0
Thursday 10 Jul 2014 23:45

عراق میں موجود مسلمان ہی تکفیری دہشتگردوں کو پسپا کرنے کیلئے کافی ہیں، علامہ سید محمد عسکری

عراق میں موجود مسلمان ہی تکفیری دہشتگردوں کو پسپا کرنے کیلئے کافی ہیں، علامہ سید محمد عسکری
حجۃ الاسلام و المسلمین علامہ سید محمد قاضی عسکری عرصہ دراز سے جامعہ اہل بیت (ع) نئی دہلی میں مدیریت کے فرائض انجام دے رہے ہیں، آپ کی سرپرستی میں دہلی سے ہی ایک ماہنامہ بھی شائع ہوتا ہے، ملکی و غیر ملکی تبلیغی دورے آپ کی اولین مصروفیت کی حیثیت رکھتے ہیں، تبلیغی سفر آپ کا معمول بن گیا ہے، علامہ سید محمد قاضی عسکری ہندوستان کے جید و فعال ترین علماء میں شمار کئے جاتے ہیں، آپ کے حالیہ دورہ کشمیر کے دوران ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے آپ سے عالم اسلام کی موجودہ صورتحال پر ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: عالم اسلام کو تکفیری دہشت گردوں سے خطرہ لاحق ہے کہ اللہ اکبر کہہ کر مسلمانوں کے گلے کٹ رہے ہیں اس حوالے سے آپ کے تاثرات۔؟
علامہ سید محمد عسکری: دیکھئے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ صدر اسلام سے ہی چلا آ رہا ہے کہ اسلام کا گلہ اسلام کی تلوار سے کاٹو، کل بھی یہی ہوا تھا کہ نفاق کی نقاب اوڑھ کر اسلامی تعلیمات و احکامات کو مسخ کرنے کی کوشش کی گئی اور ان لوگوں کو صف ہستی سے مٹانے کی کوشش کی گئی جو اسلام کا حقیقی پیغام لوگوں تک پہنچا رہے تھے، کربلا اس کا ایک زندہ نمونہ ہے، کربلا میں بھی اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کا نعرہ لگا کر سید الشہداء امام حسین (ع) کا گلہ کاٹا گیا، تکبیر کا گلہ کاٹا گیا تکبیر کا نعرہ لگا کر، تحلیل کا گلہ کاٹا گیا تحلیل کی آوازیں بلند کرکے، وہی آج بھی ہو رہا ہے، داعش ہو یا النصرہ ہو القاعدہ ہو یا طالبان ہو، نام بدلے ہوئے ہیں کام وہی ہے، حقیقت میں یہ سب ایک ہیں، دراصل یہ تمام کے تمام استعمار اور سامراج کے ایجنٹ ہیں، امریکہ کے آلہ کار ہیں، انہیں جہاں جس کو استعمال کرنا ہوتا ہے استعمال کرتے ہیں، کبھی جمہوریت کے نام پر، کبھی کسی اور نام پر، شام میں بہانہ یہ تھا کہ وہاں ڈیموکریسی نہیں ہے۔ بشارالاسد کی حکومت غیر قانونی ہے، اس لئے ہم مقابلہ کر رہے ہیں، داعش کی مدد کر رہے ہیں النصرہ کی مدد کر رہے ہیں لیکن عراق میں کیا ہے، عراق میں حال ہی الیکشن ہوئے ہیں، فیئر الیکشن ہوئے اور سب نے تصدیق کی ہے کہ عراق میں فیئر الیکشن ہوئے ہیں، اب فیئر الیکشن میں اس دفعہ شیعوں کو اکثریت مل گئی، اتنی تعداد میں انہیں سیٹیں مل گئیں کہ اگر آپس میں متحد ہو جائیں انہیں نہ کردوں کی ضرورت ہے نہ عربوں کی ضرروت ہے، یہی دشمن کے لئے خطرے کی گھنٹی ہو گئی، اب اگر یہ منتخب لوگ چاہتے تو تمام حکومت ان کی ہوتی، تو یہ ایک طاقتور اور مضبوط حکومت تشکیل پاتی، دنیا میں یہ کہاں ہوتا ہے کہ جو انتخابات میں جیت جائیں وہ ہارے ہوئے لوگوں کو اپنے سروں پر بٹھائیں اور جیت جانے والے ہارے ہوئے لوگوں کو بھی حکومت میں شامل کریں، آج کہا جاتا ہے کہ نور المالکی اپنے عہدے سے دست بردار ہو جائیں ایسا دنیا کے کس قانون میں ہے اگر ایسا ہوا تو الیکشن کیا معنی رکھتا ہے اور ڈیموکریسی کے کیا معنی ہیں، ہاں جمہوریت میں اکثریت کو اقلیت پر ظلم کرنے کی اجازت نہیں ہے، ظلم کرنے پر آپ انہیں روک سکتے ہیں آپ نے تو انہیں حکومت بھی نہیں بنانے دی، یہ سارا کھیل جو عراق بھر میں تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں کھیلا جا رہا ہے دراصل منتخب حکومت پر دباؤ ڈالنے کے لئے ہو رہا ہے۔ شام میں ان عناصر کو زبردست ناکامی ہوئی، اب یہ لوگ آہستہ آہستہ نکل رہے ہیں تو کہیں نہ کہیں انہیں پناہ اور ٹھکانہ چاہیئے ہی ہوگا، اب انہیں کہاں بھجیا جائے امریکہ طے کرتا ہے، یہ سارا کھیل امریکہ کا ہے جس کو سمجھنا اہم ترین ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: کیوں عالمی سطح پر ایسے عناصر کی پشت پناہی اور سرپرستی کی جا رہی ہے۔؟
علامہ سید محمد عسکری: پہلا مقصد تو یہی ہے جو میں عرض کر چکا ہوں، جگہ جگہ پر مقامی حکومتوں کو کمزور کرنا اور پھر خود حکومت کرنا، دوسرا یہ کہ جب اسلامی جمہوریہ ایران سے اسلام کا نعرہ امام خمینی (رہ) نے بلند کیا تو ساری دنیا کے کان کھڑے ہوگئے اور تمام انسان اس انقلاب کی جانب متوجہ ہوئے، دشمن اسلام کی سازش اور کوشش یہ ہے کہ جس انقلاب اور اسلام کی آواز امام خمینی نے بلند کی وہ اسلام یہ ہے جو تکفیری پیش کر رہے ہیں، گلے کاٹو، کان کاٹو، آنکھیں نکالو، کٹے ہوئے سروں سے فٹ بال کھیلو، ظاہر ہے کہ جو بھی فرد اس کو دیکھے گا وہ اسلام سے اور مسلمانوں سے ہی متنفر ہو جائے گا، جو لوگ اور جو نوجوان جوق در جوق اور گروہ در گروہ اسلام کی جانب مائل ہو رہے تھے انکے تیزی سے بڑھتے ہوئے قدم تھم جائیں گے، اسی لئے یہ سب کچھ دنیا بھر میں ہو رہا ہے، آپ دیکھتے ہونگے کہ اگر کوئی ظلم کرتا ہے تو اپنے ظلم کی تشہیر نہیں کرتا، یہ داعش جیسے عناصر تو اپنے ظلم کی کھل کر تشہیر بھی کرتے ہیں، یہ لوگ مظالم کی انتہا کرکے اسکی ویڈیو بناتے ہیں اور منظر عام پر لاتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک خاص مقصد کے تحت انہیں پروجیکٹ کیا گیا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیوں یہ عناصر اسلام دشمن عناصر کے ہاتھوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، انکی کیا اغراض ہو سکتی ہیں۔؟
علامہ سید محمد عسکری: تکفیری عناصر کے سرغنے اور لیڈران کا مقصد دولت کمانا ہے اور جو لوگ جڑے ہوئے ہیں انہیں بےجا استعمال کیا جا رہا ہے، وہ بڑی سادگی سے اسلام کے نام پر اسلام کے خلاف کام کرنے میں مصروف ہیں، کہیں جنت کی طلب تو کہیں حوروں کی خواہش، جیسے کربلا میں لوگ جنت کے لئے سردار جوانان جنت کا سر کاٹنے آئے تھے، عمر سعد اور شمر جیسے افراد اپنے عہدے اور منصب کے لئے کربلا آئے تھے ایسے ہی داعش اور النصرہ کا حال ہے ان کے لیڈران پیسوں اور ہوس دنیا کے لئے اسلام کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں اور اپنے مکروہ مقاصد کے لئے کچھ بھی کرنے کو آمادہ ہیں۔

اسلام ٹائمز: مقدسات اسلامی پر پے در پے حملوں پر عالم اسلام کا ردعمل کیا ہونا چاہیئے، جیسا کہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ہندوستان سے بعض افراد عراقیوں کی امداد کے لئے وہاں جانے کے لئے آمادہ ہیں، اس حوالے سے آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
علامہ سید محمد عسکری: کوئی بھی انسان ان حرکات کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتا ہے جو جس حد تک دفاع کرسکتا ہے اسے کرنا چاہیئے اور مقدسات اسلامی کا دفاع کرنا تمام مسلمانوں کا دینی فریضہ ہے لیکن عراق میں موجود مسلمان ہی تکفیری دہشت گردوں کو پسپا کرنے کے لئے کافی ہیں، اربعین امام حسین میں جو لوگ وہاں جمع ہوتے ہیں اس کا دس فیصد حصہ بھی وہاں متحد ہوجائے اور داعش کے خلاف کمر بستہ ہو جائیں تو وہاں تکفیری ٹک نہیں سکتے ہیں، عراقی عوام اپنی ذمہ داری سمجھ لے تو انہیں باہر سے کسی معاونت کی ضرورت نہیں ہے، ہاں باہر کی دنیا اپنی اخلاقی و سفارتی یا مالی حمایت انہیں دے سکتے ہیں، ضرورت نہیں ہے کہ باہری دنیا سے کوئی انکی مدد کے لئے وہاں جائے، داعش کو پسپا ہونا ہے اور وہ شام میں بھی پسپا ہوئے اب عراق میں پسپا ہونے کے لئے ہی آئے ہیں، جب یہ شام میں کسی منزل تک نہ پہونچے تو عراق میں انہیں کیا حاصل ہوگا سوائے داعش کی تباہی و بربادی کے، کسی بھی حالت میں یہ عراق میں کامیاب نہیں ہونگے۔

اسلام ٹائمز: دنیا میں موجودہ مسلم نسل کشی کے پیچھے کیا اہداف ہو سکتے ہیں۔؟
علامہ سید محمد عسکری: باطل نے ہمیشہ حق کی آواز کو دبانے کی کوشش کی اور کبھی بھی کسی برحق آئیڈیالوجی کو برداشت نہیں کیا، اسلام چونکہ ایک برحق آئیڈیالوجی ہے اور ظالم کی پشت پناہی ہرگز نہیں کرتا، اس لئے باطل نے ہمیشہ سے ہی اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے غیر مسلم طبقہ مسلمانوں کو شک کی نظر سے دیکھ رہا ہے، حالانکہ انہیں اسلام سے کوئی خطرہ نہیں ہے، کیونکہ اسلام عدل و انصاف کو پسند کرتا ہے اور اس کی تلقین کرتا ہے، اسلام مظلومین کا ساتھی و مددگار ہے۔

اسلام ٹائمز: دنیا میں جاری قتل و غارت کی اصل وجہ کیا ہے۔؟
علامہ سید محمد عسکری: دنیا میں جاری قتل و غارت کی اصل وجہ خدا کے حقیقی دین سے دوری ہے، اسلام جہاں ظالم کی مذمت کرتا ہے وہیں خاموشی سے ظلم دیکھنا اور ظلم سہنا بھی گناہ ہے، آج اگر دیکھا جائے تو تنہا باراک اوباما ہی ظالم نہیں ہے بلکہ ظالم وہ عرب حکمران بھی ہیں جو ظالم کا ساتھ دیتے ہیں یا اس کے ظلم پر خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔ جب تک مسلمان خدا کے دین سے دوری اور اس کے نازل کردہ احکامات کی پیروی نہیں کریں گے، تب تک دنیا میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رہے گا، اور جب ہم ظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوںگے، مظلومین کی حمایت کے لئے اٹھ کھڑے ہونگے تو دنیا میں پھیلے ظلم، قتل و غارت کا خاتمہ حتمی ہے، مسلمانوں کو وہ چاہے کسی بھی ملک میں رہ رہے ہوں، انہیں چاہیئے کہ عدل قائم کریں، مظلومین کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوں اور ایک دوسرے پر ظلم و تعدی سے ہرگز کام نہ لیں۔
خبر کا کوڈ : 398536
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش