0
Tuesday 18 Nov 2014 20:28
دھرنوں کا مقصد عوام میں اتحاد و وحدت کا پیغام دینا تھا

ملک میں ہر اس سیاسی و مذہبی جدوجہد کیساتھ ہیں جو تکفیریت اور دہشتگردی کیخلاف ہو، علامہ غلام محمد فخرالدین

سیکولر جماعتیں عوام کو آپس میں الجھا کر حکمرانی کرتی رہی ہیں
ملک میں ہر اس سیاسی و مذہبی جدوجہد کیساتھ ہیں جو تکفیریت اور دہشتگردی کیخلاف ہو، علامہ غلام محمد فخرالدین
علامہ غلام محمد فخرالدین گذشتہ دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین شعبہ قم کے سیکرٹری جنرل ہیں۔ اس سے قبل آپ قم میں شوریٰ عالی کے رئیس بھی رہے ہیں۔ آپ 22 نومبر 1971ء کو گلگت بلتستان کے علاقے اسکردو میں پیدا ہوئے۔ 1990ء میں آپ نے ڈگری کالج اسکردو سے گریجویشن کی تعلیم مکمل کی، بعدازاں پنجاب یونیورسٹی بورڈ سے بھی اکنامکس میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ طالب علمی کے ادوار میں آپ اسکردو کالج میں آئی ایس او بلتستان ڈویژن کے دو مرتبہ صدر منتخب ہوئے۔ 1993ء میں آپ تحریک جعفریہ بلتستان ڈویژن کے سیکرٹری جنرل رہے۔ 1994ء میں آپ پارلیمانی بورڈ تحریک جعفریہ کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ بعدازاں آپ اسلامی جمہوریہ ایران کے شہر قم المقدسہ میں تعلیم کیلئے تشریف لے گئے۔ تفسیر قرآن میں پی ایچ ڈی کی تعلیم المصطفٰی انٹرنیشنل یونیورسٹی سے مکمل کی۔ اسکے علاوہ آپ قم میں تدریس بھی کرتے ہیں۔ موجودہ ملکی صورتحال میں‌ پارٹی کارکردگی کے حوالے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ان کیساتھ ایک مختصر نشست کی، جس کا احوال قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: گذشتہ چند مہینوں سے ڈاکٹر طاہر القادری کی زیر قیادت دیئے گئے احتجاجی دھرنوں میں مجلس وحدت مسلمین کی شرکت پاکستانی قوم خصوصاً ملت تشیعُ کیلئے کس قدر مثبت ثابت ہوئی یا مستقبل میں ہو سکتی ہے۔؟
علامہ غلام محمد فخرالدین: سب سے پہلے تو آپکا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انٹرویو کیلئے تشریف لائے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان میں تشیع کی نمائندہ جماعت ہے۔ درحقیقت جس مقصد کیلئے ہم نے انکا ساتھ دیا تھا اسکا خلاصہ دو نکات میں ہوتا ہے۔ سب سے پہلے تو ہمارا نعرہ مظلوم کی حمایت ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ جس بے دردی کیساتھ ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے بےگناہ کارکنوں کو مارا گیا، حتٰی بچوں اور خواتین پر بھی رحم نہیں کیا گیا۔ لہذٰا یہاں ہم نے انکی مظلومیت کا ساتھ دیا ہے۔ اسی طرح جب سانحہ راولپنڈی میں سیاسی و دینی جماعتیں اور میڈیا ہمارے مکتب کیخلاف کھڑے ہوئے، تو اس وقت ہمارے ساتھ اسی سنی اتحاد کونسل اور طاہر القادری صاحب کے ماننے والوں نے ہر سطح پر تعاون کیا، جو انتہائی قابل قدر و تحسین تھا۔ لہذٰا ہم نے بھی اتحاد اور وفاداری کا مظاہرہ کرنا تھا، اسی لئے جب ان پر مظالم ڈھائے گئے اور بےجرم و خطاء مارا گیا تو یہ ہماری انسانی، اخلاقی، سیاسی اور شرعی ذمہ داری تھی کہ ہم انکا ساتھ دیتے ایک ایشو یہ تھا۔

جبکہ دوسرا نکتہ یہ کہ ہم اس حقیقت پر یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان میں اکثریت ہماری سنی بریلوی بھائیوں کی ہے۔ اسی طرح یہ حقیقی معنوں میں پاکستان کیساتھ وفادار اور قتل و غارت گری پر یقین نہیں رکھتے۔ اہلبیت علیہم السلام کے سچے عاشق جبکہ تکفیریت کے بالکل خلاف ہے۔ لہذٰا ہمارا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ برادران اہلسنت بریلوی حضرات، جو اکثریت میں ہونے کے باوجود جنکا کوئی سیاسی سیٹ اپ پاکستان میں موجود نہیں۔ نہ ہی انہوں نے سیاسی میدان میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ تو اگر یہ لوگ اپنی سیاسی قوت حقیقی معنوں میں آزمائے تو یقیناً بھرپور طاقت کے ذریعے ظالم حکمرانوں کا راستہ پارلیمنٹ میں روک سکتے ہیں۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ جو ملک دشمن قوتیں پاکستان کو توڑنا اور فرقہ واریت کو ہوا دینا چاہتی ہیں، ان کیخلاف ایک ایسی قوت کو تشکیل دے جو انکا بہتر انداز میں مقابلہ کرسکے۔ اسکے علاوہ ایک ضروری بات یہ ہے کہ اس ملک کو تب ہی بچایا جاسکتا ہے جب حقیقی معنوں میں یہاں سے تکفیریت کا خاتمہ ہو۔ جس طرح اس ملک کو شیعہ سنی مسلمانوں نے ملکر بنایا تھا، اسی طرح آج دونوں کے اتحاد سے ہی اس ملک کو دوبارہ بچایا جاسکتا ہے۔ لہذٰا ہمارا مقصد یہی ہے کہ جو دوریاں ہمارے درمیان پیدا کی گئی تھی، ہم اسے پوری قوم کیلئے آشکار کریں کہ یہ کچھ مخصوص گروہ اور ٹولے ہیں جو باہر کے اشاروں پر اس ملک کو تباہ و برباد کردینا چاہتے ہیں۔ تو ہم نے اسلام آباد دھرنوں میں اہلسنت بھائیوں کیساتھ دھرنے میں شرکت کرکے سب کو یہ پیغام دیا ہے کہ پاکستان کے شیعہ سنی اکھٹے ہیں جبکہ مسئلہ صرف مٹھی بھر دہشتگردوں کا ہے۔ جو نہ اسلام اور نہ ہی پاکستان کے خیر خواہ ہیں اور الحمدللہ ہم ان مقاصد میں کامیاب ہو چکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بعض حلقے یہ تنقید کر رہے ہیں کہ طاہر القادری اور عمران خان کا فوج کو مذاکرات میں شامل کرنا ایک ملکی ادارے کو سیاست میں ملوث کرنے کے مترادف ہے۔ جسکی وجہ سے آمرانہ قوتوں کو فوائد مل سکتے ہیں۔ اس پر آپکے کیا تاثرات ہے۔؟
علامہ غلام محمد فخرالدین: پاکستان کی مسلح افواج کی ذمہ داری یقیناً ملک کا دفاع ہے جبکہ سیاستدانوں نے جس طرح جمہوریت کو ماضی میں نقصان پہنچایا ہے یا یوں سمجھ لیں کہ چند قوتوں اور سیاسی جماعتوں نے ملک کو جس عدم استحکام اور فرقہ واریت کا شکار کیا ہے۔ میں‌ سمجھتا ہوں کہ اگر مسلح افواج ان ملک دشمن قوتوں کیخلاف کمر بستہ نہ ہوتیں تو پاکستان کا قائم رہنا بھی مشکل تھا۔ یہاں پر ہر کوئی اپنے لئے سوچتا ہے۔ آج تک کسی سیاستدان نے ملک کیلئے نہیں سوچا۔ ماضی میں بھی بہت سی سیاسی جماعتوں نے پاک افواج کا سہارا لیا ہے لیکن ان دھرنوں میں طاہر القادری صاحب نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ملک میں مارشل لاء نافذ کیا جائے۔ یا اس تحریک کا مقصد یہ ہو کہ ملک میں حرج و مرج پیدا کرکے فوجی حکومت لائے۔ نہ ان دھرنوں میں شرکت کرنے والوں نے ایسا کہا ہے۔ اگر فوج درمیان میں آئی ہے تو یہ حکومت کی وجہ سے ہے۔ خود حکومتی اداروں نے جنرل راحیل شریف صاحب کو ثالثی کا کردار ادا کرنے کا کہا۔

اسلام ٹائمز: جس طرح طاہر القادری صاحب نے اب اور مجلس وحدت مسلمین نے ان سے قبل پارلیمنٹ کا راستہ اپنانے کو ترجیح دی، تو کیا ملک میں دہشتگردی، کرپشن، دھاندلی اور اقرباء پروری سمیت دیگر مسائل کو پارلیمنٹ کا راستہ اپنا کر حل کیا جا سکتا ہے۔؟
علامہ غلام محمد فخرالدین: میں سمجھتا ہوں کہ جو مذہبی جماعتیں‌ پاکستان میں فعال ہیں، انکا ہمیشہ سے یہی شعار رہا ہے کہ ہم اس نظام کو تبدیل کرکے ملک میں حقیقی تبدیلی لائینگے۔ تو اگر یہ جماعتیں اپنی غیر ضروری حرکتوں کو ترک کرکے پاکستان کیلئے مخلصانہ انداز میں سوچیں تو نیک افراد اس سیاسی میدان میں وارد تبدیلی لا سکتے ہیں۔ ورنہ دیگر سیکولر جماعتوں کی یہی کوشش رہی ہے کہ مذہبی جماعتوں کو آپس میں الجھا کر اپنے مقاصد آگے لے جاتے رہے۔ لہذٰا اگر یہ جماعتیں تکفیریت کا راستہ چھوڑ کر پاکستان کے اندر باہمی اتحاد کا ماحول پیدا کرکے، اسلام کے ننانوے فیصد مشترکات پر عمل کرتے ہوئے آگے آئے تو پاکستان کامیاب ہو سکتا ہے۔

جہاں تک ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی بات ہے تو میرا یہ ذاتی نظریہ ہے کہ اس وقت پاکستان اس چیز کا متحمل نہیں۔ اس ملک کے بہت سارے دشمن ہیں۔ پاکستان کو اندر و باہر دونوں جانب سے خطرات ہیں۔ اب حال یہ ہے کہ ملک کی سرحدوں پر جا کر لڑنے کی بجائے پاکستان کے اندر ہمارے افواج لڑ رہی ہیں۔ اسی طرح ملک سیاسی و معاشی طور پر عدم استحکام کا شکار ہے۔ لہذٰا اس موقع پر ہمارا ملک ان چیزوں کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ہمیں سب سے عزیز پاکستان ہے۔ اگر ملک رہے گا تو ہم بھی ہونگے۔ اگر ملک ہی نہ رہے تو انقلاب کہاں لائینگے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ انتخابات میں مجلس وحدت مسلمین کو پاکستان بھر سے اتنی اکثریت نہیں ملی۔ آئندہ انتخابات میں آپ کونسا لائحہ عمل اپناتے ہوئے بہتر پوزیشن کیساتھ سامنے آنے کی کوشش کرینگے۔؟
علامہ غلام محمد فخرالدین: جو بھی حکومت اقتدار میں آتی ہے تو حکومت سنبھالتے ہی وہ آئندہ الیکشن کی تیاریوں میں لگ جاتی ہے لیکن ایک مشکل یہ تھی کہ ہماری جماعت کی عمر بہت کم ہے۔ تین چار سال پہلے سامنے آنے والی جماعت کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں وقت لگے گا۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمیں ملک میں ایسے واقعات کا سامنا کرنا پڑا، جیسے کوئٹہ، کراچی اور گلگت سمیت دیگر جگہوں پر ہمیں حادثاتی کاموں میں الجھایا گیا۔ ہم اپنی اصل قوت اس میدان میں صرف نہیں کرسکے۔ اسکے علاوہ پہلے تو ہماری جماعت نے یہ عزم کیا ہوا تھا کہ انتخابات میں حصہ نہیں لینگے لیکن آخری دو تین مہینوں میں ہماری کابینہ نے نہایت سوچ سمجھ کر اچانک یہ فیصلہ کیا کہ ہم انتخابات میں وارد ہونگے جبکہ اقتصادی لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو جس طرح ایک ایم این اے اپنے حلقے میں اخراجات برداشت کرتا ہے، ہماری جماعت نے پورے ملک میں اس ایک حلقے کے برابر میں پیسہ خرچ نہیں کیا۔ تو یہ ایک سیاسی جدوجہد تھی اور ہم عوامی تحریک کے عنوان سے میدان میں آئے۔ لیکن انشاءاللہ ان تمام تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے آئندہ ہماری کوشش ہوگی کہ بہتر انداز میں آگے آئیں تاکہ ملت کیلئے کچھ کرسکیں۔

اسلام ٹائمز: کیا پاک افواج جنوبی وزیرستان کی طرح پورے ملک میں بلاتفریق دہشتگردوں کیخلاف آپریشن کرے گی۔؟
علامہ غلام محمد فخرالدین: پاک افواج کیجانب سے تو پے در پے بیانات جاری ہوئے ہیں کہ وہ انکے خلاف بلاتفریق کاروائی کرے گی۔ اب یہ مستقبل میں ہی پتہ چلا گا کہ آیا وہ اس طرح کرتے ہیں یا نہیں۔ فی الحال تو میں خود انکے عزائم کے بارے میں کچھ نہیں‌ کہہ سکتا لیکن ذاتی طور پر میری یہی رائے ہے کہ ملک بھر میں تمام دہشتگرد گروہوں کیخلاف بلاامتیاز کاروائی ہونی چاہیئے۔ ہمیں سب سے زیادہ پاکستان عزیز ہے۔ جن قوتوں کی طرف سے بھی پاکستان کو خطرہ ہے، چاہے انکا تعلق کسی بھی مذہبی یا سیاسی گروہ سے کیوں نہ ہو۔ ان کیخلاف سخت ترین سزا عمل میں لائی جائے۔ اگر ہم باہمی طور پر جنگ و جدل میں الجھے رہے تو باہر کے دشمن کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ ہمیں نقصان پہنچائے۔ ہر قسم کی لسانیت، فرقہ واریت اور نفرت کا خاتمہ انتہائی ناگزیر ہے۔

اسلام ٹائمز: علامہ غلام رضا نقوی کی رہائی اور انکے آئندہ لائحہ عمل کے بارے میں بیانات کو آپ کسطرح دیکھتے ہیں۔؟
علامہ غلام محمد فخرالدین: علامہ غلام رضا نقوی صاحب کو گذشتہ چند سالوں سے بغیر کسی جرم و خطاء کے جیل میں بند رکھا گیا تھا۔ اتنے عرصے بعد ہم انکی رہائی کو خوش آئند سمجھتے ہیں۔ جبکہ انکے بیانات سے متعلق تو میں کوئی رائے قائم نہیں کرسکتا۔ البتہ اجمالی طور پر یہ بات واضح ہے کہ ہماری جماعت تشدد پر یقین نہیں رکھتی۔ ہم فرقہ واریت یا دوسرے مسالک کے مقدسات کی توہین کو صحیح نہیں سمجھتے۔ ہم تمام مسلمان اور دیگر مذاہب کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس ملک کیلئے فرقہ واریت یا قتل و غارت گری کو ہم صحیح نہیں‌ سمجھتے۔ ہمارا یہی موقف ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اتحاد پیدا کرکے مخلص جماعتوں کیساتھ یکجاء ہوکر پاکستان دشمن قوتوں کیخلاف سیاسی، اجتماعی اور فرہنگی جدوجہد کے ذریعے انکا مقابلہ کرینگے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے کبھی اپنی ریاست کیخلاف بندوق نہیں اُٹھایا اور ملک کو بچانے کی خاطر سب کچھ برداشت کیا ہے۔ ابھی ہم ہر اس سیاسی جدوجہد کیساتھ ہیں جو اس ملک سے دہشتگردی اور فرقہ واریت کا صفایا کرنا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ویسے تو ملک بھر میں ملت تشیع کیخلاف دہشتگردانہ کاروائیاں جاری ہیں لیکن بلوچستان کی جغرافیائی اور قبائلی سمیت دیگر امور کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا یہاں پر شیعہ ہزارہ قوم کو ٹارگٹ کرنے کے پیچھے کچھ اور قوتوں کو بھی آپ کارفرما سمجھتے ہیں۔؟
علامہ غلام محمد فخرالدین: بلوچستان کا مسئلہ دوسرے شہروں سے فرق کرتا ہے۔ پہلا تو وہی تکفیری دہشتگرد گروہ ہے جو یہاں پر اپنے مذموم مقاصد لئے کاروائیوں میں مصروف ہے۔ دوسرا میں سمجھتا ہوں کہ وہی لینڈ مافیا بھی ہے، جو ملت کے درمیان خوف کی فضا قائم کرکے انکی جائیدادوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک مسئلہ قومیت کا بھی ہے چونکہ شیعہ ہزارہ قوم دیگر اقوام سے زیادہ پڑھی لکھی ہے تو انکے اس رویئے سے دیگر اقوام کو تحفظات بھی ہو سکتے ہیں۔ یعنی وہ کسی اہم عہدوں پر ہمیں دیکھنا گوارہ نہیں کرتے۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی قوم اور مخصوصاً ملت تشیع کو کیا پیغام دینا چاہیں گے۔؟
علامہ غلام محمد فخرالدین: اس وقت نہ صرف ہمیں بلکہ پورے عالم اسلام کو اتحاد و وحدت کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں دہشتگردوں کو شکست دینے کیلئے شیعہ سنی کو آپس میں یکجا ہو کر انکا مقابلہ کرنا ہوگا۔ لہذٰا ہمارے ہر مسئلے کا حل باہمی اتحاد و برداشت میں ہے۔
خبر کا کوڈ : 420262
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش