0
Wednesday 23 Nov 2011 17:40

منصور اعجاز کا مقصد کیا ہے؟

منصور اعجاز کا مقصد کیا ہے؟
تحریر،تصور حسین شہزاد
وزیر اعظم پاکستان یوسف رضا گیلانی نے امریکا میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی کا استعفیٰ منظور کر لیا ہے۔ حسین حقانی نے اپنے اوپر لگنے والے اس الزام کے پس منظر میں مستعفی ہوئے ہیں کہ انہوں نے اس سال مئی میں پاکستان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے ایک ہفتے بعد اس وقت کے امریکی افواج کے سربراہ جنرل مائیک مولن کو ایک پاکستانی نژاد امریکی شہری منصور اعجاز کے ذریعے ایک یادداشت بھجوائی تھی جس میں پاکستان کے صدر آصف علی زرداری نے اپنی حکومت کا تختہ الٹنے کے کسی ممکنہ فوجی اقدام کے خلاف امریکہ سے مدد طلب کی تھی۔ قبل ازیں ایوان صدر میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں سفیر حسین حقانی نے صدر مملکت آصف زرداری، وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا کے سامنے اپنا مؤقف پیش کیا۔
وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ استعفیٰ کا مقصد متنازع پیغام کی غیر جانبدار تحقیقات کرنا ہے۔ متنازع یادداشت کے تیار کرنے، لکھے جانے اور امریکی حکام تک پہنچانے کے باعث یہ ضروری ہو گیا ہے کہ قومی سلامتی کی خاطر حقائق معلوم کیے جائیں۔ نیز یہ کہ اس تنازع کی صاف، شفاف اور غیر جانبدار طریقے سے تحقیق کی جائے گی۔ دوسری طرف مستعفی ہونے والے سفیر حسین حقانی نے کہا ہے کہ وہ انکوائر ی کا سامنا کرنے کو تیار ہیں۔ وہ اپنی ذات کو جمہوریت اور ملک کے لیے نقصان دہ نہیں بننے دیں گے۔ حقانی نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ انکوائری کے دوران پاکستان میں رہیں گے اور اس ساری صورت حال کا سامنا کریں گے۔ ایبٹ آبادکمیشن نے بھی اپنی تحقیقات میں حسین حقانی کو شامل کرنے کافیصلہ کیا ہے اوراس حوالے سے حسین حقانی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اسلام آبادمیں ہی رہیں جس کے بعد حسین حقانی ایوان صدر کے مہمان خانے میں ٹھہرئے ہوئے ہیں۔
ایوان صدر میں ہونے والے اجلاس کی تفصیلات صیغۂ راز میں ہیں تاہم وزیراعظم کی طرف سے جاری کردہ بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ اجلاس اس معاملے میں حسین حقانی کے ملوث ہونے کے بارے میں کسی واضح نتیجے پر نہیں پہنچ سکا۔ اسی لیے یہ کہا گیا ہے کہ اس معاملے کی پیشہ ورانہ اور غیر جانبدار سطح پر تحقیق میں مدد کے لیے حسین حقانی کا استعفیٰ طلب کیا گیا ہے۔ گویا انہیں واضح طور پر قصور وار قرار نہیں دیا گیا۔ دوسری طرف اس امر کا امکان بھی کم ہے کہ حکومت کی طرف سے اعلان کردہ تحقیقات کے نتیجے میں اس تنازع کے بارے میں اٹھنے والے تمام سوالات کا اطمینان بخش جواب عوام کے سامنے آسکے گا۔ اس تنازع کو شروع کرنے والے شخص منصور اعجاز نے ایک سے زیادہ دفعہ اپنا مؤقف تبدیل کیا ہے اور اب اس نے تحقیقات میں شریک ہونے کے لیے پاکستان آنے کا عندیہ بھی دیا ہے، بہر صورت حکومت کی طرف سے معاملے کی تحقیقات کا حکم دینا اس اعتبار سے خوش آئند ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اس افسوس ناک واقعے کے پس پردہ کارفرما افراد اور قوتوں کو بے نقاب ہونا چاہیے۔
یہ امر واضح ہے کہ میمو گیٹ سکینڈل سے پاکستان میں جمہوری بندوبست کی کمزوری واضح ہوئی ہے۔ حسین حقانی کے استعفیٰ دینے سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ اس تنازع کے پہلے مرحلے میں ہیئت مقتدرہ کو جمہوری قیادت پر بالادستی حاصل رہی ہے۔ امریکا سے پاکستان لوٹتے ہوئے حسین حقانی کے سفر کے بارے میں ذرائع ابلاغ میں جو کچھ شائع ہوا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حسین حقانی کا یہ سفر 1954ء میں اس وقت کے وزیراعظم محمد علی بوگرہ کے امریکا سے وطن لوٹنے سے مختلف نہیں تھا جنہیں گورنر جنرل کے اختیارات محدود کرنے کے جرم میں ہیئت مقتدرہ نے طلب کیا تھا۔ میمو گیٹ سکینڈل کا تاریخی تناظر جاننے کے لیے پاکستان میں منتخب حکومتوں اور ہیئت مقتدرہ میں تعلقات کی نوعیت سمجھنا ضروری ہے۔ جس ملک میں فوج کی طرف سے جمہوری عمل میں مداخلت کی روایت قائم ہو جائے وہاں سیاسی قیادت اور عسکری قیادت میں اعتماد کا بحران پیدا ہونا ناگزیر ہو جاتا ہے۔ سیاسی قیادت کو ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ عسکری قیادت کسی بھی وقت اس پر وار کرسکتی ہے۔ دوسری طرف عسکری قیادت کو شک ہوتا ہے کہ عوامی تائید کے بل پر اقتدار میں آنے والی حکومت کسی نہ کسی طرح فوج کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کرے گی۔ 
پاکستان جیسے ملک میں جہاں پچھلے 35 برس سے بنیادی نوعیت کے فیصلوں پر سیاسی قیادت کو اختیار نہیں مل سکا، یہ بداعتمادی اور بھی زیادہ خطرناک ہو جاتی ہے۔ پاکستان ہو یا دنیا کا کوئی اور ملک، سیاسی اور عسکری قیادت میں باہم اعتماد کے فقدان سے ملک اور قوم کو نقصان پہنچتا ہے۔ اگر سیاسی حکومتوں کو ہر وقت اپنی بقا کی فکر ستاتی رہے تو سیاسی قیادت عوام کا معیار زندگی بلند کرنے کے بنیادی نصب العین پر پوری توجہ مبذول نہیں کرسکتی۔ ریاستی ادارے اپنے فرائض منصبی دلجمعی سے ادا کرنے کی بجائے طاقت کے متوازی مراکز پر اپنی توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔ کوئی حکومت غیر مقبول فیصلے کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی اگر اسے یہ خدشہ ہو کہ عوام میں پیدا ہونے والی بے چینی کو اس کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ضروری اقدامات نہ کرنے کے باعث معیشت کمزور ہو جاتی ہے۔ معیشت کی یہ کمزوری بالآخر دفاعی صلاحیت کو بھی مجروح کرتی ہے۔ چنانچہ مہذب قومیں جمہوری عمل کے تسلسل کو اس قدر ناگزیر سمجھتی ہیں کہ اس میں مداخلت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ منصور اعجاز پاکستان بالخصوص پاکستانی افواج کا شدید مخالف ہے۔ اس نے بارہا اخبارات میں پاکستان کے خلاف ایسا زہر اگلا ہے جس کا کوئی ذمہ دار صحافی سوچ بھی نہیں سکتا۔ میمو گیٹ سکینڈل کی تحقیقات میں اس نکتے پر بھی توجہ دی جانی چاہیے کہ اس معاملے میں پاکستان کی جمہوری حکومت اور عسکری قیادت کے درمیان بدگمانیاں پیدا کر کے نیز ایک اور منفی واقعے کے ذریعے پاکستان کے بین الاقوامی تاثر کو نقصان پہنچا کر منصور اعجاز نے کسے فائدہ پہنچایا ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 116558
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش