0
Sunday 29 Jan 2012 13:39

مسلکی تشدد۔۔۔۔۔۔ امت مسلمہ کیلئے ایک بڑا چلینچ

مسلکی تشدد۔۔۔۔۔۔ امت مسلمہ کیلئے ایک بڑا چلینچ
تحریر: فدا حسین
بالہامہ سرینگر کشمیر 

تمہید:۔
 
ہر سال کی طرح امسال بھی اسلامی کلینڈر کا پہلا مہینہ یعنی محرم الحرام مسلمانان عالم کے لئے کئی ایک مسائل کی جانب دعوت فکر دے کر رخصت ہو گیا، حسب سابق اس مرتبہ بھی دہشتگردوں نے مسلکی منافرت کی بنیاد پر کئی ایک ملکوں میں بے گناہ انسانوں کا خون بہایا، بشمول پاکستان اور عراق، افغانستان میں بھی جلوس عزا پر خودکش دھماکے ہوئے جن میں درجنوں افراد جاں بحق ہوئے۔ اس وقت جب کہ زیر تحریر مضموں کو سمیٹنے جا رہا تھا پاکستان کے صوبے پنجاب کے ضلع رحیم یار خان سے یہ خبر میڈیا میں آئی ہے کہ وہاں اربعین کے جلوس میں بھم دھماکہ ہوا ہے، جس کے نتیجے میں پچیس سے زائد افراد موقعے پر ہی جاں بحق ہو گئے ہیں، پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا۔
 
مسلکی منافرت کا یہ زہر جسد ملت میں مسلسل پھیلتا جا رہا ہے اور جغرافیائی حد بندیوں کو عبور کر کے با ضابطہ طور ایک ملک سے دوسرے ملک میں منتقل ہو رہا ہے۔ ذرایع ابلاغ و ترسیل کی زود رسی اور عالمگیر دائرہ اثر کے طفیل مقامی سطح پر بھی اس کے اثرات محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ یہاں کی مذہبی رواداری میں جو رخنہ دیکھنے میں آ رہا ہے اس کا ایک خفیف سا تعلق دنیائے اسلام میں مسلکی منافرت سے ضرور ہے، ہم مقامی سطح پر چند ایک ناخوشگوار واقعات کا کتنا بھی واویلا کریں یہ اس کا کامل سدباب نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ یہ منافرت کچھ حد تک درآمد شدہ ہے۔ ہمارے اڑوس پڑوس میں جو تشدد آمیز فکر عرصہ دراز سے پنپ رہی ہے اس کا ہمارے روادارانہ ماحول پر اثر انداز ہونا قرین قیاس ہے، باریک بینی سے مشاہدہ کیجئے تو ان زہر آلود تقریروں سے ہماری جواں نسل مانوس ہو چکی ہے، جو دوسرے ملکوں میں وہاں کے شدت پسند مقرر حضرات خونریزی کا بازار گرم رکھنے کیلے وقتاً فوقتاً کیا کرتے ہیں۔ 

انٹرنٹ اور دیگر شوشل نٹ ورکنگ سائٹوں پر اس قسم کی تقریریں اور تحریریں آئے روز سننے اور پڑھنے کو ملتی ہیں، لہذا مقامی سطح پر برادرانہ ماحول کو سبوتاژ کرنے والوں سے نپٹنا اپنی جگہ، اس کے عالمی تناظرات سے چشم پوشی ایسا ہی ہے جیسے کسی مکان میں آگ لگ جائے اور ایک شخص پورے مکان سے بے فکر ہو کر صرف اور صرف اپنے کمرے کو آگ سے محفوظ رکھنے کی سعی میں لگا رہے، پس اس سوچ کو مقامی سطح پر راسخ کرنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کے نام پر جو بہیمیت افغانستان، پاکستان اور عراق میں روا رکھی گئی ہے وہ ہر لحاظ سے غیر اسلامی بلکہ غیر انسانی ہے۔ اس مضمون کی غرض غائیت بھی یہی ہے۔
 
نفس مضموں:۔
خودکش دھماکے اور اس کے نتیجے میں ہونے والا اجتماعی قتل عام دو اسلامی ممالک کا معمول بنتا جا رہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ مرنے والا اور مارنے والا (قاتل ومقتول) دونوں ایک ہی خدا پر یقین رکھتے ہیں۔ ایک ہی رسول کے امتی ہونے کے دعویٰ دار ہیں اور ایک ہی قبلہ کی جانب رُخ کر کے خدا کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ ایک ہی کتاب کے بارے یہ یکسان عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہی دستورِ زندگی کا واحد الہٰی ماخذ و منبع ہے۔ گاہے بگاہے قاتل و مقتول ایک ہی صف میں شانہ بہ شانہ قبلہ رو ہو کر کچھ اس انداز سے بارگاہِ خداوندی میں کھڑا ہو جاتے ہیں کہ ان کی آپسی دشمنی کا کسی کو گمان بھی نہیں ہو سکتا ہے۔ 

لیکن چند ہی منٹوں میں یہ بھرم انسانی اعضاء کے ساتھ ہوا میں بکھر کر تحلیل ہو جاتا ہے، جب ایک نمازی خود کو بارود سے اڑا کر اپنے ساتھ بہت سارے نمازیوں کو بھی لے اڑتا ہے۔ یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے کہ جو مساجد امن و سکون کی علامت ہوا کرتی ہیں۔ ان میں بھی بارود کا خوف منڈلا رہا ہے۔ جہاں عبادت گاہیں بھی غارت گروں کے زد پر ہوں وہاں پھر کون سی جگہ محفوظ ہیں۔ جہاں داتا گنج بخش دربار کا غسل مسلمانوں کے خون سے کیا جائے، وہاں کے بازار اور عوامی مقامات پر موت کا سایہ ہر وقت منڈلاتا رہے تو کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے۔ 

سفاکی کا عالم یہ ہے کہ قتل کرنے کے بعد بھی قاتلوں کا جی نہیں بھرتا اور وہ جنازے میں بھی اجتماعی ہلاکت کی غرض سے شامل ہو جاتے ہیں اور اپنے ساتھ مزید چالیس پچاس آدمیوں کے جنازوں کی سبیل نکال لیتے ہیں۔ یہی صورتِ حال عراق کو بھی درپیش ہے۔ وہاں بھی اسی طرح کے دھماکوں کا سلسلہ ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا۔ آئے روز کہیں نہ کہیں اس قسم کا کوئی نہ کوئی حادثہ پیش آ ہی جاتا ہے۔ ایک طرف استعماری حملہ آوروں نے عراق کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا۔ اور دوسری طرف دہشتگردوں نے سفاکانہ کارروائیوں سے رہی سہی کسر بھی نکال لی۔ پرہجوم بازار، عوامی مقامات، زیارت گاہیں، حتیٰ کہ کاظمین، نجف، اور کربلا جیسے مقدس ترین مقامات پر بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوئے۔

دو ماہ قبل عراق کے ایک صوبے الانبار میں بائیس (۲۲) زائرین کو بے دردی کے ساتھ مارا گیا اور اس واقعے کے چند روز بعد ہی کوئٹہ پاکستان میں انتیس (۹۲) زائرین کو گولی مار کر ہلاک کیا گیا۔ بی بی  سی اردو سروس سے وابسطہ صحافی محمد حنیف کے مطابق ہلاکت شدگان کی ابھی تدفین نہیں ہو پائی تھی کہ لشکرِ جھنگوی سے تعلق رکھنے والے دہشتگرد علی شیر حیدری نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی۔ دوسری جانب عراق کے” رتبہ ©“علاقے میں وہابی مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے چند شدت پسندوں کو گرفتار کیا گیا، جنہوں نے القاعدہ سے وابستگی کے ساتھ ساتھ مذکورہ واقعے کی ذمہ داری قبول کی۔واضع رہے دونوں شدت پسند گروہ مذہبی، مسلکی، نظریاتی اور حکمت عملی کے لحاظ سے ایک دوسرے کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں۔ 

پاکستان اور عراق میں دہشتگردانہ کارروائیوں میں یہ مماثلت اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ ہو نہ ہو دونوں ممالک میں ان کارروائیوں کے پیچھے ایک ہی ہاتھ کارفرما ہے۔ یہ مماثلت نہ صرف حکمت عملی کے اعتبار سے بلکہ نظریاتی سطح پر بھی دیکھنے کو ملتی ہیں۔ کیونکہ حکمت عملی تو بہرحال فکری اور نظریاتی بنیادوں پر ہی استوار ہوتی ہے۔ نفرت اور بغض و عناد کا یہ بدترین مظاہرہ اصل میں تکفیری مفتیوں کی ایک ایسی دین ہے۔ جو عالمِ اسلام کو بالخصوص اور دیگر عالمی اقوام کو بالعموم بھگتنا پڑ رہی ہے۔
 
عوامل و اسباب:۔
عدم تحمل پر مبنی اور مذہبی رواداری کے برخلاف یہ روش چند صدیاں قبل برطانوی سامراج کی ایک گہری سازش کے ذریعے عالم اسلام میں در آئی ہے، تاکہ دشمنانِ اسلام علی الخصوص عالمی سامراج مسلکی نظریات پر مرنے مارنے والے چھوٹے بڑے ملاو وں کی لگائی گئی آگ پر ہی وقتاً فوقتاً اپنے مفادات کے پکوان پکاتے رہیں۔ ارتداد اور تکفیری فتوو ں کے علاوہ منافرت پر مبنی تقاریر اور لٹریچر جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ ان تقاریر، لٹریچر اور دیگر وسائل کے ذریعے یہی باور کرایا جاتا ہے کہ مخالف مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد دائرہ انسانیت سے خارج ہے۔ اور ان کا خون بہانا حتیٰ کہ ان کی عزت و عفت پر ہاتھ ڈالنا مباح ہے۔
 
دہشتگردانہ کارروائیوں میں براہِ راست ملوث اشخاص تو مجرم ہیں ہی، وہ فتویٰ باز اور منافرت و حسد کے سوداگر بھی اس جرم سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے ہیں بلکہ یہی تو اس گیم پلان کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ اس شجر ملعونہ کی جڑ ہیں، اس فتنے کے اصل محرک ہیں۔ ان میں سے کوئی ڈالر و دینار کی خاطر فتوے بیچ رہا ہے تو کوئی محض اپنے مخصوص مسلکی نظریات کو دوسرں پر تھونپنے کیلئے کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے۔ یہ فتویٰ ساز مفتی باضابطہ  طور پر چند ایک ممالک کے وظیفہ خوار ہیں اور ایک منظم پلان کے تحت اپنے آقاو وں کے اشاروں پر کام کر رہے ہیں۔ ان کے آقا بھی صہیونیوں اور سامراجیوں کے ادنٰی غلام ہیں۔ جو سامراجی مشن کو اسلامی رنگ دے کر آگے لے جا رہے ہیں۔
 
ایک جواب طلب سوال:۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے ازلی دشمن کے شعوری یا غیر شعوری طور ایجنٹ بنے ہوئے ہیں تو پھر ان کو ایک عام مسلمان نفرت کی نگاہ سے کیوں نہیں دیکھتا؟ مسلمانوں کی اکثریت اسرائیلی صیہونیت اور امریکی سامراجیت کے تئیں زبردست مخالفانہ جذبات رکھتی ہے۔ اس کے نزدیک یہ دونوں ابلسیت کی حقیقی شکلیں ہیں۔ لہٰذا امریکہ و اسرائیل مخالف جذبات ان کی ملی نفسیات میں شامل ہو گئے ہیں۔ کوئی بھی امریکہ مخالف نعرہ اس نفسیات کو ضرور بہ ضرور مرتعش کر دیتا ہے۔ اور ہر ایک مسلمان کی حتی الوسع کوشش رہتی ہے کہ ان نعروں کا حتی المقدور جواب دے۔ 

یہی وجہ ہے اکثر مقرر اور بیشتر مبلغ حضرات اس نفسیات کے پیش نظر زبانی ہی سہی امریکہ و اسرائیل کی خبر ضرور لیتے ہیں۔ انہی طاغوت مخالف جذبات کو ملحوظِ رکھ کر یہ طاغوتی غلام (ملا و مفتی) اپنے جوش خطابت کو دو آتشہ کرنے کیلئے یہ ظاہر کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ کہ وہ طاغوت اور طاغوت کے حامیوں کی نابودی کے خواہاں ہے۔ حالانکہ ان کے کردار اور زبان و بیان میں سو فیصد تضاد پایا جاتا ہے، ایک جانب صہیونیت کو زبانی جمع خرچ کے ذریعے خبر لیتے ہیں مگر دوسری جانب ان ہی کے ہاتھوں صہیونی ایجنڈے ہی فروغ پا رہے ہیں۔ امریکہ و اسرائیل کو بھی اس بات میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ گاہے بہ گاہے عام اور سادہ لوح مسلمانوں کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے انہیں اپنے آقاو ں کے خلاف بھی زبان درازی کرنا پڑے۔
 
یہ شعلہ بیان مقررین زبان سے لاکھ چاہیں اپنے آپ کو عالمی استکبار کے دشمن شمار کریں لیکن ان کے ہاتھ بہر حال اسلام کی بیخ کنی کرنے اور امت واحدہ کو پارہ پارہ کرنے میں مصروف ہیں۔ بحیثیت مجموعی امتِ مسلمہ ان کے کردار و گفتار میں موازنہ کرنے اور ان کے اصل چہرے کو بے نقاب کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتی ہے۔ بدقسمتی سے افرادِ ملت ہر اس شخص کو قابلِ اعتبار سمجھتے ہیں جس کے حلق سے امریکہ مردہ باد، اسرائیل مردہ باد کا نعرہ نکلے۔ نتیجتاً جذباتیت سے مغلوب ملی مزاج امتِ مسلمہ میں پروان چڑھ رہا ہے۔ جو معروضیت، معقولیت اور واقعیت جیسے عناصر سے کوئی بھی علاقہ نہیں رکھتا ہے۔ جس کا فائدہ یہی آستین کے سانپ اٹھا رہے ہیں۔
 
شیطان بزرگ امریکہ بھی مسلمانوں کے اس اجتماعی مزاج سے بخوبی واقف ہے اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ان کا جذباتی استحصال کر کے اپنے مفادات کی تکمیل کرتا آیا ہے۔ بعض اوقات واشنگٹن کسی غیر مو ثر گروہ، جہاں بینی سے معذور تنظیم اور متعصب مکتب فکر کو اپنے آپ ہی اپنے دشمن کے طور منتخب کر لیتا ہے، تاکہ مسلمانوں کی سیاسی، اخلاقی اور جذباتی حمایت امریکہ کے حقیقی دشمن کے بجائے فرضی دشمن کے کھاتے میں چلی جائے اور پھر ان فرضی دشمنوں کا ریموٹ کنٹرول اس کے اپنے ہی ہاتھوں میں ہے، جب چاہیں جہاں چاہیں ان کی خدمات استعمال میں لا سکتے ہیں۔ جس کی زندہ مثال عراق اور پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشتگردی پر مبنی موجودہ صورت حال ہے۔ 

اسرائیل، امریکہ اور ان کے حواریوں نے مل کر دنیائے اسلام کو مندمل نہ ہونے والے جو گہرے زخم دیئے ہیں اس کے قدرتی ردعمل کے طور امریکہ مخالف رجحان قابل فہم ہے، لیکن کوئی بھی ایرا غیرا حتیٰ کہ امریکی ایجینٹ (agent) اس ر جحان کا ناجائز فائدہ اٹھائے اس سے تکلیف دہ بات اور کیا ہو سکتی ہے۔ ایک حق پرست کو عصری آگہی کا ملکہ حاصل ہو، تاکہ کسی بھی صورت حق کی نقاب اوڑھے باطل کی سحر گری سے مسحور نہ ہو جائے۔ 

اﷲ سے کرے دور، تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
 (علامہ اقبال )

فراموش شدہ انسانی المیہ:۔
عراق اور پاکستان میں مسلکی بنیادوں پر ہو رہی ظلم و زیادتی کو خالصتا ً انسانی المیہ کے عنوان سے دیکھا جائے تو اقوام عالم کا کردار بھی ایک گونگے بہرے انسان جیسا دکھائی دیتا ہے جو اپنی آنکھوں سے انسانیت کے ساتھ ہو رہی اس ناانصافی کو دیکھ تو سکتا ہے لیکن اس کی مذمت میں ایک بھی لفظ اپنی زبان پر لانے سے قاصر ہے۔ جہاں ایک ملک میں آئے روز ستر (70) اسی(80) افراد خودکش بم دھماکوں میں مارے جائیںو کیا وہاں اقوام متحدہ کو خاموشی زیب دیتی ہے۔ حقوقِ انسانی کی دعوے دار تنظیموں نے یہ تک گوارہ نہیں کیا کہ مقتولین کا (برائے ریکارڈ ہی سہی) شمار رکھیں۔ 

عکس العمل اس کے سوڈان میں عیسائیوں کی طرف کوئی ترچھی آنکھ سے بھی دیکھے تو یہی تنظیمیں اپنے تمام ذرائع کے ساتھ حرکت میں آ جاتی ہیں۔ جہاں کہیں عیسائیوں کے جان و مال کو مذہبی بنیادوں پر خطرہ لاحق ہوا۔ وہاں پر فساد کو فرو کرنے کیلئے یورپی ممالک کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اقوام متحدہ بھی اپنی پوری توانائیوں کے ساتھ میدان میں کود پڑتی ہے۔ سالہا سال سے مذکورہ دو ممالک میں تشدد کا دائرہ اثر اور اس کے نتیجے میں ہو رہے انسانی جانوں کا بے حد و حساب زیاں کیا اس بات کا تقاضا نہیں کرتا ہے کہ یو این او کی جنرل اسمبلی میں اس کا ذیلی اور ضمنی عنوان کے تحت ہی تذکرہ ہو جاتا۔؟ 

ہلاکتوں کے اس نہ تھمنے والے سلسلے کی جانب عالمی برادری نظرِ التفات سے کب دیکھے گی؟ کب بغداد، بصرہ، کراچی اور کوئٹہ میں مارے جانے والوں کو بھی واشنگٹن میں گیارہ ستمبر کے مہلوکین کی طرح انسان سمجھا جائے گا؟ گیارہ ستمبر کے اصل سیاسی محرکات و عوامل سے قطع نظر اگر صرف امریکیوں کے سالانہ تعزیتی تقاریب پر ہی غور کیا جائے تو انسانی جان کی قدر و قیمت کا اندازہ ہوتا ہے۔ یہ ایک الگ سوال ہے اور اس کے ساتھ اس وقت کوئی سروکار نہیں ہے کہ اس حادثے کے پیچے کون تھا اور اس کے کیا مقاصد تھے؟ جس عنوان سے امریکی عوام نے اس حادثے کو سنجیدگی سے لیا اس کو دیکھ کر گیارہ ستمبر کے ماسٹر مائنڈ کو بھی اپنے اس فعل قبیح پر ندامت ہونی چاہیے۔
 
لیکن اسلامی ممالک کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔ یہاں پر قتل عام اور ٹارگٹ کلنگ (Target Killing) تو ایک مصیبت ہے ہی، مگر مصیبت بالائے مصیبت یہ ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ مذہبی اور سیاسی لیڈر بھی معمولاتِ روزانہ سمجھ کر اس طرح کے واقعات کو طاق نسیاں کی نذر کر دیتے ہیں۔ اور بڑی معصومیت سے معروف قاتلوں کو بھی کیفر کردار تک پہنچانے کے عینی فرض سے دامن بچاتے ہیں۔ یہاں تک کہ اس گروہ کا کوئی سرغنہ ڈھنکے کی چوٹ پر اپنے جرائم کو گلی گلی کوچہ کوچہ بیان کرتا پھر رہا ہوتا ہے۔ کسی بھی شخص میں اتنی غیر و حمیت نہیں ہوتی کہ اس قاتل کا گریبان پکڑ لے۔ 

حکومتی اداروں اور ملکی سیاست دانوں سے کوئی کیا گلہ کرے۔ ان کی نظر میں ایک اقتدار کی کرسی ہی ہے جو لائق پرستش ہے۔ اس معاشرہ پر ضرور عقل سلیم ماتم کرے گی۔ جس میں اس قسم کی انسان نما درندے بغیر کسی کھٹک کے دندناتے پھرتے ہوں۔ پاکستان ہی کی بات کریں تو دہشتگرد تنظیم لشکر جھنگوی کے سرغنہ ملک اسحاق نامی خونخوار دہشتگرد قومی بے حسی کی بنیاد پر عدالت سے بھی رہا ہو گیا، واضع رہے مذکورہ دہشتگرد درجنوں اجتماعی قتلوں میں ملوث ہونے کے ساتھ فدا حسین نامی ایک شخص کے بارہ (21) افراد خانہ کی ہلاکت کا ذمہ دار بتایا جاتا ہے، علاوہ ازیں اس کے ہاتھوں چند ایک حنفی مسلمان بھی مارے جا چکے ہیں۔

اس شخص نے عدالت میں جج کے سامنے اپنے گناہوں کا اعتراف کیا اور عدالت سے چھوٹنے کے فوراً بعد پاکستان کی نجی ٹی وی سے آن لائن بات کرتے ہوئے اپنے غیر انسانی عزائم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ”میں پھر سے وہی کام کروں گا جو میں پہلے سے کرتا آیا ہوں“ اس قسم کے دہشتگرد گروہ مقامی، وفاقی اور خفیہ اداروں میں اپنا اثر و رسوخ قائم کیے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یا تو یہ مجرم عدالت تک پہنچنے سے قبل ہی جیل کی دیواریں پھلانگ کر پھر سے دہشتگردانہ کارروایوں میں سرگرم ہو جاتے ہیں، یا عدالت سے ملت پاکستان کی خاموشی کے صدقے با عزت بری ہو جاتے ہیں۔

عثمان سیف اللہ اور شفیق الرحمان رند نامی دو دہشتگرد 2003ء میں گرفتار ہوئے اور 2008ء میں جیل سے سانٹھ گانٹھ کی بنیاد پر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے، کویٹہ بلوچستان میں اجتماعی قتل میں ان ہی دو دہشتگردوں کو ماشٹر ماینڈ بتایا جاتا ہے۔ زخموں پر نمک پاشی کا حکومتی سطع پر اعلٰی انتظام دیکھئے کہ وزیراعلٰی بلوچستان مسٹر اسلم رئیسانی نے اس بہیمیت پر اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوے کہا کہ ”بلوچستان کی آبادی کروڑوں نفوس پر مشتمل ہے، اگر کروڑوں لوگوں میں سے چالیس پچاس آدمی مارے بھی جائیں تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔“  وزیراعلٰی موصوف کے بیان سے قاتلوں کے ساتھ ساتھ ان کے پشت بانوں کی پول بھی کھل جاتی ہے۔ بہرحال خون ناحق کی یہ ایک خاصیت ہے کہ وہ بالآخر اپنے خفیہ اور آشکار قاتل سے کسی نہ کسی صورت میں اقرار جرم کروا ہی دیتا ہے۔ بقول ساحر لدھیانوی
 
لاکھ بیٹھے کوئی چھپ چھپ کے کمین گاہوں میں
خون خود دیتا ہے جلادوں کے مسکن کا سراغ
سازشیں لاکھ اڑھاتی رہیں ظلمت کے نقاب
لے کے ہر بوند نکلتی ہے ہتھیلی پر چراغ
 
جہاں ہر فرد کی سوچ اس قدر پست ہو کہ وہ دھماکے کے بعد اپنے جسمانی اعضاء کی نمبر شماری کرنے کے بعد اطمینان کی سانس لے کہ اسکے اپنے تمام اعضاء صحیح سلامت ہیں۔ جہاں فقط النفسی النفسی کی رسم عروج پر ہو، جہاں انساں دوستی، ظلم و ظالم سے نفرت، مظلوم سے ہمدردی جیسے اقدار قصہ پارینہ بن جائیں، وہاں یہ توقع رکھنا عبث ہے کہ سماجی میکانزم (Social Mechanism) حرکت میں آ کر اپنے آپ ہی اس مار دھاڑ کو روک دے اور ساتھ ہی مجرموں کو یہ احساس ہو جائے کہ ان کا معاشرہ انہیں خونریزی کی روش پر مزید گامزن رہنے کی اجازت نہیں دے گا۔
 
بدقسمتی سے پاکستان کی معاشرتی صورتِحال مجرمانہ ذہنیت کو پروان چڑھانے میں دن بدن سازگار ہوتی جا رہی ہے۔ صالح اور حساس سماج میں اس طرح کے واقعات کی وقوع پزیری معاشرتی ردِعمل کا طوفان پیدا کر دیتی ہے۔ مگر پاکستانی معاشرہ اس حوالے سے غیر حساس اور جامد نظر آ رہا ہے۔ اس میں بے لوث لیڈر شپ کا کہیں پر سراغ بھی نہیں ملتا ہے اور عوامی سطع پر مسلکی منافرت کا زہر عامیانہ ذہنیت کو مسموم کر رہا ہے۔
 
ٓامت مسلمہ کی ذمہ داری:۔
ایسے میں مسلم امہ کی ذمہ داری دوچند ہو جاتی ہے۔ اس انسانی المیہ پر غور و خوض اور اس کے لئے راہِ حل کی تلاش عالمِ اسلام کے عالمی فورم کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ 2002ء سے اب تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں خانقاہوں، جلسہ جلوسوں، مساجد، امام بارگاہوں پر ساٹھ سے زائد خودکش حملے ہوئے، جس کے دوران سینکڑوں افراد جاں بحق ہو گئے۔ ٹارگٹ کلنگ  (Target Killing) میں متعدد ڈاکٹروں، سرکرہ تاجروں، علماء، دانشوروں اور سیاسی لیڈروں کو مارا گیا اور یوں پاکستان کو بحیثیت مجموعی انسانی وسائل کے حوالے سے ایک ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑا۔ کئی ایک سرکردہ شخصیات کو دہشت گردوں نے اس جرم میں قتل کر دیا کہ وہ اتحاد بین المسلمین کے لئے کوشاں تھیں۔
 
دوسری جانب عراق میں صدام حسین کی ظالمانہ ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہوا ہی تھا کہ عالمی استکبار لاو لشکر سمیت براجمان ہوا اور اس کے ساتھ ساتھ دہشتگردوں کا ایک انسانیت کش نیٹ ورک بھی وہاں پر قائم ہوا۔ صدام کے خوف و دہشت پر مبنی تیس سالہ دورِ حکومت میں عراقیوں نے گھٹ گھٹ کے زندگی گزاری۔ امریکی یورش سے طاغوتی بربربیت کے زہریلے گھونٹ پینا پڑے۔ اور اس پر مستزاد یہ ہے القاعدہ سے وابستہ خودکش دہشتگردوں نے رہی سہی کسر نکالی۔ برطانوی جریدے دی لسنٹ کی اس حوالے ایک تحقیقی رپورٹ واقعاً چشم کشا ہے، جس کے مطابق 2003ء سے 2010ء تک عراق میں عام لوگوں کے خلاف ایک ہزار تین سو خودکش حملے ہوئے، جن میں بارہ ہزار دو سو چراسی بے گناہ افراد مارے گئے۔
 
قابلِ غور بات یہ ہے کہ ان تیرہ سو خودکش بمباروں میں سے ایک بھی یہودی، امریکی یا غیر مسلم ملوث نہیں تھا، بلکہ سب کے مخصوص نظریہ کے قائل مسلمان تھے۔ گزشتہ ہفتہ سے اجتماعی ہلاکتوں کا سلسلہ کافی تیز ہو چکا ہے۔ ناصریہ میں کل ایک بم دھماکے سے قریباً بہتر افراد مارے گئے یہی وجہ ہے کہ ماسوائے چند، کسی مفتی، کسی امام یا کسی مولوی حتٰی کہ اپنے آپ کو مسلکی حد بندیوں سے ماوراء جتانے والے مسلم رہنماوں نے اس ظلم کے خلاف لب کشائی تک نہیں کی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ مذکورہ حملے القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کا کام ہے، کیونکہ القاعدہ کے موجودہ رہنما ایمن الزواہری اپنے ایک بیان میں عام عراقیوں کے خلاف باضابطہ طور اعلان جنگ کر چکے ہیں۔
 
اس کے علاوہ القاعدہ سے تعلق رکھنے والے شدت پسند لیڈر الزرقاوی کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ ان انسانیت سوز کارروائیوں میں اس نے اہم رول ادا کیا۔ واضح رہے یہ شدت پسند مارا جا چکا ہے۔ اجتماعی قتل کے متعدد واقعات میں ملوث اس شخص نے ہمارے بہت سے دانشوروں اور قلمکار حضرات سے خراج تحسین بھی پائی ہے۔ ایک قوم کیلئے اس سے بڑھکر زوال آمادگی کی علامت اور کیا ہو سکتی ہے کہ قاتل و مقتول کی مذمت اور حمایت نظریاتی بنیاد پر کی جائے، مظلوم کے حق میں اظہار ہمدردی کرنے سے قبل اپنے تمائلات، رحجانات اور نظریات کی لیبارٹری میں کشتہ ظلم کے خون کا ٹیسٹ کرائے کہ اس کے خون سے کون سے عقاید کی بو آ رہی ہے۔ حالانکہ اسی امت کو عالمی عدل و انصاف کا ضامن قرار دیا گیا ہے۔
 
قرآنِ کریم میں ملتِ اسلامیہ کو ”خیر امت“ اور ”امت وسط“ جیسے فخریہ اعزاز سے نوازا گیا۔ کیا ان قرآنی اصطلاحات کے پیشِ نظر امت کا بس یہی وظیفہ ہے کہ وہ اقوام عالم میں اپنی برتری پر نازاں رہے؟ کیا یہ اصطلاحات ایک عظیم مسئولیت کی حامل نہیں ہیں۔؟ مولانا سید اعلٰی مودودی کی ”امت وسطہ“ کی شرح اسی مسئولیت کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ مودودی صاحب امتِ وسطہ کی تشریخ کرتے ہوئے لکھتے ہیں، ”کہ امت وسطہ سے مراد ایک ایسا اعلٰی اور اشرف گروہ ہے جو عدل و انصاف اور توسط کی روش پر قائم ہو، جو دنیا کی قوموں کے درمیاں صدر کی حیثیت رکھتا ہو، جس کا تعلق سب کے ساتھ یکساں طور پر حق اور راستی کا تعلق ہو اور ناحق، ناروا تعلق کسی سے نہ ہو۔ (تفہیم القران ا،جلد ا۔۱۔ص ۹۱۱) 

آئینہ حقیقت:۔
اس معیار کی کسوٹی پر موجودہ ملتِ اسلامیہ کو پرکھا جائے تو ہرگز پوری نہیں اُتر سکتی۔ بینِ اقوام تو دور کی بات، اس میں بین المسالک مساوات اور عدل گستری کا احساس روز بروز ماند پڑتا جا رہا ہے۔ اسی امت کے شاندار اور عدل پروری سے مملو ماضی سے واقف افراد جانتے ہیں کہ اگر جنگی حالات میں مفتوح غیر مسلم علاقوں میں کسی فرد کے ساتھ معمولی قسم کی بھی زیادتی ہوا کرتی تھی تو وہ اُس امید کے ساتھ اپنی شکایات مسلمان حکمران کے حضور پیش کرتا تھا کہ اس کے ساتھ لامحالا انصاف ہو گا۔ اور آج اُسی قوم کی حالت یہ ہے کہ مسلکی تشدد کے تئیں خاموشی کے پیچھے یہی سوچ کار فرما ہوتی ہے ”آں کہ کشتہ جور شد از قبیل ما نیست“ (وہ جو تیغِ ظلم سے ذبح ہوا ہمارے قبیلے میں سے نہیں ہے)۔ 

یہی وجہ ہے کہ اس سلسلے میں زبانیں گنگ ہو جاتیں ہیں۔ لب ہلتے ہیں نہ قلم متحرک ہو جاتے ہیں۔ شعلہ بیان مقرر بڑی خوبصورتی کے ساتھ ان واقعات سے پہلو بچاتے ہیں۔ اتحاد کے داعی لیڈرانِ قوم پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔ تکلیف دہ امر یہ ہے کہ کسی لیڈر کو مجبوراً بیان دینا بھی پڑے تو اس کے پیچھے صیہونی اور سامراجی کارستانی کا روایتی انداز میں انکشاف کیا جاتا ہے حالانکہ یہ رٹا رٹا یا بیان داغتے وقت قاتلوں کی تصویریں اسکی آنکھوں کے سامنے ہوتی ہیں۔
 
اس تلخ حقیقت کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ایبٹ آباد میں امریکہ نے جو ڈراما رچایا، اس کے عوامل و محرکات اور حقائق کو جانے بغیر ہی، قلم کاروں کی ایک فوج میدان صحافت میں آ گئی اور اس کے تبصرے پر الفاظ کا ایک بڑا ذخیرہ خرچ کر دیا، امریکی حکمرانوں کی مذمت ہوئی۔ پاکستانی حکمرانوں کی بے غیرتی پر اظہار تاسف کیا گیا۔ اس طرح کا ردِ عمل دیکھ کر کون رشک نہ کرے کہ جس پر تشکیک کی دھول ابھی صاف نہیں ہو پائی تھی اس واقع پر بھی ایک مستعد قوم نے فوری ردِعمل کا اظہار کیا۔ 

دوسری جانب گزشتہ سال ستمبر کے مہینے میں ایک ہی طرز پر ایک ہی لابی سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کے ہاتھوں دو المناک وارداتیں پیش آئیں۔ عراق کے الانبار صوبے اور مستنوگ کوئٹہ پاکستان میں بالترتیب 22 اور 29 زائرین کو مسلح دہشتگردوں نے بے دردی سے مار ڈالا، اس بہیمت پر کسی کی رگِ ہمدردی نہیں پھڑکی۔ کوئی قلم چلا نہ زبان ہلی۔ کیا اس طرح کی مصلحت آمیز خاموشی لائق عذر ہے؟ قوموں کی امامت کے تناظر میں ملتِ اسلامیہ کے خاص و عام میں وسعت ظرف کا ہونا لازمی ہے، ظلم جہاں کہیں بھی ہو، ظالم چاہے کسی بھی مسلک، کسی بھی خطہ ارض سے تعلق رکھتا ہو، ظالم تو آخر ظالم ہی ہوتا ہے۔ 

جب تک دہشتگردوں کو مسلکی نظریات کی پناہ گاہ میسر ہے، انہیں امت مسلمہ سے الگ تھلگ ہونے کا احساس کیونکر ہو گا۔ لھٰذا اس امت کے ہر فرد کے دل میں بغیر استثناء اس طرح کی کالی بھیڑوں کے خلاف ایک قومی جذبہ ابھرنا چاہیئے۔ واقعاً ”امت وسطہ“ اور ”خیر امت“ جیسے الفاظ باعث افتخار ہے۔ بشرطیکہ اجتماعی انصاف کے تئیں افرادِ ملت میں ایک نظریاتی اور مسلکی حد بندیوں سے ماورا سوچ و فکر فروغ پائے۔ بصورتِ دیگر بقول مولانا مودودی ”یہی امامت کا فخر ہمیں وہاں (آخرت میں) لے ڈوبے گا۔ ہماری امامت کے دور میں ہماری واقعی کوتاہیوں کے سبب سے خیال اور عمل کی جتنی گمراہیاں دنیا میں پھیلی ہیں اور جتنے فساد اور فتنے خدا کی زمین میں برپا ہوئے ہیں۔ اُن سب کیلئے آئمہ شر اور شیاطین انس و جن کے ساتھ ساتھ ہم بھی ماخود ہوں گے ہم سے پوچھا جائے گا کہ جب دنیا میں معصیت، ظلم اور گمراہی کا یہ طوفان برپا تھا تم کہاں مر گئے تھے“۔ 

امت واحدہ کو حدیث نبوی میں ایک جسم کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے۔ جسم کا ایک عضو اگر مبتلائے تکلیف ہو اور باقی اعضاء بے حس و حرکت ہوں تو جان لینا چاہیئے کہ جسم کے نظام ِپیغام رسانی میں خلل واقع ہوا ہے۔ جسکے نتیجے میں ایک اعصابی بیماری نے اسے آ گھیرا ہے۔ ایک عضوء کا تکلیف میں ہونا اصل میں دیگر اعضاء کی آزمائش اور امتحان کا مرحلہ ہوتا ہے کہ ان اعضاء کا ردِعمل کیا ہو گا؟ یقیناً عالمی سطح پر مسلکی انتشار اور قتل و غارت گری امت کیلئے ایک ایسی آزمائش ہے جس میں تساہل سے کام لینا خیر امت کے شایان شان نہیں ہے۔
 
اس طرح کے طرز عمل سے قلیل افراد پر مشتمل انتشار پسندوں کا گروہ بےخوب ہو کر ایسی کارروائیوں میں مزید اضافہ کر دیتا ہے۔ بلوچستان کے شہر مستونگ میں جو واقعہ پیش آیا۔ اس کے تئیں ملی سطح پر سرد مہری دیکھ کر دہشتگردوں کے حوصلوں میں مزید اضافہ ہوا۔ انہوں نے ایک اور بس کو روکا، اور اس میں سے چودہ آدمیوں کو نیچے اُتار کر گولیوں سے چھلنی کر دیا۔ جبکہ مستونگ کے مقام پر مارے جانے والے زائرین کے قبروں کی مٹی ابھی سوگواروں کے آنسووں سے تر تھی۔ 

دہشتگرد کسی کا سگا نہیں:۔
قابل ذکر یہ ہے کہ فی الوقت اگر ان دہشتگردوں کا مرکزی ہدف (main target) فرقہ امامیہ سے تعلق رکھنے والے مسلمان ہیں۔ مگر اسے ہرگز یہ تاثر نہیں لیا جا سکتا ہے کہ باقی ماندہ فرقوں کیلئے یہ لوگ ضرر رسان ثابت نہیں ہو سکتے۔ ان کی نفسیات میں عدم برداشت کا عنصر اپنی حدوں کو پار کر چکا ہے۔ لہٰذا ان سے معمولی سا اختلاف انہیں آمادہ پیکار بنا سکتا ہے۔ ان کی نظر میں کسی بھی ایسے شخص کے لئے دنیا میں رہنا جائز نہیں ہے جو ان کے مخصوص، مبہم اور غیر لچک دار نظریاتی حصار میں رہنے کی زحمت گوارا نہ کرے۔ یہ کچھ بھی کریں ان کے خلاف ایک حرفِ اعتراض تک زبان پر لانا حرف کفر کے برابر ہے۔ جس کی مثال گزشتہ چند سالوں میں بآسانی مل سکتی ہے۔ 

نہ فقط جلوس عاشورا میں انہوں نے نواسہ  رسول کے عزاداروں کے خون سے مختلف شاہراہوں کی لپائی کر دی، بلکہ حنفی مسلمانوں کی طرف سے نکالے گئے جلوس میلاد پر انہی دہشت پسندوں نے حملہ آور ہو کر ان متبرک اور پر مسرت لمحات کو سوگواری پر مجبو رکیا۔ واضح رہے2002ء سے اب تک ساٹھ سے زائد بار مساجد پر حملے ہوئے اور سب کی سب مساجد شیعہ فرقے سے تعلق نہیں رکھتی تھیں۔ ضلع وزیرستان کے جن متعدد سکولوں کو طالبان سے وابستہ دہشتگردوں نے زمین بوس کیا ان اسکولوں کو کم از کم کسی بھی مسلک کے کھاتے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ مسجد دیر بالا، مسجدِ عزیز یا اور درہ آدم خیل کی مسجدوں میں نماز کے دوران جو باردو پھٹا اس کے نتیجے میں مارے جانے والے سب کے سب اہل تشیع تو نہیں تھے۔
 
حضرت داتا گنج کا دربار تو مرجع خلائق ہے، یہاں مسلمانوں کے فرقے بلکہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کا بھی تانتا بندھا رہتا ہے۔ سید مختار بخاری جیسے انصاف پرور اور بے باک وکیل کو کس جرم بے گناہی میں مارا گیا؟ مولانا سرفراز نعیمی سنی المسلک تھے اور اہل سنت والجماعت کے عقیدے ہی کے عین مطابق دینی تعلیم پھیلانے میں مصروف تھے کہ اسی قماش کے دہشتگردوں نے انہیں عین اس وقت مار ڈالا جب وہ تعلیم القرآن وحدیث میں مشغول تھے۔ لہٰذا ملت پاکستان بالخصوص ملت اسلامیہ کو ”آں کہ کشتہ جور شد از قبیل مانسیت “ سے یہ طرز فکر ترک کر دینی چاہیے۔ 

بنی آدم اعضائے یک دیگرند:۔
خون کا ہر قطرہ جو سرزمیں عراق و پاکستان پر گر رہا ہے اصل میں ملتِ اسلامیہ کے جسم سے ہی بہہ نکلتا ہے۔ دہشتگردی کا یہ حملہ بھی پوری ملت پر حملہ۔ جس کے خلاف مشترکہ طور صف آراء ہونے کی ضرورت ہے۔ دہشتگردانہ کارروایوں پر اگر ملت یوں ہی خاموش رہی تو یہ آگ اندر ہی اندر سلگتی رہے گی اور ایک روز ایسا بھی ہو گا کہ عالم اسلام سے وابسطہ کوئی بھی ملک و مسلک اس کی لپیٹ سے نہیں بچ پائے گا۔ بہرحال خدا وند عادل کے حضور ہر چھوٹے بڑے ظلم کی جواب دہی ہے، اور تو اور اسکی عدالت میں مظلوم کی چینخ و پکار سن کر گراں گوشی سے کام لینے والے کا بھی ضرور مواخذہ ہو گا۔
 
قرآن کریم کے مطابق جس اللہ نے ناقہ صالح کی کوچیں کاٹنے پر ایک غیر مہذب اور بے رحم قوم کو ہلاکت کے گھاٹ اتار دیا، اس کے عدل سے یہ بات کافی بعید ہے کہ وہ اس تہذیب یافتہ دور میں خون انسان کو اس قدر ارزاں سمجھنے والوں کو کھلی چھوٹ دے، اور انہیں مکافاتِ عمل کا مزا نہ چکھائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ملت اسلامیہ اس حوالے سے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرے۔ تاکہ بغض و حسد اور کینہ و نفرت کا جنازہ نکلے، مذہبی عدم برداشت کی بیخ کنی ہو، مسلکی تشدد کا خاتمہ ہو، مزید خون ناحق نہ بہے، خوف و دہشت کا ماحول نہ رہے، ایک کلمہ گو کو دوسرے کلمہ گو بلکہ ایک انسان کو دوسرے انسان کا کوئی کھٹکا نہ لگا رہے۔

کوئی بھی ماں اس بات کے لئے پریشان نہ ہو کہ اس کا بیٹا مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لئے گیا ہے خدا کرے کہ اب سلامت ہی لوٹ آئے! مبدل اس کے عدل و انصاف کا بول بالا ہو، محبت کا سکہ چلے، احترام آدمیت کا ہر سو راج ہو، انسانیت کے دشمنوں کے قلوب بھی منقلب ہوں۔ ہر شہر مدینہ طیبہ اور مکہ مکرمہ کی مانند بلدِامین (یعنی امن کا شہر ) قرار پائے۔ کراچی میں اگر کوئی بی گناہ ڈاکٹر مارا جائے تو مسلمانانِ عالم اس کا ردعمل یوں پیش کریں گویا کوئی حرم پاک میں تسبیح بدست ذکراللہ میں مشغول مسلمان مارا گیا ہو۔ یہ سب ممکنات میں سے ہے۔ بس اس پیغام حکیم الامت پر کان دھرنے اور عمل کرنے کی دیر ہے۔
 
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی وہ خراسانی، یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندہ ساحل، اچھل کر بیکراں ہو جا
غبار آلودہ رنگ و نسب ہیں بال و پر تیرے
تو اے طائر ِ حرم اڑنے سے پہلے پر فشاں ہو جا
خبر کا کوڈ : 133617
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش