0
Sunday 20 Apr 2014 09:44

اسلام آباد، جامعہ حفصہ کی لائبریری کا نام ’’اسامہ بن لادن‘‘ سے منسوب

اسلام آباد، جامعہ حفصہ کی لائبریری کا نام ’’اسامہ بن لادن‘‘ سے منسوب
رپورٹ: ایس اے زیدی

پاکستان میں موجود کئی ایک دینی مدارس بلواسطہ یا بلاواسطہ طور پر دہشتگردی اور شدت پسندی سے منسلک رہے ہیں، اور ہیں بھی۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ پاکستانی معاشرے میں شدت پسند عناصر روز بروز اپنی جڑیں مضبوط کر رہے ہیں، اور اس عمل میں بیرونی امداد ڈالرز اور ریال کی شکل میں ان کیلئے بے حد آسانیاں پیدا کر رہی ہے۔ لال مسجد اور جامعہ حفصہ کا نام پاکستانی قوم کے ذہنوں میں بہت اچھی طرح مقید ہے۔ تاہم بات یہیں جاکر ختم نہیں ہوجاتی، یہ تو پاکستان میں موجود اس قسم کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایسے مدارس کی ایک جھلک تھی، جہاں شدت پسندانہ رجحانات کو جنم دیا جاتا ہے۔ 

ایک فرانسیسی خبر رساں ادارے نے اپنے ذرائع کے حوالے سے خبر دی ہے کہ اسلام آباد میں قائم جامعہ حفصہ کی لائبریری کا نام مقتول القاعدہ رہنماء اسامہ بن لادن سے منسوب کر دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ یہ مدرسہ مولانا عبدالعزیز، جو لال مسجد کے امام ہیں، کے زیر انتظام چل رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق لال مسجد سے منسلک جامعہ حفصہ مدرسے نے اپنی لائبریری کا نام بن لادن سے منسوب کر دیا ہے، جو امریکہ میں نائن الیون حملوں کے ماسٹر مائنڈ تھا۔ ایک ذرائع نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا کہ یہ سچ ہے کہ ہم نے لائبریری کا نام اسامہ بن لادن کے نام سے منسوب کیا ہے۔ وہ دوسروں کے لئے دہشت گرد ہوسکتے ہیں، ہم انہیں دہشت گرد نہیں سمجھتے۔ اس ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے لئے اسامہ بن لادن اسلام کے ہیرو ہیں۔ لائبریری کے دروازے پر اسامہ بن لادن کے نام سے ایک چھوٹا پرنٹ نشان موجود ہے۔ جس میں اسے شہید کہا گیا ہے۔ 

یاد رہے کہ اسامہ بن لادن 2011ء میں پاکستان کے شہر ایبٹ آباد میں امریکی سپیشل فورسز کی ایک ‘‘مبینہ‘‘ کارروائی میں مارا گیا تھا اور ملک میں بعض انتہاء پسند اسے ہیرو قرار دیتے ہیں۔ اس کی موت کی پہلی برسی کے موقع پر سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اسے خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ اسامہ بن لادن کے نام سے اس مدرسہ کی لائبریری کا منسوب کیا جانا کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ان میں سے چند ایک یہ ہیں کہ۔ کیا پاکستان کے معاشرے پر شدت پسند عناصر نے اپنی گرفت اتنی مضبوط کر لی ہے کہ قومی اسمبلی، ایوان صدر، سینیٹ، سپریم کورٹ، وزیراعظم ہاوس، جی ایچ کیو اور اس جیسے کئی اہم اداروں سے محض چند کلو میڑ فاصلے پر موجود اس مدرسہ میں آج بھی شدت پسند عناصر مکمل آزادی سے اپنے خیالات کی ترویج میں مصروف عمل ہیں۔؟ کیا ہماری ریاست اتنی کمزور پڑگئی ہے کہ وہ ایسا عناصر کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لے سکتی۔؟

کیا پاکستانی معاشرے میں شدت پسندانہ رجحانات بڑھ رہے ہیں۔؟ کیا جامعہ حفصہ کی انتظامیہ کی نظر میں پیغمبران اسلام، اصحاب رسول (ص)، اہل بیت (ع) اور اسلام کی حقیقی خدمت کرنے والوں سے بڑھ کر اسامہ زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔؟ حقیقت یہ ہے کہ صرف اسلام آباد میں ہی نہیں بلکہ پاکستان کے طول و عرض میں اس قسم کے جامعہ حفصہ موجود ہیں، جو پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کرنے کیساتھ اسلام کا تشخص بھی بری طرح متاثر کر رہے ہیں، اگر ریاست نے ایسے شدت پسندانہ رجحانات کو فروغ دینے سے نہ روکا تو خدانخواستہ وطن عزیز کی نظریاتی اور جغرافیائی سرحدوں کو تباہی سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔
خبر کا کوڈ : 374657
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش