1
0
Friday 4 Nov 2011 15:52

اور جب زہرِ جفا نے اثر دکھایا

اور جب زہرِ جفا نے اثر دکھایا
تحریر:ایم صادقی
حضرت امام باقر علیہ السلام نے ۵۷ ھجری میں شہرِ مدینہ کو اپنے وجودِ انور سے منور کیا۔ آپ کی عمر مبارک اپنے والدِ بزرگوار کی وفات کے وقت ۳۹ سال تھی۔ آپ کا اسم گرامی مبارک "محمد"، کنیت "ابو جعفر" آپ کا مشہور و معروف لقب "باقر"  اور "باقر العلوم" ہے، آپ کو یہ لقب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عطا فرمایا تھا۔ آپکی والدہ گرامی "ام عبداللہ" امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کی بیٹی تھیں اور والدِ بزرگوار "امام سجاد" علیہ السلام، امام حسین علیہ السلام کے بیٹے تھے، اس لحاظ سے تمام آئمہ علیہ السلام میں سے آپ والد اور والدہ دونوں کی طرف سے فاطمی اور علوی تھے۔ واقعہ کربلا میں آپ کا عہد طفولیت تھا اور آپ اپنی جوانی میں ان تمام مشکلات و مصائب میں جو آپ کے والد بزرگوار امام سجاد علیہ السلام اور دوسرے علویوں پر پڑیں، شریک تھے۔ آپ کی شھادت ۱۱۴ ھجری میں ہوئی، آپ مشہور قبرستانِ بقیع میں اپنے والدِ بزرگوار کے پہلو میں مدفون ہیں۔
امام باقر علیہ السلام وارثِ عاشورہ:
واقعہ عاشوراء کے موقع پر امام باقر علیہ السلام  کی عمر مبارک چار سال تھی۔ آپ نے اس دن کے تمام مصائب اور اسيری کی مشکلات کو انتہائی صبر کے ساتھ تحمل کيا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ ايک روز امتِ مسلمہ کی امامت کے بارِ گراں کو آپ نے اپنے شانوں پر اٹھانا ہے اور دادا کے خون سے سینچے  ہوئے درخت کی آبياری کر کے اسے پُرثمر بنانا ہے۔ امام باقر علیہ السلام  خود اس سانحہ کے بارے ميں فرماتے ہيں، "ميں دادا حسين علیہ السلام  کی شہادت کے وقت چار سال کا تھا اور آپ علیہ السلام  کی شہادت کا واقعہ اور جو مصائب اس دوران ہم پر گذرے وہ سب مجھے ياد ہیں۔"
جابر کی روايت:
جابر بن عبداللہ رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے روایت کرتے ہیں، کہ آپ نے فرمایا " اے جابر! تم ميرے بعد اتنا عرصہ زندہ رہو گے کہ ميری اولاد ميں سے ايک فرزند کی زيارت کرو گے جو لوگوں ميں سب سے زيادہ مجھ سے مشابہت رکھتا ہو گا، اس کا نام بھی ميرے نام پر ہو گا، جب تم اس سے ملو تو ميرا سلام
اس تک پہنچا دينا اور ميری اس بات پر ضرور عمل کرنا۔" 
اس واقعے کو سالہا گزر گئے اور امام باقر علیہ السلام کی امامت کا دور آن پہنچا، جابر ہر طرف گوہرِ ناياب کي تلاش ميں سرگرداں تھے۔ يہاں تک کہ ديدار کا موقع آن پہنچا ایک روز مدینے کی گلیوں سے عبور کرتے ہوئے نگاہ امام باقر علیہ السلام کے رخِ انور پر جا پڑی، آپ میں پیامبر کی بتائی ہوئی تمام نشانیوں کو  دیکھ کر فورا آگے بڑھ کر آپکی پیشانی کا بوسہ لیا اور رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا سلام آپکو پہنچایا۔ اس دن کے بعد سے جابر روزانہ اپنے مولا کی زيارت سے آنکھوں کو منور کيا کرتے تھے اور مختلف مواقع پر اور بہانے بہانے سے لوگوں کے سامنے رسول اللہ (ص) کی حديث بيان کرتے رہتے تھے۔ شايد امام باقر علیہ السلام  کو جابر کے ذريعے سلام پہنچانے ميں نبی اکرم (ص) کے پيشِ نظر يہی حکمت تھی کہ اس خفقان کے دور میں امام عظيم کا لوگوں کے سامنے تعارف کروايا جائے۔ 
علم کا سینہ شگاف کرنے والا :
رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  نے جب جابر کو اپنے فرزند، محمد بن علی کی زيارت کی بشارت دی تھی اسوقت امام کو "باقرالعلوم" کہہ کر پکارا تھا اور فرمايا تھا، "وہ علم کو پوری طرح شگافتہ کرے گا۔" بیشک امام باقر علیہ السلام تمام علوم کا وسیع سمندر تھے۔ ايک ایسا سمندر جس سے تمام علم کے پياسے سيراب ہوئے۔ حضرت باقر علیہ السلام کے ايک شاگرد، جناب جابر بن يزيد جُعفی جن کے بارے میں خود آپ کا قول ہے کہ "جُعفی ستر ہزار احاديث کے ناقل ہيں۔" جُعفی خود کہتے ہیں، "ميں نے امام کی اٹھارہ سال خدمت کی جب ميں ان سے جدا ہو رہا تھا تو ميں نے عرض کی حضور! مجھے اپنے علم سے سيراب کيجئے، امام علیہ السلام  نے جب یہ سنا تو پوچھا، کيا تم اٹھارہ سال بعد بھی سيراب نہيں ہوئے ہو؟ جابر نے عرض کی!  آقا آپ ايسا چشمہ ہيں جس کا آبِ شيريں کبھی ختم نہیں ہو سکتا۔"
فرزند رسول امام محمد باقر علیہ اسلام مسلمانوں کے وہ عظیم پیشواء و رہنما ہیں جنہوں نے مکتبِ وحی سے وابستگی اور امامت و ہدایت پر فائز ہونے کی وجہ سے تشنگانِ حق و معرفت کو ہمیشہ توحید
اور انسانیت کا سبق پڑھایا اور علم و دانش کے وہ سرچشمے جاری کئے ہيں کہ آپ کا لقب ہی باقر العلوم یعنی " علم کا سینہ شگاف کرنے والا " پڑ گیا۔ آپ کے زمانہ کے اہلسنت کے ایک بزرگ عالم دین محمد ابن طلحہ شافعی کہتے ہیں،" امام باقر کے لقب  سے معروف، محمد ابن علی "علم کا سینہ شگاف کرنے والے" تھے جن میں تمام علوم یکجا ہو گئے تھے اور اُن کا علم آشکار اور اُن کے ذریعے سر بلند ہے، اُن کے وجود سے علم کے چشمے پھوٹتے ہیں علم و دانش کے موتیوں کو انہوں نے سجایا اور زینت و آرایش بخشی ہے اُن کا قلب صاف اور عمل پاک ہے۔ پاکیزہ روح اور اچھے اخلاق کے حامل ہیں اوقات کو  خدا کی عبادت میں بسر کرتے ہيں، تقویٰ و پرہیزگاری میں ثابت قدم ہیں خدا سے تقرب کی نشانیاں اور منتخب بندوں کی خوبیاں امام محمد باقر کے چہرے سے آشکار ہيں فضائل و مناقب اُن کی طرف بڑہنے اور  ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہيں اور پاکیزہ عادات و اوصاف اُن سے شرف و منزلت حاصل کرتے ہيں۔"
اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد جب آپ منصبِ امامت پر فائز ہوئے تو آپ نے حکومت وقت سے کسی بھی طرح کا کوئی رابطہ نہ رکھا اور اپنا سارا وقت علوم دینی اور حقائق اسلام کو بیان کرنے میں صرف کر دیا۔ اموی حکومت کے دور میں علوم اسلامی پر گرد کی جو ایک گہری تہہ بیٹھ گئی تھی آپ نے اسکو نہ صرف صاف کیا بلکہ اس کو نئی جلا بخشی۔
آپ کے علم و فضل سے حکامِ وقت نے بھی استفادہ کیا، گو کہ آپ خاص حالات کی بناء پر حکام سے لاتعلق رہتے تھے لیکن جب بھی انہیں کوئی مشکل اور پریشانی ہوتی تھی تو ان مشکلات کے حل کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور آپ بھی اس سلسلہ میں کسی بھی بخل سے کام لئے بغیر اُن کی مشکلات کو با کمالِ دقّت حل فرما دیا کرتے تھے البتہ ساتھ ساتھ اپنے وعظ و نصیحت  کا سلسلہ جاری رکھتے۔ تاریخ میں نقل ہے کہ عبدالملک بن مروان نے امام علیہ السلام سے مشورہ کے بعد ان تمام ظروف اور کپڑوں کو بند کرا دیا جن پر مصر کے بعض عیسائیوں نے سریانی زبان میں اپنا عقیدہ "اب، ابن اور روح القدس" چھاپ کر بازاروں
میں روانہ کیا تھا۔  خلیفہ وقت عبدالملک اور بادشاہ روم کے درمیان اس معملے سمیت کچھ اور معاملات پر گفتگو ہوئی اور خلیفہ بادشاہِ روم کو کوئی محکم جواب نہ دے سکا، چنانچہ اس نے خلیفہ کی طرف سے بے توجھی کی وجہ سے سخت رویہ اختیار کیا اور درہم و دینار پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے نازیبا الفاظ لکھ کر مسلمانوں کے بازار میں بھیجے کیونکہ اس زمانہ میں درہم و دینا ر روم میں بنائے جاتے تھے۔ جب عبد الملک نے یہ حال دیکھا تو امام علیہ السلام سے مشورہ کرنے پر مجبور ہو گیا اور اس سلسلہ میں آپ کو شام دعوت دی،  امام علیہ السلام نے اسلام کی مصلحت کے لئے اس دعوت کو قبول کیا اور آپ شام تشریف لے گئے اور جب عبدالملک نے آپ کے سامنے مشکل بیان کی تو آپ نے فرمایا کہ صنعت گروں کو بلایا جائے، خلیفہ نے ان سب کو حاضر کر لیا تب امام علیہ السلام نے ان لوگوں کو بتایا کہ کس طرح درہم و دینار کا سانچہ بنائیں، کس طرح ان کی مقدار معین کی جائے اور کس طرح ان پر کچھ تحریر کیا جائے، چنانچہ امام علیہ السلام نے اپنی دانائی اور علمِ خدادادی سے مسلمانوں کو رسوائی سے بچا لیا اور بادشاہ روم  کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔
امام محمد باقر (ع) کی علمی شخصیت:
امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام محمد باقر علیہ السلام نے اپنے ١٩ سالہ دورِ امّامت میں بنی امیّہ کے پانچ ظالم و جابر حکمرانوں کا مقابلہ کیا اور سیاسی اعتبار سے شدید خفقان میں اس وقت جب بنی امیہ اور بنی عباس حصول اقتدار کے لئے برسر پیکار تھے امام علیہ السلام نے اپنی علمی و فکری تحریک کے ذریعے اسلام و قرآن کی الٰہی تعلیمات کی حفاظت اور نشر و تبلیغ کا عظیم فریضہ انجام دیا ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے بنی امیہ کے علماء کی اسلام دشمن، تحریفات و تاویلات کا علمی و استدلالی مباحث کے ذریعے جواب دیا اور اُن کے گمراہ کن عقائد و نظریات کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا۔
آئمہ اطہار علیہ السلام کی زندگی کا تجزیہ کرتے وقت اس نکتہ کو ذہن میں رکھا جائے کہ معصوم کے یہاں زندگی گزارنے کے طریقے اور لوگوں کے ساتھ معاشرت اور فکری لحاظ سے کوئی
فرق نہیں پایا جاتا۔ واحد اختلاف جو ان حضرات کے درمیان نظر آتا ہے وہ موقعیت کا اختلاف ہے اسلئے کہ ہر زمانے کے مسائل مختلف ہوتے ہیں، ہر دور کے مذہبی، فکری، سیاسی اور اجتماعی  تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔ آئمہ اطہار علیہ السلام کی شخصیت کی صحیح شناخت کے لئے ان کی علمی ،معنوی اور سیاسی زندگانی کا جائزہ ضروری ہے۔ ہر امام اپنے پیشرو کی طرح ہدایت و رشد، دعوت الی اﷲ اور افہام و تبلیغِ دین کا منشور دیتا رہا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وفات کے بعد امیر المومنین علیہ السلام نے مسجد کوفہ کے منبر سے بارہا کہا "سلونی سلونی قبل ان تفقدونی"  پوچھ لو مجھ سے اس سے قبل کہ میں تمہارے درمیان نہ رہوں۔ حسن بن علی علیہ السلام کو حکومت معاویہ نے مسلسل اجتماعی، سیاسی اور انفرادی دباؤ میں رکھا، اور اس کے نتیجے میں انہوں نے اسلامی مصلحت کی بناء پر معاویہ سے صلح کر لی کیونکہ اسکے علاوہ چارہ نہ تھا اسلام خطرے میں تھا اور یہ فیصلہ اسوقت کے حالات کے مطابق نہایت مناسب تھا جبکہ امام حسین علیہ السلام نے یزید کی حکومت کو شریعت کے خلاف دیکھ کر باطل کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے شھادت کو اس سے شیریں سمجھتے ہوئے اس کو خوشی سے گلے لگایا کیونکہ اسوقت دین کو بچانے کا صرف یہی راستہ تھا۔
کربلا کے اس دردناک واقعے کے بعد امام زین العابدین علیہ السلام نے جب حکومتِ وقت کی پابندیوں اور سختی کو دیکھا تو حفظ دین اور اس کی ترویج و تبلیغ کے لئے معارف قرآنی کو دعا کے قالب میں ڈھال کر لوگوں تک پہنچایا ان کے وقت میں حالات کا یہی تقاضا تھا۔ ٩٥ھ میں امام سجاد علیہ السلام کی شہادت  کے بعد امام باقر علیہ السلام کو ١٩ سال کا عرصہ ملا،  ۹۵ ھ سے ۱۱۴ ھ تک کے اس عرصہ میں چونکہ بنی امیہ اور بنی عباس میں برسرِاقتدار آنے کے لئے کشمکش جاری تھی آپ نے اس موقعیت سے بھرپور فائدہ اٹھایا، آپ نے حالات کو سازگار دیکھتے ہوئے لوگوں کو علم و دانش کی راہ پر لگا دیا۔ امام باقر علیہ السلام  کا یہ بہت بڑا احسان ہے کہ علم کی اہمیت اور اسکے مقام کا احساس کرتے ہوئے عملی قدم اٹھایا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ
جوق در جوق اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف بڑھتے گئے اور تقریباً ٤ ہزار افراد روزانہ آپ کے درس سے فیضیاب ہوتے تھے۔ آپ کے اس اقدام سے مستقبل میں امام صادق علیہ السلام  کو فقہ، تفسیر اور اخلاقی امور پر تالیف و تدوین کا موقع ملا جو آج فقہ جعفری کے لئے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔ آپ کی میراثِ گرانبھا تفسیر، فقہ، حدیث، کلام اور تاریخ جیسی کتب بھری سے ہوئی ہے، اس میراث کو آخرِکار امام صادق علیہ السلام نے یونیورسٹی کلچر کی شکل میں متعارف کروایا۔
شہادت امام محمد باقر علیه السلام:
امام محمد باقر علیہ السلام کا یومِ شہادت ایامِ حج کے ساتھ منسلک ہے۔ امام محمد باقر علیہ السلام کے ایک قریبی دوست افلح نقل کرتے ہیں کہ "میں امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ خانۂ کعبہ کی زیارت کے قصد سے روانہ ہوا۔ جس وقت آپ مسجدالحرام میں داخل ہوئے اور آپ کی نگاہیں خانۂ کعبہ پر پڑيں آپ نے بلند آواز سے گریہ شروع کر دیا، میں نے عرض کی! فرزند رسول ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہو جائیں اگر آپ اتنی بلند آواز سے گریہ کریں گے تو لوگ آپ کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے اس وقت فرمایا! افلح  تم کیوں نہيں سمجھتے ہو میں یہاں آ کر کیسے گریہ نہ کروں ہو سکتا ہے شاید اسی گریہ کے سبب آج خدا کی خاص رحمت شاملِ حال ہو جائے اور کل کامیاب رہوں"۔ آپکی شہادت نہایت دردناک انداز میں ہوئی اموی حکمران عبدالملک ابن مروان نے عالمِ اسلام کے اس عظیم امام اور پیشوا کو زہرِ جفا سے شہید کروایا، اس نے ایک انوکھا طریقہ اپنایا، اسپ کی زین خرید کے اس کو مسموم کیا اور اسکو اسپ پر ڈال کے امام علیہ السلام کو تحفے میں پیش کرتے ہوئے اسپر سواری کا حکم دیا اور جب امام علیہ السلام  اسپ سے اترے اسوقت تک انکا تمام بدن مبارک متورّم ہو چکا تھا اور زہر جسم نازنین میں سرایت کر چکا تھا، اس واقعے کے تین دن کے بعد امام علیہ السلام اس دارِ فانی سے رخصت ہو گئے۔ آج ہم امام معصوم محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کے دن تمام مسلمانانِ جہان کی خدمت میں تسلیت و تعزیت پیش کرتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 111347
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
please also mention source of book .
ہماری پیشکش