0
Saturday 22 Nov 2014 20:54

داعش۔۔ شراب کی پرانی بوتل

داعش۔۔ شراب کی پرانی بوتل
تحریر: ارشا دحسین ناصر

ملک کے مختلف حصوں میں عراق و شام میں سفاکیت و درندگی کی انتہاء کا مظاہرہ کرنے والی تنظیم داعش کی موجودگی کی خبروں نے گذشتہ چند ہفتوں میں خاصی اہمیت حاصل کی ہے، یہ خبریں کئی شہروں میں داعش اور اس کے نام نہاد خود ساختہ خلیفہ ابوبکر البغدادی کے حق میں کی جانے والی وال چاکنگ اور بعض مقامات پر بینرز و پوسٹرز سامنے آنے سے متعلق ہیں یا پھر عالمی میڈیا میں آنے والی ان رپورٹس پر مبنی ہیں جو داعش سے مربوط بعض طالبان فسادی کمانڈرز کے دعووں کا پتہ دیتی ہیں۔ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں اس دہشت گرد عالمی گروپ کو ایک بڑا خطرہ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے جس کا ہدف یہ محسوس ہوتا ہے کہ داعش کے نام سے عام پاکستانی عوام بالخصوص اہل تشیع کو ڈرایا جائے، اور ان پر خوف و وحشت کے پہرے بٹھا دیئے جائیں ہم نے دیکھا کہ داعش کی موجودگی کے دعووں بالخصوص اس میں بھرتی کئے جانے والے دہشت گردوں کا تعلق بھی کرم ایجنسی و ہنگو ،کوئٹہ وغیرہ سے بتایا گیا ہے جو پہلے ہی شیعہ و تکفیری جنگوں کے حوالے سے ایک طویل تاریخ رکھتے ہیں، جبکہ ان علاقوں کو پاکستان کے انتہائی حساس ایریاز میں بھی شامل کیا جاتا ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ پاکستانی افواج کے سپہ سالار جنرل راحیل نے اس حوالے سے بہت کھل کے بیان دیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ملک پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دینگے۔ قبل ازیں یہ خبریں بھی سامنے آ چکی ہیں کہ طالبان تحریک سے وابستہ کچھ کمانڈرز نے باقاعدہ خود ساختہ خلیفہ ابوبکر بغدادی کی بیعت کر کے اس میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ تحریک طالبان اور دیگر دہشت گرد گروہوں کے خلاف جاری آپریشن کے نتیجہ میں ہونے والے بٹوارے کے بعد یہ امر لازمی تھا کہ دہشت گرد کسی نئے نام سے صف بندی کریں گے اور اپنے تخریبی و دہشت گردانہ کام کو جاری رکھیں گے، لہذٰا ہم نے دیکھا کہ دہشت گرد اس کے بعد ایک طرف تو داعش میں شمولیت کا اعلان کر رہے ہیں اور دوسری طرف ان کی کاروائیاں اب جنداللہ اور جماعت الاحرار کے نام سے کی جا رہی ہیں۔ یاد رہے کہ ان دونوں جماعتوں نے داعش کے خلیفہ ابوبکر کی اطاعت قبول کرنے کا اعلان بھی کیا ہوا ہے۔

پاکستان و افغانستان کے عوام و خواص طویل عرصہ سے مختلف قسم کی دہشت گردی سے متاثر چلے آ رہے ہیں، اسی(۸۰) کے عشرے میں افغانستان پر روس کی یلغار سے جو خطرات پاکستان نے محسوس کئے اور اس کے مقابل امریکہ کے ساتھ ملکر جہادی پالیسی اختیار کی اس نے دونوں ممالک میں ایسی آگ لگائی ہے جس کا خمیازہ آج بھی ہم بھگت رہے ہیں اس پالیسی کے نتیجہ میں ہی پاکستان کا ہر شہر مقتل بنایا گیا۔ ہر گلی خونِ انسانی کا ذائقہ چکھ چکی ہے، دہشت گردی، خون آشامی، قتل و غارت، لوٹ مار، خوف و وحشت اور درندگی کی ہر قسم کے دل دہلا دینے والے مناظر ہماری آنکھوں کے سامنے سے گذر چکے ہیں۔ دہشت گردی کے جو تجربات آج عراق و شام میں دہرائے جا رہے ہیں ہم ان سے بدرجہ اتم واقف ہیں، ہمارے لئے یہ سب ناآشنا نہیں ہیں، ہم ان مناظر کے عادی رہے ہیں بلکہ اب یہ معمولات زندگی کا حصہ سمجھے جانے لگے ہیں۔ اب تو کسی دن ایسا منظر سامنے نا آئے تو اضطراب سا محسوس ہوتا ہے۔ اب تو کسی دن کوئی دھماکہ نہ ہو تو ہمیں محسوس ہوتا ہے ہم پاکستان میں نہیں کہیں اور بستے ہیں اب تو اخبار کی سرخیاں بارود نہ اگلیں، خون آشامیوں کی تصاویر نہ دکھائیں اور نوحہ و ماتم کرتی ماؤں بہنوں کی پکار سامنے نا لائیں تو عجب سا محسوس ہوتا ہے۔

داعش نامی دہشتگرد گروہ جسے امریکہ، اسرائیل، ترکی، سعودیہ، اور دیگر عرب ممالک نے شام و عراق میں بربادی لانے کیلئے تیار کیا اس کی سفاکیت اور درندگی نیز سخت نظریات جن میں انبیاء، اولیاء اوصیا، آئمہ، و اصحاب نبی کے مزارات کی تباہی اور اپنے مخالفین چاہے ان کا تعلق ان کے اپنے مذہب سے ہی کیوں نہ ہو کو تہہ تیغ کرنے کے دل دہلا دینے والے مناظر فلما کر پوری دنیا میں نشر کرنا، عراق میں نہایت ہی سرعت سے کئی صوبوں پر کنٹرول حاصل کرنا اور اپنی خلافت کا اعلان کرنا دراصل دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرنا تھا، جس میں انہیں کامیابی حاصل رہی ہے خوش قسمتی یا بدقسمتی یہ سب اس وقت ہوا ہے جب ہماری مسلح افواج نے یہاں دہشت گردوں کی جنت وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقہ جات میں آپریشن ضرب عضب شروع کر رکھا ہے اور انہیں ان کی اوقات یاد کروائی جا رہی ہے۔ دہشت گردوں کی شکست و ریخت کے اس دور میں پاکستان کے گلی کوچوں اور شہروں میں داعش کی وال چاکنگ اور موجودگی کی اطلاعات یقیناً بعض عناصر کیلئے چونکا دینے والی خبر کا درجہ رکھتی ہیں مگر ہمارے لیے حیران کن ہرگز نہیں اس لئے کہ اس ملک کے گلی کوچوں اور شہر و دیہات میں داعشی فکر کے حامل ہزاروں مدارس موجود ہیں جن میں تعصب، تنگ نظری، سخت گیری اور جامد سوچ کو پروان چڑھایا جاتا ہے اور گذشتہ چار دہائیوں سے خصوصی طور پر ہمارے معاشرے میں یہ زہر افشانی کی جاتی رہی ہے، اسی زہر افشانی کے نتیجہ میں ہی داعش، القاعدہ، جنداللہ، لشکر جھنگوی، طالبان اور سپاہ صحابہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں معرض وجود میں آتی ہیں، اب اگر داعش سامنے آ گئی ہے تو کوئی نئی قیامت نہیں آنے والی، ہم ان تمام قیامتوں کو دیکھ اور چکھ چکے ہیں جو داعشی لانا چاہتے ہیں۔

داعش کا خوف اس کی سفاکیت و درندگی ہے جس کے مظاہرے بہ طور پاکستانی اور بہ طور شیعہ ہم نے ان شامیوں اور عراقیوں سے پہلے دیکھے ہیں جو آج اس کا شکار ہیں۔ داعش کا تعارف عورتوں کی عزتوں کی پائمالی اور بازار لگا کر فروخت کرنا ہے جس کا شکار ہمارے قبائلی ایک عرصہ تک رہے ہیں جہاں طالبان کو جو پسند ہوتا تھا وہی اسلام کا حکم ہوتا تھا، کسی میں مجال نہ تھی کہ انکار کرے۔ داعش کا خوف اور ڈر اس کے گلے کاٹنے کی وجہ سے ہے تو اس کا آغاز ہمارے ملک سے سپاہی لائق حسین سے شروع ہوا اور پیر قیوم صدہ (پاراچنار) میں شیعہ ٹرک ڈرائیورز کے گلے،بازو، زبانیں کاٹنا انتہا تھی۔ بلوچستان اور کراچی میں بھی یہ سفاکیت ہم نے دیکھی۔ داعش کی سفاکیت چوکوں، چوراہوں میں لا کر گولیوں سے بھون دینا ہے تو ہمارے ملک میں یہ کام طالبان سوات، وزیرستان اور دیگر ایجنسیز میں ہر روز کرتے تھے، چوکوں میں مخالفین کو جاسوس قرار دیکر کھمبوں سے لٹکانا ان کا محبوب مشغلہ رہا ہے۔ ہاتھ پاؤں کاٹنا،پ ھانسیاں دینا اور زندہ انسانوں کو بھڑکتی آگ میں ڈال دینا داعش کا ایک روپ ہے جس سے ڈرایا جاتا ہے تو یہ بھی کچھ نیا نہیں ایسا سب تو ہمارے ہاں معمولات زندگی میں رہا ہے۔ طالبان میں ایسے ایسے سفاک اور درندے تھے جو انسانی کھوپڑیوں سے فٹ بال کھیلنے کا مشغلہ اپنائے ہوئے تھے، جو فوجیوں کو لائن میں کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیتے تھے، عام لوگوں کو بسوں سے اتار کے تہہ تیغ کر دیتے تھے، جن کا نام دہشت کی علامت تھا، جو سفاکیت کا دوسرا نام تھے، جنہیں چھلاوا کہلاتے تھے اور ہاتھ میں نہیں آتے تھے آج ان کا نام بھی لینے والا کوئی نہیں۔ مکتب تشیع کو تو اس لئے بھی نہیں ڈرایا جا سکتا کہ اس کے ہر بچے کو شہادت کی گھٹی دی جاتی ہے اور کربلا جیسی درسگاہ میں اس کی تربیت ہوتی ہے جہاں قربانی، ایثار، جہاد، اطاعت، استقامت، عشق الہٰی و حقیقی، اور شجاعت و بہادری کے سبق ازبر کرائے جاتے ہیں، ہمیں ڈرانے کیلئے اگر طالبان یا ان کے سرپرست داعش کا نام استعمال کر رہے ہیں تو انہیں عراق و شام میں ان کی درگت کو بھی نہیں بھولنا چاہیئے، کس طرح اللہ کے شیروں کے سامنے یہ چوہے مارے جا رہے ہیں اس کا اندازہ بھی کر لیں اور بھاگنے والے چوہوں کو ذرا سنبھالیں کہ ان کا اگلا کام اب ان کے پالنے والوں کے محفوظ سمجھے جانے والے گھروں میں سوراخ کرنا ہو گا۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے جس کی افواج دنیا کی مانی ہوئی اور قابل ترین افواج سمجھی جاتی ہیں، یہ عراق نہیں جہاں داعشی بغیر کسی مزاحمت کے تین اہم ترین صوبوں پر قابض ہو گئے اور مرکزی حکومت کو پتہ بھی نہیں چلا اور وہ ہر دن آگے بڑھتے چلے گئے۔ سپہ سالار پاکستان جنرل راحیل شریف نے جس اعتماد کیساتھ کہا ہے کہ داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دینگے اس کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ داعشی یا طالبانی فکر و انداز کو مزید برداشت نہیں کیا جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 420891
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش