0
Thursday 10 Oct 2013 01:02

امریکہ اور اسرائیل نے خطے کے مزاحمتی محور کو ختم کرنے کیلئے شام کو تباہ کرنا چاہا، آیت اللہ مجتبٰی حسینی

امریکہ اور اسرائیل نے خطے کے مزاحمتی محور کو ختم کرنے کیلئے شام کو تباہ کرنا چاہا، آیت اللہ مجتبٰی حسینی
آیت اللہ مجتبٰی حسینی رہبر معظم آیت اللہ حضرت امام سید خامنہ ای کے شام میں نمائندہ خاص ہیں۔ بنیادی تعلق ایران سے ہے لیکن شام میں رہبر معظم کی خصوصی ہدایت پر تعینات ہیں، شام میں حالیہ دو برسوں سے زائد جاری لڑائی کو قریب سے دیکھ چکے ہیں، گذشتہ دنوں آپ پاکستان کے خصوصی دورے پر آئے ہوئے تھے اور شام کے حالات پر ملک بھر میں خصوصی سیمینارز سے خطابات کئے اور عالمی طاقتوں اور عربوں کی خیانت سے پردہ اٹھایا اور اصل حقائق سے پاکستان کے عوام کو آگاہ کیا۔ اسلام ٹائمز نے آیت اللہ مجتبٰی حسینی سے خصوصی ٹائم لیا اور اپنے قارئین کیلئے انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: آپ شام میں ہوتے ہیں اور وہاں کی ساری صورتحال کو قریب سے دیکھ رہے ہیں، کیا سمجھتے ہیں شام میں امن قائم ہوجائے گا۔؟
آیت اللہ مجتبٰی
حسینی: شام کے دشمن خاص طور بعض مغربی ممالک کی پوری کوشش کے باوجود وہ اندرونی کشمکش اور جنگ میں کامیاب نہیں ہوسکے اور یہی چیز شام کی عوام کے لئے بھی امید اور اچھے مستقبل کی نوید ثابت ہوئی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ عوام یہ سمجھ گئے ہیں کہ دشمن کے مقابلے میں ثابت قدمی دکھانا اور مقابلہ کرنے کا نتیجہ بہت مثبت نکل رہا ہے، وہ سمجھ گئے کہ دشمن کے حملوں سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے، اگر دشمن سے خوفزدہ ہو جائیں تو دشمن واپس لوٹنے کے بجائے آگے بڑھ جاتا ہے، دیکھیں دنیا کی طاغوتوں اور ظالم قوتوں جیسے امریکہ کے بارے میں امام خمینی (رہ) فرماتے تھے کہ اس کی مثال کتے جیسی ہے، اگر آپ کتے سے ڈر کر بھاگیں گے تو آپ کے پیچھے بھاگے گا، اور اگر آپ کھڑے ہوگئے تو وہ رک جائیگا اور بھاگ جائیگا۔

اسلام ٹائمز: آپ سمجھتے ہیں کہ شام
میں جمہوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔؟
آیت اللہ مجتبٰی حسینی: یہ بات واضح ہے کہ شام میں اصلاحات کی ضرورت ہے، جمہوریت کو پہلے سے بہتر ہونا چاہیے، شام کی حکومت کا بھی کہنا ہے کہ وہ پہلی فرصت میں انتخابات کرانا چاہتے ہیں، شام نے اپنے آئین میں بھی جمہوریت کے حق میں اصلاحات کیں ہیں اور نئے آئین کے مطابق ایک صدرارتی امیدوار صرف تین بار منتخب ہوسکتا ہے، سیاسی پارٹیوں کی تشکیل میں مزید آزادی دی گئی ہے اور اس وقت بھی وہ مزید آئین میں بہتری کی کے لئے کوشاں ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ عوام میں پھر سے ایجاد ہونے والی امید اور نئی امنگ ملک کو مزید بہتری کی جانب گامزن کرے گی۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ شام کے مسئلے پر عالمی میڈیا جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے۔؟

آیت اللہ مجتبٰی حسینی: دنیا کا سامراجی میڈیا ہمیشہ سے مختلف
ایشوز کو اس انداز سے پیش کرتا ہے کہ وہ ایشوز انکے اپنے موقف کی تائید کریں، یہاں شام کے مسئلے میں بھی اسی صورتحال کا ہی سامنا ہے، شام مخالف میڈیا شام کی خبروں کو اس انداز سے پیش کرتا ہے کہ دوست ممالک اور عوام کے لئے ناامیدی ایجاد ہو اور شام کے مخالفین کے لئے ان خبروں میں امید اور آس نظر آئے۔ آپ دیکھ لیں گے کہ جوں جوں حالات بہتر ہونگے، زمینی حقائق دنیا کے سامنے مزید واضح ہونگے۔

اسلام ٹائمز: ایران کے صدر کی امریکی صدر سے ٹیلیفونک بات چیت کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟

آیت اللہ مجتبٰی حسینی: دیکھیں مجھے نہیں معلوم کی صدر مملکت ڈاکٹر حسن روحانی کے عین الفاظ کیا تھے، لیکن ایران ہمیشہ شام کے مسئلے کے حل کو مذاکرات اور امن و آشتی کے ذریعے حل کرنے پر زور دیتا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر حسن روحانی نے شام کے مسئلے
پر ثالثی کا کردار ادا کرنے کی پیشکش کی ہے۔ کیا اس پیشکش سے کوئی حل ممکن ہے۔؟

آیت اللہ مجتبٰی حسینی: اگر تکفیری گروہ یا کوئی بھی جنگجو گروہ شام میں ہتھیار ڈال دے اور تشدد کے راستے کو ترک کرے تو ہم ان کے ساتھ مذاکرات کرانے کیلئے تیار ہیں، ایران کی ہمیشہ یہ پالیسی رہی ہے کہ وہ مذاکرات کو ترجیح دیتا ہے، ہم اپنے تمام تر مقام عزت اور طاقت کی منزل پر رہتے ہوئے مذاکرات کو ہر چیز پر ترجیح کے قائل ہیں۔

اسلام ٹائمز: شام کے مسئلے پر عرب ممالک کے کردار کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟

آیت اللہ مجتبٰی حسینی: عرب ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے فیصلوں میں خود آزاد نہیں ہیں۔ جیسے قطر، سعودی عرب، اردن یا ترکی وغیرہ کی حکومتیں ہیں، جو امریکی و اسرائیلی ڈیکٹیشن اور انکی پیروی پر چلتیں ہیں، امریکہ اور اسرائیل
نے خطے کے مزاحمتی محور کو ختم کرنے کے لئے شام کو ایک راہداری کے طور پر منتخب کرنا چاہا اور اسے تباہ کرنا چاہا، آپ جانتے ہیں کہ شام عرب ممالک کا انٹری گیٹ شمار ہوتا ہے اور اس انٹری پوائنٹ کو ایران اور مزاحمتی قوتوں جیسے حزب اللہ کے آگے بند کرنا ان کا بنیادی ہدف ہے۔ عرب ممالک کیونکہ امریکی ڈیکٹیشن پر چلتے ہیں اور انکا خیال تھا کہ وہ تھوڑے عرصے میں ہی شام پر قابض ہو جائیں گے، کسی کا خیال تھا کہ وہ سلطنت عثمانیہ کا احیاء کرسکتا ہے تو کوئی سمجھ رہا تھا کہ شام میں امریکہ انقلاب لاسکتا ہے، جو ان کی بادشاہتوں کے لئے بھی مفید ہوگا لیکن یہ ان کی ایک بڑی غلطی اور حماقت تھی، وہ شام میں نہ صرف اپنی مرضی کی تبدیلی نہ لاسکے بلکہ خطے کے عوام کے نزدیک انکی قدر و قیمت اور حیثیت کو بھی سخت دھچکا لگا ہے۔
خبر کا کوڈ : 309258
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش