0
Wednesday 28 Feb 2024 08:43

اسلامی جمہوری نظام میں عہدے اور منصب

اسلامی جمہوری نظام میں عہدے اور منصب
تحریر: سید محمد علی

ایران کے ملکی آئین کے اصولوں کی روشنی میں ایک نمائندہ اپنے مخصوص اختیارات اور ذمہ داریوں، (جو اسے آئین اور عمومی قوانین دیتے ہیں)، کے تحت قوم اور رہبر کے سامنے جواب دہ ہوتا ہے۔ اس ذمہ داری کو اسلامی انقلاب کے رہبروں کے سیاسی نظریات میں بخوبی دیکھا اور پرکھا جاسکتا ہے۔ دینی رہبروں کے تفکر کی روشنی میں عوامی نمائندوں کی اہم ترین ذمہ داریاں کچھ اس طرح سے ہیں؛

1۔ دکھاوے اور فضول خرچی سے پرہیز کریں
مقام معظم رہبری کے مطابق اسلامی نظام کے ذمہ دار افراد اپنے کردار اور عمل کے لحاظ سے اسراف پر مبنی اور اشرافیانہ زندگی نہ گزاریں اور اس سے بھی مہم تر ایک عوامی نمائندہ کو اس طرح زندگی نہیں گزارنی چاہiئے کہ فضول خرچی اور دکھاوا اس کے اور دوسروں کے لئے ثقافت کا حصہ بن جائے۔

2۔ ملکی استقلال اور ملکی عزت و وقار کی راہ میں کوشاں ہو:
امام خامنہ ای کی نگاہ میں ہمارے سامنے جدوجہد کا صرف یہی ایک راستہ ہے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے عزم میں کوئی دراڑ پڑے۔ یہ جدوجہد مختلف اقسام کی ہے، ان میں سے ایک اہم جدوجہد توسیع پسندی اور دوسری پر انحصار کرنے کی سیاست کے مقابلے میں ملکی استقلال اور قومی عزت کے تحفظ کی راہ پر گامزن رہنا ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں دنیا کے بارے میں امریکہ کا یہی نظریہ رہا ہے اور وہ سب کو اپنا غلام بنانا چاہتا ہے۔ اس فکر اور نظریئے کے مقابلے میں ہمیں اپنا موقف پیش کرنا ہے۔

3۔ دینی فکر اور اسلامی ثقافت کی نشرواشاعت کی راہ میں جدوجہد:
اس راہ میں مجاہدت کا ایک اور عامل خالص اسلامی ثقافت اور اس تفکر کو رواج دینا ہے، جو اسلامی دنیا میں بیداری کا باعث بنے۔ اس فکر کی اسلامی دنیا میں ترویج ایک ایسا کام ہے، جو ساری اسلامی دنیا کے کسی بھی حصے میں نہ صرف ہمارے زمانے میں بلکہ گذشتہ کئی صدیوں میں بھی صحیح انداز سے انجام نہیں پائی۔ کم از کم ہمیں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ امام خمینیؒ کا بھی یہی خیال ہے کہ ایک نمائندے کو خالص اسلام محمدیﷺ کا دفاع کرنے والا ہونا چاہیئے۔ عوام ایسے افراد کو ووٹ دیں، جو اسلام پر کاربند اور عوام کے ساتھ وفادار ہوں۔۔۔ اور اگر ایک جملے میں کہیں تو خالص محمدی اسلام کا دفاع کرنے والے ہوں۔

4۔ عوامی فلاح و بہبود اور ترقی کی راہ میں جدوجہد:
قیادت کا اس بات پر یقین ہے کہ مجاہدت اور جدوجہد کا ایک اور میدان عوامی فلاح و بہبود اور ملکی داخلی ترقی کے امور ہیں اور اس جدوجہد کی زیادہ ذمہ داری ملکی انتظامی اداروں پر عائد ہوتی ہے۔

5۔ عدل و انصاف کے فروغ، امتیازی سلوک کے خاتمے اور بیت المال کی لوٹ کھسوٹ کو روکنے کی جدوجہد
مجاہدت اور جدوجہد کے مشکل ترین میدانوں میں سے ایک میدان عدل و انصاف کے فروغ دینے کا میدان ہے۔ معاشرے میں عدل و انصاف باقی رہے، کسی کے ساتھ امتیازی سلوک روا نہ رکھا جائے، مختلف افراد اور طبقات کو تعصب کی نگاہ سے نہ دیکھا جائے، معاشرے میں غیر منصفانہ، غلط اور ناحق طور پر نوازنے کا عمل نہ ہو تو عوام بہت سی ناکامیوں پر صبر کر لیتے ہیں۔ رہبر انقلاب کی نظر میں آج سب سے بڑی ذمہ داری عوام کی مشکلات کو حل کرنا ہے۔ چاہے یہ اقتصادی مشکلات ہوں، جو اہمیت کے لحاظ سے پہلے نمبر پر ہیں یا چاہے دوسری مشکلات، وہ بھی عوامی مسائل ہیں، ایک نمائندے اور ذمہ دار فرد کی حیثیت سے ہماری سب سے پہلی ذمہ داری عوام کی خدمت کرنا ہے۔

6۔ فقر، فساد اور امتیازی سلوک کے خاتمے کے لئے جدوجہد:
رہبر انقلاب فرماتے ہیں میں ایک دفعہ پھر اعلانیہ اس بات کو دہرا رہا ہوں کہ ملکی حکام چاہے وہ مجریہ، عدلیہ یا مقننہ والے ہوں، سب ملک کر فقر، بدعنوانی اور امتیازی سلوک کے خاتمے کے لئے جدوجہد کریں۔

7: جواب دہی:
حضرت آیت اللہ خامنہ ای فرماتے ہیں: ملک کے اعلیٰ حکام، تینوں ملکی شعبوں، (مجریہ، قضائیہ اور مقننہ) سب کے سب جواب دہ ہوں، اپنے کاموں اور اپنے فیصلوں پر سب جواب دہ ہوں۔

آخر میں انتخابات سے متعلق ایران کے آئین کی چند شقیں آپ قارئین کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔
آئین کی شق نمبر چھ
اسلامی جمہوریہ ایران میں ملک کے امور عوام کے ووٹوں کی بنیاد پر چلائے جائیں گے۔ انتخابات کے ذریعے، صدر، پارلیمنٹ کے اراکین، کونسلوں وغیرہ کے اراکین کا انتخاب کیا جائے گا اور دوسری شقوں میں بیان کئے جانے والے امور کے لئے ریفرینڈم کرایا جائے گا۔
شق نمبر 62
پارلیمنٹ قوم کے ان نمائندوں سے تشکیل پائے گی، جنہیں براہ راست اور خفیہ ووٹنگ کے ذریعے منتخب کیا جائے گا۔ انتخاب کرنے والوں، انتخاب ہونے والوں اور انتخابات کی کیفیت کی شرائط قانون معین کرے گا۔

شق نمبر 63
ایک پارلیمنٹ کی مدت چار سال ہوگی۔ اس کی مدت ختم ہونے سے پہلے پارلیمانی انتخابات منعقد کرائے جائيں گے، تاکہ ملک میں پارلیمنٹ ہمیشہ موجود ہو۔ رہبر انقلاب حضرت آیت اللہ العظمیٰ سید علی خامنہ ای کے فرامین اور ایران کے آئین کی روشنی میں پارلیمنٹ یا کسی دوسرے شعبے میں نمائندگی ایک فریضہ اور ذمہ داری ہے۔ یہ منصب نہ اقتدار کے حصول کے لیے ہے، نہ ذاتی مفادات اور کنبہ و اقربا پروری کے لئے ہے۔ اسلامی حکومت یا اسلامی تنظیموں میں کوئی بھی منصب یا ذمہ داری ایک شرعی امانت ہوتی ہے۔ جو اس امانت میں خیانت یا اس پر قبضہ کرنا چاہے گا تو اس کا شمار بلاشبہ خائنین اور غاصبین میں ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 1119495
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش