0
Saturday 3 Jun 2023 05:57

ایٹمی معاہدہ اور نئی چال

ایٹمی معاہدہ اور نئی چال
تحریر: حنیف غفاری

ان دنوں بائیڈن حکومت کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان ایران کے جوہری معاملے کے حوالے سے ایک متنازع شخصیت بن چکے ہیں۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے اپنے حالیہ دورے میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر ضرورت پڑی تو واشنگٹن صیہونی حکومت کو ایران کی جوہری سرگرمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دے گا۔ سلیوان کی درپردہ دھمکی ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے، جب وہ امریکی خارجہ پالیسی کے میدان میں ایک مکمل طور پر نااہل اور ناکام شخصیت بن چکے ہیں۔ ایران پر سلیوان کے غصے کا راز کیا ہے؟ واشنگٹن کی سیاسی اور انتظامی مساوات میں جو بائیڈن کی موجودگی کے بعد سے، امریکی اور یورپی حکام نے ایران پر جامع کنٹرول کی حکمت عملی کے تحت "مذاکرات کے منظر کو پیچیدہ بنانے" کے حربے کو استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔

اس امتزاج کا معروضی نتیجہ ایران پر جوہری معاہدے کی غیر عملی و غیر حقیقی واپسی پر اصرار تھا۔ JCPOA کے وعدوں پر ایران کی یکطرفہ پابندی اور اس کے جواب میں مغرب نے پابندیوں کو قطرہ قطرہ ختم کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا، اس نے ایران کو نئے چیلنج سے دوچار کر دیا تھا لیکن ایران نے اس منصوبہ کا خوبصورت توڑ پیش کیا۔ یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے سے قبل اپنی ایک تقریر میں سلیوان نے دعویٰ کیا تھا کہ جوہری معاہدے کی طرف واپسی کے بدلے ایران سے مزید امور کا مطالبہ کرنا چاہیئے۔

ایران کے خلاف سلیوان کے غصے کو سمجھنا ضروری ہے۔ قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان اور امریکی وزیر خارجہ انتھونی بلنکن جیسے لوگوں کا خیال تھا کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی زیادہ سے زیادہ دباؤ کی حکمت عملی اور اس کے نتائج ایران کو (ہر قیمت پر) مذاکرات کی میز پر واپس آنے کے لیے بے چین کر دیں گے۔ لہذا اس روش کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس تناظر میں تہران کے خلاف نئے منفی ہتھکنڈے مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔

یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے سے قبل اپنی ایک تقریر میں سلیوان نے دعویٰ کیا تھا کہ ایران کو جوہری معاہدے کی طرف واپسی کے بدلے مزید مطالبات ماننے پر مجبور کرنا چاہیئے۔ ان مطالبات میں سے ایک جوہری پابندیوں کو مستقل کرنا تھا۔ اس بنا پر سلیوان نے دعویٰ کیا کہ ایران کی جوہری پابندیوں میں سے بعض کو ہٹانے کے سلسلے میں 2025ء کی وقت کی حد کو ہٹا دیا جانا چاہیئے۔ سلیوان نے دعویٰ کیا کہ ایران کسی بھی قیمت پر مذاکرات کی طرف لوٹنا چاہتا ہے اور امریکہ کو اس موقع کو ایران کی ذمہ داریوں کا دائرہ وسیع کرنے اور اپنے فرائض کی سطح کو کم کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیئے۔

JCPOA میں باضابطہ واپسی اور ایران کو وسیع تر ذمہ داریوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنے کے بدلے ایران کے خلاف پابندیوں کا بتدریج ہٹانا ایک ایسا فارمولہ تھا، جسے سلیوان اور اس کے ساتھیوں نے نافذ کرنے کا دعویٰ کیا اور اس کے لئے طاقت کی موجودگی کا دعویٰ بھی کیا۔ بہرحال اب 2023ء میں، امریکی اس بچگانہ مقصد کے حصول کے لیے اور بھی زیادہ نااہل دکھائی دیتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ، مغربی حکام نے محسوس کیا کہ " JCPOA میں غیر آپریشنل واپسی" کے آپشن کی ایران کی اقتصادی اور سیاسی لغت میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ایران کا ایٹمی معاہدہ سے بے مہری اور مطالبات کو نظرانداز کرنے کی وجہ سے اس میدان میں امریکہ اور یورپ کی چالبازی کی طاقت میں نمایاں کمی ہوئی۔

اس حوالے سے ایران مخالف پابندیوں کے معمار رچرڈ نیفیو اور مقبوضہ علاقوں میں امریکہ کے سابق سفیر ڈین شاپیرو جیسے لوگوں کا جوہری مذاکراتی ٹیم سے نکل جانا ایک اہم اشارہ تھا۔ ایک ایسا عمل جو وائٹ ہاؤس میں ہونے والے مذاکرات میں ایران کی یکطرفہ واپسی کے حامیوں کے لیے سازگار نہیں تھا۔ JCPOA میں باضابطہ واپسی اور ایران کو وسیع تر ذمہ داریوں کو قبول کرنے پر مجبور کرنے کے بدلے ایران کے خلاف پابندیوں کا بتدریج ہٹانا ایک ایسا فارمولہ تھا جسے سلیوان اور اس کے ساتھیوں نے نافذ کرنے کی طاقت کا دعویٰ کیا تھا۔

موجودہ صورت حال میں سلیوان جے سی پی او اے میں امریکہ کی واپسی کے موجودہ عمل کو پیچیدہ بنانے کا سبب بن گئے ہیں اور یہاں تک کہ بعض امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ بائیڈن اپنے قومی سلامتی کے مشیر کے پیدا کردہ حالات سے انتہائی ناخوش ہیں۔ اگر ٹرمپ انتظامیہ میں مائیک پومپیو اور جان بولٹن جیسے لوگ ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی حکمت عملی کی ناکامی کی علامت تھے تو بائیڈن کی انتظامیہ میں سلیوان ایران کے خلاف ٹارگٹڈ پریشر کی حکمت عملی کی ناکامی کی علامت بن چکے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اگر سلیوان ایران کی حکمت عملی کا مقابلہ کرنے میں اپنی ناکامی کو ایران کے خلاف اشتعال انگیز الفاظ اور دھمکی آمیز رویئے کے ساتھ جوڑنا چاہتا ہے تو ایران  کا سامنا کرنے میں اس کی اور اس کے ساتھیوں کی ناکامی یقینی ہے اور تباہی کا دائرہ پہلے سے زیادہ وسیع ہو جائے گا۔ سلیوان کے لیے بہتر ہے کہ اس سلسلے میں پومپیو اور جان بولٹن کے تجربات سے استفادہ کریں۔
خبر کا کوڈ : 1061684
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش