1
Wednesday 29 Jun 2022 19:53

سیاسی و سماجی تبدیلیاں اور اثرات(1)

سیاسی و سماجی تبدیلیاں اور اثرات(1)
تحریر: علی ناصر الحسینی

دنیا میں تبدیلیاں اور تغیرات سامنے آرہے ہیں، سماجی تبدیلیاں، سیاسی تبدیلیاں، حکومتی تبدیلیاں، موسم و ماحول کے تغیرات، مذہبی تبدیلیاں، ٹیکنالوجیز کی تبدیلیاں، گویا تبدیلیوں کا ایک سلسلہ ہے، جو چل رہا ہے اور اپنے اپنے معاشروں کو متاثر کر رہا ہے، ان تبدیلیوں کی بابت بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ تبدیلیاں کہیں بہت خوشگوار ہیں اور کسی دوسری جگہ بے حد خطرناک۔ ایک نئی دنیا کا پیغام بھی ہیں اور بڑھتے خطرات کا الارم بھی، اگر انسان ان تبدیلیوں کے بارے غور کرنا شروع کرے تو حیرت کدہ میں پہنچ جاتا ہے۔ اس لئے کہ جو لوگ آج کی دنیا میں سو یا پچاس سال، حتیٰ تیس سال پیچھے ہیں، انہیں آئندہ کی دنیا کا یقین یا تصور ہی محال ہوگا، جو لوگ ٹیکنالوجی کے اس انقلاب سے پیچھے رہ چکے ہیں، انہیں مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والے ٹیکنالوجی کے کرشموں کے تخیل نے ہی حیران و ششدر کر دینا ہے۔
حیران ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی

ٹیکنالوجی کی اس تیز ترین ترقی اور وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ دنیائے سیاست، ممالک و ریاست میں بڑی ناممکن سمجھی جانے والی تبدیلیاں بھی دنیا کے رخ بدلنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، گویا ملکوں اور ریاستوں کا باہمی میل ملاپ، تعلقات اور نئے اتحاد و گروپس کی شکل میں طاقتوں کا سامنے آنا ہے، جن کے بارے کبھی سوچا نہیں گیا تھا، مگر ہو رہا ہے اور ہوتا دیکھا جا رہا ہے۔ فقط روس کو دیکھ لیں، جسے گوربا چوف نے آسمان سے زمین پر پہنچا دیا تھا، آج تیس سال بعد ایک بار پھر اپنی قوت، طاقت، سیاست، حکمت عملی، ٹیکنالوجی کیساتھ میدان میں اپنے بھرپور وجود کیساتھ دکھائی دے رہا ہے اور اس بار اس تبدیلی کیساتھ کہ کل تک جو اس کیساتھ بر سرپیکار تھے، آج اس کے ساتھ کاندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ افغان طالبان جن کا جہاد اور بنیاد ہی روس کے خلاف برسر پیکار ہونے سے تھا، آج افٖغان طالبان کا سب سے بڑا حامی و سپورٹر روس دکھائی دیتا ہے، روس نے ہی افغان طالبان کی موجودہ حکومت کو باقاعدہ تسلیم کیا ہے، حالانکہ یہ کام تو سعودیہ و پاکستان سے متوقع تھا، مگر حالات شاید پہلے جیسے نہیں، زمانہ تبدیلیوں کی زد میں ہے۔

انقلاب اسلامی ایران جو ہمیشہ مرگ بر روسیہ کا شعار بلند کرتا تھا، آج روس کیساتھ بہترین تعلقات بنا چکا ہے، ناصرف تعلقات بلکہ مشرق وسطیٰ میں ایک دوسرے کے مفادات کا تحفظ نیز دیگر اتحادی بالخصوص مقاومتی قوتوں اور مزاحمتی گروہوں کے ساتھ بھی قریبی تعلقات استوار کرچکا ہے۔ اسی طرح شام کے حوالے سے روس کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ عالمی استعمار اور اس کے اتحادی مسلم ممالک بشمول عرب ممالک نے جب شام پر دہشت گردوں کے ذریعے یلغار کی، شام کو عرب لیگ تک سے نکال دیا اور دنیا بھر کے دہشت گردوں کو شام میں بھیج کر جدید ترین اسلحہ و سامان سے لیس کیا اور ہر قسم کی مدد کی، تاکہ شام کی حکومت سقوط کر جائے تو یہ روس اور ایران ہی تھے، جنہوں نے مل کر ان حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور میدان میں کودے۔ اگر روس و ایران نہیں آتے تو اسد حکومت کا شاید کچھ دن چلنا بھی ممکن نہ ہوتا اور اب تک شام کے حصے بخرے ہوچکے ہوتے، جن پر اسرائیل سمیت کئی دیگر ممالک اپنا حق جتا رہے ہوتے بلکہ اپنے اپنے حصے پر قابض ہوچکے ہوتے۔ اگر ایسا ہو جاتا تو مشرق وسطیٰ کا وہ نقشہ جسے "کونڈا لیزا رائس" نے حزب اللہ اسرائیل جنگ کے دوران بنانے کا اعلان کیا تھا، خدانخواستہ بن چکا ہوتا۔

بہرحال ان تبدیلیوں اور بدلتے رویوں اور ترجیحات و مفادات کے کھیل کو شاعر کی زبان میں یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے۔۔
عقل حیران ہے اقدار کی تبدیلی پر
کل جو تھا عیب وہی آج ہنر ہے کہ نہیں

یہ دنیائے سیاست و حکومت میں ہونے والی تبدیلیوں کا ایک معمولی نظارہ کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سعودی حکمرانوں نے سات سال تک مسلسل اپنے ہمسائے برادر اسلامی ملک پر جنگ مسلط کی، تیل کی دولت سے مالا مال سعودیہ نے شاید یہی سمجھا تھا کہ وہ کچھ ہی دنوں میں کمزور و بے بس یمنیوں کو چھٹی کا دودھ یاد کرا دیگا اور اس کے وجود کو ختم کرکے اس پر سعودی پرچم لہرا رہا ہوگا۔ اس مقصد کیلئے اس نے اکتالیس ملکی اتحاد بھی بنایا، جس کی سربراہی ہمارے ایک نامور سپہ سالار کو دی۔ اس اکتالیس ملکی اتحاد نے کمزور یمنیوں پر آگ و بارود کی بارش کی اور جدید اسلحہ سے لاکھوں بچوں اور بے گناہ انسانوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا۔ اس کے باوجود کہ طاقتور ممالک، افواج، کرائے کے فوجیوں اور جدید ترین وسائل رکھنے کے سعودیہ سات سال گزر جانے کے بعد بھی ان پا برہنہ یمنیوں کے جوابی حملوں بالخصوص ڈرون حملوں سے جتنا نقصان اٹھا چکا ہے، وہ ایک مثال ہے۔

یمنیوں کی مزاحمت اور قربانیاں ایک مثال رقم کرچکی ہیں، اس کے اثرات خطے میں بالخصوص مزاحمتی قوتوں میں بے حد مثبت ہیں، سعودی بھی اب یمنیوں سے مذاکرات پر مجبور ہیں، یہ تو ان ظالموں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ بے دست و پا، روٹی کو ترستے، محاصرے کا شکار، دوائیوں کی قلت، خوراک کا قحط ہو کر بھی ایک طاقتور ملک کو اپنے اتحادیوں سمیت جھکنے پر مجبور کر دینگے۔ یہاں بھی جمہوری اسلامی ایران اور مزاحمت لبنان کا کردار واضح ہے کہ ان کے علاوہ ان کا کوئی مددگار نہیں تھا۔ عالمی منظر نامے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں یہ بھی نظر آتا ہے کہ امریکہ جو خود کو واحد سپر پاور سمجھ بیٹھا تھا، اب اس کی شکست و ریخت واضح ہونے لگی ہے۔ اس کا رعب و دبدبہ، اس کی دھونس و دھمکیاں اب اس طرح موثر نہیں رہیں، جیسی کبھی ہوا کرتی تھیں، یہ الگ بات کہ ہمارے موجودہ حکمران امریکی جال میں مکمل پھنسے نظر آتے ہیں، مگر اس کے برعکس اسی مملکت خداداد میں عوام کی بڑی تعداد امریکی مطالم، سازشوں اور گٹھ جوڑ نیز اس کی چالبازیوں کو ناصرف سمجھ چکے ہیں بلکہ کھل کر اس کے خلاف اپنے جذبات کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ ایک زمانہ میں امام خمینی کی اس فکر کو فقط محدودے چند لوگ ہی اعزاز سمجھ کر اپنائے ہوئے تھے، مگر اب تو عوام کے ہر طبقہ سے اس کے خلاف لوگوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، جو اس ملک کے لئے نیک شگون اور عالمی سطح پر تبدیل ہوتے رویوں اور کرداروں کی نشاندہی کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1001830
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش