1
Tuesday 31 Jan 2023 16:29

مکڑی کے جال میں بغاوت کے آثار

مکڑی کے جال میں بغاوت کے آثار
تحریر: محمد علی زادہ
 
مقبوضہ فلسطین میں بنجمن نیتن یاہو کی پوزیشن انتہائی متزلزل ہو چکی ہے۔ جب سے اسلامی مزاحمتی قوتوں نے مقبوضہ بیت المقدس میں فدائی کاروائیاں انجام دی ہیں غاصب صیہونی رژیم شدید سراسیمگی کا شکار ہو چکی ہے۔ ان دنوں غاصب صیہونی رژیم کے اٹارنی جنرل سے لے کر نیتن یاہو کے سیاسی حریفوں تک اور موجودہ صیہونی کابینہ کے ہزاروں مخالفین، سب کے سب اس کابینہ کو توڑنے کے درپے ہیں۔ ایک طرف عدلیہ نے بنجمن نیتن یاہو کو اپنی اتحادی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر داخلہ کو برکنار کرنے پر مجبور کر دیا جبکہ دوسری طرف مختلف الزامات کے تحت آئے دن نیتن یاہو اور ان کے ساتھیوں کے خلاف وارنٹ جاری کئے جا رہے ہیں۔ ان اقدامات نے بنجمن نیتن یاہو جیسے بدبخت سیاست دان کی نیندیں حرام کر ڈالی ہیں اور وہ سکون کا سانس بھی نہیں لے پا رہے ہیں۔
 
حال ہی میں کچھی ایسی رپورٹس منظرعام پر آئی ہیں جن میں دعوی کیا گیا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو نے حکمران اتحاد کے اندر ایک خفیہ معاہدہ کر رکھا ہے جس کی روشنی میں حکومتی امور سارا نیتن یاہو کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔ بنجمن نیتن یاہو نے ان رپورٹس پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے ان کی تکذیب کی ہے۔ یہ ان کے خلاف عائد ہونے والے تازہ ترین الزامات میں سے ایک ہے۔ ایک صیہونی وکیل نے نیتن یاہو کے خلاف مقدمہ دائر کرتے ہوئے اس خفیہ معاہدے سے پردہ چاک کیا ہے اور کہا ہے کہ حکمران اتحاد میں اس خفیہ معاہدے کے نتیجے میں تمام حکومتی امور جن میں اہم عہدوں کی تقرریاں بھی شامل ہیں، بنجمن کی بیوی سارا نیتن یاہو کے سپر کر دیے گئے ہیں۔ صیہونی اخبار یدیعوت آحارنوٹ نے عدالت میں نیتن یاہو کی گواہی بیان کرتے ہوئے لکھا: "ان کا دعوی ہے کہ ایسا خفیہ معاہدہ وجود نہیں رکھتا اور یہ تمام الزامات جھوٹے ہیں۔"
 
سارا نیتن یاہو نے بھی عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ وہ گذشتہ 30 سال سے ایسے الزامات سن رہی ہیں لیکن کوئی بھی اب تک انہیں ثابت نہیں کر پایا ہے۔ یاد رہے اب تک صیہونی ذرائع ابلاغ میں ایسی متعدد رپورٹس شائع ہو چکی ہیں جن میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی بیوی سارا نیتن یاہو ہمیشہ سے حکومتی امور میں مداخلت کرتی آئی ہیں۔ رپورٹس میں یہ دعوی بھی کیا گیا ہے کہ سارا نیتن یاہو حتی کابینہ تشکیل دینے میں بھی اہم کردار ادا کر چکی ہیں۔ اس بارے میں تازہ ترین موقف بنجمن نیتن یاہو کے سابق اتحادی اور ان کی گذشتہ کابینہ میں وزیر اقتصاد کا قلمدان سنبھالنے والے سیاست دان اویگڈور لیبرمین کی جانب سے سامنے آیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سارا نیتن یاہو اپنے شوہر کی کابینہ میں انجام پانے والی اکثر سیاسی ردوبدل میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
 
دوسری طرف صیہونی اخبار ہارٹز نے بھی اپنی ایک رپورٹ میں وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کو برطرف کرنے کیلئے عدالتی کاروائی شروع ہونے کی خبر دی ہے۔ عبری زبان میں شائع ہونے والے اس اخبار نے اپنے تازہ ترین شمارے میں لکھا کہ صیہونی کابینہ کے قانونی مشیر نے وزارت انصاف اور اٹارنی جنرل سے مذاکرات شروع کر دیے ہیں جن کا مقصد بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ میں موجود مفادات کے تضاد کا گہرائی میں جائزہ لینا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم کے اعلی ترین قانونی عہدیدار کی نظر میں منافع کا یہ تضاد بنجمن نیتن یاہو اور صیہونی عدلیہ میں پایا جاتا ہے جس کے باعث نیتن یاہو کو اپنے عہدے سے دستبرداری پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔ رپورٹ کے دوسرے حصے میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اسی ہفتے یا اگلے ہفتے اس مسئلے پر غور کرنا شروع کر دیا جائے گا۔
 
اگرچہ فی الحال تین یاہو کا اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہو جانے کا امکان کم ہے لیکن اگر مختلف کریمنل کیسز میں نیتن یاہو کے خلاف عدالتی کاروائیوں کے نتیجے میں مفادات کے اس تضاد میں مزید شدت آتی ہے تو یہ امکان بڑھ جائے گا۔ صیہونی رژیم کے حکمران اتحاد نے قانونی مشیر گالی بہاراف میارا کو نیتن یاہو کی برطرفی کے امکان کا جائزہ لینے پر مبنی ان سرگرمیوں پر وارننگ دی ہے اور ان مذاکرات کو جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے شخص کے خلاف فوجی اور غیر قانونی بغاوت کی کوشش قرار دیا ہے۔ حکمران اتحادی جماعتوں کے سربراہان نے گالی بہاراف میارا کے نام اپنے خط میں اس بات پر زور دیا ہے کہ اس بات کا اعلان کہ وزیراعظم اپنی قانونی ذمہ داریوں پر عمل پیرا نہیں ہو سکتا، اسے غیر قانونی طور پر برطرف کرنے کی کوشش کے مترادف ہے۔
 
مقبوضہ فلسطین میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات کو تل ابیب میں نئے سیاسی زلزلے کا سبب قرار دیا جا سکتا ہے۔ اکثر صیہونی سکیورٹی ماہرین اس بات پر اتفاق نظر رکھتے ہیں کہ بنجمن نیتن یاہو کی کابینہ باقی رہنے کی صورت میں تل ابیب، حیفا اور دیگر علاقوں میں ہنگامے شروع ہو جائیں گے جبکہ دوسری طرف صیہونی رژیم کے مغربی اتحادیوں کے اخراجات میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ صیہونی کابینہ کے بعض اراکین نے حکومتی کارکردگی پر اعتراض کے طور پر استعفی دینے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے۔ صیہونی اسٹیٹ بینک کے اعلی سطحی عہدیدار موشہ حزان نے حکومت کی جانب سے عدالتی نظام میں اصلاحات کا منصوبہ پیش کرنے پر اعتراض کرتے ہوئے استعفی دے دیا ہے۔ اس وقت شدت پسند صیہونی کابینہ اور اپوزیشن کے درمیان صف آرائی عروج پر پہنچ چکی ہے۔ گذشتہ ہفتے ایک لاکھ صیہونی شہریوں نے تل ابیب، حیفا اور مقبوضہ بیت المقدس میں حکومت مخالف مظاہرہ کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1038819
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش