2
0
Thursday 21 Aug 2014 15:54

یہ بےمقصد سیاسی رسہ کشی

یہ بےمقصد سیاسی رسہ کشی
تحریر: جاوید عباس رضوی

قیام پاکستان کے 64 سال گذر چکے ہیں اور آج قائد اعظم (رہ) اور دیگر مسلم راہنماؤں کی ان زحمات کو دہرانے اور درک کرنے کی ضرورت ہے جو انہوں نے ایک مسلم مملکت پاکستان کے قیام اور تاسیس میں تحمل کیں اور ساتھ ساتھ ان اہداف اور مقاصد کے مطالعہ کی ضروت ہے، جو انہیں پاکستان کی تاسیس میں مدنظر تھیں اور ان مسائل پر سوچنے کی سب سے زیادہ ذمہ داری پاکستان کے قومی لیڈران، دانشوران اور سکالروں پر ہے کہ وہ دیکھیں کہ کیا وجہ ہے کہ پاکستان، سیاسی اقتصادی اور علمی اعتبار سے عالم اسلام کے لئے ایک ماڈل ملک نہ بن سکا۔؟ اس سوال کا صحیح جواب ملنے کے لئے ملکی سطح پر متعدد سیمینارز، کانفرنسز اور سیاسی بحثوں کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے اہل نظر قائدین اور اسکالرز اس سلسلے میں اپنے خیالات کا اظہار کرکے مسئلے کا منطقی اور عقلی جواب تلاش کریں اور پھر ملک کو ترقی یافتہ اور متمدن بننے کے لئے ایک وسیع اور جامع پروگرام اور منصوبہ مرتب کرکے حکومت کو اس پر چلنے کی ہدایت دیں تاکہ رفتہ رفتہ ملک اپنے بلند اہداف اور مقاصد کو حاصل کرسکے۔

یہ باتیں ایک طرف لیکن پاکستان کے موجودہ فعال لیڈروں کی حرکتیں دوسری طرف ایک منصف انسان کو یہ کہنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ جس چیز سے اکثر پاکستانی رہنما غافل ہیں وہ قومی منافع اور مفادات ہیں اور اس بات کا واضح ثبوت ملک کی موجودہ صورتحال ہے کہ ابھی موجودہ حکومت کا صرف ایک سال مکمل ہوا ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری وغیرہ، حکومت سے ملک کو نجات دینے کی فکر میں پڑگئے ہیں، عمران خان کا وزیراعظم نواز شریف پر الزام پے کہ وہ 2013ء کے پارلیمانی انتخابات میں دھاندلیوں کے ذریعے برسر اقتدار آئے ہیں لہذٰا انہیں اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے اور مولانا طاہر القادری تو منہاج القرآن آفس لاہور پر پولیس حملے پر نالاں ہیں اور حکومت سے ہمیشہ ناراض۔ لہذٰا دونوں لیڈران نے آزادی مارچ، انقلاب مارچ کا اعلان کرکے اپنے پورے وجود کے ساتھ حکومت کو گرانے کے لئے میدان کار زار میں قدم رکھنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اسلام آباد میں کئی لاکھ لوگوں کا آزادی مارچ یا انقلاب مارچ، جس کی وجہ سے راجدھانی میں حکومتی سرگرمیاں کئی دنوں سے تقریباً معطل ہوکر رہ گئی ہے اور حکومت کی تمام توجہ اس بات پر مرکوز ہوگئی ہے کہ آزادی مارچ کرنے والے، سرکاری اہم عمارتوں پر قبضہ نہ کرنے پائیں اور اس مقصد کے لئے رکاوٹیں اور حفاظتی انتظامات کی وجہ سے اسلام آباد میں کرفیو جیسی صورتحال پیدا ہوگئی ہے۔

پاکستان میں پیش آئی اس غیر یقیقنی صورتحال سے تو ہمیں یقیناً پریشانی ہے کہ خدانخواستہ حالات کنٹرول سے باہر ہوکر خطرناک رخ اختیار نہ کریں، بہرحال پاکستان کی اس سیاسی رسہ کشی میں حقائق کیا ہیں؟ کون سچ کہہ رہا ہے اور کون غلط؟ کیا یہ اقتدار کی ہوس ہے یا اخلاص کا کھیل یا پھر دہشت گردوں سے توجہ ہٹانے اور ضرب غضب کے خاتمے کی کوشش؟ ان سب باتوں کو حل کرنا اور سمجھنا اور صحیح فیصلہ لینا بہت دشوار ہے البتہ ایک بات مسلّم اور یقینی ہے کہ اپوزیشن کی یہ حرکتیں ملک کے لئے بہت ہی نقصان دہ اور خطرناک ہیں اور اس وقت پاکستان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ امن، اتحاد، ملکی سلامتی اور سیاسی استحکام کی ہے کہ جس سے اکثر پاکستانی قائدین اور سیاسی لیڈران غافل ہیں۔ کاش سیاسی راہنماؤں سے کوئی اتنا کہتا کہ ملک کی فوج اس وقت طالبان کے ساتھ فیصلہ کن جنگ لڑ رہی ہے اور موجودہ صورتحال سے طالبان کے حوصلے بلند ہوکر پھر سے ملک میں ناامنی اور دہشت گردی کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے، یا کاش کسی کو ملک کی کمزور معیشت کی فکر ہوتی جو اس سیاسی شور و غل میں مزید ابتر ہو رہی ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ دھرنوں، احتجاجوں اور مارچوں سے ملک کی معیشت 30 ارب ڈالر کے نقصان سے دوچار ہوگئی ہے اور پاکستانی روپیہ کی قیمت بھی روز بروز ڈالر کے مقابلے میں گرتی جا رہی ہے اور ہر ڈالر کی قیمت تقریباً سو روپیہ کے قریب پہونچ چکی ہے۔

کیا کچھ دن پہلے پاکستان کے بعض لیڈران، حکومت سے نہیں کہہ رہے تھے کہ وہ فلسطین کے مسئلے میں، عالمی سطح پر کلیدی رول ادا کرے اور اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں دیگر مسلم ممالک کے ہمراہ اسرائیل کے خلاف ’’اسٹینڈ‘‘ لے لیکن اتنے میں کیا ہوا کہ سارے بین الاقوامی مسائل بھلا کر خود حکومت کا گھیراؤ کرکے سرکار کو ہی مفلوج کردیا گیا، خلاصہ جہاں پاکستان کے اکثر حکمرانوں کا مقصد حکومت اور اقتدار ہوتا ہے نہ خدمت، وہیں اپوزیشن بھی، ملک کی تعمیر و ترقی میں مثبت رول ادا کرنے کے بجائے منتخب حکومت کو گرانے کی کوشش میں لگی رہتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بدنصیب قوم، علم اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ کر نہ اپنی زندگی بہتر بنا سکتی ہے اور نہ بین الاقوامی سطح پر دوسروں کی مدد کرکے کوئی مثبت کردار نبھا سکتی ہے۔
خبر کا کوڈ : 405911
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

RIZVI SB QOM KO CONFUSE NA KARO APP NAY KAHA IMRAN NAY NAWAZ PAR DHANDLI KA ILZAM LAGAYA YE BET TO ON RECORD HAY CH NISAR KEH RAHA HY 70 % VOT JALI AYA HAY PIR ETZAZ AHSAN NAY KAHA HY IMRAN KAY 80% ILZAMAT DURUST HAN YEH BAAT ONHON NAY LAHORE MEN IIMRAN KA MARCH SHORO HONY KEY WAQT ARY KO INTERVIEO DETEY HOVE KAHI TO MERA AAP SAY KEHNA HAY MOLANA ROOM NY KAHA THA KEH WOH QOM BARBADI KI TARAF NIKAL JATI HY JO APNA NAFA OR NUQSAN ME TAMIZ BHOOL JATI HY. SHUKRIYA
جاوید صاحب کی تحریر کا آخری پیراگراف وزنی ہے۔ باقی
ارادے باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں
کہیں ایسا نہ ہوجائے کہیں ویسا نہ ہوجائے
والی کیفیت نہیں ہونی چاہئے۔ ٹائمنگ پر اعتراض کرنا اور بات ہے اور اس پر کوئی خفا نہ ہو۔ لیکن جاوید صاحب نواز شریف خود ان حرکتوں کے بانی ہیں، مکافات عمل سمجھ کر اپوزیشن کو معاف کر دیں۔
ہماری پیشکش