0
Wednesday 3 Jul 2013 18:54

شام میں ہونیوالی شکست کا بدلہ، یو اے ای سمیت کئی عرب ریاستوں نے ہزاروں اہل تشیع کو ملک سے بےدخل کر دیا

شام میں ہونیوالی شکست کا بدلہ، یو اے ای سمیت کئی عرب ریاستوں نے ہزاروں اہل تشیع کو ملک سے بےدخل کر دیا
رپورٹ: محمد مہدی

شام میں حزب اللہ کے ہاتھوں تکفیریوں کو شکست اور بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ نہ ہونے پر متحدہ عرب امارات، قطر اور سعودی حکومت نے بڑے پیمانے پر ہزاروں اہل تشیع کو اپنے ملک سے بے دخل کر دیا ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ایران، پاکستان اور لبنان سمیت دیگر مختلف ممالک سے آئے ہوئے ہزاروں اہل تشیع کو فقط اس جرم کی پاداش میں ان ممالک سے بےدخل کر دیا گیا ہے کہ وہ شیعہ ہیں۔ نام نہ بتانے کی شرط پر متحدہ عرب امارات میں مقیم ایک شخص نے بتایا کہ ابتک تقریباً ہزاروں لوگوں کو یو اے ای، قطر، دوبئی اور سعودی عرب سے بے دخل کر دیا گیا ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان حکومتوں کے اس اقدام سے فقط چند دنوں میں شیعیانِ جہان کو اربوں روپے مالیت کا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ ویسے تو یہ سلسلہ گذشتہ ڈیڑھ سال سے جاری تھا، لیکن شام میں حزب اللہ کے ہاتھوں تکفیریوں کی شکست کے بعد اس میں تیزی آگئی ہے۔ استفسار پر انہوں نے بتایا کہ بہت سارے لوگوں نے ان ریاستوں میں انوسٹمنٹ کی ہوئی تھی اور کئی لوگ تو مختلف کاروبار سے منسلک ہوگئے تھے اور وہ باقاعدہ یہاں مقیم ہوگئے، لیکن حال ہی میں مذکورہ ریاستوں کی جانب سے اچانک انہیں فقط چوبیس گھنٹے کا الٹی میٹم دیکر ملک چھوڑنے کی ہدایت کر دی گئی، یوں ان عرب ریاستوں میں مقیم ہزاروں اہل تشیع کو اپنا تمام بزنس اور انوسٹمنٹ وہیں چھوڑ کر اپنے آبائی ممالک میں واپس آنا پڑا ہے۔ مذکورہ لوگ اپنے آبائی علاقوں سے سب کچھ بیچ کر ان ممالک کے مختلف شہروں میں کاروبار کر رہے تھے، یوں اب انہیں ہر چیز سے محروم ہونا پڑا ہے۔

ان ریاستوں سے بےدخل کیے گئے پاکستانیوں میں سب سے بڑی تعداد پارا چنار کے لوگوں کی ہے جو وہاں کئی برسوں سے مقیم تھے اور اپنا بزنس چلا رہے تھے، لیکن اب انہیں وہاں سے بےدخل کر دیا گیا ہے۔ اس شخص نے اسلام ٹائمز کو بتایا کہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ پاکستان کا سفارتخانہ اس معاملہ میں کوئی کردار ادا نہیں کر رہا، اس معاملہ پر لوگوں کی بڑی تعداد پاکستانی سفارتخانہ گئی اور پاکستانی سفیر سے ملاقات کی، لیکن سفیر نے یہ کہہ انہیں جواب دیا کہ وہ اس معاملے میں ان کیلئے کچھ نہیں کرسکتے۔ انہوں نے بتایا کہ جن جن ناموں کے آگے حسن، حسین اور علی آتا ہے، ان سے تفتیش کی جاتی ہے اور اگر انہیں شک ہو جائے کہ متعلقہ شخص شیعہ ہے تو وہ اسے چوبیس سے آڑتالیس گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دے دیتے ہیں۔

دوسری طرف ان عرب ریاستوں کے اس اقدام سے غیر شیعی نام ہونے کی وجہ سے جو لوگ بچ گئے ہیں، انہوں نے اپنی عبادات اپنے کمروں تک محدود کرلی ہے۔ اس شخص کے مطابق وہ فون پر ایسی کسی بھی گفتگو سے گرہیز کرتے ہیں جس سے یہ گمان پیدا ہو کہ یہ شخص شیعہ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے ٹیلی فون بھی ٹیپ کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ اس معاملہ کہ اٹھائے اور عرب ممالک پر دباؤ ڈالے کہ وہ ایسے غیر انسانی اور غیر اخلاقی ہتھکنڈوں سے گریز کرے، کیونکہ تمام پاکستانی قانونی طور پر وہاں مقیم ہیں اور اربوں روپے کی انویسٹمنٹ کئے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف ایرانی وزیر داخلہ مصطفٰی محمد نجار نے اسی سلسلے میں دوبئی کے حکمران سے ملاقات کی اور کہا کہ متحدہ عرب امارات سے اس طرح ایرانیوں اور شیعوں کو نکال دینا دونوں ممالک کے سماجی تعلقات کے لئے اچھا قدم نہیں ہے۔ واضح رہے کہ دوبئی سمیت مختلف عرب ریاستوں میں لاکھوں ایرانی مقیم ہیں، بعض ایرانی خاندانوں کو 70 سال سے زیادہ کا عرصہ ہو گیا ہے اور وہ ان ریاستوں کی باقاعدہ شہریت بھی حاصل کرچکے ہیں۔ دوسری جانب ہیومن رائٹس واچ نے بڑی دیر تک خاموشی کے بعد اپنا سکوت توڑ دیا ہے اور عرب ریاستوں کے اس اقدام کو غیر انسانی قرار دیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 278831
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش