0
Friday 21 Nov 2014 00:33
دہشتگرد درندے اسلام کے چہرے پر بدنما داغ ہیں

پوری دنیا میں پاکستان کے داخلی حالات کیوجہ سے تشویش پائی جاتی ہے، علامہ عنایت علی شاکر

مجرموں کو سزائیں ملتیں تو انکو منظم ہونے کی ہمت نہ ہوتی
پوری دنیا میں پاکستان کے داخلی حالات کیوجہ سے تشویش پائی جاتی ہے، علامہ عنایت علی شاکر
علامہ عنایت علی شاکر تحریک اخوت اسلامی اور انٹر فیتھ ڈائیلاگ کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ ایک طویل عرصے تک پاکستان میں بین المذاہب ہم آہنگی، اتحاد بین المسلمین کے فروغ کے سلسلے میں انتہائی اہم خدمات سرانجام دیتے رہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ پاکستان میں طالبان کے مظالم، خودکش حملوں اور دہشتگردی کے خلاف سب سے پہلے انہوں نے بڑے موثر انداز میں آواز اٹھائی۔ ایک ایسے وقت میں انہوں نے خودکش حملوں کے غیر اسلامی ہونے کے بارے میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام کے فتوؤں کو عوام تک پہنچانے کا اہتمام کیا، جب طالبان کی انسانیت سوز کارروائیوں کو اسلامی جہاد گردانا جا رہا تھا۔ انہوں نے تحریک اخوت اسلامی اور انٹر فیتھ ڈائیلاگ کمیٹی کے پلیٹ فارم سے قومی، صوبائی اور عالمی کانفرنسوں کا اہتمام کرکے مختلف مذاہب و مکاتب کے رہنماؤں کو ہر قسم کی دہشتگردی کی مذمت اور امن کی ضرورت کے یک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھا کیا۔ یقینی طور پر جہاں کہیں بھی انٹر فیتھ کے لئے عملی کوششوں کا تذکرہ ہوگا، وہاں علامہ عنایت علی شاکر کا نام ضرور آئے گا۔ چند سالوں سے وہ اپنی فیملی کے ہمراہ کینیڈا میں مقیم ہیں، مگر وطن سے دور ہونے کے باوجود بھی ہر محب وطن کی طرح وطن سے دور نہیں ہیں۔ دہشتگردی کے خلاف آواز اٹھانے اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے ان کی خدمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسلام ٹائمز نے ان سے ایک خصوصی ٹیلیفونک انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جو کہ پیش خدمت ہے۔ ادارہ 

اسلام ٹائمز: آپ کے کینیڈا منتقل ہونے کے بعد پاکستان میں تحریک اخوت اسلامی زیادہ متحرک نہیں رہی، اس کی کیا وجوہات ہیں، اور مستقبل میں تحریک کو متحرک کرنے کے حوالے سے کیا ارادے ہیں۔؟
علامہ عنایت علی شاکر:
پہلی بات تو یہ ہے کہ امن و آشتی اور بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے میرے آج بھی وہی جذبات ہیں جو پہلے تھے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے اپنے جذبات کو تحریک اخوت اسلامی کے ذریعے سے پہنچاتا تھا اور اب تحریک کا نام اس طرح استعمال نہیں ہوتا، جس طرح میری پاکستان میں موجودگی کے دوران ہوتا تھا، مگر انٹرفیتھ جاری ہے اور جاری رہے گا اور جب بھی بین المذاہب ہم آہنگی، امن کے فروغ کے حوالے سے میری بات ہوگی تو تحریک اخوت اسلامی کا نام خودبخود یاد آجائے گا۔ آپ کی یہ بات بالکل ٹھیک ہے کہ میرے یہاں آنے کے بعد پاکستان میں تحریک کے تحرک میں کمی واقع ہوئی ہے مگر یہ بھی تحریک کی برکات ہیں اور میرے لئے باعث فخر ہے کہ نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی انٹرفیتھ اور اتحاد، امن و امان کے حوالے سے تحریک اخوت اسلامی کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ اللہ رب العزت کے فضل و کرم اور چہاردہ معصومین علیہ السلام کے وسیلے سے یہ سعادت نصیب ہوئی ہے، جس پر خدا کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے۔ انشاءاللہ مجھے امید ہے کہ تحریک اخوت اسلامی پاکستان بین المذاہب ہم آہنگی اور امن کیلئے پہلے کی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ متحرک اور فعال کردار ادا کرے گی۔

اسلام ٹائمز: کینیڈین پریس میں ایک تواتر سے انٹر فیتھ کے حوالے سے آپ کی کوششوں کی خبریں شائع ہوتی ہیں، وہاں کے ماحول میں اسکی کتنی اہمیت ہے۔؟
علامہ عنایت علی شاکر:
آپ نے یہاں (کینیڈا) میں بین المذاہب آہنگی کے متعلق پوچھا تو یہاں قانون کی بالادستی ہے۔ یہ انٹرفیتھ اور ملٹی فیتھ کلچر کا پوری دنیا میں ایک مثالی اور بہترین ملک ہے۔ یہاں مختلف ادیان، مذاہب کی بہت زیادہ تعداد ہے اور بہت زیادہ زبانیں بولی جاتیں ہیں۔ تمام مذاہب کو اپنے عقیدے کی کینیڈین قانون کے مطابق مکمل آزادی ہے۔ ہندو، سکھ، عیسائی، بدھ مت تمام مذاہب کے لوگ آپس میں اتحاد، اتفاق سے گھل مل کر رہتے ہیں۔ تمام مذاہب کی عبادت اور عبادتگاہوں کا پورا خیال اور احترام رکھا جاتا ہے۔ کسی کو یہ اجازت حاصل نہیں کہ وہ دوسرے مذاہب کے خلاف کوئی بات کرے۔ یہاں کے دفاتر، تعلیمی اداروں بلکہ کسی بھی جگہ کوئی بھی کسی کے مذہب کو نشانہ نہیں بناتا۔ یہاں تک کہ آفسز اور تعلیمی اداروں میں مذہب یا سیاست کی بات کرنا سخت منع ہے۔ یہاں کسی کو نجی یا اجتماعی، گھریلو یا عوامی، معاشرتی یا ثقافتی یا کسی بھی حوالے سے بدامنی پھیلانے، ظلم، تشدد کی قطعاً کوئی اجازت نہیں۔ اگر کوئی معمولی واقعہ بھی ہوجائے تو فوری اور سخت ایکشن لیا جاتا ہے۔
یہاں قانون کی حکمرانی ہے۔ انصاف سب کے ساتھ برابری کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ کوئی قانون سے بالاتر نہیں۔ عام آدمی یا وزیر، حقوق سب کے برابر ہیں۔ یہاں کا انتخابی نظام بہت اچھا ہے۔ کوئی شور شرابہ یا الزام تراشی نہیں۔ یہاں امیدوار مذاکروں میں اپنا اپنا ایجنڈا اور پالیسی بتاتے ہیں۔ فیصلہ عوام کرتے ہیں۔ مکمل طور پر پرامن انتخابات ہوتے ہیں۔ دھاندلی کا نام و نشان تک نہیں۔ انسانوں کے علاوہ یہاں جانوروں کے حقوق کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔ انٹرفیتھ کے حوالے سے میں نے یہاں سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ تعلیم، صحت کے مواقع سب کے پاس موجود ہیں۔ یہاں پاکستانیوں کی بہت زیادہ تعداد موجود ہے۔ جو یہاں بڑے پرسکون انداز میں کاروبار زندگی رواں رکھے ہوئے ہیں۔ مخصوص فیسٹیول کے دنوں میں اکٹھے بھی ہوتے ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ یہ انسان دوست ملک ہے۔

اسلام ٹائمز: کینیڈا اور پاکستان کے درمیان مختلف مذاہب کے وفود کے تبادلوں کی کتنی ضرورت ہے، اور اسکے کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
علامہ عنایت علی شاکر:
آپ نے ایک سوال کیا کہ وفود کے تبادلے ہونے چاہیے۔ میں اس کی تائید کرتا ہوں مگر اس معاملے میں حکومتوں کی پالیسی کا مسئلہ موجود ہے، لیکن جہاں تک میرے علم میں ہے، وفود کے تبادلے ہوتے بھی رہتے ہیں۔ دوسرا اس وقت پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات کی وجہ سے وہاں کوئی محفوظ نہیں۔ پوری دنیا میں پاکستان کے داخلی حالات کی وجہ سے تشویش پائی جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے سرگرم ہیں، مگر پاکستان میں اسلام کے نام پر دہشتگردی جاری ہے۔؟
علامہ عنایت علی شاکر:
جب تک پاکستان میں دہشتگردی کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہوتا۔ اس وقت تک قیام امن کی خواہش محض خواہش ہی ہے۔ دیرپا امن کے قیام کے لئے دہشتگردی کا جڑ سے خاتمہ ناگزیر ہے۔ ایک عرصے سے پاکستان میں ملت تشیع کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جو کہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانا سراسر اسلام اور پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش ہے۔ قومی و سرکاری اداروں، پبلک مقامات، سکولوں، مساجد اور امام بارگاہوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنانا کونسا اسلام ہے۔ ہزارہ قبیلہ جو کہ انتہائی مخلص اور پرامن لوگ ہیں، ان کو کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے۔ شیعہ ناموس کی بیحرمتی کرنے کا درس کونسا اسلام یا کونسا مذہب دیتا ہے۔ مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے کا حکم کونسے اسلام نے دیا ہے۔ ایسی ناپاک کارروائیاں کرنے والے مسلمان تو کجا، کیا انسان کہلانے کے بھی حقدار ہیں۔ ہرگز نہیں، یہ درندے اور وحشی لوگ ہیں جو اسلام کے چہرے پر بدنما داغ ہیں۔ میں پاکستان میں تمام متاثرہ خاندانوں سے اظہار افسوس کرتا ہوں۔

اسلام ٹائمز: طالبان کے بعد پاکستان میں داعش کی سرگرمیوں کی خبریں عام ہو رہی ہیں، کیا سمجھتے ہیں کہ اسکے پس پردہ کونسے عناصر کارفرما ہیں۔؟
علامہ عنایت علی شاکر:
حالات و واقعات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں دہشتگردوں کے خلاف حکومتی اقدامات کمزور ہیں۔ مجرموں کو اگر سخت سزائیں ملتیں تو ان کو اپنی مذموم کارروائیوں کا دائرہ بڑھانے یا اتنا منظم ہونے کی ہمت نہ ہوتی۔ عدالتی نظام میں فوری انصاف کی دستیابی بہت ضروری ہے۔ میڈیا سمیت تمام مکاتب اور مذاہب کے رہنماؤں، سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
خبر کا کوڈ : 420607
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش