1
0
Friday 20 Apr 2012 00:28

شیعہ کلنگ اور سیاسی جماعتیں

شیعہ کلنگ اور سیاسی جماعتیں
 تحریر: ایس رضا نقوی

ویسے تو ہر دور میں شیعیان حیدر کرار علیہ السلام کو ظلم و بربریت کا نشانہ بنایا گیا ہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور انکے خانوادہ علیھم السلام سے محبت کے جرم میں شیعہ مسلمانوں کو نفرت کی آگ میں جلایا جاتا رہا ہے، تقسیم ہند کے بعد جب مملکت پاکستان کا وجود عمل میں آیا تو یہاں پر جو مذہبی رواداری کا رحجان تھا اس کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یہاں یہ مسئلہ وجود میں نہیں آئے گا، لیکن اندازہ غلط ثابت ہوا۔ دشمن نے جہالت اور مذہب سے، شعور سے عاری محبت کو استعمال کیا اور ذہنوں کو زہر آلود کرنے کی استعماری سازش پر عمل پیرا ہوئے اور نفرت کے بیج جہالت کی زرخیز زمین میں تیزی سے پھلنے پھولنے لگے اور آہستہ آہستہ یہ ناسور کی طرح پورے پاکستان میں پھیل گئے اور اپنے مذموم عزائم کو عملی جامہ پہنانے لگے۔

اسی کی (80) کی دہائی میں جب کراچی میں شیعہ گھروں اور مساجد کو جلایا گیا تو اس وقت بھی ان استعماری عناصر کا اثر بہت کم تھا اور انکو معاشرہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھا لیکن معاشرے کی بے حسی کہیں یا ہمارے حساس اداروں کا گٹھ جوڑ کہ یہ ملک دشمن اور اسلام دشمن عناصر پھلنے پھولنے لگے اور انہوں نے اس گھنائونے کھیل کو فروغ دیا، جس کے بانی امریکہ و اسرائیل ہیں۔ امریکہ و اسرائیل کے زرخرید غلاموں نے آہستہ آہستہ اپنی مذموم سازشوں کو پھیلانا شروع کیا اور اپنے اوپر اہلسنت برادران کا لبادہ اوڑھ کر سادہ لوح اہلسنت برادران کو بھی اپنے خونی کھیل میں شامل کرنے کی کوششیں کیں اور کسی حد تک دھوکہ دینے میں کامیاب بھی رہے۔

ان ملک و اسلام دشمن عناصر نے اپنا دوسرا ہدف سیاسی جماعتوں کو قرار دیا، جن میں نفوذ کر کے وہ ملکی سیاست پر بھی اثر انداز ہونا چاہتے تھے۔ 80 کی دہائی میں کراچی میں جب مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھی گئی تو اسکے اساسی اہداف میں سے ایک ہدف مذہبی رواداری کا فروغ تھا اور انہوں نے نعرہ بھی یہی لگایا تھا کہ ہم ہیں جو مذہبی وابستگی سے بالا تر ہو کر عوام کی خدمت کریں گے اور اوائل میں ایسا دیکھا بھی گیا، حالانکہ اس وقت بھی انکا مقصد شیعیان حیدر کرار علیہ السلام کے ووٹوں سے اپنے ووٹ بینک کو بڑھانا تھا۔
 
لیکن ایسے وقت میں جب مہاجر آبادی والے علاقوں میں شیعوں کے گھروں کو اور امام بارگاہوں کو جلایا جا رہا ہو اور مہاجر افراد کی جماعت آپ کی حمایت میں آواز بلند کرے تو شیعوں کا اس جماعت کی طرف جھکنا اظہر من شمس تھا، لیکن اس کے باوجود شیعوں کا قتل رکا نہیں تھا بلکہ اس کا رخ کچھ عرصے کیلئے گلگت بلتستان کی طرف موڑ دیا گیا تھا کہ جب ضیاءالحق کے دور میں گلگت کے گاوں کے گاوں اجاڑ دیئے گئے تھے۔

مسلم لیگ یا پھر نواز شریف کا جھکائو اول روز سے ہی سعودی عرب کی طرف تھا اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں تھی کہ نواز شریف صاحب سعودی پیسے پر پھل پھول رہے ہیں اور جب پیسہ سعودیہ سے لینگے تو پھر وہاں کی خواہشات پر بھی عمل کریں گے، سعودی عرب میں وہابیت کا فروغ اور اثر و رسوخ کسی سے پوشیدہ نہیں رہا، جنت ابقیع کی مسماری کے بعد سعودی حکومت کے چہرے سے شرافت اور اسلام دوستی کا نقاب جگہ جگہ سے پھٹ چکا تھا اور رہی سہی کسر پاکستان میں وہابیت کے فروغ میں سعودی کوششوں نے پوری کردی تھی۔ تو نواز شریف کی جانب سے وہابیت کے فروغ کیلئے پہلے تو انڈر گرائونڈ کام کیا گیا، لیکن حالیہ وقتوں میں مسلم لیگ (ن) کے کالعدم تنظیموں سے روابط اور انکی سپورٹ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) نے کبھی چھپانے کی کوشش کی۔ انہی حقائق کی بدولت شیعہ قوم کا جھکائو کبھی بھی نواز شریف کی طرف نہیں رہا۔

پاکستان پیپلز پارٹی وہ جماعت تھی جو عوامی حلقوں میں شیعہ جماعت کے طور پر پہنچانی جاتی تھی اور حقیقتاً پیپلز پارٹی کو شیعہ بہت حد تک سپورٹ بھی کرتے تھے، ضیاءالحق کے 11 سالہ آمرانہ دور حکومت کے بعد پیپلز پارٹی حکومت میں آئی تو شیعوں کو کافی امیدیں وابستہ تھیں کہ شاید اب انکے دکھوں کا مداوا ہو گا، لیکن پاکستان پیپلز پارٹی کے ہی دور میں طالبان کی بنیاد رکھی گئی یا یہ کہیں کہ طالبان کو منظم کیا گیا، جس نے آگے چل کر نوے کی دہائی میں افغانستان کے صوبے بامیان میں لاکھوں شیعوں کا قتل عام کیا گیا، جسمیں پاکستانی فوج میں موجود انتہا پسند عناصر نے بھی مدد فراہم کی، جس پر رہبر معظم کی طرف سے سخت الفاظ میں مذمت کی گئی تھی اور پاکستانی فوج میں موجود ان ملک و اسلام دشمن عناصر کا چہرہ آشکار کیا تھا۔ افغانستان میں طالبان کی جڑیں مضبوط کی گئیں تو پاکستان میں سپاہ صحابہ کو ڈھکی چھپی مدد فراہم کی گئی۔ ضیاءالحق کی باقیات کہہ کر بہت کچھ ختم کیا گیا لیکن امریکی احکام پر عمل درآمد نہ روکا گیا۔ 

ضیاءالحق کا دور حکومت ختم ہونے کے بعد پاکستان کی حکومت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے درمیان ٹینس کی بال کی طرح کبھی کسی کے کورٹ میں اور کبھی کسی کے کورٹ میں رہی، لیکن ایک بات جو دونوں کے ادوار حکومت میں مشترکہ تھی وہ شیعوں کا قتل اور شیعہ دشمن عناصر کی پشت پناہی تھی۔ باوجود اسکے کہ پیپلز پارٹی میں شیعہ امیدواروں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی، لیکن اقتدار و دولت کے بھوکے انسانوں کیلئے دین کے بجائے انکے آقائوں امریکہ و اسرائیل کی اہمیت تھی۔

مہاجر قومی مومنٹ کے بننے کے بعد کم از کم کراچی و حیدر آباد میں ایک لمحہ کیلئے شیعہ مسلمانوں نے یہ امید لگا لی تھی کہ مہاجر قومی مومنٹ انکے حقوق کیلئے جدوجہد کریگی اور لسانی بنیاد پر ہی سہی لیکن اب انہیں انکی مذہبی رسومات کی ادائیگی سے کوئی نہیں روکے گا اور نہ انگلی اٹھائے گا۔۔۔۔۔لیکن یہ امید بھی وقت کے ساتھ ساتھ دم توڑتی چلی گئی۔ مہاجر قومی مومنٹ کے قیام کے بعد ایم کیو ایم نے شیعہ مسلمانوں کو نمائندگی دی، چاہے سندھ اسمبلی کی نشستیں ہوں یا قومی اسمبلی کی، لیکن وقت کے ساتھ ایم کیو ایم خود بھی مکافات عمل کا شکار رہی۔
 
ضیاءالحق کے دور میں کشمیر میں جہاد کے نام پر جہادی گروپوں کو تشکیل تو دے دیا گیا لیکن جب ان پر سے کنٹرول ختم ہونے لگا تو ان پر پابندی لگا دی گئی اور ان جہادی گروپوں کے جہادیوں نے جہاں دوسری سیاسی جماعتوں کا شیلٹر لیا اس میں ایم کیو ایم بھی شامل تھی۔۔۔۔۔یہیں سے ایم کیو ایم میں شیعہ مخالف لوگوں نے پر نکالنا شروع کئے، اور آہستہ آہستہ اس جماعت نے اپنی صفوں میں سے شیعہ عنصر کو کم کرنا شروع کیا۔۔۔۔۔اول تو پہلے دن سے ہی یہ جماعت شیعہ حقوق کے تحفظ کیلئے نہیں بنائی گئی تھی، بلکہ صرف اپنے سیاسی فائدے کیلئے انہوں نے شیعہ مسلمانوں کو اپنے قریب کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔۔ شیعہ مسلمانوں کے جلوسوں اور مجالس پر کنٹرول حاصل کرنا چاہا۔۔۔۔۔ آج یہ حالت ہے کہ قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ٹوٹل 19 ممبران ہیں، جسمیں صرف 2 شیعہ ہیں اور وہ بھی پابند ہیں کہ شیعہ حقوق کی پامالی پر آواز بلند نہیں کرسکتے جب تک کی مرکز سے آرڈر نہ آئیں۔۔۔۔۔

کراچی کہ مختلف علاقوں میں بہت سی ایسی مساجد موجود ہیں جہاں سے شیعہ مسلمانوں پر لعن طعن کی جاتی ہے، بلکہ شیعہ مسلمانوں کے مقدسات پر حملے کئے گئے ہیں اور ان مساجد کے باہر ایم کیو ایم کے وزراء کے نام کی تختیاں نصب ہیں۔۔۔۔۔سانحہ عاشورہ کراچی کے بعد ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ایم کیو ایم اپنے شیعہ مسلمان بھائیوں کے غم میں برابر کی شریک ہوتی، لیکن متعصب سٹی ناظم مصطفٰی کمال نے شیعہ مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹہرانے کی کوشش کی اور ایم کیو ایم کا اصل چہرہ دنیا پر آشکار کیا۔۔۔۔۔ یہی مصطفٰی کمال جہادی مدرسوں میں جا جا کر کبھی کمپیوٹر نصب کرواتا ہے اور کبھی کیش کی شکل میں امداد کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ کیا اسے ایم کیو ایم کی شیعہ دشمنی نہیں کہیں گے؟ کیا یہ شیعہ دشمنی نہیں کہ آپ ان لوگوں کو اپنی صفوں میں کلیدی عہدوں پر جگہ دیں، جو شیعہ دشمنی میں سب سے آگے ہیں۔؟

نومبر 2011ء سے لیکر 18 اپریل 2012ء تک پورے پاکستان میں محتاط اندازے کے مطابق 200 شیعہ مسلمانوں کو بے رحمی کے ساتھ شہید کر دیا گیا لیکن کیا ایم کیو ایم، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف کی طرف سے آواز اٹھائی گئی؟ ایم کیو ایم کا ایک کارکن مارا جاتا ہے جس کے بارے میں پتہ بھی نہیں ہوتا کہ اپنوں نے مارا ہے یا غیروں نے، تو پورے شہر کراچی کو آگ کے شعلے لپیٹ میں لے لیتے ہیں، لیکن ہم ایک دن میں کئی کئی لاشے اٹھاتے ہیں تو بھی ان لوگوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی! کیوں؟

شیعوں کی ایک جماعت کی طرف سے شیعوں کی سیاسی قوت کے مظاہرے کے بعد یہ شیعہ دشمن عناصر پھر سے حرکت میں آ گئے ہیں اور ایک بار پھر مگر مچھ کے آنسو نکال کر شیعہ مسلمانوں کو دھوکہ دینے کی کوششیں کر رہے ہیں، اطلاعات کے مطابق کراچی اور حیدر آباد میں تمام شیعہ مساجد اور امام بارگاہوں میں ایم کیو ایم کے وفود نے دورے کئے ہیں، ٹرسٹیوں کو ڈھکے چھپے لفظوں میں دھمکیاں دی گئیں کہ صرف ایم کیو ایم ہی ہے جو شیعوں کے حقوق کا تحفظ کرے گی۔۔۔۔۔ کیا آپ اس بات پر یقین کرنے کیلئے تیار ہیں۔؟ یقیناً نہیں۔۔۔۔۔ 

کہاں تھے آپ اس وقت جب ہم نے 35 سے زائد لاشے اٹھائے؟ کہاں تھے آپ، جب ہمارے مقدسات کی متواتر بےحرمتی کی گئی۔؟ کہاں تھے آپ، اس وقت جب سینکڑوں شیعہ مسلمانوں کے گھرانوں کو اداسیوں نے گھیر لیا تھا۔؟ کس منہ سے اس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ آپ شیعہ مسلمانوں کے دردمند ہیں۔؟ شہید عسکری رضا کے جنازے کے موقع پر جب گورنر ہائوس پر دھرنا دیا گیا تو ایم کیو ایم نے اپنے شیعہ ورکرز کو ہدایت جاری کی کہ جو بھی دھرنے میں جائے گا اسکی پارٹی رکنیت کینسل کر دی جائیگی۔۔۔۔۔کیوں۔؟ کیا جنازے کے ساتھ دھرنا ایم کیو ایم مخالف کسی سیاسی تنظیم کا جلسہ تھا، یا وہاں ایم کیو ایم مخالف نظریات کی ترویج کی جا رہی تھی۔؟

شاید آپ بھول رہے ہونگے، لیکن ہم نہیں بھولے۔۔۔۔۔ ہم آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ 80  کی دہائی میں جب عام انتخابات کا اعلان ہوا اور اس وقت کی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے عام انتخابات میں حصہ لینے کا اعلان کیا تو جناب فاروق ستار صاحب ایک وفد کے ہمراہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے نمائندوں سے ملے اور کہا کہ مولانا آپ کیوں انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں؟ ایم کیو ایم ہے نا آپ کے حقوق کے تحفظ کیلئے۔۔۔۔ ہم بریلوی اور شیعہ مسلمانوں کے ترجمان ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مولانا نے جواب میں کہا تھا کہ فاروق ستار صاحب ایم کیو ایم کیوں حصہ لے رہی ہے انتخابات میں جبکہ جماعت اسلامی بریلوی مسلمانوں کی نمائندگی کر رہی ہے۔۔۔۔ تو جناب فاروق ستار کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔۔۔۔۔

آج تو یہ حالت ہے کہ ایم کیو ایم یہ حق رکھتی ہی نہیں کہ شیعوں کے حقوق کے تحفظ کی داعویدار بنے، کیونکہ ایم کیو ایم نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ انہیں شیعہ مسلمانوں کے حقوق سے زیادہ اپنی پارٹی پالیسی عزیز ہے۔۔۔۔۔ آج ایم کیو ایم کی جو حالت ہے اسے دیکھ کر تو لگتا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں تو ایم کیو ایم بریلوی مسلمانوں کے حقوق سے بھی دستبردار ہو جائے گی۔۔۔۔۔ ایم کیو ایم میں تیزی سے بڑھتی ہوئی طالبان فکر، ایم کیو ایم کے وجود کو دیمک کی طرح ختم کر رہی ہے۔
 
خود ایم کیو ایم کے اندر شیعہ نوجوانوں کو پلاننگ کے ساتھ شہید کیا گیا۔۔۔۔ کیا ایم کیو ایم نے اپنی صفوں میں موجود شیعہ دشمن عناصر کیخلاف کوئی ایکشن لیا۔؟ کہنے والے کہتے ہیں کہ سندھ اسمبلی کے رکن شہید رضا حیدر کی مخبری بھی پارٹی کے شیعہ دشمن عناصر کی جانب سے کی گئی تھی، صرف اس بنیاد پر کہ شہید رضا حیدر نے پارٹی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے چہلم امام حسین علیہ السلام میں سانحہ عاشورہ کیخلاف احتجاجاً کفن پوش ہو کر نماز ظہرین باجماعت ادا کی تھی، کیا یہ لمحہ فکریہ نہیں تھا ایم کیو ایم کیلئے۔؟

شیعہ مسلمانوں کی فکر نہ کریں۔۔۔۔۔ ہم شہادتوں سے گھبراتے نہیں ہیں، ہم نے تو ہر دور میں تختہ دار پر کلمہ حق ادا کیا ہے اور آج بھی کریں گے، ہم دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتے۔۔۔۔۔ امریکہ ہمیں کب سے ڈرا دھمکا رہا ہے۔۔۔۔۔ کبھی طالبان دکھا کر ڈراتا ہے تو کبھی اسرائیل۔۔۔۔۔ ہم حسینی ہیں اور حسینی سوائے خدا کے کسی سے نہیں ڈرتے۔ ہم اس مملکت پاکستان میں پانچ کروڑ ہیں۔۔۔۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اب ہم بیدار ہیں۔۔۔۔۔ اب اپنے حقوق کی جنگ ہم خود لڑیں گے۔۔۔۔ پاکستان کی بقا کی جنگ خود لڑیں گے۔۔ مرگئے تو شہید، بچ گئے تو غازی۔۔۔۔۔ خدا اور اس کے آخری رسول حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد صرف اور صرف خانوادہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔۔ بس یاحسین علیہ السلام۔
خبر کا کوڈ : 154869
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Germany
Aslam Alykum.
Shukriya mubarak ho aap ko. Bohat hi acha article hai. Mare aak ray hai Milat-e-Jaffria sai .kise party k oper umeed nah rakhay. Yah sub apnay apnay voot bank k liya shia awaam ko dokha day rahay hai. Is liya kise siyase party k oper kbe b broosa na karna. Hum Hussaine hai jis nai hum ko sikhaya hai mar ker jeena. Jee kar marna to sub ko aata hai
ہماری پیشکش