ انہوں نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ طلباء جنہیں اسکولوں میں مذہب پر عمل پیرا ہونے کی اجازت نہیں دی جاتی، گھر جا کر اپنے والدین کے زیرِ سایہ مذہبی روایات و اقدار پر عمل کرتے ہیں۔ واضح رہے کہ کاشغر کے تعلیمی بیورو کی جانب سے شدت پسندی کو روکنے کے لئے اسکولوں کے طلباء کے یونیفارم کو بھی مخصوص کیا جا چکا ہے۔ امریکہ کی طرح جمہوریہ کہلانے والی چینی ریاست کے اقدامات قانونی طور پر اسلام کی بیخ کنی کرنے میں مصروف ہے، چینی مسلمانوں کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ہے۔

چینی صوبے سنکیانگ میں چین کی مسلم اقلیتی کمیونٹی یغور کی اکثریت ہے اور گذشتہ سال سے لے کر اب تک یہاں جاری کشیدگی کے باعث دو سو سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ لیکن یہ کسی طور پر بھی درست نہیں کہ حالات خراب ہونے کی ذمہ داری تمام مسلمانوں پر ڈالتے ہوئے انہیں اپنے دین پر عمل کرنے سے روکا جائے۔ چینی حکومت سمجھتی ہے کہ بدامنی اور دہشت گردی کا ذمہ دار علیحدگی پسند گروپ ہے، جو چین سے آزادی حاصل کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ خود چین میں موجود دائیں بازو گروپ کا کہنا ہے کہ یغور کمیونٹی کی مذہبی اور ثقافتی روایات پر پابندیاں اس کشیدگی کو مزید ہوا دینے کا باعث بن رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سنکیانگ میں ہونے والے حملوں کی شدت میں گذشتہ برس اضافہ ہوا اور یہ کشیدگی بتدریج سنکیانگ کے اطراف کے علاقوں کو بھی متاثر کر رہی ہے۔

یہ ایک المیہ ہے کہ کیمونسٹ روس کی طرح چین میں اسلام کے پیروکاروں کو جن پابندیوں اور دباو کا سامنا ہے اسکی تفصیل کم ہی سامنے آتی ہے، اگر آ بھی جائے تو مسلمان حکام، انسانی حقوق کے ادارے اور یو این او مخصوص سیاسی مفادات کی بدولت انہیں نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ابھی صورتحال یہ ہے کہ اس علاقے میں اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں پر مساجد میں داخلے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے، اس سے قبل باریش مردوں اور نقاب یا اسکارف لینے والی خواتین کے بسوں میں سفر پر بھی پابندی عائد کی گئی تھی۔ اسی طرح جنوب مغربی شہر کرامے میں پانچ قسم کے مسافر بسوں میں سفر نہیں کرسکتے، جنہوں نے چہرے پر نقاب ڈال رکھا ہو، اسکارف یا عبایا پہن رکھا ہو یا چاند تارے کی اشکال والے کپڑے پہن رکھے ہوں، اس کے علاوہ باریش مردوں پر بھی پابندی کا اطلاق ہوگا۔ چاند تارے کی اشکال بہت سے اسلامی ممالک کے جھنڈوں کا حصہ ہیں اور چینی حکام کا کہنا ہے کہ ان پر اس لئے پابندی لگائی جا رہی ہے کہ چینی صوبے سنکیانگ میں موجود علیحدگی پسند مشرقی ترکستان کے نام سے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
 
درحقیقت یہ پابندیاں انسداد دہشت گردی کے اقدامات سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف تعصب کا اظہار ہے۔ جو لوگ اس پابندی پر عمل نہیں کریں گے، خصوصاً مذکورہ پانچ قسم کے افراد، تو ان کی اطلاع پولیس کو دی جائے گی۔ سیاست سے بے دخل کر دیئے جانے والے چینی مسلمان سماجی اور مذہبی طور پر بھی نہایت گھٹن زدہ ماحول کا شکار ہیں۔ چند ماہ بیشتر سنکیانگ کے دارالحکومت ارومچی میں مسافروں پر بسوں میں سگریٹ لائٹرز، پانی اور دہی وغیرہ لے جانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، چینی حکومت کے پاس ایک ہی جواز ہے کہ وہ پُرتشدد کارروائیوں کو روکنا چاہتے ہیں۔ انسانی حقوق کے لئے کام کرنے والے گروپوں اور سنکیانگ کی مسلم کمیونٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ سنکیانگ میں مسلمانوں کو کنٹرول کرنے کے ساتھ ساتھ نافذ کی گئی حکومتی پابندیاں ہی تشدد کو جنم دے رہی ہیں، جبکہ چینی حکومت نے اس دلیل کو مسترد کر دیا ہے۔ 

واضح رہے کہ چینی مسلم کمیونٹی یغور کی خواتین بالکل ویسا ہی لباس پہنتی ہیں، جیسا دیگر چینی علاقوں میں پہنا جاتا ہے، تاہم چند ایک خواتین چہرے پر نقاب ڈالنے کے ساتھ ساتھ عبایا پہننے کی بھی عادی ہیں۔ سنکیانگ، چین کا ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے، جہاں کے لوگ ترک زبان بولتے ہیں۔ البتہ یہ امر قابل غور ہے کہ مسلسل پابندیوں کے باوجود گذشتہ اٹھارہ ماہ کے دوران سنکیانگ میں جاری فسادات کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ انتہائی سخت سکیورٹی کے باعث صحافیوں کے لئے سنکیانگ کے حالات کا آزادانہ جائزہ لینا ممکن نہیں، لہٰذا انہیں حکومتی اطلاعات پر ہی گزارا کرنا پڑتا ہے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق جولائی کے آخر میں چاقو بردار حملہ آوروں کی جانب سے فسادات کے آغاز کے باعث تقریباً سو افراد ہلاک ہوئے، جن میں 59 دہشت گردوں کو بھی پولیس نے ہلاک کیا۔ یہ ایک سرکاری دعویٰ ہے کہ ہلاک کئے جانے والے دہشت گرد تھے، آزاد ذرائع سے انکی تصدیق ممکن نہیں، اتنا ضرور ہے امریکی پابندیوں کی زد میں آنے والے انصار الامہ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان خلیل نے پابندیاں عائد کئے جانے کے بعد اپنے ردعمل میں کہا تھا کہ انہیں اس لئے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ انہوں نے امریکہ کیساتھ چین کیخلاف تعاون کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ 

مولانا فضل الرحمان خلیل نے یہ بات اتنے وثوق کہی کہ جیسے وہ براہ راست امریکی اہلکاروں سے وابستہ ہوں اور انہیں یہ معلوم ہے کہ امریکہ چین میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہے۔ کالعدم حرکۃ الانصار کے کمانڈر مولانا فضل الرحمان خلیل کا اشارہ یقینی طور پر پاکستان اور افغانستان میں جہادی کارروائیاں کرنے والی تنظیموں کی طرف تھا، جنہیں امریکیوں نے چین کیخلاف دہشت گردی کرنے کے لئے کہا، تو چینی حکام کو اسلام کو بطور مذہب نشانہ بنانے کی بجائے امریکی ایجنسیوں اور دہشت گرد تنظیموں کیخلاف کارروائی کرنا چاہیے۔ اسی طرح پاک افغان حکام کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو چین سمیت کسی ملک کیخلاف استعمال نہ ہونے دیں اور سفارتی سطح پر ہمسایہ ملک چین پر دباو ڈالیں کہ مسلمانوں پر عائد سماجی، سیاسی اور مذہبی پابندیاں ختم کی جائیں۔ امریکہ کا یہ کھیل نہ صرف چین کے مفاد میں نہیں بلکہ پاکستان کیساتھ چین کے دیرینہ تعلقات کو خراب کرنے کی گہری سازش ہے۔
خبر کا کوڈ : 417325
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش