1
Wednesday 28 Feb 2024 23:42

جنگ بندی، نیتن یاہو کی شکست کی علامت

جنگ بندی، نیتن یاہو کی شکست کی علامت
تحریر: محمد علی زادہ
 
صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے حال ہی میں دعوی کیا ہے کہ اگر غزہ میں حماس کے ساتھ چند ہفتوں پر مشتمل جنگ بندی برقرار ہو جاتی ہے تو وہ رفح شہر پر اسرائیل کے فوجی حملے میں محض کچھ حد تک تاخیر کا سبب ہی بنے گی۔ نیتن یاہو نے یہ بھی دعوی کیا ہے کہ جب غزہ پر فوجی کاروائی کا دوبارہ آغاز کیا جائے گا تو محض چند ہفتوں میں ہی اسے مکمل کامیابی حاصل ہو جائے گی۔ صیہونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو غزہ جنگ کے آغاز سے ہی ہر قسم کی جنگ بندی (چاہے عارضی اور چاہے مستقل) کے قیام کا مخالف تھا۔ اس کی کابینہ کے بعض وزیر جیسے بن گویر اور اسماتریچ تو حتی یہ دھمکی بھی لگاتے رہے ہیں کہ جنگ بندی کی صورت میں وہ کابینہ سے نکل جائیں گے۔
 
اس کے باوجود اب صیہونی وزیراعظم اور اس کے اتحادی عارضی جنگ بندی برقرار کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ اس کی وجہ واضح ہے۔ غاصب صیہونی رژیم غزہ جنگ میں اپنے اعلان کردہ اور حتی خفیہ مقاصد میں سے کوئی ایک بھی حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے جبکہ جنگ کا طول پکڑ جانا مکمل طور پر تل ابیب کے نقصان میں ہے۔ بنجمن نیتن یاہو نے سی بی ایس نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کسی قسم کی تفصیلات بیان کئے بغیر صرف اتنا ہی کہا ہے کہ جنگ بندی کیلئے معاہدہ طے پا رہا ہے۔ مصر کے سرکاری ٹی وی القاہرہ نے بھی ایک باخبر مصری ذریعے کے بقول رپورٹ دی ہے کہ قطر میں پروفیشنل سطح پر مذاکرات جاری ہیں۔ اس چینل نے اعلان کیا کہ مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں بھی جنگ بندی اور اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کیلئے مذاکرات جاری رہیں گے۔
 
اس وقت غزہ کی صورتحال یہ ہے کہ محاصرے کا شکار نصف سے زیادہ آبادی یعنی تقریباً 23 لاکھ فلسطینی شہری جنوبی شہر رفح میں پناہ حاصل کئے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف صیہونی رژیم رفح میں بھی فوجی جارحیت کا ارادہ ظاہر کر رہی ہے۔ رفح مصر کی سرحد پر واقع ہے اور رفح کراسنگ غزہ جانے والے امدادی سامان کا واحد راستہ ہے۔ جب سے اسرائیل نے رفح پر فوجی حملے کی دھمکی دی ہے دنیا بھر میں انسانی حقوق کی تنظیمیں اس کے تباہ کن نتائج پر شدید تشویش کا اظہار کر رہی ہیں۔ حتی امریکی اور یورپی حکمران بھی بظاہر پریشان دکھائی دیتے ہیں اور بار بار صیہونی حکمرانوں سے رفح پر فوجی حملہ نہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ نیتن یاہو نے اعلان کیا ہے کہ وہ اسی ہفتے رفح سے فلسطینی شہریوں کو نکال باہر کرنے پر مبنی منصوبہ منظوری کیلئے کابینہ میں پیش کرے گا۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر نیتن یاہو اور بائیڈن اپنے بیہودہ دعووں کے مطابق خود کو غزہ کی پٹی پر مکمل قبضہ برقرار کرنے پر قادر سمجھتے تو وہ کسی صورت بھی جنگ بندی کی باتیں نہ کرتے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ غزہ میں جنگ بندی کے بارے میں انجام پانے والے مذاکرات کے آغاز پر امریکی اور صیہونی حکمرانوں نے تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی کے بدلے 6 ہفتے تک جنگ بندی انجام پانے کی پیشکش کی تھی۔ لیکن اب وہ بخوبی جانتے ہیں کہ تمام اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی ممکن نہیں ہے۔ ایسے حالات میں غزہ جنگ میں واشنگٹن اور تل ابیب کی بے بسی کھل کر سامنے آ رہی ہے۔ وائٹ ہاوس کی جانب سے انسانی حقوق کے بہانے صرف اس لئے سامنے آ رہے ہیں کہ غزہ میں جاری نسل کشی میں صیہونی حکمرانوں کے ساتھ امریکی حکمرانوں کے شریک ہونے پر پردہ ڈالا جا سکے اور عوامی غصہ کم کیا جا سکے۔
 
امریکہ میں عنقریب نئے صدارتی الیکشن منعقد ہونے والے ہیں جبکہ غزہ جنگ کی بدولت امریکہ کی بعض اہم ریاستوں میں جو بائیڈن کی محبوبیت میں شدید کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی ترین وجہ امریکہ کی حمایت اور مدد سے غزہ میں جاری صیہونی حکمرانوں کے انسان سوز مظالم ہیں۔ لہذا جس چیز نے واشنگٹن اور تل ابیب کو غزہ میں جنگ بندی پر مجبور کیا ہے وہ میدان جنگ میں اسلامی مزاحمت کی طاقت اور عالمی سطح پر امریکی اور صیہونی حکمرانوں سے روز بروز بڑھتی نفرت ہے۔ غزہ کے شمالی حصوں میں اب بھی صیہونی فوجیوں اور حماس کے مجاہدین میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ دوسری طرف اسرائیل اب تک اپنے اعلان کردہ مقاصد یعنی اسرائیلی یرغمالیوں کی آزادی، غزہ پر فوجی قبضہ اور حماس کی نابودی، میں سے ایک بھی حاصل نہیں کر پایا۔ مغرب کے معتبر سکیورٹی اور میڈیا ذرائع نے اعتراف کیا ہے کہ اب تک غزہ، خان یونس اور رفح شہروں میں حماس کے سرنگوں کے نیٹ ورک اور مجاہدین جوں کے توں باقی ہیں۔
 
اسی طرح انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ گذشتہ چند ماہ سے جاری فوجی جارحیت کا حماس کی فوجی طاقت کے اصلی انفرااسٹرکچر پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ دوسری طرف غزہ میں جاری جنگ سے خطے میں اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کیلئے جاری مہم کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ عرب دنیا میں کوئی اسرائیل سے سازباز اور دوستانہ تعلقات استوار کرنے کی جرات نہیں کر سکتا کیونکہ خطے اور دنیا کی رائے عامہ غاصب صیہونی حکمرانوں کے شدید خلاف ہو چکی ہے۔ اسرائیل سے دوستانہ تعلقات استوار کرنے کے حامی حکمران "دو ریاستی راہ حل" کو بہترین راہ حل پیش کر رہے تھے لیکن اب تو صیہونی حکمرانوں نے اسے قبول کرنے سے ہی انکار کر دیا ہے اور واضح طور پر فلسطینیوں کو پورے مقبوضہ فلسطین سے بے دخل کر دینے کے ارادے کا اظہار کیا ہے۔ ایسے میں اسرائیل سے سازباز یا دوستانہ تعلقات استوار کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ اسرائیل کیلئے بہت بڑی سیاسی شکست ہے۔
خبر کا کوڈ : 1119204
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش