0
Wednesday 17 Apr 2024 16:22

وعدہ صادق آپریشن کے کچھ نئے زاوئیے

وعدہ صادق آپریشن کے کچھ نئے زاوئیے
تحریر: ڈاکٹر راشد عباس نقوی

اسرائیلی فوج کے مطابق ایران کی جانب سے مجموعی طور پر تقریباً ایک سو ستر ڈرونز، تیس سے ​​زائد کروز میزائل اور ایک سو بیس سے زائد بیلسٹک میزائل مقبوضہ فلسطین کی جانب فائر کیے گئے۔ صیہونی حکومت پر ایران کے حملے سے امریکیوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے اور صیہونی حکومت کے ٹی وی چینل14 نے اس سلسلے میں کہا: یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس کے نتیجے میں امریکہ کی استقامت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ صیہونی حکومت کے میڈیا نے اعلان کیا کہ ایران نے مقبوضہ فلسطین پر حملہ کرکے اسکے ناقابل تسخیر ہونے کا تاثر ختم کرکے رکھ دیا۔ وعدہ صادق آپریشن کے حوالے سے ایران کے مقاصد کے بارے میں بین الاقوامی امور کے ماہر حسینی کا کہنا ہے: اگر میزائل اور ڈرونز کے ذریعے مقررہ اہداف کو نشانہ بنانا ایران کے لیے معمولی اہمیت کا حامل ہوتا تو اسے فوجی آپریشن شروع کرنے کے فیصلے سے متعلق مختلف ممالک کو آگاہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ ایران کا مقصد فوجی نہیں سیاسی تھا، بلکہ اصل مقصد اسرائیل کی سرزمین پر براہ راست اور کھلم کھلا حملہ کرنے کے عزم اور ہمت کا مظاہرہ کرنا تھا۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر میجر جنرل حسین سلامی نے وعدہ صادق آپریشن کے بعد اس بات پر زور دیا کہ یہ جنگ ہمارے لیے کسی حد تک نامعلوم اور مبہم تھی، لیکن اب اس نے ہمارے لیے ایک نیا باب کھول دیا۔ ہم نے دشمن کے فضائی اور دفاعی نظام، یعنی اینٹی بیلسٹک دفاعی نظام سے یہ جنگ لڑی ہے۔ ہم نے تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے کروز میزائل اور ڈرونز کی بارش کی ہے۔ آہنی گنبد کے نظام سے لے کر فلخان داؤد تک حتیٰ کہ امریکہ، برطانیہ کی مکمل امدار اور فوجی و ٹیکنیکل حمایت کے باوجود اپنے مقاصد حاصل کئے ہیں۔ جنرل سلامی کے مطابق؛ صیہونی حکومت نے امریکہ کی حمایت سے عراق کی فضائی حدود سے لے کر اردن اور یہاں تک کہ شام اور مقبوضہ فلسطین کے کچھ حصوں تک ایک گہرا اور کثیر الجہتی دفاع بنایا، یعنی مختلف طیاروں بشمول F-15  F-16 اور F-35، جو کہ انتہائی ترقی یافتہ ہیں، ان کو استعمال میں لایا گیا، اس کے علاوہ گلف اسٹریم حتیٰ کہ ایندھن فراہم کرنے والے طیارے فضائی حدود میں مسلسل پرواز کرتے رہے۔

آئی آر جی سی سپاہ کے کمانڈر انچیف نے کہا: طیارہ شکن اور میزائل شکن دفاع، جو کہ جدید ترین نظاموں کے ساتھ تھا، ہمارے سامنے تھا اور اس انتہائی پیچیدہ، کثیر الجہتی اور اعلیٰ درجے کے دفاعی نظام کو عبور کرنا ایک پیچیدہ عمل تھا۔ یعنی ہمیں ایک ایسا آپریشن ڈیزائن کرنا تھا، جو ڈرونز، کروز میزائلوں کو بھیج سکے اور خلا سے بیلسٹک میزائل بھی داغ سکے، وہ بھی انتہائی درستگی کے ساتھ زمین پر ٹھیک نشانے پر اہداف کو تباہ کرسکے۔ اس کے علاوہ، الیکٹرانک جنگ کے میدان میں امریکہ اور صیہونی حکومت کی مشترکہ صلاحیتیں ہمارے آلات پر فیصلہ کن اثرات مرتب کرسکتی تھیں، اس لیے اس آپریشن کے لیے حکمت عملی کے ڈیزائن میں باصلاحیت افراد کی ضرورت تھی، یعنی ایسا جدید ڈیزائن جو دشمن کے لیے ناواقف اور الیکٹرانک جنگ کے میدان میں دشمن کو بے اثر کرنے کے قابل ہو۔

 وعدہ صادق آپریشن کے تناظر میں اہم نکتہ جیسا کہ جنرل سلامی کے الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے، ایران کو اس آپریشن میں اسرائیل کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے ساتھ نمٹنا تھا۔ ایک امریکی ذریعے نے اعتراف کیا کہ 10 ممالک نے اسرائیل کو ایرانی ڈرون اور میزائلوں کو روکنے میں مدد کی۔ وال سٹریٹ جرنل نے اس بارے میں لکھا ہے کہ امریکہ نے ایرانی ڈرون میں سے بعض کو مار گرایا، جو اسرائیل پر فائر کئے گئے تھے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ امریکہ نے شام کے جنوب میں السویدہ اور درعا کے صوبوں اور اردن کی سرحد کے قریب بھی متعدد ڈرونز کو مار گرایا ہے۔ امریکہ نے اردن اور شام کے آسمانوں میں ایرانی ڈرون کو روکا تھا۔ دوسری جانب صیہونی حکومت کے چینل 12 نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران کے حملے میں اردن، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے بھی کردار ادا کیا ہے، اگرچہ العربیہ نے اس دعوے کی تردید کی ہے۔

ایک صہیونی میڈیا نے فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے حوالے سے بھی اعلان کیا ہے کہ اردن کی مدد کی درخواست کے بعد فرانس کے لڑاکا طیاروں نے اردن کے ایک اڈے سے پرواز کی۔ اردن کے وزیر خارجہ نے باضابطہ طور پر تصدیق کی ہے کہ ان کے ملک نے صیہونی حکومت کے خلاف ایران کی جانب سے لانچ کیے گئے متعدد ڈرونز کو روکنے اور تباہ کرنے میں کردار ادا کیا۔ درحقیقت صیہونی حکومت کے خلاف اس آپریشن کے دوران ایران نے نیٹو، اسرائیل اور ان کے علاقائی اتحادیوں کا مقابلہ کیا۔ امریکہ نے نیٹو کے سب سے اہم رکن کے طور پر، اپنے تمام فضائی دفاعی اور میزائل شکن دفاعی آلات کو ایران کی طرف سے لانچ کیے جانے والے ڈرونز اور میزائلوں کو تباہ کرنے میں استعمال کیا۔

 اسکے علاوہ  اسرائیل کے اتحادیوں کے پاس AN/TPY-2 سرویلنس ریڈارز ہیں، جو قطر، ترکی اور مقبوضہ فلسطین میں موجود ہیں، ان کا خاص کام بیلسٹک میزائلوں کا پتہ لگانا اور ان کو روکنے کے لیے میزائل شکن نظام کو لانچ کرنا ہے۔ AN/TPY-2 ریڈار ایک X-band مرحلہ وار ریڈار ہے، جس میں 72 ٹرانسمیٹر اور رسیونگ ماڈیولز ہیں، جو ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر ہر قسم کے فضائی اہداف کا پتہ لگا سکتا ہے۔ یہ ریڈار جو کہ امریکی THAAD دفاعی نظام کا اہم حساس حصہ ہے اور اسے دنیا کا سب سے بڑا ریڈار سمجھا جاتا ہے، جو اپنے اجزاء کو حرکت دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس دفاعی نظام کو بھی اس آپریشن میں استعمال کیا گیا۔

امریکی حکام نے ان ڈرونز اور میزائلوں کو کیسے مار گرایا، اس کی قطعی تفصیلات بتائے بغیر کہا ہے کہ 70 سے زیادہ ڈرونز اور تین بیلسٹک میزائلوں کو امریکی بحریہ کے بحری جہازوں اور فوجی طیاروں نے روکا۔ وال سٹریٹ جرنل نے لکھا: امریکی جنگی طیاروں نے 70 سے زیادہ ڈرون مار گرائے اور دو امریکی ڈسٹرائرز نے مشرقی بحیرہ روم میں 6 بیلسٹک میزائلوں کو روکا۔ اس کے علاوہ، امریکی پیٹریاٹ ایئر ڈیفنس سسٹم نے عراق کے اربیل کے قریب ایک ایرانی بیلسٹک میزائل کو مار گرایا، امریکی بحریہ نے ایجس میزائل ڈیفنس سسٹم جو مشرقی بحیرہ روم میں میزائل لانچ کرنے والے دو تباہ کن جہازوں پر نصب تھا، اس کا استعمال کرتے ہوئے کم از کم تین بیلسٹک میزائلوں کو مار گرایا۔ امریکی جنگی طیاروں نے ایرانی ڈرون اور میزائل بھی مار گرائے۔ امریکی لڑاکا کارروائیوں کا صحیح مقام معلوم نہیں ہوسکا، لیکن خطے میں امریکی بحریہ کے طیارہ بردار بحری جہاز اور زمینی طیارے ان کارروائیوں میں ملوث تھے۔

 قطر میں امریکن آپریشن سینٹر سینٹکام نے ایرانی میزائلوں اور ڈرونز کو اپنے جدید ترین رے ڈار سے دیکھ کر اس کے بارے میں تمام معلومات برطانوی، فرانسیسی، امریکی، اسرائیلی اور اردنی لڑاکا طیاروں کو بھیجیں۔ یہ معلومات بحیرہ روم کے مشرقی ساحل پر موجود امریکی بحری جہازوں کو بھی فراہم کی گئی تھیں۔ اسرائیل کے دفاعی نظام نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ قبرص میں موجود اپنے لڑاکا طیاروں کو بحیرہ روم کے اندر کسی بھی فضائی حملے کو روکنے کے لیے استعمال کرے گا۔ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ فرانس نے بھی ایران کے حملوں کا مقابلہ کرنے میں حصہ لیا، اسرائیلی فوج کے ترجمان نے کہا: ہمارا امریکہ، برطانیہ اور فرانس کے ساتھ قریبی تعاون ہے، جو اس رات ہمارے ساتھ تھے۔ "یہ شراکت داری ہمیشہ قریب رہی ہے، لیکن اس رات اس نے خود کو ایک غیر معمولی انداز میں ظاہر کیا۔"

اس کے علاوہ، پیر 15 اپریل کو فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے ایک ٹیلی ویژن پروگرام میں اس بات کی تصدیق کی کہ فرانسیسی فوج نے اردن کی درخواست پر ہفتے کی رات کو ایران کی طرف سے داغے گئے میزائلوں اور ڈرونز کے "انٹرسیپشن" آپریشن میں حصہ لیا۔ دریں اثناء وال سٹریٹ جرنل نے امریکی حکام کے حوالے سے خبر دی ہے کہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اتوار کی صبح ایران کے میزائل اور ڈرون حملے کا مقابلہ کرنے میں مدد کے لیے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا۔ امریکہ اور اس کے یورپی اور عرب شراکت داروں کی فوجی تنصیبات اور ساز و سامان کے علاوہ صیہونی حکومت نے برسوں پہلے میزائل ڈیفنس کے میدان میں کئی نظام تیار کیے تھے، جنہیں اس نے وعدہ صادق آپریشن کے دوران استعمال کیا۔ اسرائیل بیلسٹک میزائل حملوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دفاعی نظام کی ایک وسیع رینج کا استعمال کرتا ہے۔

اسرائیل میزائل ڈیفنس آرگنائزیشن (IMDO) کے مطابق، آئرن ڈوم اسرائیل کے میزائل ڈیفنس کی سب سے نچلی پرت ہے، مقبوضہ فلسطین میں کم از کم 10 آئرن ڈوم سسٹم ہیں، جن میں سے ہر ایک ریڈار سے لیس ہے، جو راکٹ کا پتہ لگاتا ہے اور پھر کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کا استعمال کرتا ہے۔ یہ تیزی سے حساب لگاتا ہے کہ آیا آنے والا پراجیکٹائل خطرے کا حامل ہے یا اس کا کسی غیر آباد علاقے سے ٹکرانے کا امکان ہے۔ اگر میزائل خطرہ کا حامل ہوتا ہے تو آئرن ڈوم زمین سے میزائل فائر کرے گا، تاکہ اسے ہوا میں ہی تباہ کیا جا سکے۔ IMDO کے مطابق صیہونی حکومت کے میزائل ڈیفنس میں اگلی سطح، فلخان ڈوف سسٹم ہے۔ فلخان داؤد، اسرائیل کے رافیل ایڈوانسڈ ڈیفنس سسٹم اور امریکی کمپنی Raytheon کے درمیان ایک مشترکہ پراجیکٹ ہے، جو 300 کلومیٹر دور تک کے اہداف کو تباہ کرنے کے لیے Stoner اور Skyceptor انٹرسیپٹر میزائلوں کا استعمال کرتا ہے۔

صیہونی حکومت کے میزائل شکن نظام میں اگلی پرت "aro 2" اور "آرو 3" ہیں، جو امریکہ کے ساتھ مل کر تیار کیے گئے تھے۔ "Aro-2" آنے والے بیلسٹک میزائلوں کو اوپری فضا میں اپنی حرکت کے آخری مرحلے میں تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی رینج 90 کلومیٹر ہے۔ "Aro-2" کو پیٹریاٹ سے اپ گریڈ کیا جا سکتا ہے۔ طیارہ شکن اور میزائل شکن دفاعی نظام فضا میں دوبارہ داخل ہونے سے پہلے خلا میں آنے والے بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کے لیے کائینیٹک امپیکٹ ٹیکنالوجی کا استعمال کرتا ہے۔ صیہونی حکومت کے پاس پانچویں نسل کے F-35 لڑاکا طیارے بھی ہیں، جو اس نے وعدہ صادق کے آپریشن کے دوران ڈرون اور کروز میزائل مار گرانے کے لیے استعمال کیے ہیں۔ صیہونی حکومت نے امریکہ، مغربی اتحادیوں اور بعض علاقائی ممالک کی طرف سے ڈرون، کروز اور بیلسٹک میزائلوں کو روکنے کے لیے فراہم کی جانے والی وسیع امداد کے ساتھ ساتھ اپنی تمام فضائی اور میزائل شکن دفاعی صلاحیتوں سے بھرپور استفادہ کیا ہے۔

صیہونی حکومت اور اس کے اتحادیوں کی جانب سے 99 فیصد ڈرونز، کروز اور بیلسٹک میزائلوں کو تباہ کرنے کے دعوے کے باوجود ایرانی میزائلوں کی ایک بڑی تعداد نے اپنے اہداف کو نشانہ بنایا۔ صیہونی حکومت کی فوج کے ترجمان ڈیوڈ ہگاری نے دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے اسرائیل کی طرف 170 خودکش ڈرون اور 30 ​​کروز میزائل داغے، جن کو اسرائیلی فوج اور اس کے اتحادیوں نے اسرائیل کی فضائی حدود تک پہنچنے سے پہلے ہی تباہ کر دیا۔ ان میں سے صرف ایک محدود تعداد نے نوواٹیم ایئر بیس کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں اسے معمولی نقصان ہوا اور یہ بیس اب کام کر رہا ہے۔ واضح رہے کہ صیہونی حکومت کی طرف سے اعلان کردہ اعداد و شمار پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کی بنا پر اس آپریشن کے نتائج کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ اعدادوشمار تل ابیب کے حق میں ایک نفسیاتی اور میڈیا ماحول پیدا کرنے کے لیے پیش کیے گئے ہیں۔ جاننے والے آگاہ ہیں کہ ایران کے حملوں کے نتائج غیر معمولی ہیں۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف میجر جنرل حسین سلامی نے اتوار 14 اپریل کو "وعدہ صادق" آپریشن میں اسلامی جمہوریہ ایران کی طرف سے صیہونی حکومت کو دی جانے والی سزا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: "یارسول اللہ" کے کوڈ کے ساتھ اس آپریشن کی ترتیب اس طرح انجام دی گئی تھی کہ بیک وقت درجنوں ڈرونز، کروز میزائل اور بیلسٹک میزائل کو مخصوص اہداف پر داغنا تھا۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف نے بیان کیا ہے کہ آپریشن کے "مقاصد بہت درست اور واضح تھے اور ہم نے صیہونی حکومت کی شرارتوں کی حد و حدود تک محدود آپریشن کیا۔ میجر جنرل سلامی نے تاکید کی: یہ آپریشن وسیع ہوسکتا تھا، لیکن ہم نے اس آپریشن کا دائرہ کار صیہونی حکومت کی صلاحیتوں کے اس حصے تک محدود کر دیا، جو اس نے اسلامی جمہوریہ ایران کے سفارت خانے پر حملہ کرنے اور کمانڈروں کی شہادت کے لیے استعمال کیا تھا۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر انچیف نے کہا: اس لمحے تک، تمام اہداف کے بارے میں ہماری معلومات مکمل نہیں ہیں، لیکن جن حملوں کے بارے میں ہمارے پاس تفصیلی، دستاویزی اور فیلڈ رپورٹس ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آپریشن توقع سے زیادہ کامیاب رہا۔ مقبوضہ علاقوں میں رہنے والے عوام، حکام اور صیہونی دہشت گرد فوج، اس حکومت کے غاصبوں اور امریکہ نے ان حملوں کے تباہ کن اثرات کو ہم سے بہتر طور پر درک کیا ہے، اگر صیہونی حکومت نے اس سے عبرت حاصل نہ کی اور کسی بھی ردعمل کو ظاہر کیا تو ہمارا ردعمل یقینی طور پر اس نئے تجربے کی بنیاد پر، جو ہم نے اس آپریشن سے حاصل کیا ہے، بہت سخت ہوگا۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر ان چیف جنرل حسین سلامی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر دشمن جواب دینے کی کوشش کرے گا تو ہمارا اگلا جواب اور بھی سخت ہوگا۔

سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کے کمانڈر ان چیف جنرل حسین سلامی نے کہا ہے کہ اگر صیہونی حکومت نے ہمارے مفادات، ہماری شخصیتوں اور شہریوں پر کسی بھی جگہ سے حملہ کیا تو ہم ان پر انتہائی سنگین جوابی حملہ کریں گے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ہمارے میزائل اور ڈرون طیارے صیہونیوں کے ایئرڈیفنس کو پار کرنے میں کامیاب رہے۔ جنرل سلامی کے مطابق اسرائیل کے خلاف ایران کی کارروائی انتہائی دقیق تھی اور میزائل اور ڈرون اپنے مقررہ ٹارگیٹ کو نشانہ بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ صیہونی حکومت کی میڈیا کوششوں کے باوجود بعض مغربی ذرائع ابلاغ میں شائع ہونے والی خبروں اور رپورٹوں سے صیہونی ٹھکانوں کو بڑے نقصان کی نشاندہی ہوتی ہے۔ دوسری چیزوں کے علاوہ، ایک امریکی نیٹ ورک نے اپنی ایک رپورٹ میں صیہونی حکومت کے "نواتیم" فضائی اڈے کو اس حکومت کے خلاف ایران کے مشترکہ آپریشن کے بعد شدید نقصان پہنچانے کی خبر دی ہے۔

امریکی اے بی سی ٹیلی ویژن چینل نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ تل ابیب کے خلاف تہران کے مشترکہ ڈرون میزائل آپریشن کے بعد کم از کم 9 میزائل دو اسرائیلی ایئربیس پر گرے اور تل ابیب کو کافی نقصان پہنچا۔ اس نیوز چینل کے مطابق، صیہونی حکومت کے خلاف ایران کے ڈرون اور میزائل حملے کے ایک دن بعد، ایک اعلیٰ امریکی اہلکار نے اعتراف کیا ہے کہ کم از کم 4 ایرانی بیلسٹک میزائل نیگیو ایئر بیس کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ جس سے نیگیو ایئر بیس کے ہوائی اڈے اور اسٹوریج کی سہولیات کو نقصان پہنچا۔ اس رپورٹ میں باخبر امریکی حکام کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 5 مزید میزائل ناواٹیم ایئربیس پر گرے اور ان میزائلوں کے نتیجے میں ایک C-130 ٹرانسپورٹ طیارہ تباہ ہوا، امریکی ذرائع کے بیان کے مطابق اس سے نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ایران نے کم از کم 9 میزائل داغے ہیں اور ان میزائلوں نے دو فضائی اڈوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

لبنانی المنار نیٹ ورک نے باخبر ذرائع کے حوالے سے اعلان کیا کہ ایران نے مقبوضہ فلسطین کے جنوب میں نواتیم ایئربیس کو 15 میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ مذکورہ ذریعہ نے نشاندہی کی کہ اس حملے کے بعد اس بیس کو کافی نقصان پہنچا اور اس پر آپریشن روک دیا گیا ہے۔ انگریزی اخبار فنانشل ٹائمز نے بھی ایک اسرائیلی اہلکار کے حوالے سے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل پر حملہ کرنے والے ایرانی ڈرون اسرائیل کے ردعمل اور صیہونی حکومت کے دفاعی نظام کے مقامات اور راستوں کا پتہ لگانے کے لیے بنائے گئے تھے۔ ٹائمز کی رپورٹ میں ایک اور مسئلے کا بھی ذکر کیا گیا اور وہ یہ ہے کہ ایک اسرائیلی اہلکار نے اعتراف کیا ہے کہ جیسے ہی ایران کے راکٹ اسرائیلی آسمان کے قریب پہنچے تو صہیون ونگ (Zion Wing) کا خصوصی طیارہ جو بنجمن نیتن یاہو کا بطور وزیراعظم سرکاری طیارہ ہے اسے نوواٹیم ایئر بیس سے اڑا کر دوسری جگہ منتقل کیا گیا۔

وعدہ صادق کی کارروائی ایران کے لیے کئی اہم فوجی نتائج لے کر آئی ہے۔بعض خبری ذرائع نے اپنے تجزیئے میں ایران کے فتاح ہائپرسونک میزائل کے اسرائیل میں اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے بارے میں لکھا ہے کہ اس میں جدید ایروڈائینامکس اور گائیڈنس ٹیکنالوجی موجود ہے، جس سے وار ہیڈ کی رفتار کو حیرت انگیز درستگی اور رفتار کے ساتھ ایڈجسٹ کیا جا سکتا ہے۔ ایران کی ایکروبیٹک مشقیں نہ صرف ایران کی جدید میزائل ٹیکنالوجی کو نمایاں کرتی ہیں بلکہ ایرو اسپیس انجینئرنگ میں ایک شاندار کامیابی کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایرانی میزائلوں کا دفاعی نظام کو عبور کرنا اور اپنے اہداف کو نشانہ بنانا صیہونی حکومت کے میزائل دفاعی نظام میں سنگین کمزوریوں کی موجودگی کی نشاندہی کرتا ہے۔ اگلے ممکنہ حملوں میں ایران ان کمزوریوں کو استعمال کرتے ہوئے اسے شدید نقصان پہنچا سکتا ہے۔

اسرائیل کے ملٹی لیئر اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم نے دکھایا ہے کہ وہ محدود راکٹ اور میزائلوں (مثال کے طور پر غزہ یا حزب اللہ تحریک سے داغے گئے راکٹوں) اور تھوڑی مقدار میں ڈرون اور میزائلوں کے خلاف دفاع کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن ممکنہ طور پر یہ کسی بڑے ڈرون حملے یا بڑے میزائل حملوں کی صورت میں ناکام اور مفلوج ہوسکتا ہے۔ ایک امریکی تجزیہ نگار نے ایرانی میزائلوں کے خلاف دنیا کے جدید ترین ریڈار کی ناکامی کے حوالے سے، اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ امریکہ کے پاس ایک جدید ترین X-band AN/TPY-2 ریڈار ہے، جو صحرائے نقب میں موجود ہے، کہا ہے کہ ایران نے ہفتہ اور اتوار کو مقبوضہ علاقوں میں صیہونی حکومت کے اہداف کے خلاف جو کچھ کیا، وہ اس ملک کی ڈیٹرنس پاور کو کو ظاہر کرتا ہے۔

ایران کی ڈیٹرنس پاور کے استحکام کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ "وعدہ صادق آپریشن نہ صرف ایران بلکہ پوری دنیا کے لیے بہت کامیاب رہا ہے۔ کیونکہ ایران کی ڈیٹرنس اب ایک حقیقت ہے، جو امریکہ اور اسرائیل کو کنٹرول کرسکتی ہے۔" آخری بات یہ ہے کہ ایران نے نہ صرف اسرائیل اور امریکہ کے فضائی دفاع کے آپریشن کا باریک بینی سے مشاہدہ کرکے قیمتی معلومات حاصل کی ہیں، بلکہ اس حملے میں اس نے صیہونی حکومت کے میزائل ڈیفنس سسٹم اور خطے کے بعض ممالک کے آپریشنز کا عملی تجربہ بھی کیا ہے۔ اسی لئے تو کہا جا رہا ہے کہ مشترکہ میزائل اور ڈرون حملے کے تناظر میں جدید جنگوں کی تاریخ میں اس ہائبرڈ حملے کو تاریخ کا سب سے بڑا حملہ کہا جا سکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 1129317
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش