4
0
Thursday 17 Apr 2014 00:11

نواز زرداری ملاقات کا پیغام کیا ہے؟

نواز زرداری ملاقات کا پیغام کیا ہے؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر

پیغام واضح ہے، معمولی سیاسی بصیرت والا آدمی بھی اس ملاقات کے محرکات اور پیغام کو بڑی آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔ ہمارا مسئلہ مگر یہ ہے کہ ہم چیزوں کو سیدھی طرح سمجھنے کے بجائے انھیں پیچیدہ کرکے دیکھنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ یہی عادت آج ہمیں اس نہج پر لے آئی ہے، جہاں ایک طرف دہشت گرد اور دہشت گردی نے ہمیں آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے، تو دوسری طرف ہم سے لاڈلی جمہوریت سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم ایک خود ساختہ خوف کا شکار ہیں۔ مولوی سے لے کر بڑے سے بڑے لبرل سیاستدان تک نے، بہرحال خوف کی ایک چادر معاشرتی افق پر تان دی ہے۔
 
پی پی پی، ایم کیو ایم، اے این پی، نون لیگ، جماعت اسلامی، جمعیت کی س، ف، عمران خان والی پی ٹی آئی اور چھوٹے بڑے سیاسی و مذہبی اتحاد اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ ہم خطرے میں ہیں۔ لیکن جب دیدہ و نادیدہ خطرات سے نمٹنے کا وقت آتا ہے تو ہر ایک اپنے اپنے سیاسی و مسلکی مفادات کے برگد تلے چلا آتا ہے۔ 67 برس ہم نے خطرہ ہے، خطرہ ہے کی گردان کرتے ہوئے گزار دیئے، مگر خطرے سے نمٹنے کے لیے ہم نے عملی طور پر کچھ بھی نہیں کیا۔ کیا بڑا خطرہ صرف بھارت سے ہی ہے؟ نہیں بلکہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان بھارت سے بھی بڑا خطرہ ہے۔ کیا اس رائج جمہوریت کو صرف فوجی جرنیلوں سے ہی خطرہ ہے؟ نہیں، بلکہ اس جمہوریت کو تو لال مسجد والا مولوی عبدالعزیز بھی نہیں مانتا۔ کیا جمہوریت کو صرف جنرل راحیل شریف کے ایک ہی بیان سے خطرات لاحق ہوگئے؟ کیا کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان والے مولوی فضل اللہ نے اس جمہوریت کے حق میں کوئی بیان جاری کیا ہوا ہے؟ اگر کوئی ہے تو مجھے بھی بتا دیا جائے۔

جمہوریت کی بقا کے لیے جیسا موقف سیاسی قیادت نے جنرل راحیل شریف کے بیان کے بعد اپنایا ہے اور جس طرح کا اکٹھ کرکے ’’غیر جمہوری قوتوں‘‘ کو ’’جمہوری پیغام‘‘ دیا گیا ہے، ایسا ہی ایک پیغام ان قوتوں کو بھی دیا جائے نا جو ریاست کے اندر اپنی الگ ’’اماراتِ اسلامیہ‘‘ بنانے میں لگی ہوئی ہیں۔ مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے؟ ایوانِ وزیرِاعظم میں جس وقت سابق صدر آصف علی زردای موجودہ وزیرِاعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کر رہے تھے اور دونوں سیاسی رہنما مل کر ’’غیر جمہوری قوتوں‘‘ کو ’’جمہوری‘‘ پیغام دے رہے تھے تو ان ہی لمحات میں طالبان مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر پروفیسر ابراہیم نے کہا کہ ’’اگر سلمان تاثیر اور سابق وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں کی رہائی کا مطالبہ کیا جا رہا ہے تو اس کے لیے بلاول بھٹو زرداری کو اپنی زبان بند رکھنا ہوگی۔‘‘ میں نہیں سمجھتا کہ غیر جمہوری قوتوں کو کوئی بڑا پیغام گیا ہوگا مگر غیر ریاستی عناصر کی طرف سے ایک بڑا ہی واضح پیغام البتہ جمہوری حکمرانوں کو ضرور ملا ہے کہ اب ان کی زبان کب؟ کہاں؟ اور کون کون سے ایشو کے حوالے سے کھلے گی، اس کا فیصلہ طالبان کی پسند و ناپسند و مدنظر رکھ کر کیا جائے۔ یہاں طاقت کے اس توازن کا بھی اندازہ ہوتا ہے جو ریاست اور غیر ریاستی عناصر کے مابین وجہ تنازعہ بنی ہوئی ہے۔

میرا نہیں خیال کہ جمہوریت کو مارشل لاء کا فوری خطرہ موجود ہے۔ البتہ سیاسی و عسکری قیادت کے مابین تناؤ کی سی کیفیت ضرور ہے، جب سیاسی و عسکری قیادت کی بات کی جاتی ہے تو اس سے مراد آرمی چیف اور وزیرِاعظم ہی نہیں ہوا کرتے بلکہ وزیرِاعظم کی کابینہ کے وہ منہ زور وزیر بھی شامل ہوتے ہیں جو اپنے اپنے ’’سیاسی گروپ‘‘ کی نمائندگی کرتے ہوئے کابینہ میں زیادہ حصہ داری کے طالب ہوتے ہیں۔ اسی طرح عسکری قیادت میں کور کمانڈرز بھی تو ہوا کرتے ہیں نا۔ جب ایک ایسے ادارے کو، جس کے پیچھے امریکہ بھی ہے، بھارت بھی اور کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان والے بھی، اسے اپنے نشانے پر لیں گے تو وہاں سے جوابی فائر تو ہوگا نا؟ جب جوابی فائر آیا تو یہ رولا شروع ہوگیا کہ کیا مارشل لا لگنے والا ہے؟
 
کیا سابق آرمی چیف کو سزا ہوئی تو موجودہ چیف حرکت میں آئیں گے؟ کالم کی ابتدا میں عرض کی تھی کہ ہم مفروضوں کی نقش گری کرنے والے معاشرے میں سانس لیتے ہیں۔ ہم خوف گروں کے ہنر کا شکار ہونے والے بھولے بھالے عوام نامی ووٹر ہیں۔ ورنہ معاملہ ایسا پیچیدہ بھی نہیں کہ سمجھا نہ جاسکے، اور پیغام ایسا مبہم بھی نہیں کہ درک ہی نہ ہو۔ پیغام کا میڈیا پر جو عکس چھوڑا گیا اس کے مطابق تو اس بات پر اتفاق ہوا کہ’’سابق آرمی چیف اور صدر مشرف کا معاملہ عدالت میں ہے، لہٰذا عدالتی نظام پر بھروسہ کرنا چاہیے، اس امر پر بھی اتفاق ہوا کہ جمہوریت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے، اور سابق صدر زرداری نے یہ بھی یقین دہانی کرائی کہ غیر جمہوری قوتوں کے آلہء کار نہیں بنیں گے۔‘‘

پیپلز پارٹی کے راہنما رضا ربانی نے دونوں رہنماں کے درمیان ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا کہ ملاقات انتہائی خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ یہ ملاقات اس بات کی علامت ہے کہ تمام جمہوری قوتوں کو چاہیے کہ وہ حزب اختلاف کی ہوں یا حکومت میں، انہیں اکٹھے مل کر جمہوری عمل کو آگے بڑھانا ہے اور مستحکم کرنا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی نے تحفظ پاکستان بل پر پیپلز پارٹی اور سینیٹ میں موجود دیگر جماعتوں کے تحفظات سے وزیراعظم کو آگاہ کیا۔

اس ملاقات سے قبل ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے سابق صدر کے ترجمان سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کہا تھا کہ اس قسم کی ملاقاتوں کا کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا، تاہم ان سے جو پیغام جاتا ہے وہ اہم ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ موجودہ صورتحال کے تناظر میں جب ایسی باتیں ہو رہی ہیں کہ سویلین اور جمہوری حکومت کو کچھ اطراف سے خطرہ ہے، تو اس طرح کے ماحول میں آصف علی زرداری اور وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات ایک واضح پیغام دیتی ہے کہ غیر جمہوری قوتوں کے خلاف سیاسی جماعتیں متحد ہیں۔

سوال مگر یہ ہے کہ کیا پی پی پی نے حکومت کی جانب سے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے اپنے اس موقف کو دہرایا؟ جس کی بازگشت بلاول کی ٹویٹر پر سنائی دیتی ہے؟ نہیں بلکہ اس ملاقات میں پیغام صرف جی ایچ کیو کے لیے تھا، کیا پی پی پی طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس میں وفاقی حکومت کو مذاکراتی مینڈیٹ نہیں دی چکی؟ سیاست کے دوہرے معیارات خوف کی اس فضا کو مزید حبس آلود کر دیتے ہیں، جس میں ہم سانس لے رہے ہیں۔ اس ملاقات کی ایک مشترکہ پریس ریلیز بھی آتی جو ’’غیر جمہوری قوتوں‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’غیر ریاستی عناصر‘‘ کے لیے بھی سخت پیغام کی مظہر ہوتی۔ ایسا مگر ہوا نہیں، اور جب تک غیر ریاستی عناصر سے ریاستی طاقت کے ساتھ نہیں نمٹا جائے گا، اس وقت تک اس جمہوریت کی کشتی دہشت گردی کے بھنور میں ہچکولے کھاتی ہی رہی گی۔ پی پی پی جمہوریت کی بقا کے لیے جدوجہد کرتی رہے، مگر اسے غیر ریاستی عناصر کے ساتھ مذاکرات کرنے کا مینڈیٹ دینے کے بجائے بلاول کے ٹویٹر والا رویہ اختیار کئے رکھنا چاہیے۔ اسی میں جمہوریت کی اور ریاست کی بقا ہے۔
خبر کا کوڈ : 373691
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

good
very good points raised tahir saheb
Pakistan
بہترین ..
Dear sir well done. Its superb.
ہماری پیشکش