2
1
Wednesday 9 Apr 2014 18:57
9 اپریل، سقوط بغداد کی مناسبت سے

صدام، امریکہ اور سعودی عرب

صدام، امریکہ اور سعودی عرب
تحریر: عرفان علی 

(صدام کون تھا، اس نے کب، کون کون سے کام کس کس کے کہنے پر کئے اور پھر اس بے قابو ڈکٹیٹر نے ان کو تنگ کیا تو صدام کی بساط کیسے لپیٹ دی گئی، تاریخی حقائق کی تفصیلات یہ سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ امت اسلام ناب محمدی نے اس بدبخت کی مخالفت کیوں کی؟ اور اس کے سقوط کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ بغیر کسی تمہید کے مطالعہ کیجیے اور خود ہی فیصلہ کیجیے۔)

سال 2001ء میں جارج بش دوم کی پہلی صدارت کے 53ویں روز رھاب مسعود کے ہمراہ سعودی شہزادہ بندر بن سلطان واشنگٹن کے اوول آفس میں امریکی صدر کو سعودی ولی عہد شہزادہ عبداللہ بن عبدالعزیز کا پیغام سنا رہے تھے۔ پیغام یہ تھا کہ عراقی صدر صدام پر دباؤ بڑھانے کے لئے فلسطینیوں اور اسرائیل کے مابین امن عمل کو آگے بڑھانا بہت ضروری ہے۔ عراق پر اقوام متحدہ کا نو فلائی زون کب تک جاری رکھا جاسکے گا؟ 2 سال، 5 سال یا 10 سال، لیکن اس سے ہمیں (یعنی سعودی عرب سمیت دیگر امریکی اتحادی حکمرانوں کو) فوجی، مالی اور سیاسی طور پر بہت نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ صدام کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑا۔ بش نے اتفاق کیا اور کہا کہ عراق کی حزب اختلاف بے فائدہ اور غیر موثر ہے۔ دونوں نے صدام حکومت کے خلاف خفیہ ایکشن پروگرام کی مشکلات پر غور و خوض کیا۔ بش نے بندر سے کہا کہ مہینے میں کم از کم ایک بار وہ امریکی صدر سے ضرور ملاقات کریں۔ (1)

جنوری 2002ء میں صدر بش نے اپنے اسٹیٹ آف دی یونین یعنی سالانہ صدارتی خطاب میں ایران، عراق اور شمالی کوریا کو axis of evil قرار دے کر گویا اعلان جنگ کر دیا۔ کونڈولیزارائس کا خیال تھا کہ بش حکومت کا زور اس بات پر تھا کہ امریکہ دنیا بھر میں اور خاص طور پر اسلامی دنیا میں جمہوری اقدار کے حامی مرد و خواتین کا طرفدار ہے، لیکن کونڈی کو معلوم تھا کہ صدر ایک ایسے خطے میں آزادی کی بات کر رہے ہیں جہاں امریکہ کے کئی دوست مطلق العنان حکمران تھے۔ انہیں ردعمل کا معلوم تھا، اسی لئے امریکہ میں سعودی سفیر بندر بن سلطان کو فون کرکے بتا دیا تھا کہ صدر بش کا مقصد کچھ اور ہے، ریاض میں امریکی دوست حیران و پریشان نہ ہوجائیں۔ (2)

27 اگست 2002ء کو ٹیکساس میں چھٹیاں گذارنے والے صدر بش سے شہزادہ بندر کی ملاقات۔ کئی گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس ملاقات میں 1985ء تا 1990ء صدام سے ہونے والی ملاقاتوں اور سعودی بادشاہ فہد اور صدام کی ملاقاتوں کے بارے میں بش کو بتایا۔ (3)
کونڈولیزارائس کے مطابق امریکہ نے عرب حکمرانوں سے کہا کہ وہ صدام کو بتا دیں کہ اگر اس نے بین الاقوامی قراردادوں پر عمل نہیں کیا تو سچ مچ اس کی حکومت ختم کر دی جائے گی۔ مصریوں نے دعویٰ کیا کہ صدام کے بیٹے نے کہا ہے کہ صدام حکومت چھوڑ دیں گے بشرطیکہ ایک بلین ڈالر انہیں ادا کر دیئے جائیں، بش نے جواب دیا کہ وہ بخوشی یہ رقم ادا کر دیں گے، لیکن بعد ازاں اس پر کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ (4)

یہ باتیں بہت بعد کی ہیں۔ کبھی یہی امریکہ و سعودی عرب صدام کے دوست ہوا کرتے تھے اور انہی کے اشارے پر صدام نے ایران پر حملہ کیا اور 8 سال تک جنگ مسلط کی۔ بندر بن سلطان کے ساتھ رائل ایئر فورس کالج کرانویل میں ڈھائی سال تک ساتھ آفیسر ٹریننگ حاصل کرنے والے ولیم سمپسن نے اپنے دوست کی سوانح حیات میں انکشاف کیا کہ امریکی وزیر خارجہ الیگزینڈر ہیگ نے اپریل 1981ء میں خطے کا دورہ کیا تو اسے سعودی شاہ فہد اور دیگر حکمرانوں نے بتایا تھا کہ سابق صدر جمی کارٹر نے بھی ایران پر حملے کا گرین سگنل دیا تھا۔ ہیگ نے دورے سے واپسی پر صدر رونالڈ ریگن کو ان کی اس بات سے آگاہ کیا تھا۔ (5)

بندر بن سلطان کا کہنا تھا کہ امام خمینی کی انقلابی باتوں اور اس خوف سے کہ ایران یہ انقلاب ان کے ملکوں کو ایکسپورٹ کر دے گا، سعودی و دیگر خلیجی عرب ریاستوں نے ایران کے خلاف جنگ میں عراق کا ساتھ دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسی وجہ سے سعودی عرب نے صدام اور عراق پر 25 بلین ڈالر خرچ کئے، اہم جنگی انٹیلی جنس فراہم کی اور عراقی طیاروں کو ایندھن کے لئے سعودی عرب میں لینڈنگ کی سہولت بھی فراہم کی۔ اسی جنگ کی وجہ سے وہ پہلے امریکہ میں سعودی سفارتخانے کے فوجی اتاشی اور بعد میں سفیر مقرر ہوئے۔ 1982ء تا 1988ء امریکہ و دیگر مغربی ممالک کے ذریعے جنگ میں صدام کی مدد کرنے میں ان کا کلیدی کردار تھا۔ یہ سعودی بادشاہت اور امریکہ کا مشترکہ آئیڈیا تھا کہ آبنائے ہرمز میں ایرانی حملوں سے بچنے کے لئے آئل ٹینکرز پر امریکی جھنڈے لگا دیئے جائیں، تاکہ امریکہ کو قانونی جواز مل جائے کہ اپنے ٹینکرز کے تحفظ کے لئے ایران پر حملہ آور ہوسکے۔ ایران، عراق جنگ پر ایک کھرب 20 بلین ڈالر کا خرچہ ہوا، بند ر کا کہنا ہے کہ اگر صدام کویت پر حملہ نہ کرتا تو 5 لاکھ امریکی فوجی سعودی عرب کی حفاظت کے لئے نہ بلائے جاتے۔ (6)

صدام کے کارہائے نمایاں کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ 1968ء میں عراق میں جو بغاوت ہوئی، اس میں بھی امریکہ کا ہاتھ تھا اور سابق عراقی چیف عبدالرزاق ال نایف نے اس امریکی مدد کی تصدیق کی۔ اس بغاوت میں صدام نے کلیدی کردار ادا کیا، کیونکہ وہ بصرہ میں امریکی قونصلیٹ کے ذریعے 1966ء ہی میں امریکی مدد حاصل کرچکے تھے۔ (7) احمد حسن ال بکر کی حکومت میں بھی وہی سب سے زیادہ طاقتور شخصیت تھے۔ جولائی 1979ء کے اوائل میں اردن میں انہوں نے شاہ حسین اور ان کے ذریعے سعودیوں کو بریفنگ دی کہ شام اور عراق کی مجوزہ یونین کو بلاک کرنے اور ال بکر کی حکومت ختم کرکے اقتدار پر قبضہ کرنے والے ہیں۔ وہیں سی آئی اے کے تین اعلٰی عہدیداران بھی موجود تھے اور ان سے بھی صدام کی ملاقات ہوئی۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو صدام کی سازشوں پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ (8) (9)۔ 1979ء میں انہوں نے امریکہ اور مغرب کا مزید اعتماد حاصل کرنے کے لئے سوویت یونین کی افغانستان میں یلغار کی مخالفت اور مذمت کی، شمالی یمن میں سوویت یونین کی ممکنہ مداخلت کے خلاف سعودی عرب سے اتحاد کیا اور بغداد میں امریکی سی آئی اے کو دفتر کھولنے کی اجازت دی۔ (10)

امریکی صدر کے مشیر برائے امور قومی سلامتی زبیگنائف بروزنسکی کی بھی صدام سے ملاقات ہوئی تھی، لیکن انہوں نے اس کی تردید کی البتہ اپریل 1980ء میں ایک کالم میں انہوں نے یہ جملہ لکھا We see no fundamental incompatbility of interests between U.S. and Iraq. جس سے ثابت ہوتا ہے کہ صدام اور امریکہ کے مفادات میں اس وقت بھی مکمل ہم آہنگی تھی۔ سعودی عرب میں امریکی سفیر جیمز ایکنز نے اعتراف کیا کہ سعودی عرب کے ذریعے امریکیوں نے صدام کو ایران پر حملے کا گرین سگنل دیا تھا۔ (11) یہاں یہ دلچسپ حقیقت یاد رہے کہ 1972ء میں امریکہ نے صدام کے عراق کو دہشت گرد ریاست قرار دیا تھا، لیکن بعد میں اسی صدام حکومت کو فرانس، اٹلی کی طرح امریکہ نے بھی اسلحہ فراہم کیا۔ 

بعض سینیٹرز نے شور بھی مچایا، لیکن صدر جمی کارٹر نے پس پردہ سازشوں کے ذریعے اسے شکست دے کر عراق کے بحری بیڑے میں گیس ٹربائن انجن نصب کرنے کی ڈیل منظور کرلی۔ صدام نے اسے ایران کے خلاف کارروائی کی حوصلہ افزائی کے طور پر دیکھا۔ (12) وائٹ ہاؤس نیشنل سکیورٹی کونسل کے ہوورڈ ٹیکر نے معروف صحافی و تجزیہ نگار رچرڈ سیل کو بتایا کہ امریکہ نے صدام کو غلط اور جھوٹی انٹیلی جنس اطلاعات فراہم کیں کہ ایران میں سیاسی بحران ہے، ایرانی فوج ابتر حالت میں ہے، امریکی ساختہ ہتھیاروں کے اسپیئر پارٹس کی تبدیلی کی سہولت سے محروم ہے۔ یعنی صدام خود سے یہ نتیجہ اخذ کرلے کہ ایران پر آسانی سے قابو پایا جاسکتا ہے۔

اس وقت امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر ولیم کیسی اور ڈپٹی ڈائریکٹر رابرٹ گیٹس نے صدام کو خفیہ طریقے سے اسلحہ پہنچانے کا انتظام کیا۔ پہلے Hughes Aircraft کے ذریعے صدام کو 60 ہیلی کاپٹرز فراہم کئے گئے۔ پھر امریکہ کے آرمز ایکسپورٹ کنٹرول ایکٹ کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے سعودی عرب، اردن، کویت اور مصر کے ذریعے خفیہ طریقے سے صدام کو ہتھیار فراہم کئے گئے۔ (13) سی آئی اے کی مدد اور رہنمائی کے ساتھ چلی کے بزنس مین کارلوس کارڈوئن راتوں رات کلسٹر بم بنانے والا سب سے بڑا تاجر بن گیا اور اس کا سب سے بڑا خریدار صدام تھا۔ جب 1983ء میں اسے کیوبا اور لیبیا کو نائٹ وژن گوگلز سمگلنگ کے الزام میں پکڑا گیا تو سی آئی اے نے مداخلت کرکے اس کے خلاف مقدمہ رکوا دیا۔ (14)

جرمنی، بیلجیم سمیت یورپی ممالک نے بھی اپنی اسلحہ ساز کمپنیوں کو نہیں روکا۔ جب صدام مالی مشکلات کا شکار ہوا تو فروری 1983ء میں صدر ریگن نے خاموشی سے محکمہ خزانہ سے کہہ کر ادھار زر ضمانت برائے زراعت دلوا دی۔ شروعات 23 کروڑ ڈالر سے ہوئی اور 1990ء تک 4.7 بلین ڈالر اس مد میں فراہم کئے گئے۔ (15) ایران پر جنگ مسلط کرتے وقت عراق کے غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 30 بلین ڈالرز تھے جو جنگ کے نتیجے میں صرف 30 ملین ڈالرز رہ گئے تھے۔

ایک یہ وقت تھا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب مارچ 2003ء میں صدام کے اصلی تے وڈے آقاؤں نے بغداد پر یلغار کر دی۔ سعودی عرب اور قطر سمیت وہ ملک جو ایران کے خلاف صدام کے سرپرست تھے، انہوں نے امریکی افواج کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کر دیئے۔ 9 اپریل 2003ء کو صدام حکومت کا سقوط ہوا۔ اس کا مجسمہ زمیں بوس ہوا۔ کئی سال قبل اسی دن آیت اللہ العظمٰی باقرالصدر کو صدام نے بے دردی سے شہید کیا تھا، اسی دن صدام کا دھڑن تختہ ہوا اور وہ چوہے کی طرح بل میں جا چھپا، جہاں سے کئی ماہ بعد اسے پکڑ کر ایک طویل مقدمہ چلایا گیا اور پھانسی کی سزا دی گئی۔ یہ حسن اتفاق اور قدرتی مکافات عمل اپنی جگہ، لیکن یہ سب کچھ امریکہ اور سعودی اشاروں پر ناچنے کا عبرت ناک انجام بھی تھا۔ یہ وہ تاریخ ہے جو آج کے امریکی سعودی نمک خواروں کو تنبیہ کر رہی ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہرا بھی سکتی ہے۔ اس موضوع پر لکھنے کو بہت کچھ ہے، فی الوقت اسی پر اکتفا کیجئے۔

حوالہ جات: 
(1): State of Denial, Bob Woodward: Official notes of Saudis confimed by U.S. source 
(2)، (4): No Higher Honour by Condoleeza Rice
 (3)، (5)، (6): The Prince by Wiliam Simpson 
(7)،(8)، (9)، (10): Saddam Hussain: The politics of revenge by Said Aburish
 A Tyrant 40 years in the making by Roger Morris in New York Times March 14, 2003
 (11): Web of Deceit by Barry M Lando
 (12): Iraq\'s road to war edited by Amatzia Baram and Barry Rubin
 (13): Spider\'s Web by Alan Friedman
 (14): ABC Nightline Broadcast, 1991
 (15): An alliance against Babylon by John Cooley
خبر کا کوڈ : 370916
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Salam. Hawala Jaat ke saath likha gaya yeh article mustanad tareekhi dastawez hay. thanks.
Pakistan
Thank u very much. Timely article on the beast of Baghdad.Down with all these demons.
ہماری پیشکش