0
Monday 29 Sep 2014 21:30
غزہ کی مجرم

صہیونی، سیسی، سعودی مثلث؟ (1)

صہیونی، سیسی، سعودی مثلث؟ (1)
تحریر: عرفان علی 

گو کہ غزہ پر جارحیت ایک سیز فائر معاہدے کے تحت عارضی اختتام کو پہنچی، لیکن اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ فلسطین پر اپنے ناجائز وجود کو ریاست اسرائیل قرار دینے والے نسل پرست صہیونی دہشت گرد کب ماضی کی طرح ایک اور مرتبہ اس جنگ بندی کو ختم کر دیں اور پھر غزہ پر حملہ آور ہوجائیں۔ ماضی میں کی گئی جارحیت اور جولائی، اگست 2014ء میں کی صہیونی جارحیت میں ایک فرق یہ تھا کہ سعودی اور مصری حکومت کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑی نظر آئیں۔ غزہ جنگ 2014ء نے دنیا پر ایک مثلث کو ظاہر کیا، جسے ہم صہیونی، سیسی و سعودی مثلث کے عنوان سے شناخت کرسکتے ہیں۔ صہیونیوں کے بارے میں غزہ آزمائش کی سرزمین کے عنوان سے ایک مقالے میں بات ہوچکی۔ اب دیگر دو کے بارے میں گفتگو ہوگی۔

جب جنرل سیسی مصر کے حکمران نہیں بنے تھے، تب بھی یہ مثلث مقاومت اسلامی فلسطین کے مقابلے میں خفیہ طور پر سرگرم عمل تھی۔ سعودی بادشاہت کی منافقت کا یہ عالم تھا کہ بظاہر 2007ء میں وہ حماس اور الفتح کے مابین مفاہمت کے لئے معاہدہ مکہ کے لئے ثالثی کر رہے تھے، لیکن دوسری جانب مصر کے شانہ بشانہ سعودی حکمران امریکی حکومت کو یقین دلا چکے تھے کہ وہ امریکی و اسرائیلی خواہش کے مطابق فلسطینیوں کو امداد کا جو لالی پاپ دیں گے، اس میں حماس حکومت کا کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ (حوالہ: کتاب بعنوان: نو ہائیر آنر، باب 29 کین اینی تھنگ ایلس گو رانگ، از کونڈولیزارائس، سابق امریکی وزیر خارجہ)۔

کونڈی رائس کے الفاظ میں چار کے ٹولے (Quartet) کی شرائط کو اعلانیہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا، لیکن مصر اور سعودیوں نے privately واضح کر دیا تھا کہ وہ فلسطینیوں کو دی جانے والی امداد اس طرح دیں گے کہ وہ حماس تک نہ پہنچے۔ کونڈی رائس کے مطابق اس طرح ہم (یعنی صہیونی اتحاد) نے حماس کو تنہا کرنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ مصر، سعودی، اردن وزرائے خارجہ امریکی صدر جارج بش سے ملے۔ بش نے روڈ میپ کے ذریعے فلسطین کے دو ریاستی حل کی سمت پیش قدمی کا خاکہ پیش کیا تھا۔ بش عرب دنیا میں جمہوریت کی باتیں کر رہے تھے۔ کونڈولیزا رائس کے الفاظ میں چونکہ وہ خود authoritarians تھے، لہٰذا فلسطینی جمہوریت سے وہ خود بھی نالاں تھے۔ (حوالہ: نو ہائیر آنر باب 10بعنوان: دو ریاستی حل، از کونڈولیزارائس)۔

امریکہ کو یہ عرب بادشاہ اس لئے عزیز ہیں کہ ان کے ذریعے عرب و مسلمان عوام کو اسرائیل کے خلاف کوئی عملی قدم اٹھانے سے روک سکتا ہے۔ مصر میں جب اسرائیل مخالف جمال عبدالناصر کی حکومت تھی، تب عراق کا بادشاہ فیصل ان کا مرکزی حریف سمجھا جاتا تھا۔ فوجی بغاوت میں عراقی بادشاہت ختم ہوئی تو ان دنوں لبنان میں مارونی صدر کیمل شمعون کے خلاف لبنان میں جمال عبدالناصر کے حامی سڑکوں پر تھے۔ امریکہ اور شام متحدہ عرب جمہوریہ بن چکے تھے اور امکانات تھے کہ عرب اقوام اس رجحان کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس اتحاد کو مزید وسعت دے سکتی ہیں، یمن بھی اس یونین کا حصہ بن رہا تھا۔ امریکہ نے اسے خطرہ سمجھا کہ ڈومینو افیکٹ کے تحت مغرب کی اتحادی عرب بادشاہتیں اور دیگر اتحادی حکومتیں ختم ہوجائیں گی، اس لئے امریکہ نے اردن، کویت اور سعودی عرب میں افواج بھیجیں، تاکہ دوست بادشاہتیں برقرار رہیں۔ (حوالہ: کتاب بعنوان ، سپورٹ اینی فرینڈ: کینیڈی .ز، مڈل ایسٹ اینڈ دی میکنگ آفدی یو ایس، اسرائیل الائنس،، از: وارن باس)۔ اگر اس سے بھی پہلے دیکھیں گے تو معلوم ہوگا کہ ایک جانب سعودی بادشاہ عبدالعزیز امریکہ کو فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی مخالفت کرتا نظر آئے گا لیکن ساتھ ہی ساتھ سعودی بار بار امریکی صدر ٹرومین کو بتا رہے تھے کہ فلسطین کے مسئلے پر سعودی عرب امریکہ سے کوئی تنازعہ افورڈ نہیں کرسکے گا: (حوالہ: کتاب بعنوان فلسطین اینڈ دی گریٹ پاورز، از مائیکل جے کوہن)۔

جس شاہ فیصل کو ہم ہیرو سمجھتے رہے، اس کے بارے میں بھی ہمارا حسن ظن غلط ثابت ہوا۔ پروفیسر ولیم بی کوانٹ امریکی صدور رچرڈ نکسن اور جمی کارٹر کے دور صدارت میں نیشنل سکیورٹی کاؤنسل کے اسٹاف میں تھے۔ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ جس کے تحت خائن انور سادات حکومت نے ناجائز صہیونی ریاست کو جائز یہودی ریاست تسلیم کرلیا، اس کیمپ ڈیوڈ مذاکراتی عمل میں بھی ولیم کوانٹ شامل تھے۔ انہوں نے امن عمل پر کتاب لکھی ’’پیس پراسیس: امریکن ڈپلومیسی اینڈ دی عرب اسرائیلی کنفلکٹ سنس 1967)۔ جب سعودی حکومت نے دیگر عرب ممالک کی طرح اسرائیل کی معاونت کرنے والے ممالک کو تیل کی فروخت بند کر دی تھی تو امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے سعودی عرب کا دورہ کیا، شاہ فیصل سے ملاقات کی۔ ولیم کوانٹ کے مطابق شاہ فیصل نے کسنجر سے وعدہ کیا کہ وہ امریکہ کی مدد کرے گا اور اس مدد میں تیل فروخت کرنے پر پابندی نرم کرنے یا ختم کرنے کا وعدہ بھی شامل تھا۔ کسنجر اپنے دورے کے نتائج سے خوش تھا) حوالہ: باب پنجم بعنوان قدم بہ قدم ۔۔۔Peace Process, American Diplomacy and the Arab-Israeli Conflict Since 1967)

سعودی امریکی تعلقات کا یہ ماضی ریکارڈ کا حصہ ہے۔ امریکی صدر بش دوم جب گورنر تھا تبھی وہ صدارتی امیدوار بننے کے خواب دیکھ رہا تھا۔ بدنام زمانہ سعودی شہزادہ بندر بن سلطان بش کی گورنری کے دوران سال 1997ء میں مشرق وسطٰی اور اسلامی ممالک کے امور سے متعلق اس کا غیر سرکاری و غیر اعلانیہ مشیر نما دوست بن گیا۔ اسی سعودی دوست بش نے افغانستان اور عراق پر جنگیں مسلط کیں، مسلمانوں اور عربوں کی نسل کشی کی۔ بش کی صدارت کے 53ویں روز 15 مارچ 2001ء کو بندر بن سلطان نے بش سے اوول آفس میں ملاقات کی۔ مشہور امریکی صحافی باب وڈ ورڈ نے کتاب اسٹیٹ آف ڈینائل میں لکھا کہ کسی بھی سفیر کے لئے یہ انتہائی غیر معمولی بات ہوتی کہ انہیں امریکی صدر تک بندر بن سلطان کی مانند براہ راست رسائی حاصل ہوتی۔ اس کتاب کو پڑھ کر باآسانی سمجھ سکتے ہیں کہ امریکہ کو اسرائیلی مفاد میں جب بھی عرب حکومتوں کا اتحاد یا کردار درکار ہوتا ہے تو بادشاہتوں کی جانب سے مسئلہ فلسطین پر امریکہ کو بیان جاری کرنے کا کہا جاتا تھا۔

مذکورہ بندر، بش ملاقات میں سعودی شہزادے نے شاہ عبداللہ کا پیغام پہنچایا۔ تب شاہ فہد علیل تھے اور کہنے کو عبداللہ ولی عہد اور شہزادے لیکن عملی طور پر حکمران تھے۔ شاہ عبداللہ نے کہا صدام حسین پر دباؤ ڈالنے کے لئے ماڈریٹ عربوں کا جو اتحاد قائم ہونا ہے، اس کے لئے فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین امن عمل پر پیش رفت ضروری ہے۔ باب وڈ ورڈ نے لکھا کہ فلسطینیوں کے مسئلے کو بنیاد بنا کر مئی میں سعودی شاہ عبداللہ نے امریکہ کی دعوت ٹھکرا دی، لیکن جون کے پہلے ہفتے میں بندر بن سلطان نے بش، کولن پاول اور کونڈو لیزا رائس کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر کے گھر میں ڈنر کیا۔ یہ ملاقات 5 گھنٹے جاری رہی۔ بندر التجا کر رہا تھا کہ امریکہ کو کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے، امریکہ تو انہیں مروانے پر تلا ہوا ہے۔ بش نے کہا یاسر عرفات جھوٹا ہے تو بندر نے کہا کہ ایسا ہی ہے، لیکن اسی سے معاملات طے کرنا مجبوری ہے۔ عرب رائے عامہ کی وجہ سے سعودی امریکہ سے نمائشی مگر کھوکھلے کردار کا تقاضا کیا کرتے ہیں، جس کی ایک مثال یہ ملاقات تھی۔

اگست 2012ء میں صہیونی جنرل سکیورٹی سروس شین بیت کے سابق سربراہ ایمی ایالون نے چارلی روز کو انٹرویو میں اعلانیہ کہا کہ وہ حماس اور اس کے اتحادی ایران اور شام کے خلاف سنی ممالک کا اتحاد قائم کریں گے۔ کلین بریک نامی صہیونی دستاویز میں 1996-97ء میں یہ دھمکی بہت پہلے ہی دی جاچکی تھی اور تب بھی صہیونی ناجائز ریاست اسرائیل کا وزیراعظم بنجامن نیتن یاہو ہی تھا۔ بندر بن سلطان امریکہ میں سعودی سفیر بھی رہا اور سعودی انٹیلی جنس کا سربراہ بھی۔ اسی طرح بند ر کا کزن ترکی الفیصل بھی ان دونوں عہدوں پر فائز رہا۔ بندر اور اس کا کزن شاہ فیصل کا یہ بیٹا اور وزیر خارجہ سعودال فیصل کا بھائی بھی صہیونیوں سے خفیہ تعلقات بہت پہلے استوار کرچکے تھے۔ قصہ مختصر یہ کہ مئی میں ایک فورم پر سعودی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ شہزادہ ترکی الفیصل برسلز میں صہیونی انٹیلی جنس کے سابق سربراہ جنرل اموس یادلن کے ساتھ بیٹھے امن کی باتیں کر رہے تھے اور غزہ پر حملے سے صرف ایک دن قبل ان کا صہیونیوں کو امن کی پیشکش پر مبنی مقالہ اسرائیلی اخبار ہا آرتس میں شایع ہوا تھا۔ یہ سعودی خیانتوں کا ایک اجمالی جائزہ ہے۔ موقع ملا تو انشاءاللہ مزید نکات پر بھی کبھی قلم اٹھاؤں گا۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 412388
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش