1
0
Monday 6 Aug 2012 05:32

علامہ آغا علی الموسوی مرحوم کےحالات زندگی پر ایک نظر

علامہ آغا علی الموسوی مرحوم کےحالات زندگی پر ایک نظر
تحریر: احمد علی نوری
 (جامعۃ النجف، اسکردو)


یہ واقعہ تقریباً 1926ء کا ہے کہ ایک سیدہ نے اپنے چھ مہینے کے بچے کو گود میں لے کر ایمان اور توکل سے بھرپور عزم و ارادے کے ساتھ اپنے آپ کو ایک لمبے سفر اور بامقصد ہجرت پر آمادہ کرکے رخت سفر باندھ لیا۔ یہ مختصر قافلہ سفر کی تمام سختیوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ قبول کرتے ہوئے کبھی پیدل اور کبھی کرایہ کے گھوڑوں پر راستہ طے کرتے ہوئے بلتستان سے کرگل اور کرگل سے کشمیر اور وہاں سے ہوتے ہوئے دل میں ایک آرزو، ایک خواہش اور ایک عظیم ہدف کو سامنے رکھ کر نجف اشرف یعنی باب مدینۃ العلم کے دروازے پر دستک دینے لگا۔ وہ سیدہ چاہتی تھیں کہ اپنے نومولود بچے کو علم و آگہی اور علوم آل محمدؑ سے آشنا کریں اور اسے اسلام کے لئے ایک سر بکف مبلغ تیار کریں، یوں اس عظیم ماں نے ایک عظیم بیٹے کی تربیت کی جو بعد میں آغا علی موسوی کے نام سے مشہور ہوئے۔

آپ کے والد محترم حجۃالاسلام و المسلمین آغا سید حسن موسوی بھی اپنے دور کے انتہائی بزرگ اور قابل احترام باعمل عالم دین تھے۔ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں آپ نے اس دور کے بزرگ مجتہدین آیت اللہ ابولحسن اصفہانی، آیت اللہ سید حسین بروجردی، آیت اللہ محسن الحکیم اور دیگر اساتید سے کسب فیض کیا۔ زمانہ طالب علمی میں آپ ایک ذہین لائق اور مثالی شاگرد کے طور پر اپنے ہم جھولیوں اور استاد سے داد تحسین حاصل کرتے رہے۔ زمانہ طالب علمی میں ایسے ذہین لائق اور ممتاز دوستوں سے آپ کا واسطہ رہا جنہوں نے تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا۔ انہی دوستوں میں سے ایک شہید نواب صفوی ہیں، جنہوں نے شہنشاہ ایران کے خلاف نہ فقط علمی اور عملی جدوجہد شروع کی بلکہ مسلح جدوجہد کے ذریعے عالمی استعمار کے ایجنڈوں کو یکے بعد دیگرے واصل جہنم کیا اور ایران اسلامی میں عالمی استعمار کے پنجوں کو کمزور کرنے اور بعد میں ایک عظیم انقلاب کی راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

یہ ان کی خوش نصیبی اور خوش قسمتی تھی کہ ایسے انقلابی دوستوں کی رفاقت نے آپ کی فکری اور نظریاتی افکار کو مزید مضبوط اور استوار کیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جب امام خمینی ( رہ ) کی قیادت میں انقلاب اسلامی کا آغاز ہوا تو ہر قسم کی مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے پاکستان میں اس مرد جری نے امام خمینی ( رہ ) کی شخصیت اور آپ کے انقلابی ییغام یعنی خاتم المرسلین کے خالص اسلام کے پیغام کو عام کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا اور آخری وقت تک آپ امام خمینی ( رہ ) کے سچے عاشق کے طور پر پاکستانی عوام بالخصوص جوانوں کے درمیان امام کے افکار کو عام کرنے کے لیے شب و روز کوشاں رہے۔ مرحوم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ آئی ایس او پاکستان جو کہ ایک الٰہی کاروان ہے کے بانیوں میں سے تھے اور آخری دم تک آئی ایس او پاکستان کی سرپرستی فرماتے رہے۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان میں گو ناگوں اسلامی موضوعات پر درس و دروس کا آغاز آپ ہی نے کیا تھا اور آج ہر مسجد و مدرسہ اور امام بارگاہ میں دروس کا اہتمام ہوتا ہے جہاں نوجوان، بچے، بوڑھے اور خواتیں و حضرات کی فکری اور نظریاتی تربیت ہوتی ہے۔ آغا مرحوم پاکستان میں جہاں بھی سفر کرتے وہاں مجالس و محافل کے علاوہ خصوصی طور پر جوانوں کے لیے درس دیا کرتے تھے یوں معاشرے میں محافل اور دروس کے انتظام کی ترویج کیا کرتے تھے۔ آپ جہاں بھی سفر کرتے وہاں کے جوان شمع کے پروانے کی طرح آپ کے گرد جمع ہوتے اور آپ انہیں اپنی خداداد صلاحیتوں کے ذریعے نہایت شیرین زبان میں اسلام اور اس کے آداب اور خصوصا انقلابی افکار سے روشناس کراتے اور ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ گھنٹوں آپ تقریر کرتے رہیں اور وہ علم و معرفت سے سیراب ہوتے رہیں۔

آپ نے روایتی مجالس و محافل کو بامقصد اور زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کے لیے نہایت اہم کردار ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیک وقت کئی خوبیوں سے نوازا تھا۔ شیرین، سلیس، معلومات سے مملو اور زمینی حقائق کے مطابق گفتگو کرنے کی آپ کو مہارت حاصل تھی۔ دینی و ملّی حالات حاضرہ پر آپ کی گرفت اتنی مضبوط رہتی تھی کہ جب آپ مسائل کا تجزیہ و تحلیل کرکے اور ان پر صحیح اسلامی اصولوں کی تطبیق فرماتے تو وہ لوگوں کی دلوں میں اتر جاتے، کیونکہ دل سے جوبات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔ مرحوم فن خطابت کے عظیم شہسوار تھے آپ جہاں بھی زیب منبر ہوئے وہاں لوگوں کا جم غفیر آپ کو سننے کے لیے جمع ہوتا، نہ فقط شیعہ بلکہ ہر مکتب فکر کے لوگ آپ کو شوق سے سنتے بلکہ آپ کو سننے کے لیے دور دور سے لوگ جمع ہوتے اور آپ اپنی مخصوص فصاحت و بلاغت کے ساتھ تعلیم اہلبیت علیہم السلام کو بیان کرتے تو لوگ نہ فقط آپ کے گرویدہ ہوجاتے بلکہ اسلام حقیقی کی شناخت کے ذریعے اپنے دلوں کو منور کرتے اور مکتب آل محمدؑ کے گرویدہ ہوتے تھے جس کے بے شمار نمونے موجود ہیں۔

علامہ مفتی جعفر مرحوم ( رہ ) کے دور سے ہی آپ تحریک جعفریہ پاکستان کی سپریم کونسل کےرکن رہے۔ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی ( رہ ) کے شانہ بشانہ ملت جعفریہ کی ترقی کے لیے سرگرم رہے۔ 6 جولائی 1987ء میں شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی ( رہ ) نے مینار پاکستان پر قرآن وسنت کانفرنس کا انعقاد کیا وہاں آپ کی تقریر نے تو پورے مجمع کو اٹھایا اور نعرے لگانے پر مجبور کیا۔ آج بھی لوگ آپ کی اس دن کی تقریر کو یاد کرتے ہیں۔ جہاں آپ نے ملت تشیع کو صالح قیادت کے پرچم تلے اکھٹے کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا بلکہ میں یوں کہوں گا کہ پاکستان میں شہید قائد عارف حسین الحسینی ( رہ ) کو متعارف کرانے اور ان کی قیادت کو پاکستانی عوام میں مقبول کرانے میں آغا علی موسوی مرحوم نے کلیدی کردار ادا کیا۔ آپ شہید قائد کے دست ِ راست تھے۔ شہید قائد جہاں بھی تشریف لے جاتے آپ ان کے ساتھ ہوتے اور اپنی انقلابی تقریروں کے ذریعے شیعہ قوم کو بیدار اور منظم کرنے اور اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کرانے میں مرحوم نے بنیادی کردار ادا کیا۔

مرحوم نے علماء کو ہمیشہ متحد رکھنے اور انہیں اپنے زمانے سے ہم آہنگ اور صالح قیادت کے ساتھ مربوط رکھنے میں کردار ادا کیا جسے تاریخ ہمیشہ یاد رکھے گی۔ آپ کے دور میں پورے پاکستان میں جہاں بھی کوئی بڑا اجتماع ہوتا وہاں آپ کے بغیر اس اجتماع کا اختتام ممکن نہیں ہوتا۔ خلاصہ کلام یہ کہ آپ ہر محفل کی جان ہوتے جہاں آپ موجود ہوں وہاں محفل کی ایک خاص رنگت ہوتی، حسن مزاح ہو یا تقریر کی شعلہ بیانی ہو آپ کا ہر انداز منفرد ہوتا۔ آپ آل محمدؑ کے مصائب بیان کرتے تو پوری مجلس پر رقت قلب طاری ہوجاتی تھی اور نالہ و شیوہ کی آواز بلند ہوتی تھی۔ ایک ہی آن میں مجمع کو ہنسانا اور رلانا یہ وہ ہنر تھا جس میں آپ بے مثال تھے۔

اگرچہ آپ کی شہرت ایک بلند پایہ خطیب کی حیثیت سے ہوئی مگر اس حقیقت سے بہت کم لوگ واقف ہیں کہ آپ ایک بہترین شاعر بھی تھے آپ کی حاضر جوابی کی داستان اگر لکھی جائے تو ایک کتاب بن جائے۔ معاملہ فہمی میں مرحوم بے نظیر تھے آپ کے معاملہ فہمی سے مربوط واقعات کو جمع کیا جائے تو وہ ایک بہترین سبق آموز کتاب بنے گی۔ مرحوم کی دینی، معاشرتی اور فلاحی خدمات آنے والی نسلیں ہمیشہ یاد رکھیں گی۔ دین اسلام خصوصاً مکتب اہل بیتؑ سے آپ کا عشق ہمارے لیے بہترین نمونہ عمل ہے۔ آپ نے اپنی تمام اولاد کو دینی تعلیم سے نوازا اور آج ان میں سے ہر ایک اپنی جگہ اسلام کی سربلندی اور ترویج مکتب اہل بیتؑ کے لیے شب و روز محنت میں کوشاں ہے۔ غرض مرحوم نے اپنی زندگی میں وہ کارہائے نمایاں انجام دئیے جس کی توفیق بہت کم افراد کو ہوتی ہے۔ بطور مثال حسینیہ مشن حسین آباد، ادارہ درس و عمل لاہور، آئی ایس او پاکستان کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 1974 میں ہیئت علماء امامیہ کے نام سے بلتستان بھر کے جید علمائے کرام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جس کے آپ پہلے صدر بنے۔ بلتستان میں پہلی مرتبہ ایک ادبی مجلہ ‘‘ حبل المتین ’’ کا اجراء کیا۔ اس مجلے کی وساطت سے تبلیغ کے ساتھ ساتھ علماء، شعراء اور مذہبی و سماجی شخصیات کے تعارف اور معارف دین کی تبلیغ و ترویج کرتے رہے۔

اپنی مدد آپ کے تحت حسین آباد کے گھر گھر سڑکیں بنائی۔ پاکستان بھر میں مساجد، امام بارگاہیں اور مدارس کی تعمیر میں آپ عمر بھر کوشاں رہے۔ جامعۃ المنتظر ماڈل ٹاؤن کی تعمیر میں آپ نے علامہ صفدر حسین نجفی کے ساتھ شانہ بشانہ کام کیا۔ مدرسہ حیدریہ کھرگرونگ، مدرسہ قرآن و عترت سیالکوٹ، درسگاہ علوم اسلامی فیصل آباد نیز درسگاہ علوم اسلامی موچی دروازہ لاہور بھی آپ ہی کی کا وشوں کا نتیجہ ہے۔ مختلف فلاحی ادارے بھی آپ کے زیر سرپرستی چل رہے ہیں جن میں تنظیم آل عمران لاہور کے ماتحت چلنے والے ادارے نمایاں ہیں۔ بلتستان میں عاشورا اور اسد عاشورا کےجلوس کو ترویج دینے میں آپ نے بھرپور کردار ادا کیا۔ بلتستان میں جشن مولود کعبہؑ، یوم الحسینؑ اور عید غدیر جیسی تقریبات کو جدید طرز پر جلسے کی صورت میں انعقاد کرنے کی بنیاد بھی آپ نے ہی ڈالی ہے۔ ان تمام امور میں سب سے اہم بات معاشرے کے بے شمار لائق اور ذہین افراد کی فکری اور نظریاتی تربیت ہے جن میں سے ہر ایک آج پورے معاشرے کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں اور یہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہیں۔ مرحوم چار زبانوں عربی، فارسی، اردو اور بلتی زبان پر عبور رکھتے تھے اور ہر زبان میں فصاحت و بلاغت کے ساتھ تقریر و تحریر کے جوہر دکھاتےتھے۔

ایران عراق جنگ کے دوران ایران کے مشہور شہر اصفہان کے نماز جمعہ کے اجتماع سے آپ کے تاریخی خطاب کو وہاں کے شہری اب بھی یاد کرتے ہیں۔ مختصر یہ کہ آج ہم ایک مثالی عالم دین، بلند پایہ خطیب، مشہور و معروف مبلغ اور ایک عظیم روحانی باپ سے محروم ہوگئے اور یہ عظیم دانشور آج اپنی عظیم المرتبت ماں کے قدموں میں آپ کی وصیت کے مطابق ہمیشہ ہمیشہ کے لیے آرام فرما رہے ہیں۔ وہی ماں جس کی مثالی تربیت نے سید علی کو آغا علی الموسوی بنایا تھا۔ الجنۃ تحت اقدام الامہات۔ اللہ تعالیٰ سے ہماری دعا ہے کہ ہمیں ان کے دکھائے ہوئے راستے پر چلنے کی توفیق جبکہ آپ کے خاندان کو صبر عظیم عنایت فرمائے۔ آمین
خبر کا کوڈ : 185028
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
سبحان اللہ، کیا عظیم شخص تھے جن سے ہم محروم ہوگئے!
خدا مرحوم کو جوار معصومین (ع) میں جگہ عطا فرمائے!
منتخب
ہماری پیشکش