0
Tuesday 1 Apr 2014 00:13

یوم اسلامی جمہوریہ مبارک ہو

یوم اسلامی جمہوریہ مبارک ہو
تحریر: محمد علی نقوی

بارہ فروردین مطابق یکم اپریل ایران میں یوم جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک اسلامی ملک میں ایک اسلامی انقلاب کے بعد ایک اسلامی ملک کی عوام نے ایک ایسے نظام کے حق میں ووٹ دیا جسکو اسلام دشمن طاقتوں نے ایک ناکارہ اور صرف ذاتی زندگیوں تک محدود دین کے طور پر مشہور کر رکھا تھا، یہ ایسا دور تھا جب دین کو افیون اور دین اسلام کو ایک ایسے دین کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا، جس میں حکومتی اور سیاسی نظام چلانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ یہ وہ ایام تھے جب دنیا پر کیمونزم اور کیپیٹلزم کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ ایسے میں ایران کے گلی کوچوں سے استقلال، آزادی اور جمہوری اسلامی کی آوازیں بلند ہوئیں۔ آزاری اور استقلال تو کسی حد تک لوگوں کو سمجھ آرہا تھا، لیکن اسلام اور جمہوریت کا امتزاج لوگوں کے عقل و فہم سے بہت دور تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے نعروں اور انقلابی رہنماؤں کے اسلامی جمہوریہ کے قیام کے وعدوں کو ہنسی مزاح اور طنز و مزاح کے تناظر میں دیکھا جا رہا تھا۔

ابھی اس نوخیز اسلامی انقلاب کی کامیابی کو دو ماہ سے بھی کم عرصہ گذرا تھا کہ اس انقلاب کی بابصیرت اور اسلامی تعلیمات کا حقیقی ادراک اور علم رکھنے والی قیادت نے ملک کے آئندہ نظام کے حوالے سے ریفرنڈم کرانے کا اعلان کیا، تاکہ لوگوں پر اپنی مرضی کا نظام تھوپنے کی بجائے ان کی مرضی کا نظام نافذ کیا جائے۔ ایران کے انقلابی عوام نے بھی اپنے رہبر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ملک گیر ریفرنڈم میں شرکت کرکے اسلامی جمہوری نظام کو اپنے حکومتی و سیاسی نظام کے طور پر منتخب کیا تھا۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی (رہ) نے فرمایا تھا کہ ملک میں وہی نظام حکومت ہوگا جو عوام چاہيں گے، لہذا امام خمینی (رہ) نے ملک گیر ریفرنڈم کا حکم دیا اور ایران کے مسلمان عوام نے اپنے لئے اسلامی جمہوری نظام کا انتخاب کیا۔ اس ریفرنڈم ميں اٹھانوے فیصد سے زائد رائے دہندگان نے اسلامی نظام کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

اس ریفرنڈم کے نتائج کا اعلان ہونے کے بعد اسلامی جمہوریہ ایران کے بانی حضرت امام خمینی (رہ) نے اپنے ایک پیغام میں فرمایا تھا کہ اس نظام حکومت میں ایران کے ہر شہری کو یکساں اور برابر کے حقوق حاصل ہيں اور عدل الہی کا نور سب پر چمکے گا اور قرآن و سنت کی باران رحمت سب پر برابر نازل ہوگی۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد امام خمینی (رہ) نے فرمایا تھا کہ ملک میں وہی نظام حکومت ہوگا جو عوام چاہيں گے، چنانچہ امام خمینی (رہ) نے ملک گیر ریفرنڈم کا حکم دیا اور ایران کے عوام نے اپنے لئے اسلامی جمہوری نظام کا انتخاب کیا، اس مناسبت سے اس دن پورے ایران میں عام تعطیل رہتی ہے اور مختلف تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

امام خمینی (رہ) نے اپنی ساری زندگی میں اس بات کو بڑی قوت سے بیان کیا ہے کہ اسلام ایک مکمل دین ہے اور اس میں زندگی کے ہر مسئلے کا حل موجود ہے، وہ اسلام کو ایک مکمل ضابطہ حیات سمجھتے اور اسے انسانی معاشروں پر نافذ کرنے کے قائل تھے۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ جب تک پرچم توحید ساری دنیا پر چھا نہیں جاتا ہمارا جہاد جاری رہے گا۔ آپ نے سویت یونین کے اس وقت کے صدر گورباچوف کو جو تاریخی خط تحریر کیا تھا، وہ صرف کریملن کی قیادت تک محدود نہیں تھا بلکہ وہ دنیا کے تمام الحادی نظاموں کے ماننے والوں کے لئے یہ پیغام تھا کہ انسانیت کی اصلی پناہگاہ اسلامی نظام ہے۔ آج ایران کے اسلامی نظام کو نابود کرنے کی جو سازشیں کی جاتی ہیں، اسکی بنیادی وجہ یہی ہے کہ شیطانی طاقتیں اسلام کے حقیقی نظام سے خوفزدہ ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس ہونا شروع ہوگیا ہے کہ اشتراکیت کے بعد اب سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ بھی نزدیک ہے۔ وہ اسلام کو متبادل نظام کے طور پر تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ایران کے موجودہ رہبر بھی اپنے خطابات میں انہی نکات کو بیان فرماتے رہتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا تھا کہ ایران سے دشمنی کی ایک وجہ اسلامی نظام کی ظلم واستکبار سے مخالفت ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے ایران سے دشمنی کی وجوہات کا تجزیہ کرتے ہوۓ مزید فرمایا تھا کہ دشمن نے ہمیشہ یہ ظاہر کرنےکی کوشش کی ہے کہ اسلامی اقدار اور انقلابی اصولوں پر قائم رہ کر پیشرفت و ترقی ممکن نہیں ہے جبکہ اس کے برخلاف ملت ایران کی عظیم پیشرفت اسلامی اصولوں پر کاربند رہنے سے ہی حاصل ہوئی ہے۔ مسلمہ امر یہ ہے کہ ایران مغرب کی دھمکیوں اور خلاف ورزیوں سے ہراساں نہیں ہے اور اسلامی نظام اور انقلاب کے اصول و مقاصد پر قائم ہے، کیونکہ اس نے اپنی طاقت اپنے بل بوتے اور اپنے اعتماد و استقامت سے حاصل کی ہے۔

انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد دو غلط اور انحرافی عناوین اور مفاہیم علماء اور انقلاب اسلامی کے دشمنوں کی جانب سے اذہان میں پیدا کئے گئے۔ دشمن ان دو غلط مفاہیم اور درحقیقت ان دو تہمتوں کو ایک تدبیر (Tactic) کے عنوان سے بروئے کار لاتے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک "مولویوں کی حکومت" کا مسئلہ ہے، جو وہ حربے کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔ کہتے ہیں کہ ایران میں "مولویوں کی حکومت، علماء کی حکومت" ہے۔ اس مفہوم کے بارے میں وہ لکھتے رہے، اس اصطلاح کو دہراتے رہے، اس کو فروغ دیتے رہے۔ ان کا مروجہ دوسرا مفہوم "سرکاری علماء اور غیر سرکاری علماء" کا مفہوم تھا۔ ان غلط اور انحرافی مفاہیم سے ان کا مقصد یہ تھا کہ اولاً اسلامی نظام کو علمائے دین کی عظیم فکری، نظری، استدلالی اور علمی حمایت و پشت پناہی سے محروم کر دیں؛ ثانیاً ذمہ دار علماء، انقلابی علماء، میدان عمل میں حاضر و موجود علماء، جنہوں نے دشمنوں کی دشمنیوں کے سامنے سینہ سپر کیا انکو اپنے گوشہ نشینی پر مجبور کردیں، لیکن حقیقت امر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اقدار کی حکومت ہے، اسلام کی حکومت ہے، شریعت مقدسہ کی حکومت ہے، فقہ کی حکومت ہے۔

رہبر انقلاب فرماتے ہیں
اسلامی جمہوریہ سے عالمی استکباری طاقتوں اور ان میں سرفہرست امریکہ اور صیہونی نیٹ ورک کی کبھی نہ ختم ہونے والی دشمنی کی اصلی وجہ وہ نہیں ہے جو ہمارے دشمن اپنے نعروں میں بیان کرتے ہیں یا ملک کے اندر بعض افراد جو باتیں کرتے ہیں، حقیقت امر یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کچھ باتوں کی نفی کرتی ہے اور کچھ امور کے اثبات پر اس کا اصرار ہے۔ اسلامی جمہوریہ استحصال کی نفی کرتی ہے، دوسروں کی تسلط پسندی کی نفی کرتی ہے، دنیا کی بڑی طاقتوں کے ہاتھوں قوموں کی توہین کی نفی کرتی ہے، سیاسی امور میں اغیار پر انحصار کی نفی کرتی ہے، ملک کے اندر عالمی سامراجی طاقتوں دخل اندازی اور ریشہ دوانیوں کی نفی کرتی ہے، اخلاقیات کے مسئلے میں لا ابالی پن کی نفی کرتی ہے۔ یہ اسلامی جمہوریہ کی ٹھوس اور اٹل نفی ہے۔ اسی طرح اسلامی جمہوریہ کچھ چیزوں کے بارے میں اثبات کا موقف رکھتی ہے۔ قومی تشخص کے سلسلے میں اثبات کا موقف، اسلامی اقدار کے سلسلے میں اثبات کا موقف، دنیا کے مظلومین کے دفاع کے سلسلے میں اثبات کا موقف، علم و دانش کی بلند چوٹیوں تک رسائی کے سلسلے میں اثبات کا موقف، علم و دانش کے میدان میں صرف دوسروں کی تقلید کرنا نہیں بلکہ نئی چوٹیاں سر کرنا۔ یہ ایسی چیزیں ہیں جن کے بارے میں اسلامی جمہوریہ اثبات کا موقف رکھتی ہے، اس پر اصرار کرتی ہے۔ کچھ چیزوں کی نفی اور کچھ چیزوں کے لئے اثبات۔ یہی چیزیں امریکہ اور عالمی صیہونی نیٹ ورک کی دشمنی اور عناد کی اصلی وجوہات ہیں۔

قرآن کریم کی آیہ شریفہ ہے؛ «فمن يكفر بالطاغوت و يؤمن باللَّه فقداستمسك بالعروة الوثقى» اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لینے کا مفہوم یہیں پر واضح ہوتا ہے۔ اللہ کی رسی سے تمسک کیسے کیا جاتا ہے؟ اللہ پر ایمان اور طاغوت کی نفی کے ذریعے۔ آج دنیا کا طاغوت اعظم ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت ہے، کیونکہ اسی نے صیہونزم کو وجود بخشا ہے اور اس کی مدد و حمایت کر رہی ہے۔ امریکہ سابق طاغوت اعظم یعنی برطانیہ کا جانشین بن گیا ہے۔ امریکی حکومت، اس کے ہم خیالوں اور اتحادیوں کی جارحیتوں کی وجہ سے عالم اسلام بڑے دشوار حالات سے دوچار ہے، اپنے فیصلوں کے سلسلے میں، مادی و معنوی ترقی کے سلسلے میں ہر معاملے میں وہ امریکہ، اس کے اتحادیوں اور ہم خیالوں کے دباؤ میں کام کرنے پر مجبور ہے۔ امت اسلامیہ کے بیشتر حصوں میں ہمیں ایمان باللہ تو دکھائی دیتا ہے لیکن طاغوت کی نفی نہیں کی جا رہی ہے، جبکہ طاغوت کی نفی کرنا بھی ضروری ہے۔ جب تک طاغوت کی نفی نہ کی جائے گی، اللہ کی مستحکم رسی سے تمسک ممکن ہی نہیں ہوگا۔ ہم ملکوں، حکومتوں اور قوموں کو امریکہ کے خلاف جنگ کی دعوت نہیں دیتے، ہم تو بس اتنا کہتے ہیں کہ امریکہ کے سامنے سپردگی کی کیفیت نہ پیدا ہونے دیں۔

یوم جمہوریہ حقیقت میں اسلامی جمہوری نظام کے اصولوں کی پاسداری اور امام خمینی (رہ) کے مشن کو پوری قوت کے ساتھ جاری رکھنے کے عزم کا اعلان ہے۔ اسلامی انقلاب کی تحریک کے دوران ایران کے عوام کا ایک اہم نعرہ استقلال، آزادی و جمہوری اسلامی تھا اور اس ریفرنڈم کے ذریعہ ایران کے عوام کی یہ خواہش پوری دنیا کے لئے ثابت ہوگئی کہ وہ دین اسلام کی تعلیمات پر مبنی ایک اسلامی جمہوری نظام چاہتے ہيں۔ ایران کے لئے اسلامی جمہوری نظام حکومت کی تائید ہوجانے کے بعد اب ایران کے عوام مختلف انتخابات میں خواہ وہ صدارتی ہوں، پارلیمانی، خبرگان کے ہوں یا بلدیاتی ہر سطح کے انتخابات میں بھرپور طریقے سے حصہ لے کر اپنے اصولوں کی پاسداری کرتے ہيں اور دنیا کے سامنے اسلامی جمہوریت کا شاندار جلوہ پیش کرتے ہيں۔
خبر کا کوڈ : 367756
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش