1
0
Sunday 17 Mar 2013 22:24

باپ کی زینت

باپ کی زینت
تحریر: ایم صادقی

5 جمادی الاول، ہجرت کے پانچویں سال، بہت ہی مبارک گھڑی میں رسول گرامی (ص) کی عزیز از جان بیٹی جناب فاطمہ زہرا (س) کے آنگن میں خدا نے ایک ایسا پھول کھلایا جس نے دنیا میں قدم رکھتے ہی اپنے وجود نازنین سے سارے عالم کو معطر کر دیا۔ آپ نے ایک ایسی بیٹی کو جنم دیا جو ہر لحاظ سے بےنظیر ہے۔ جب جناب زینب (س) اس دنیا میں تشریف لائیں تو امام حسین جو اس وقت چار سال کے تھے رسول گرامی (ص) کی خدمت میں آئے اور آپ کو اطلاع دی کہ" نانا جان خدا نے مجھے ایک بہن سے نوازا ہے"۔ یہ سن کر رسول خدا مسکرائے اور ساتھ ہی انکی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے، امام حسین علیہ السلام نے جب حیرت سے اس گریہ کی وجہ دریافت کی تو آپ (ص) نے فرمایا " اے میرے نور چشم حسین جلد ہی تجھ پہ اس گریہ کی حقیقت روشن ہو جائے گی" ۔ حضرت امیر المومنین علی ابن ابیطالب علیہ السلام نے بیٹی کو آغوش میں لیا دائیں کان میں آذان اور بائیں میں اقامت کہی اور دیر تک سینے سے لگائے ٹہلتے رہے، نام کے انتخاب کے سب رسول خدا (ص) کے منتظر تھے۔ رسول گرامی اسلام (ص) جب فاطمہ سلام اللہ کے گھر میں داخل ہوئے اہلخانہ کو سلام کیا اور نومولود کی مبارکباد پیش کی، رسول گرامی اسلام (ص) کو دیکھ کر سب تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے اور حضرت علی (ع) نے بیٹی کو جناب سیدہ (س) کی آغوش سے لے کر نانا کی آغوش میں دے دیا۔ روایت میں ہے کہ نبی اکرم (ص) نے بچی کو پیار کیا اور کچھ دیر تامل کے بعد فرمایا کہ جبرئیل نے مجھے خبر دی ہے کہ پروردگار عالم نے اس بچی کا نام "زینب " منتخب کیا ہے۔ 

فضائل سے معمور اس گھرانے میں رسول اکرم (ص)، امام علی (ع) اور جناب فاطمہ (س) سی عظیم ہستیوں کے دامن میں زندگی بسر کرنے والی حضرت زینب سلام اللہ علیہا کا وجود تاریخ بشریت کا ایک ‏غیر معمولی کردار بن گيا، کیونکہ امام سجاد علیہ السلام کے الفاظ میں اس "عالمۂ ‏غیر معلمہ اور فہیمۂ غیر مفہمہ" نے اپنی بےمثل ہوش و ذکاوت سے کام لیتے ہوئے علوم و معارف اسلامی کے تمام زینے نطریق احسن طے کرتے ہوئے اخلاق و کمالات کے عروج کو پا لیا۔ جب ہم جناب زینب سلام اللہ علیہا کی تاریخ حیات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کی زندگی کے معنوی کمالات کو دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے۔ زینب سلام اللہ علیہا ہر صورت میں کرم و شرافت کی مثال تھیں، چاہے وہ  تین چار سال کی ایک معصوم بچی کی صورت میں ہوں یا کوفہ میں سیدہ دو عالم اور امیرالمومنین (ع) کی بیٹی کی حیثیت سے مسلمان خواتین کے درمیان علم و معرفت کے دروس دینے والی " عقیلۂ بنی ہاشم " ہوں یا پھر کربلا کے دردناک سانحے میں شریکۃ الحسین، ایسی باوفا بہن کہ جس نے کربلا و کوفہ و شام میں اپنے وجود اور اپنے عمل سے منفرد اور لازوال کردار ادا کیا کہ جو نایاب ہے اور جس کی رہتی دنیا تک مثال نہیں مل سکتی۔ 

روایت کے مطابق ابھی چار سال کی بھی نہیں ہوئی تھیں کہ جناب امیر المومینین علی ابن ابی طالب ایک ضرورتمند کے ساتھ گھر میں داخل ہوئے اور جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا سے اپنے مہمان کے لئے کھانے کی فرمائش کی، سیدہ نے عرض کی یا اباالحسن! اس وقت گھر میں کھانے کو کچھ بھی نہیں ہے تھوڑی سی غذا ہے جو میں نے زینب (س) کے لئے رکھ چھوڑی ہے یہ سن کر علی و فاطمہ کی عقیلہ و فہیمہ بیٹی دوڑتی ہوئی والدہ کے پاس گئیں اور مسکراتے ہوئے کہا، اماں جان آپ میرا کھانا بابا کے مہمان کو کھلا دیجئے، میں بعد میں کھا لوں گی، یہ سن کر سیدہ نے بیٹی کو سینے سے لگا لیا اور باپ کا سر فخر سے بلند ہو گیا اور فرمایا" تم واقعاً زینب ہو، تم باپ کی زینت ہو"۔
 
عموماً دیکھنے میں آتا ہے کہ اس دنیا میں جب لوگ حادثات سے دوچار ہوتے ہیں تو اپنے ہوش و ہواس سے بیگانہ ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات (نعوذ باللہ) کفریہ کلمات کہنے لگتے ہیں، لیکن محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گھرانہ وہ گھرانہ ہے جو حادثات میں اپنے پروردگار کے اور قریب ہو جاتا ہے۔ حضرت زینب وہ بی بی ہیں جنہیں بچپن میں ہی اپنے نانا کی شفقت سے محروم ہونا پڑا، اور پھر چند ماہ کے بعد درد و مصا‏ئب میں مبتلا اپنی مظلوم ماں کی مادرانہ شفقت سے محروم ہونا پڑا لیکن زمانے کے ان حوادث نے جناب زینب سلام اللہ علیہا کے حوصلے کو کم نہیں کیا، مستقبل میں پیش آنے والے عظیم فرائض کی ادائیگی کے خیال نے پانچ سالہ معصوم زینب(س) کے حوصلوں کو جلا بخشی اور اس بی بی کو اور زیادہ قوی و شجاع بنا دیا۔ اس ننھی مجاھدہ نے جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے بعد امیر المومینین علی ابن ابی طالب کی تمام گھریلو ذمہ داریوں کو اپنے ذمے لے لیا، اسکے علاوہ اپنی والدہ گرامی کی مسلم خواتین کی تربیت کی ذمہ داری کو بھی ان کے بعد احسن طریقے سے سنبھالا، اسی لئے تاریخ میں آپ کو " ثانی زہرا" اور " عقیلۂ بنی ہاشم " کا خطاب دیا گیا۔ 

جناب زینب سلام اللہ علیہا نے نبوت و امامت کے اس گلستان علم و دانش سے معرفت و حکمت کو بھرپور انداز میں اپنے دامن میں سمیٹا، آپ نے علم الحدیث اور تفسیر قرآن کے لئے مدینہ اور اس کے بعد علی ابن ابی طالب (ع) کے دور خلافت میں کوفہ میں باقاعدہ مدرسہ کا آغاز کیا۔ جہاں مسلمان خواتین کی ایک بڑی تعداد اسلامی علوم و معارف سے بہرہ مند ہوتی تھی۔ جناب زینب (س) نے اپنے زمانے کی خواتین کے لئے تعلیم و تربیت کا ایسا نظام متعارف کروایا کہ جس سے فیضیاب ہو کر بہت سی خواتین اعلی سطح کے علمی و معنوی مراتب پر فائز ہوئیں۔ پھر آپ عمر کے اس حصے میں آگئیں جہاں ہر لڑکی کو اپنے باپ کے گھر سے رخصت ہونا پڑتا ہے، حضرت علی (ع) نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھتیجے جناب عبداللہ ابن جعفر (ع) سے کی، جن کی کفالت اور تعلیم و تربیت جناب جعفر طیار (ع) کی شہادت کے بعد خود نبی اکرم (ص) نے اپنے ذمے لے لی تھی اور رسول اسلام (ص) کی رحلت کے بعد علی بن ابی طالب نے ان کی پرورش کا ذمہ لیا۔ 

روایت میں نقل ہے کہ حضرت علی (ع) نے عبداللہ ابن جعفر کو بیٹی دینے سے پہلے ان سے یہ وعدہ لے لیا تھا کہ وہ شادی کے بعد جناب زینب کبری (س) کے اعلی مقاصد کی راہ میں کبھی حائل نہیں ہوں گے، اگر وہ اپنے بھائی امام حسین (ع) کے ساتھ سفر کریں تو انہیں اجازت ہو گی۔ چنانچہ جناب عبداللہ ابن جعفر نے بھی اپنے وعدے پر عمل کیا اور حضرت علی (ع) کے زمانے سے لے کر امام زین العابدین علیہ السلام کے زمانے تک ہمیشہ دین اسلام کی خدمت اور امام وقت کی نصرت اور پشتپبانی کے عمل میں جناب زینب سلام اللہ علیہا کی بھرپور حمایت و مدد کی۔ جناب زینب کو اپنے شوہر کے گھر میں بھی مرفع زندگی میسر تھی، جناب عبداللہ اقتصادی اعتبار سے بہت کامیاب زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے ہر طرح کی مادی و معنوی سہولیات جناب زینب (س) کے لئے مہیا کیں۔ حضرت عبداللہ کو اس بات کا اچھی طرح علم تھا کہ جناب زینب (س) کو اپنے بھائیوں امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) سے عام بہنوں کی نسبت بہت زیادہ محبت ہے، اور وہ ان کے بغیر نہیں رہ سکتیں لہذا وہ اس راہ میں کبھی رکاوٹ نہیں بنے۔ جناب زینب امام حسین (ع) سے بہت زیادہ قریب تھیں اور یہ محبت و قربت بچپن سے ہی دونوں کے درمیان موجود رہی تھی روایت میں نقل ہے کہ جب آپ بہت چھوٹی تھیں ایک دن سیدہ دو عالم نے اپنے بابا جان سے عرض کی کہ بابا ! "مجھے زینب اور حسین کی محبت دیکھ کر کبھی کبھار بہت حیرت ہوتی ہے، زینب اگر حسین کو ایک لمحے کے لئے نہیں دیکھتی تو بیچین ہو جاتی ہے، اس وقت رسول گرامی اسلام (ص) نے فرمایا: بیٹی! تمہاری یہ بیٹی مستقبل میں اپنے بھائی حسین کی مصیبتوں اور سختیوں میں شریک ہو گی۔" 

اور پھر وہ وقت بھی آن پہنچا کہ جناب زینب نے عظیم مقاصد کے تحت آرام و آسائش کی زندگی ترک کر دی اور جب امام حسین (ع) نے حفظ اسلام اور لوگوں کی اصلاح کے لئے کربلا کا سفر اختیار کیا تو جناب زینب بھی بھائی کے ساتھ ہو لیں۔ جناب زینب (س) نے اپنی زندگی میں اسلامی معاشرے کے بہت سے رنگ دیکھے تھے، ہر دور میں طرح طرح کی تبدیلیاں، اور خاص طور پر اموی خلفاء کی اسلام دشمن کارستانیاں اور انکے ہاتھوں علی الاعلان اسلامی اقدار کی پامالی کو دیکھتے ہوئے علی و فاطمہ کی لاڈلی نے اپنے بھائی کے ساتھ اس جہاد میں بھرپور حصہ لیا۔ آپ کا پورا وجود عشق اسلام سے سرشار تھا۔ جناب زینب (س) نے واقعۂ کربلا میں اپنے بےمثال کردار کے ذریعے تاریخ بشریت میں حق کی سربلندی کے لئے کی جانیوالی اس عظیم جنگ و جہاد کو رہتی دنیا تک کے لئے جاوداں بنا دیا۔ کربلا میں نواسۂ رسول امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد اہلبیت رسول (ص) کی اسیری اور کوفہ و شام کے بازاروں اور درباروں میں تشہیر کے دوران جناب زینب کبری (س) کی شخصیت کے وہ اہم پہلو سامنے آئے جنہوں نے لوگوں کو انگشت بدنداں کر دیا۔ 

علی (ع) کی بیٹی کا سب سے بڑا امتیاز اسکا صبر تھا، آپ نے کڑے سے کڑے حالات میں خدا کا شکر ادا کیا۔ جناب زینب (س) نے اپنے وقت کے ظالم اور سفاک ترین افراد کے سامنے پوری شجاعت کے ساتھ اسیری کی پروا کئے بغیر مظلوموں کے حقوق کا دفاع کیا اور اسلام اور قرآن کی حقانیت کا پرچم بلند کیا، جن لوگوں نے نواسۂ رسول (ص) کو ایک ویران صحرا میں قتل کر کے حقائق کو مسخ کرنے اور خود کو حق پر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی آپ نے ان کے مکروہ چہروں سے نقاب الٹ دی، یزید لعنۃ اللہ نے جب کہا "دیکھا خدا نے تم لوگوں کو کیسا ذلیل و رسوا کیا"، جواب میں اس بی بی نے بڑی شان سے یہ تاریخی جملہ کہا، "مَا رَایتُ اِلَّا جَمِیلاً"۔ میں نے خدا سے اسکی زیبائی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا، جناب زینب (س) نے اپنے خطبوں کے ذریعے اموی حکام کی حقیقت کو برملا کیا اور ان کے پست عزائم کو خاک میں ملا دیا، آج حق و باطل میں اگر کوئی تمیز ہے تو وہ اسی خاتون جنت کی لخت جگر کیوجہ سے ہے، یہ بات عین حقیقت ہے کہ:
کربلا در کربلا می ماند اگر زینب (س) نبود 
خبر کا کوڈ : 150944
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ok
ہماری پیشکش