1
0
Thursday 25 May 2023 13:04

دریا کے بعد دریا

دریا کے بعد دریا
تحریر: سید تنویر حیدر

عمران خان کی جماعت تحریک انصاف جس طرح غیر متوقع طور پر اچانک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ہے، اس نے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ پی ٹی آٸی کے اس انہدام سے بہرحال ایک بات واضح ہوگئی ہے کہ یہ جماعت ہنگامی طور پر ایسی ناپختہ بنیادوں پر کھڑی کی گئی تھی، جس میں نظریہ ضرورت کا خام میٹیریل استعمال کیا گیا تھا۔ عمران خان اگرچہ ایک پاپولر شخصیت تھے، لیکن ان کی یہ شہرت محض کرکٹ کے میدان کے کھلاڑی ہونے کی وجہ سے تھی اور اس کے ساتھ ان کا وہ گلیمر تھا، جو پردہء سکرین کی زینت تھا۔ عملی سیاست سے ان کا دور دور تک کا واسطہ نہیں تھا۔ کرکٹ کے میدان سے جب انہوں نے میدانِ سیاست میں قدم رکھا تو ان کی یہ سابقہ شہرت ان کے کام آٸی، جبکہ دوسری طرف عملی سیاست کی رہگزار میں حقیقی رہنماء کا کردار ادا کرنے کے لئے  نیلسن منڈیلا، چیئرمین ماٶ یا امام خمینی جیسوں کے طرز سیاست میں خود کو ڈھالنا پڑتا ہے اور اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے اپنے سفر کے آغاز میں ہی جاں کو ہتھیلی پر رکھنا پڑتا ہے۔

اس مرحلے پر مطمع نظر اقتدار کا حصول نہیں ہوتا بلکہ پیش نظر صرف اور صرف جدوجہد کا راستہ ہوتا ہے۔ اس صورت میں اگر اقتدار مل بھی جائے تو یہ ایک اضافی چیز ہوتی ہے۔ لہذا اس طرح کی خالص قیادت کو اقتدار حاصل کرنے کے لیے ”الیکٹیبلز“ تلاش کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کو صرف اور صرف ایسے افراد کی تلاش ہوتی ہے، جو محض لیلیٰ اقتدار کے دیوانے نہ ہوں بلکہ قربانی کے جذبے سے سرشار فرزانے ہوں۔ عمران خان نے اپنی سیاسی جدوجہد کے آغاز میں ہی ان افراد پر مشتمل اپنی ٹیم بناٸی، جن میں سے زیادہ تر افراد ماضی میں ان بدعنوان جماعتوں کا حصہ رہ چکے تھے، جن کے کڑے احتساب کے نعرے کو عمران خان نے اپنی تحریک میں جان ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ گویا عمران خان نے کاروبار سیاست کا آغاز ہی کھوٹے سکوں سے کیا۔

کاش عمران خان جنہوں نے اپنی تحریک کو تحریک انصاف کا نام دیا تھا اور اپنے سیاسی سفر کا آغاز اکوڑہ خٹک کے ایک مخصوص مدرسے سے کیا تھا، اس عظیم ہستی سے بھی رہنماٸی لیتے، جن کو ان کے عدل پر شدت سے قاٸم رہنے کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ امیرالمومنین علی ابن علی طالب علیہ السلام نے جناب مالک اشتر کو جو خط لکھا، اس کے اس اقتباس کے اندر عمران خان کی ناکامی کا راز پوشیدہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں ”تمہارے لیے سب سے بدتر وزیر وہ ہوگا، جو تم سے پہلے بدکاروں کا وزیر اور گناہوں میں ان کا شریک رہ چکا ہوگا۔ اس قسم کے لوگوں کو تمہارے مخصوصین میں سے نہیں ہونا چاہیئے، کیونکہ وہ گنہگاروں کے معاون اور ظالموں کے ساتھی ہوتے ہیں۔“ ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا کہ عمران خان کے نغمے گانے والی بلبلیں، گلچیں کی خواہش پر، گلشن کے جس پھول سے عشق کا دعویٰ کرتی تھیں، اسے خزاں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر، اس کے پہلو سے کنارہ کش ہو رہی ہیں۔

عمران خان کی تحریک انصاف کے اچانک یوں بکھر جانے نے اس کے سیاسی حریفوں کو بھی ایک بڑے امتحان میں ڈال دیا ہے۔ جہاں ایک طرف عمران خان نے ”ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں“ کے مصداق بروقت فیصلے نہ کرکے اپنے حریفوں کو موقع دیا کہ وہ ان کے لیے مشکلات کھڑی کریں، وہاں شہباز حکومت نے ”ہمیشہ جلدی میں ہوتا ہوں میں“ کی عملی تصویر بن کر عمران خان کی حکومت کو ٹھکانے لگانے میں کچھ زیادہ ہی جلدی کی اور اب اس کی جماعت تحریک انصاف کی عمارت کو گرانے میں جلد بازی دکھانے کی کوشش میں خود اس کے ملبے تلے آگئے۔ اس منزل کو طے کر لینے کے بعد اب پی ڈی ایم کے سامنے کئی دریا ہیں، جو انہوں نے عبور کرنے ہیں۔ بقول منیر نیازی:
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا


نئے حالات میں اب پی ڈی ایم کے سامنے کئی قسم کی مشکلات ہیں، جن پر انہوں نے فوری طور پر قابو پانا ہے۔ پہلی مشکل یہ کہ انہیں ملک کی انتہاٸی بگڑتی ہوٸی معاشی صورت حال کی طوفانی لہروں کا سامنا ہے۔ اس موقعے پر آٸی ایم ایف نے بھی ان کی کشتی کا ناخدا بننے سے معذرت کر لی ہے۔ دوسری مشکل نئے بجٹ کی تشکیل کا مرحلہ ہے۔ اس بجٹ کو تیار کرنا اپنے سامنے کھڑے پہاڑ کے سنگِ گراں سے جوئے شیر نکالنے کے مترادف ہے۔ تیسری مشکل یہ کہ بدلتے ہوئے عالمی حالات و واقعات میں علاقے میں بنتے نئے جغرافیاٸی قطبوں میں وہ کس طرح اپنی گردش جاری رکھیں۔؟ آرمی چیف کا دورہء چین اور وزیراعظم شہباز شریف کی ایرانی صدر رٸیسی سے ملاقات، اگرچہ خارجہ پالیسی میں مثبت پیش رفت ہے، لیکن اس راستے کی مشکلات بھی ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔

ہماری حکومت ان مشکلات کا کس طرح سامنا کرتی ہے، تمام دنیا اس کی جانب ٹکٹکی باندھ کر دیکھ رہی ہے۔ چوتھی مشکل جو شاید ان کا سب سے بڑا امتحان بھی ہے اور ان کے لیے بڑا بحران بھی کھڑا کرسکتی ہے، وہ پی ڈی ایم کے اتحاد کو باقی رکھنا ہے۔ یہ جو مختلف جماعتوں کے لشکر ایک ہی پرچم تلے اور ایک ہی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں، ان میں باہمی الفت کا کوٸی رشتہ قاٸم نہیں ہے بلکہ ان کا مرکزی نقطہء اتحاد بغض عمران ہے۔ اس حوالے سے میرا اپنا ایک شعر ہے کہ:
یہ جو تم سے مجھے محبت  ہے
اس کے پیچھے کسی کی نفرت ہے

عمران خان کے وقتی طور پر منظر سے ہٹ جانے کے بعد اگرچہ ان جماعتوں کی نظروں کے سامنے عمران نہیں ہوں گے، لیکن ان سب کے ہاتھوں میں ایک دوسرے کے گریبان ضرور ہوں گے۔ آنے والے ایام ہمارے ملک کی سیاست کے ایسے باب کھولیں گے، جو سیاست کی دنیا کے نئے تماشوں کے لیے دعوتِ نظارہ دیں گے۔
خبر کا کوڈ : 1060069
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بابر حسین شاہ
Pakistan
زبردست تجزیہ
ہماری پیشکش