0
Wednesday 28 Feb 2024 12:03

ایران کا انتخابی جمہوری نظام

ایران کا انتخابی جمہوری نظام
ترتیب و تنظیم: علی واحدی

اس آرٹیکل میں ہم اسلامی جمہوریہ ایران کے جمہوری سیاسی ڈھانچے اور انتخابی نظام کا مختصراً جائزہ لیں گے۔ اسلامی جمہوریہ ایران میں دین اور سیاست کے خوبصورت امتزاج کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کے سیاسی نظام کو اس کے دو قانونی ذرائع کی بدولت ایک منفرد طرز حکمرانی کا ڈھانچہ یا ماڈل سمجھا جاتا ہے۔ اس نظام کا اسلامی ستون مذہبی اور روحانی پیشوا یعنی ولی فقیہ ہوتا ہے، جن کا انتخاب معاشرے کے بزرگ مذہبی علماء اور قانونی ماہرین کرتے ہیں۔ اس کونسل کو خبرگان یا ماہرین کی کونسل کہتے ہیں۔ یہ کونسل آئین کے آرٹیکل107، 108 اور 111 کی بنیاد پر اسلامی جمہوریہ ایران کے سربراہ یا ولی فقیہ کے انتخاب اور اس کی کارکردگی کی نگرانی کی ذمہ دار ہے۔ ماہرین کی کونسل عوام کے منتخب کردہ افراد پر مشتمل ہوتی ہے۔

ماہرین کی کونسل کے آخری انتخاب، جس کے اس وقت 88 ارکان ہیں، مارچ 2014ء میں منعقد ہوئے تھے، اس اسمبلی کی مدت 8 سال ہوتی ہے۔ اس پارلیمنٹ یعنی ماہرین کی کونسل کے وسط مدتی انتخابات یکم مارچ جمعہ کو ہوں گے۔ اسلامی جمہوریہ نظام کے فریم ورک میں "جمہوریہ" کا ستون "اسلامیت" کے ستون کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس ستون کی بنیاد پر، حکومتی ڈھانچہ دیگر جمہوری ماڈلز کی طرح تین شاخوں، انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ پر مشتمل ہے۔ آئین کے مطابق، پارلیمنٹ یا دوسرے لفظوں میں شوریٰ اسلامی کو نظام میں ایک اہم حیثیت حاصل ہے اور تمام امور اس سے متعلق ہیں۔ قانون سازی کا اختیار پارلیمنٹ کے ہاتھ میں ہے اور کچھ نظارتی اختیارات بھی پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں شامل ہیں۔

حکومت کی اہم معاملات من جملہ قومی بجٹ اور غیر ملکی معاہدوں کو پارلیمنٹ سے منظور ہونا ضروری ہے۔ اسلامی پارلیمنٹ کے نمائندوں کی اس وقت تعداد 290 ہے اور اس تعداد میں اضافہ آئین کے آرٹیکل 64 کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ کابینہ، صدر اور وزراء پر مشتمل ہے، جو پارلیمنٹ کو جوابدہ ہے۔ اس سلسلے میں، صدر کو کابینہ کی تشکیل کے لیے اپنے مجوزہ وزراء کے لیے پارلیمنٹ سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے۔ بعض حالات میں پارلیمنٹ وزراء کو پارلیمنٹ میں بلا کر وزراء کا مواخذہ کرسکتی ہے۔ اسی طرح صدر کی برطرفی کے لیے عدم اعتماد کی تحریک بھی لا سکتی ہے۔ صدر کو پارلیمنٹ کو تحلیل کرنے کا حق حاصل نہیں ہے۔ دوسری طرف، صدر کے پاس حکومتی اور انتظامی امور کے انتظام کے لیے تمام اہم اختیارات موجود ہیں۔

صدر اور پارلیمنٹ کے ارکان کا انتخاب عوام کرتے ہیں جبکہ عدلیہ کے سربراہ کا انتخاب ولی فقیہ کی طرف سے ہوتا ہے۔ ایران کے سیاسی نظام میں شوریٰ نگہبان یا گارڈین کونسل جیسا ادارہ موجود ہے، جس کے فرائض وہی ہیں، جو فرانس کی "آئینی کونسل" کے ہیں۔ 12 رکنی گارڈین کونسل کے ممبران فرانس کی آئینی کونسل کی طرح منتخب ہوتے ہیں۔ گارڈین کونسل کے ارکان میں سے، چھ مذہبی سکالرز یا فقہاء کو ولی فقیہ مقرر کرتے ہیں جبکہ چھ وکلاء کو عدلیہ کے سربراہ کے ذریعے نامزد کیا جاتا ہے جس کی پارلیمنٹ منظوری دیتی ہے۔

نظام کی اصلاح کی کونسل کا ایک اور ادارہ مصلحت نظام کونسل ہے، جس میں بحثیت عہدہ اور نامزد افراد شامل ہوتے ہیں۔ اس کونسل کا کام اسلامی جمہوریہ کی عمومی پالیسیوں کے مسودوں کی تیاری اور تجاویز دینا، آئینی نظرثانی کونسل میں شرکت اور رہبر کو مشورے فراہم کرنے جیسے امور ہوتے ہیں۔ یہ کونسل گارڈین کونسل اور اسلامی پارلیمنٹ کے درمیان تنازعات کو بھی حل کرتی ہے۔ آخری ایرانی صدارتی انتخابات 2016ء میں ہوئے تھے اور آخری پارلیمانی انتخابات 2015ء میں ہوئے تھے۔ نیز اسلامی جمہوریہ ایران میں شہر اور دیہات کی دیہی کونسلوں کے انتخابات شہروں اور دیہاتوں کے منتظمین کا تعین کرتے ہیں۔ کونسل کے انتخابات کا پانچواں دور 12ویں صدارتی انتخابات کے ساتھ ہی منعقد ہوا۔

اسلامی جمہوریہ ایران کا انتخابی نظام
انتخابی نظام ان طریقوں کا مجموعہ ہے، جسے ایرانی شہری جمہوری نظام میں اپنے پسندیدہ افراد کو منتخب کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں جمہوریت کے عمومی عنوان کے تحت عوام کی شرکت اور مختلف میدانوں میں ان کی موجودگی پر تاکید کی گئی ہے۔ آئین کے آرٹیکل 56 میں حق خودارادیت کو خود مختاری اور سیاسی طاقت کا ذریعہ تسلیم کیا گیا ہے اور اس سلسلے میں آئین کے دیگر اصولوں میں اس حق کو استعمال کرنے کا طریقہ اور آزادانہ انتخابات کے حصول کے لیے ووٹنگ کا طریقہ بھی بتایا گیا ہے۔

مثال کے طور پر آئین کا چھٹا آرٹیکل اس بات پر زور دیتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران میں ملکی معاملات کا انتظام عوامی ووٹوں پر ہونا چاہیئے۔ دیگر بہت سے آرٹیکلز میں، جہاں رہبریت، صدر، ماہرین کی کونسل، پارلیمنٹ، مقامی کونسلوں اور ریفرنڈم کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں انتخابات کے اہم زمرے کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرح ایران کے سیاسی قانونی نظام میں انتخابات کا مسئلہ بنیادی زمرہ ہے، جو اس نظام کے جمہوری ہونے کو ظاہر کرتا ہے۔ صدارتی انتخابات ایران کے سیاسی نظام میں صدر کے اہم عہدے کے ساتھ ساتھ اس کے اختیارات اور فرائض کی وجہ سے بہت اہم ہیں اور انتخابی نظام کے بانیوں نے بھی اس مسئلے پر خصوصی توجہ دی ہے۔

ایران کے صدارتی انتخابات کا قانون 1985ء کو منظور کیا گیا تھا، جس میں اب تک 3 بار تبدیلی اور ترمیم کی جا چکی ہے۔ پہلی ترمیم 1987ء کو اور دوسری اور تیسری 1993ء اور 1994ء کو، یعنی چھٹی صدارتی مدت کے موقع پر کی گئی۔اس قانون کے ایگزیکٹو ریگولیشنز، جس کی پہلی بار کابینہ نے 1985ء کو منظوری دی تھی اور 1993ء میں پھر دو بار ترمیم کی گئی۔ 1985ء کے صدارتی انتخاب کے قانون کے آرٹیکل 36 کے مطابق، ووٹرز کے لیے درج ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے: الف۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی شہریت۔ ب۔ 18 سال کی عمر میں داخل ہو (2005ء سے پہلے، عمر کی شرط 16 تھی)۔ ج: دماغی صحت کا درست ہونا، البتہ بہت سے ممالک کے برعکس ایران میں عدالتی جرائم کے مرتکب افراد کے لیے ووٹ ڈالنے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔

صدارتی امیدواروں کے لئے آئین کے آرٹیکل 115 کے تحت ضروری شرائط کچھ اسطرح ہیں۔ صدارتی امیدواروں کی اہلیت کے لیے، صدر کا انتخاب مذہبی اور سیاسی شخصیات میں سے ہونا چاہیئے، جو درج ذیل اہلیتوں پر پورا اترتے ہوں: ایرانی الاصل، ایران کے قوانین کا تابع، منتظم، مدیر اور اچھے ریکارڈ کا حامل، امانت دار اہل تقویٰ، مومن اور اسلامی جمہوریہ کے سرکاری مذہب کا ماننے والا۔ صدارتی امیدوار یا ان کے تحریری مجاز نمائندے کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے پانچ دنوں کے اندر اندراج کرانا ہوتا ہے۔ وزارت داخلہ امیدواروں کے کاغذات نامزدگیوں کو وصول کرنے کی آخری تاریخ کے فوری بعد گارڈین کونسل کے سیکرٹریٹ میں جمع کرا دیتی ہے۔ امیدواروں کے کاغذات موصول ہونے کی تاریخ سے پانچ دنوں کے اندر، گارڈین کونسل ان کی اہلیت کا جائزہ لے گی اور حتمی نتیجہ وزارت داخلہ کو بھیجتی ہے۔

صدارتی انتخابات ووٹوں کی مطلق اکثریت حاصل کرنے کے لیے کرائے جاتے ہیں۔ اگر پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو قطعی اکثریت حاصل نہیں ہوتی تو انتخابات دو مراحل میں ہوں گے۔ پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے دو امیدوار دوسرے مرحلے کے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ انتخابات کا دوسرا دور انتخابات کی مقررہ تاریخ کے بعد آنے والے پہلے جمعہ کو ہوگا۔پارلیمنٹ کے انتخابات میں، صدارتی انتخابات کی طرح، گارڈین کونسل انتخابی امیدواروں کی اہلیت کو جانچنے کی ذمہ دار ہے۔ پارلیمانی انتخابات براہ راست اور خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں نمائندے کا انتخاب کل ووٹوں کی کم از کم ایک چوتھائی اکثریت حاصل کرنے پر منحصر ہوتا ہے اور دوسرے مرحلے کی صورت میں سادہ اکثریت کافی ہوتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں، ان امیدواروں میں سے جنہوں نے پہلے مرحلے میں ایک چوتھائی ووٹوں کی اکثریت حاصل نہیں کی تو پہلے مرحلے میں سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے اگلے مرحلے میں حصہ لے سکتے ہیں۔ دوسرے مرحلے کے انتخابات میں اگر باقی امیدواروں کے حاصل کردہ ووٹوں کی تعداد دوگنی سے کم ہے تو یہ سب الیکشن کے دوسرے مرحلے میں حصہ لیں گے۔ صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ووٹروں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کسی قسم کی رجسٹریشن کی ضرورت نہیں ہوتی ہے۔ اسی طرح ایک حلقے کے رہائشیوں کے لئے دوسرے حلقے کے انتخابات میں حصہ لینے پر کوئی ممانعت یا پابندی نہیں ہوتی ہے۔ ایران میں، انتخابی اضلاع اور نمائندوں کی تعداد کا تعین آبادی اور جغرافیائی فارمولوں کے مطابق کیا جاتا ہے۔

پارلیمنٹ اور صدارتی انتخابات کے نمائندوں کے انتخاب کے لیے شرائط یکساں ہیں، لیکن پارلیمنٹ میں داخل ہونے کے لیے امیدواروں کے لیے درج ذیل شرائط کا ہونا ضروری ہے۔ اسلام اور اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام پر اعتقاد اور عملی وابستگی، اسلامی جمہوریہ ایران کی شہریت، آئین اور فقیہ کے مطلق اختیار کے اصول کے ساتھ وفاداری کا اظہار، ماسٹر ڈگری یا اس کے مساوی ہونا، حلقے میں خراب شہرت کا حامل نہ ہونا، جسمانی صحت مثلاً بصارت، سماعت اور گویائی کی صلاحیت کا حامل ہونا، کم از کم تیس سال اور زیادہ سے زیادہ پچھتر سال کی عمر ہونا۔ انتخابات کا انعقاد باضابطہ طور پر وزارت داخلہ کی ذمہ داری ہے، جو کہ الیکشن ہیڈ کوارٹرز کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

گارڈین کونسل صدارتی انتخابات اور پارلیمنٹ کے امیدواروں کی اہلیت کی تصدیق کے علاوہ، اسلامی جمہوریہ ایران کے انتخابی عمل کی نگرانی کی ذمہ دار ہے۔ گارڈین کونسل دونوں انتخابات میں امیدواروں اور انتخابی جرائم کی شکایات کو سننے کے ساتھ ساتھ انتخابات کے حتمی نتائج کی تصدیق کی ذمہ دار ہے۔ صدارتی انتخابات کے جیتنے والے امیدوار کی تنفیذ رہبر کی طرف سے ہوگی۔ اس کے علاوہ، پارلیمنٹ میں داخل ہونے والے نمائندوں کی کاغذات تقرری کو ایک پارلیمانی کمیٹی سے منظور کرانا ضروری ہے۔

امریکہ اور فرانس جیسے ممالک کے برعکس صدارتی انتخابات اور پارلیمنٹ میں مالی مسائل اور انتخابات پر ہونے والے اخراجات کے حوالے سے پہلے کوئی خاص قانون نہیں تھا۔ کسی مخصوص امیدوار کے حق میں اشتہاری مہم کے لیے سرکاری وسائل کا استعمال ممنوع ہے اور اگر کوئی ایسا کرے گا تو اسے جرم سمجھا جاتا ہے۔ پارلیمان کی طرف سے منظور کیے گئے تازہ ترین قانون میں "پارلیمنٹ کے انتخابات میں انتخابی سرگرمیوں کی مالی معاونت کی شفافیت اور نگرانی کا قانون چند دن پہلے منظور کیا گیا ہے، تاکہ اس شعبے میں موجود قانونی خلا کو ختم کیا جاسکے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے انتخابی نظام کے اجزاء میں انتخابی امیدواروں کے لئے دستیاب سہولتوں کا مساوی اور منصفانہ ضروری ہے۔

صدارتی اور پارلیمانی امیدواروں کی تمام انتخابی سرگرمیاں متعلقہ حکام جیسے گارڈین کونسل اور وزارت داخلہ کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ہونی چاہئیں۔ اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران اور امریکہ جیسے ملک میں اشتہاراتی کمپین اور انتخابی مہم کے حوالے سے کافی فرق پایا جاتا ہے۔ فی الحال اسلامی جمہوریہ ایران کے انتخابی نظام میں ووٹنگ کا طریقہ دستی اور نان الیکٹرانک ہے اور ڈاک یا ورچوئل طریقوں سے ووٹ بھیجنا ممکن نہیں ہے۔ حسن روحانی کی حکومت کی وزارت داخلہ نے الیکٹرانک انتخابات کے عمل کو مکمل کرنے کی کوشش کی، لیکن اسے گارڈین کونسل کے قانونی اعتراضات کا سامنا کرنا پڑا۔

اسلامی جمہوریہ کے سیاسی نظام کی نوعیت کی وجہ سے، صدارتی یا پارلیمانی انتخابات میں سیاسی پارٹیاں زیادہ کردار ادا نہیں کرتی ہیں۔ پارلیمانی انتخابات میں اگرچہ مشترکہ انتخابی فہرستیں پیش کی جا سکتی ہیں، لیکن تمام امیدوار باضابطہ اور آزادانہ طور پر پارلیمنٹ میں داخل ہوتے ہیں اور پھر انہیں کسی پارٹی یا دھڑے میں شامل ہونے کی آزادی ہوتی ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے انتخابی نظام کے بارے میں ایک دلچسپ نکتہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ یا مجلس شوریٰ اسلامی میں مذہبی اقلیتوں کے لیے نشستیں مختص ہیں، جو کہ جغرافیائی-آبادیاتی تقسیم سے بالاتر ہوتی ہیں۔

پارلیمنٹ کے انتخاب کے دوسرے آرٹیکل کے مطابق پارلیمنٹ کے نمائندوں کی کل تعداد میں سے پانچ کا تعلق بالترتیب زرتشتی اور کلیمی مذہبی اقلیتوں سے ہوتا ہے۔ آشوری اور کلڈین عیسائیوں کا مل کر ایک ایک نمائندہ اور جنوب اور شمال سے آرمینیائی عیسائیوں کا ایک ایک نمائندہ۔ انتخابی قانون میں کی گئی کچھ ترامیم کو پارلیمنٹ نے منظور کیا، جس کی گارڈین کونسل نے توثیق کی، سابقہ قانون کی ترمیم شدہ شقوں کی بنیاد پر انتخابات کے انعقاد میں وزارت داخلہ کی ذمہ داریوں کا حجم کم کر دیا گیا اور دوسری جانب عملدرآمد اور نگرانی کے مرحلے میں گارڈین کونسل کے مقرر کردہ وفود کو مزید ذمہ داریاں سونپی گئیں۔

مذکورہ اصلاحات کے مطابق وزارت داخلہ اب بھی انتخابات کی ایگزیکٹو ہے، تاہم انتخابات کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ارکان میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اس بنا پر یہ کمیٹی وزیر داخلہ، اسپیکر کمیٹی کے ووٹ نہ دینے والے اراکین میں سے ایک، ملک کے اٹارنی جنرل، وزیر اطلاعات اور سات مذہبی، سیاسی، ثقافتی اور سماجی شخصیات پر مشتمل ہوگی۔ قانون یہ بتاتا ہے کہ "عوام کے معتمد شخصیات" کو وزیر داخلہ کے ذریعے نامزد کیا جانا چاہیئے اور صدارتی انتخابات کے مانیٹرنگ بورڈ سے اس کی منظوری لینی چاہیئے۔ اس کی بنیاد پر وزیر داخلہ 30 افراد کو مرکزی الیکشن مانیٹرنگ بورڈ میں بطور ٹرسٹی متعارف کرائیں گے۔ مرکزی نگران بورڈ کی جانب سے ان افراد کی منظوری کے بعد وہ اپنے درمیان سے سات اہم اور چار متبادل ارکان کا انتخاب کریں گے۔

وزیر داخلہ اور سینٹرل بورڈ آف الیکشن سپرویژن کے درمیان اختلاف کی صورت میں،(جو گارڈین کونسل کی نگرانی میں کام کرتا ہے،) اس بورڈ کی رائے وزارت داخلہ کے لیے حتمی ہوگی۔ ایگزیکٹو بورڈ کے فیصلے نگران بورڈ کی رائے کے خلاف نہیں ہونگے، لیکن اختلاف کی صورت میں گارڈین کونسل کی رائے کو مدنظر رکھا جائے گا۔ تنازعہ کی پہچان اور حتمی فیصلہ گارڈین کونسل کے پاس ہے۔ اس طرح گارڈین کونسل انتظامی فیصلوں میں بھی اپنا کردار ادا کرسکتی ہے اور کسی اختلاف کی صورت میں کونسل کی رائے ہی فیصلہ کن ہوگی۔ اس ترمیم میں انتخابات کے انعقاد اور خلاف ورزیوں کی تحقیقات اور فالو اپ کے عمل میں عدلیہ کی نگرانی پر بھی زور دیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1119244
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش