2
0
Monday 19 Sep 2011 14:29

خصائل مومن امام جعفر صادق ع کی نظر میں

خصائل مومن امام جعفر صادق ع کی نظر میں
تحریر:ایم صادقی
قرآن کریم میں خداوند عالم  نے بہت زیادہ مقامات پر مومنین سے یایھاالذین آمنوا  یعنی اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو کہہ کر خطاب کیا ہے، ایمان والوں سے مراد یہ کہ خدا مومنین کو مخاطب کر رہا ہے۔ کیا خدا جن سے خطاب کر رہا ہے وہ سب مومن کے درجے پر فائز ہو گئے ہیں یا اس مقام تک پہنچنے کے لئے ان کو خود بھی کچھ کرنا ہے۔ دراصل مومن کون ہیں اور ان میں کیا خصوصیات ہونی چاہییں، کیا انسان صرف مسلمان ہونے کی بنا پر مومن ہے یا مومن بننے اور کہلوانے کے کچھ اور بھی لوازمات ہیں۔ جب ہم سیرہ نبوی صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ اطہار علیہ السلام  کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ مذہبی علوم کی اتنی پیشرفت کے باوجود ہم اصل تعلیمات سے کتنے دور ہیں۔ معصومین ع کے نزدیک مومن کے عادات و خصائل اور علامات کیا ہونی چاہییں، اس تحریر میں اسی موضوع پر روشنی ڈالی گئی ہے، تاکہ ہم اپنا محاسبہ کر سکیں اور جان سکیں کہ ہم مومن ہیں یا ابھی مزید جدوجہد کی ضرورت ہے، کیونکہ انسان کبھی اس سے مبرا نہیں کہ اپنے آپ کو کامل سمجھتے ہوئے کمال تک پہنچنے کی کوشش ترک کر دے، بلکہ آئمہ طاہرین ع کے خط کی پیروی کرتے ہوئے اعلٰی ترین درجے پر فائز ہو سکتا ہے۔
انسان کو خطا کا پتلا کہا جاتا ہے اور اس میں کوئی شک بھی نہیں کیونکہ انسان جلد شیطان کے بہکاوے میں آ جاتا ہے، شیطان سے بچنے کے لئے پہلا راستہ جو خدا نے بتایا، اور نبی اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ اطہار علیہ السلام نے اسکی شدت سے تاکید و تائید کی وہ نماز پنجگانہ اول وقت ہیں، قرآن میں ارشاد باری تعالٰی ہے"اِنّ الصلاۃ تنھٰی علی الفحشاء والمنکر" کہ بےشک نماز  بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔ امام جعفر صادق ع کا فرمان ہے" جس کسی نے نماز کو سبک شمار کیا وہ ہم میں سے نہیں" تو مومن کی پہلی خصوصیت قرآن و سنت کی روشنی میں یہ ہوئی کہ وہ نماز گزار ہوتا ہے اور نماز کو کسی حال میں رہا نہیں کرتا۔
مومن کی دیگر نشانیاں:
 امام صادق ع سے مومن کی علامات کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا، مومن کی چار علامتیں ہیں، اول یہ کہ اس کی نیند اس شخص کی نیند جیسی ہوتی ہے جو ڈوب رہا ہو، دوم یہ کہ اس کی غذا کسی بیمار کی طرح سے ہوتی ہے، مومن کی تیسری علامت یہ ہے کہ وہ خدا کے حضور اس طرح گریہ کرتا ہے جیسے  ماں مردہ بیٹے کی لاش پر گریہ کرتی ہے، اور چہارم یہ کہ اس کا بیٹھنا کسی ہراساں فرد کی طرح سے ہوتا ہے۔ جب آپ سے یہ پوچھا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ مومن بعض اوقات انتہائی بخیل ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا، اس کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ وہ حلال ذریعے سے رزق حاصل کرتا ہے اور حلال روزی کمانا بہت دشوار ہوتی ہے اس لیے وہ جس رزق کو بڑی مشکل سے حاصل کرتا ہے وہ اس سے جدا ہونا پسند نہیں کرتا۔ اور اگر کبھی وہ سخاوت کرتا ہے تو اسے جائز مقام پر ہی خرچ کرتا ہے۔ آپ سے پوچھا گیا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ مومن نکاح کا دوسروں کی نسبت زیادہ حریص ہوتا ہے؟ آپ نے جواب دیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن خود کو حرام سے محفوظ رکھنے کا خواہش مند ہوتا ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جنسی خواہش اسے کہیں ادھر ادھر نہ لے جائے اور جب وہ حلال حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو وہ اسی پر اکتفا کرتا ہے اور حرام سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ 
مومن کی تین صفات:
ایک جگہ صادق آل محمد ع کا ارشاد ہے کہ مومن میں تین صفات ایسی جمع ہوتی ہیں جو کسی غیر مومن میں جمع نہیں ہو سکتیں، اول یہ کہ وہ خدا کی معرفت رکھتا ہے، دوم یہ کہ خدا کے محبوب افراد کی معرفت رکھتا ہے، سوم یہ کہ جن لوگوں سے خدا کو نفرت ہے وہ انہیں پہچانتا ہے۔ پھر آپ  نے مزید فرمایا کہ مومن کی قوت اس کے دل میں ہوتی ہے کیا تم نہیں دیکھتے کہ مومن تمہیں بظاہر کمزور جسم اور ضعیف البدن دکھائی دیتا ہے مگر اس کے باوجود وہ رات کو عبادت کے لیے کھڑا ہوتا ہے اور دن کے وقت روزہ رکھتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ مومن دین میں چٹیل پہاڑ سے بھی زیادہ مضبوط ہوتا ہے کیونکہ حوادث کے نتیجہ میں پہاڑ کی اونچائی کم ہو سکتی ہے لیکن مومن کے دین میں ذرہ برابر کمی نہیں ہوتی، اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن اپنے دین کے متعلق انتہائی بخیل ہوتا ہے یعنی دین کو اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ مسعدہ بن صدقہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے اور آپ ع  نے اپنے جد سے اور انہوں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نقل کیا، آپ کا فرمان ہے کیا میں تمہیں یہ نہ بتاوں کہ مومن کو مومن کیوں کہا گیا ہے؟ مومن کو یہ لقب اس لئے دیا گیا کہ لوگ اسے اپنی جان و مال کا امین سمجھتے ہیں، پھر آپ فرماتے ہیں، کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ مسلم کون ہے؟ مسلم وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہیں، پھر آپ مزید فرماتے ہیں، کیا میں تمہیں یہ نہ بتاؤں کہ مہاجر کون ہے؟ مہاجر وہ ہے جو برائیوں اور اللہ کی حرام کی ہوئی اشیاء کو چھوڑ دے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انہی اسناد سے مومن کی علامات  منقول ہیں، آپ نے فرمایا، جس شخص کو برائی ناگوار لگے اور بھلائی اسے خوش کر دے تو وہ مومن ہے۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا کہ مومن کے لیے یہ بات انتہائی ناپسندیدہ ہے کہ وہ کسی ایسے فعل کی طرف شوق رکھتا ہو جو اس کی ذلت کا موجب ہو۔
مومن کے لیے چھ چیزوں کا اقرار ضروری ہے:
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ مومن کے لیے چھ چیزوں کا اقرار ضروری ہے، اول یہ کہ ستمگروں اور طاغوتوں سے برأت کرے، دوم یہ کہ اہل بیت ع کی ولایت کا اقرار کرے، سوم یہ کہ رجعت پر ایمان لائے، اور چہارم یہ کہ متعہ کو حلال سمجھے، پنجم یہ کہ موزوں پر مسح کرنے سے پرہیز کرے، اور ششم یہ کہ ملی مچھلی اور سانپ مچھلی کو حرام جانے۔ صالح بن ہیثم کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، جس میں تین صفات موجود ہوں تو اس نے ایمان کی صفات کی تکمیل کر لی، جو کوئی اپنے اوپر ہونے والے ظلم و ستم پر صبر کرے اور اپنا غصہ پی جائے اور اپنے دونوں اعمال کا بدلہ خدا سے طلب کرے تو وہ ان لوگوں میں شامل ہو گا جنہیں خدا جنت میں داخل کرے گا اور انہیں قبیلہ ربیعہ و حضر کے افراد کے برابر حقِ شفاعت عطا فرمائے گا۔ زید سے مروی ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، تم اس وقت تک مومن نہیں بن سکتے جب تک لوگوں کی نظر میں قابلِ اعتماد حیثیت کا درجہ اختیار نہیں کر لیتے اور تم اس وقت مومن ہو گے جب تم فراخی اور فراوانی کو اپنے لیے مصیبت سمجھو گے، کیونکہ آزمائش پر صبر کرنا وسعت و فراخی کی عافیت سے کہیں بہتر ہے۔
امام جعفر صادق ع کی نظر میں مومن کے اوصاف:
اسی طرح ایک شخص نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے عرض کیا کہ یابن رسول اللّہ آپ میرے لیے مومن کے اوصاف بیان فرمائیں، تو آپ نے فرمایا کہ، مومن کا دین قوی ہوتا ہے، دور اندیش اور نرم خو ہوتا ہے اور باایمان و صاحب یقین ہوتا ہے، فہم دین کے لیے حریص ہوتا ہے اور ہدایت پا کر خوشی محسوس کرتا ہے، نیکی کے کاموں میں ثابت قدم ہوتا ہے اور صاحب علم و حلم ہوتا ہے، نرم خو اور شکرگزار ہوتا ہے، راہِ حق میں سخی اور ثروت مندی کی حالت میں اعتدال کو برقرار رکھتا ہے، فقر و غربت کی حالت میں ظاہرداری سے کام لیتا ہے اور طاقتور ہو تو معاف کر دینے والا ہوتا ہے، خیرخواہی کی اطاعت کرتا ہے اور خواہش کے باوجود حرام سے پرہیز کرتا ہے، نفس کی مخالفت میں حریص ہوتا ہے اور عین کام کے درمیان نماز ادا کرتا ہے، شدائد اور مصائب میں بردبار اور حوادث میں باوقار ہوتا ہے، سختیوں میں صابر، اور راحت میں شاکر ہوتا ہے۔ وہ غیبت نہیں کرتا اور تکبر اور قطع رحمی نہیں کرتا۔ مومن کمزور ارادہ، بداخلاق اور خواہ مخواہ تندمزاج نہیں ہوتا۔ 
پھر آپ مزید فرمایا کہ مومن جنسی تقاضوں سے مغلوب نہیں ہوتا، لوگوں سے حسد نہیں کرتا، کنجوسی نہیں کرتا اور فضول خرچی اور اسراف سے کام نہیں لیتا۔ وہ مظلوم کی مدد کرتا ہے اور مساکین پر رحم کرتا ہے۔ اپنے نفس کو رنج و سختی میں رکھتا ہے، لوگ اس سے آسائش حاصل کرتے ہیں لیکن وہ دنیا سے بے رغبتی اختیار کرتا ہے اور اہلِ دنیا کے خطرات سے خوفزدہ نہیں ہوتا اور جب بھی لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے تو وہ اس کی طرف رجوع کرتے ہیں جب کہ وہ ہمیشہ فکر آخرت کے غم میں مشغول رہتا ہے۔ اس کی بردباری میں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی اور اس کی رائے میں سستی نہیں ہوتی اور اس کے دین میں بربادی نظر نہیں آتی۔ جو اس سے مشورہ کرتا ہے وہ اس کی صحیح رہنمائی کرتا ہے اور جو اس کی مدد کرتا ہے وہ اس سے تعاون کرتا ہے اور وہ باطل، غلط گفتگو اور جہل و نادانی سے پرہیز کرتا ہے۔ یہ مومن کے اوصاف ہیں اور مومن کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا۔ 
مومن فولاد سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے:
حسین بن عمرو امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا، مومن فولاد سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔ کیونکہ جب لوہے کو آگ میں ڈالا جائے تو اس کی رنگت بدل جاتی ہے جبکہ مومن اتنا مضبوط ہوتا ہے کہ اگر اسے قتل کیا جائے پھر اٹھایا جائے اور پھر قتل کیا جائے تو بھی اس کا دل متغیر نہیں ہوتا۔ اسی طرح مفضل سے راویت ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین کو ایک ہی اصل سے پیدا کیا ہے، باہر سے نہ تو کوئی ان میں داخل ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ان کے گروہ سے نکل سکتا ہے۔ ان کی مثال جسم میں سر، اور ہتھیلی میں انگلیوں جیسی ہے۔ تم جس کو اس کی مخالفت کرتے ہوئے دیکھو تو اس کے متعلق گواہی دو کہ وہ حتماً منافق ہے۔  محمد بن سلیمان دیلمی کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ "موسم سرما مومن کے لیے بہار ہے اس کی راتیں لمبی ہوتی ہیں اور مومن ان مین شب زندہ داری کرتا ہے، جس سے مومن دل کا اندھا نہیں ہوتا۔" 
مومن سے مخلوقات مرعوب ہوتی ہیں:
صفوان جمال سے مروی ہے کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کو یہ کہتے ہوئے سنا، آپ نے فرماتے ہیں، مومن کے لیے ہر چیز اطاعت گزار ہوتی ہے، جب اس کا دل خدا کے لیے بااخلاص ہوتا ہے تو خدا ہر چیز کے دل میں اس کا رعب و دبدبہ ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ زمین کے جانور، درندے اور آسمانی پرندے تک بھی اس سے مرعوب ہوتے ہیں۔ عمار ساباطی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے پوچھا گیا، کیا آسمان والے زمین والوں کو دیکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا، وہ صرف مومنین کو دیکھتے ہیں کیونکہ مومن کی طینت کا تعلق ستاروں کی طرح نور سے ہے۔ پوچھا گیا کہ کیا وہ اہلِ زمین کو دیکھتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا، نہیں وہ ان کے اجسام کو نہیں دیکھ پاتے، البتہ وہ اس کے نور کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ پھر آپ نے فرمایا، قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہر مومن کو شفاعت کرنے کے لیے پانچ گھنٹوں کا وقت دے گا۔
قندی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، اللہ کی طرف سے مومن کی مدد کے لیے یہی بات کافی ہے کہ وہ اپنے دشمن کو خدا کی نافرمانی میں مصروف دیکھتا ہے۔ حارثی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرماتے پیں کہ جس شخص میں بخل، حسد اور بزدلی ہو تو وہ مومن نہیں ہے اور مومن بزدل، بخیل اور حریص نہیں ہوتا۔ ایک جماعت نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی، آپ نے فرمایا، ایک مومن اپنی ذات کے خلاف دوسرے ستر مومنین سے بھی زیادہ سچا ہوتا ہے۔ 
مومن کے اعمال سے خوشبو آتی ہے:
عبداللہ بن امام موسیٰ کاظم  سے مروی ہے کہ میں نے اپنے والد سے پوچھا جب کوئی انسان نیکی یا برائی کا ارادہ کرتا ہے تو کیا اس پر مامور فرشتوں کو پتہ چل جاتا ہے؟ آپ نے فرمایا: کیا تیرے نزدیک خوشبو اور بدبو دونوں یکساں ہیں؟ میں نے عرض کیا نہیں، آپ نے فرمایا، جب کوئی شخص نیکی کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے خوشبو دار سانس برآمد ہوتی ہے، دائیں ہاتھ والا فرشتہ بائیں ہاتھ والے سے کہتا ہے رک جاؤ، اس نے نیکی کرنے کا ارادہ کیا ہے اور جب کوئی شخص نیکی کر لیتا ہے تو فرشتے کی زبان قلم بن جاتی ہے اور اس کا لعابِ دہن سیاہی بن جاتا ہے اور وہ اسے اس کے نامہ اعمال میں لکھ دیتا ہے اور جب کوئی برائی کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے بدبو برآمد ہوتی ہے۔ بائیں ہاتھ والا فرشتہ دائیں ہاتھ والے فرشتے سے کہتا ہے رک جاؤ، اس نے برائی کا ارادہ کر لیا ہے اور جب وہ برائی کر لیتا ہے تو فرشتے کی زبان قلم اور اس کا لعابِ دہن سیاہی بن جاتا ہے اور وہ اس کے عمل کو لکھ دیتا ہے۔
معاویہ بن عمار کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالیٰ نے دنیاوی آزمائشوں سے مومن کو محفوظ نہیں رکھا البتہ اسے آخرت کے اس اندھے پن اور شقاوت سے جو کہ آخرت کا اندھا پن ہے، نجات دی ہے۔  آپ فرماتے ہیں مومن خیر سے محروم نہیں کرتا،ابوالعلاء سے راویت ہے کہ آپ نے فرمایا، مومن وہ ہے جس سے ہر چیز ڈرے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مومن دین خدا میں صاحبِ عزت ہوتا ہے، مومن کسی چیز سے نہیں ڈرتا اور یہ ہر مومن کی علامت ہے۔ اللہ ہر چیز کے دل میں مومن کا رعب پیدا کر دیتا ہے۔
کیا ہمارا شمار بھی مومنین میں ہوتا ہے:
ثابت ہو گیا کہ اگر یہ تمام خصائل ہم میں ہیں تو ہم بھی مومن ہیں اور اگر نہیں تو پروردگار سے دعاگو ہیں کہ ہمیں بھی مومن بننے کی توفیق عطا فرمائے، تاکہ ہمارے نامہ اعمال میں بھی وہ ثبت ہو جس کی خوشبو ہمارے نبی کریم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم آئمہ طاہرین ع کے مشام مبارک کو معطر کر سکے، اور وہ فخر سے خدا کے حضور کہہ سکیں کہ یہ ہمارا مومن ہے، اور اسکی شفاعت ہمارے ذمے ہے، کیونکہ خدا نے خود نبی کریم صلی اللّہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ طاہرین ع کو امت کے لئے شافع قرار دیا یے، اور انہوں نے اس شفاعت کو مومن کی ان تمام خصوصیات کے ساتھ مشروط کیا ہے، جبکہ متاسفانہ ہمارے اکثر مومنین کا عقیدہ یہ ہے کہ آئمہ ع ہر حال میں ہماری شفاعت کریں گے، جبکہ ایسا نہیں ہے، شفاعت کا تعلق ہمارے اپنے اعمال سے ہے۔ اس کی چھوٹی سی عامیانہ مثال یہ کہ جب کسی کو کسی سے محبت ہو تو وہ ہر طرح سے اپنے آپ کو اپنے محبوب کی خواہش کے مطابق ڈھالنے کی کوششں کرتا ہے، تاکہ اسکے محبوب کی محبت میں اضافہ ہو، تو کیا ہم زبانی کلامی محبت کا ادعا کر کے، وہ محبت جسکا اظہار ہمارے کسی عمل سے نہ ہوتا ہو، یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ پھر بھی ہمارے شفیع ہوں، اگر ان کی شفاعت حاصل کرنا ہے تو ہمیں اپنے اعمال پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے، البتہ اول بندہ حقیر کو۔  
خبر کا کوڈ : 99810
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
allha ap ke taofeqat may mazeed ezafa kary.ameen
Pakistan
Nice.
ہماری پیشکش